
عراق ایران جنگ کے اختتامی ایام ۱۹۸۸ء میں خلائی سیاروں سے لی جانے والی تصاویر کے ذریعے امریکا کو معلوم ہوا کہ ایران، عراق کے دفاعی حصار میں ایک خامی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑی تزویری کامیابی حاصل کرنے والا ہے۔ امریکی انٹیلی جنس نے ایرانی فوج کی پیش رفت کے بارے میں عراق کو اطلاع دے دی؛ حالانکہ اسے علم تھا کہ صدام حسین کی فوج کیمیاوی ہتھیاروں سے حملہ کرے گی، جن میں مہلک اعصابی گیس سارین شامل ہوتی ہے۔ عراقی فوج کو مہیا کی جانے والی خفیہ اطلاعات میں ایرانی فوج کے دستوں کی نقل و حرکت کی تصاویر اور نقشوں کے علاوہ ایران کے فوجی ذرائع نقل وحمل اور ایرانی فضائیہ کے دفاعی اقدامات کی تفصیلات بھی شامل تھیں۔ عراق نے امریکا کی فراہم کردہ سیٹلائٹ تصاویر، نقشوں اور دیگر خفیہ معلومات کی مدد سے ۱۹۸۸ء کی ابتدا میں ایران پر چار بڑے حملے کرنے سے پہلے مسٹرڈ گیس اور سارین گیس ایرانی فوج پر پھینکی۔ ان حملوں کی وجہ سے جنگ کا پلڑا عراق کے حق میں جھک گیا اور ایران مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور ہوگیا۔اس طرح عراق کو فتح دلوانے کی ریگن حکومت کی پالیسی کامیاب ہوگئی۔ واضح رہے کہ یہ کیمیائی حملے نئے نہیں تھے۔ عراق کئی سال پہلے سے ایرانی فوج پر کیمیائی حملے کر رہا تھا اور ریگن حکومت نے جاننے کے باوجود انہیں افشا نہیں کیا۔
امریکی حکام طویل عرصے سے اس امر کی تردید کرتے آئے ہیں کہ امریکیوں نے عراق کو کیمیائی حملے کرنے کی منظوری خاموشی سے دے دی تھی۔ امریکی حکام اس بات پر مصر رہے ہیں کہ صدام حسین کی حکومت نے کبھی یہ اعلان نہیں کیا تھا کہ وہ کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے والی ہے۔ بہرحال امریکی فضائیہ کے ریٹائرڈ کرنل رِک فرانکونا جو ۱۹۸۸ء میں حملوں کے دوران بغداد میں امریکا کے فوجی اتاشی تھے، ایک مختلف صورتحال بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’’عراقیوں نے تو امریکا کو کبھی نہیں بتایا تھا کہ وہ اعصابی گیس استعمال کرنے کاارادہ رکھتے ہیں،انہیں بتانا ہی نہیں پڑا تھا، کیوں کہ ہمیں پہلے ہی سے اس بارے میں علم تھا‘‘۔
حال ہی میں عوامی ملاحظے کے لیے شائع کی جانے والی سی آئی اے کی خفیہ دستاویزات اور رک فرانکونا جیسے سابق جاسوسوں کے انٹرویوز کے مطابق ۱۹۸۳ء کے آغاز میں امریکا کو ٹھوس ثبوت مل چکے تھے کہ عراق نے کیمیائی ہتھیاروں سے حملے کیے ہیں۔ اس زمانے میں ایران نے الزام لگایا تھا کہ اس کی فوج پر غیر قانونی کیمیائی حملے کیے گئے ہیں۔ ایران اس وقت کیمیائی حملوں کے خلاف اقوام متحدہ میں معاملہ پیش کرنے کی تیاریاں کررہا تھا لیکن ان حملوں میں عراق کے ملوث ہونے کے ثبوت اس کے پاس نہیں تھے۔ یہ ثبوت امریکا کے نہایت سینئر انٹیلی جنس افسروں کو بھیجی جانے والی خفیہ ترین رپورٹوں اور یادداشتوں میں موجود تھے۔ سی آئی اے نے اس تجزیے کے بارے میں اپنا تبصرہ دینے سے انکار کردیا ہے، لیکن اس وقت یہ زوردار بحث جاری ہے کہ شامی حکومت کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کا مبینہ استعمال روکنے کے لیے امریکا کو مداخلت کرنی چاہیے یا نہیں،جبکہ آج سے تین دہائیاں قبل صدام حسین نے اپنے دشمنوں اور اپنے ملک کے عوام پر کیمیائی ہتھیار بڑے پیمانے پراستعمال کیے تھے تو امریکا نے سرد مہری سے کام لیا تھا۔ تب اور آج کی صورتحال میں کس قدر تضاد ہے! ریگن حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ اگرکیمیائی حملے جنگ کا رخ تبدیل کرسکتے ہیں تو انہیں جاری رہنا چاہیے۔حد یہ ہے کہ ان کے بارے میں معلوم ہوجانے کے بعد بھی سی آئی اے نے اس امر کو یقینی بنایا کہ بین الاقوامی اشتعال اور مذمت کو خاموش کردیا جائے۔
مذکورہ بالا دستاویزات میں سی آئی اے نے لکھا ہے کہ اس کے پاس تو کیمیائی حملوں کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں لیکن ایران ایسا کوئی ثبوت حاصل نہیں کرسکتا۔سی آئی اے نے یہ بھی لکھا ہے کہ قبل ازیں سوویت یونین بھی افغانستان میں کیمیائی ہتھیار استعمال کر چکا ہے اور اس کے منفی نتائج بھی بھگت چکا ہے۔
اس سے قبل ایسی خبریں شائع ہوچکی ہیں کہ امریکا نے عراق کو جنگ کے لیے کارآمد خفیہ معلومات مہیا کی تھیں۔ حالانکہ اس وقت امریکی حکام کو شبہ تھا کہ صدام حسین کیمیائی ہتھیار استعمال کرے گا۔ بہرحال کالج پارک میڈیسن کی قومی دستاویزات کی ذخیرہ گاہ میں غیرخفیہ قراردے دی جانے والی دستاویزات کے انبار میں موجود سی آئی اے کی اس دستاویز پر کسی کی نظر نہیں پڑی۔ اب اس دستاویز کے مطالعے اور سابق جاسوس افسروں کے خصوصی انٹرویو ز سے نئی تفصیلات افشا ہوئی ہیں، جن کے مطابق امریکا کو عراق کی طرف سے مہلک کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں سب کچھ معلوم تھا۔یہ انکشافات امریکا کے حکومتی اعتراف کے مترادف ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار امریکی صدر رونالڈ ریگن کے قریبی دوست اور سی آئی اے کے سربراہ ولیم کیسی سمیت سی آئی اے کے چوٹی کے افسروں کو یہ اطلاع بھی دی گئی تھی کہ عراق نے کیمیائی ہتھیار تیار کرنے کے کارخانے کس مقام پر بنا رکھے ہیں اور یہ کہ عراق کیمیائی مواد سے بھرے ہوئے توپوں کے گولے اور بم تیار کرنے کے عمل میں تیزی لانے کے لیے اٹلی سے آلات خریدنے والا ہے۔ یہ اطلاع بھی دی گئی کہ عراق محاذ جنگ پر اپنی فوج کو مسٹرڈ گیس زیادہ مقدار میں فراہم کرنے کے مطالبات پورے کرنے کی بھر پور کوششیں کررہا ہے اور عراق،ایرانی فوجیوں کے علاوہ عام شہریوں پر اعصابی گیس کا استعمال کرنے والا ہے۔
حکام کو خبردار کیا گیا تھا کہ اگر ایران کو یقین ہوگیا کہ عراق کی طرف سے کیمیائی حملوں میں امریکا ملوث ہے تو وہ مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات پر حملے کرسکتا ہے، جن میں دہشت گرد حملے بھی شامل ہوں گے۔ نومبر ۱۹۸۳ء میں سی آئی اے نے انتہائی خفیہ رپورٹ میں لکھا: ’’عراق مسلسل اور شدت کے ساتھ کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کررہا ہے جس سے یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ عراقی نشانات والے مسٹرڈ گیس کے گولے کا کوئی خول ایرانی فوج کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ اگر ایسا ہوا تو تہران یہ ثبوت اقوام متحدہ میں لے جائے گا اور امریکا پر بین لاقوامی قانون توڑنے کا الزام لگا دے گا‘‘۔
سابق کرنل رک فرانکونا نے ’’فارن پالیسی‘‘ کو بتایا کہ اس زمانے میں امریکا کے فوجی اتاشی کا دفتر خلائی سیاروں سے حاصل ہونے والی خفیہ تصاویر کی مدد سے عراقی حملے کی تیاریوں پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ سی آئی اے کے ایک سابق افسر کے بقول ان تصاویر میں دکھائی دے رہا تھا کہ عراقی فوجی کیمیائی حملوں سے پہلے ایرانی مورچوں کے مقابل نصب توپوں تک کیمیائی مواد پہنچا رہے ہیں۔
کرنل رک فرانکونا مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر ہیں۔ وہ عربی روانی سے بولتے اور پڑھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں سب سے پہلے ۱۹۸۴ء میں پتا چلا کہ عراق نے ایران کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں۔ اس زمانے میں وہ اردن کے شہر عمان میں ائیر اتاشی کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان کے مطابق عراق نے جنوبی عراق میں ایرانی فوج کے خلاف ٹابون اعصابی گیس استعمال کی تھی۔
غیر خفیہ قرار دی گئی سی آئی اے کی دستاویزات سے عیاں ہے کہ ولیم کیسی اور دیگر چوٹی کے حکام کو مسلسل آگاہ کیا جاتا رہا کہ عراق کیمیائی حملے کر چکا ہے اور مزید حملوں کی تیاریاں کررہا ہے۔ سی آئی اے کی انتہائی خفیہ رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’’اگر عراقیوں نے مسٹرڈ گیس بڑی مقدار میں تیار یا حاصل کرلی تو وہ یقیناً اسے ایرانی فوجیوں اور سرحد کے نزدیکی شہروں پر استعمال کرے گی‘‘۔ تاہم ریگن حکومت کی یہ علانیہ پالیسی تھی کہ ہر قیمت پر جنگ میں عراق کی فتح کو یقینی بنایا جائے۔
ایک دستاویز میں سی آئی اے نے لکھا ہے کہ اعصابی گیس کے استعمال سے ایران کی ’’انسانی موج‘‘ نام جنگی چال پر اچھا خاصا اثر پڑ سکتا ہے اور وہ یہ حکمت عملی ترک کرنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔ ایرانی فوجیوں کا ہجوم روایتی اسلحے سے لیس عراقی فوجیوں کے مورچوں پر یلغار کردیا کرتا تھا۔
۱۹۲۵ء کے جنیوا پروٹوکول کے تحت کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ممنوع ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ فریقین دوسری ریاستوں کو یہ معاہدے منظور کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔ عراق نے اس معاہدے کی توثیق کبھی نہیں کی جبکہ امریکا نے ۱۹۷۵ء میں اس کی توثیق کر دی تھی۔ کیمیکل ویپن کنونشن زیر بحث واقعات کے برسوں بعد ۱۹۹۷ء میں منظور کیا گیا۔
عراق نے ۱۹۸۳ء میں اپنے ابتدائی حملوں میں مسٹرڈگیس استعمال کی۔عمومی طور پر مسٹرڈ گیس مہلک نہیں ہے لیکن یہ جسم پر بُری طرح آبلے پڑنے کا باعث ہوتی ہے، جو مہلک بیماریاں لگنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ گیس انسانوں کو اندھا کرنے کے ساتھ ساتھ بالائی نظامِ تنفس کی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے۔اس کی وجہ سے سرطان میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔جس وقت عراق نے مسٹرڈ گیس استعمال کی اس وقت امریکا اسے میدان جنگ سے متعلق خفیہ اطلاعات فراہم نہیں کررہا تھا لیکن اس نے عراق کے غیرقانونی کیمیائی حملوں کے ثبوت ڈھونڈنے کی کوشش کرنے والے ایران کی بھی بالکل مدد نہیں کی۔ امریکا نے اقوام متحدہ کو بھی اطلاع نہیں دی۔ سی آئی اے پتا لگا چکی تھی کہ ایران یہ استعداد حاصل کرسکتا ہے۔ سی آئی اے کو یقین تھا کہ ایران کو ان مقامات کا پتا تھا۔
عراق کے کیمیائی حملوں کے ٹھوس ثبوت ۱۹۸۴ء میں عیاں ہوئے لیکن ان ثبوتوں کے منظر عام پر آجانے کے باوجود صدام حسین ہلاکت خیز گیسیں استعمال کرنے سے باز نہیں آیا۔ ۱۹۸۷ء میں صورتحال تبدیل ہوگئی۔ رک فرانکونا کے مطابق سی آئی اے کے جاسوس خلائی سیاروں نے ایسے واضح سراغ حاصل کرلیے جن سے عیاں ہوتا ہے کہ ایران بصرہ شہر کے مشرق میں بہت بڑی تعداد میں فوجی جوان اور سازو سامان اکٹھا کررہا ہے۔ رک فرانکونا اس زمانے میں ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کے لیے خدمات انجام دے رہا تھا۔
۱۹۸۷ء کے اواخر میں ڈی آئی اے کے تجزیہ کاروں نے واشنگٹن میں انتہائی خفیہ رپورٹ تحریر کی، جس کا جزوی عنوان تھا ’’بصرہ کے دروازوں پر۔‘‘ اس رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ ۱۹۸۸ء کے موسم بہار میں کیا جانے والا ایران کا حملہ اس کے موسم بہار میں کیے جانے والے تمام پچھلے حملوں سے زیادہ شدید ہوگا اور کافی زیادہ امکان ہے کہ ایرانی فوج اس حملے میں عراقی دفاع کو توڑتے ہوئے بصرہ پر قبضہ کر لے گی۔ مذکورہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ اگر بصرہ پر قبضہ ہوگیا تو عراقی فوج کا حوصلہ مکمل طور پر ختم ہوجائے گا اور ایران جنگ جیت جائے گا۔ رک فرانکونا کہتے ہیں کہ صدر ریگن نے رپورٹ پڑھ کر وزیر دفاع فرینک سی کارلوسی کو مخاطب کرتے ہوئے اس رپورٹ کے حاشیے پر یہ نوٹ لکھا: ’’ایرانی فتح ناقابل قبول ہے۔‘‘ نتیجتاً امریکی حکومت میں چوٹی کی سطح پر ایک فیصلہ کیا گیا (یہ امر یقینی ہے کہ اس فیصلے کی منظوری قومی سلامتی کونسل اور سی آئی اے نے دی تھی۔) ڈی آئی اے کو اجازت دی گئی کہ وہ تمام ایرانی فوجی دستوں کی نقل و حرکت اور ان کی مورچہ بندی سے متعلق معلومات پوری تفصیلات کے ساتھ عراقی خفیہ اداروں کو فراہم کردے۔ ان میں سیٹلائٹ تصاویر بھی شامل تھیں نیز برقی ذرائع سے حاصل ہونے والی خفیہ اطلاعات کاٹ چھانٹ کر دی گئیں۔ بصرہ کے مشرقی علاقے کو خصوصی توجہ دی گئی تھی، جس کے بارے میں ڈی آئی اے کو یقین تھا کہ ایرانی فوج وہاں سے حملہ کرے گی۔ ڈی آئی اے نے ایرانی فوج کے کلیدی سازو سامان اور فوجیوں کی تعداد کے علاوہ ایرانی فضائیہ اور ایران کے فضائی دفاعی نظام کی قوتِ استعداد کے بارے میں اعداد و شمار بھی عراق کو فراہم کیے۔ رک فرانکونا کہتے ہیں کہ اہداف کے بارے میں ایسی تفصیلی معلومات مکمل جزئیات کے ساتھ مہیا کی گئی تھیں کہ عراقی فضائیہ ان اہداف کو بآسانی تباہ کرسکتی تھی۔
سرین گیس کے سبب سَر چکراتا ہے، تنفس میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور پٹھے اکڑ جاتے ہیں۔ عراقی فوج نے چار مرتبہ ایرانی فوج پر حملہ کرنے سے پہلے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تھے۔ سی آئی اے نے تخمینہ لگایا کہ ان چاروں حملوں میں سے ہر حملے میں سیکڑوں سے ہزاروں تک ایرانی فوجی ہلاک ہوئے۔
۱۹۸۸ء تک امریکی خفیہ اطلاعات آزادانہ طور پر صدام حسین کی فوج تک پہنچ رہی تھیں۔ مارچ ۱۹۸۸ء میں عراق نے شمالی عراق میں کردوں کی بستی حلبجہ پر اعصابی گیس سے حملہ کیا۔ ایک ماہ بعد عراقیوں نے بصرہ کے جنوب مشرق میں جزیرہ نما فاؤ کے گرد اکٹھے ہوجانے والے ایرانی فوجیوں پر طیاروں اور توپوں سے ایسے بم اور گولے برسائے جن میں سرین گیس بھری ہوئی تھی۔ جزیرہ نمائے فاؤ کے گرد ایرانی فوج پر کیے جانے والے اس حملے نے اسے بصرہ پر قبضے کے لیے حملے کرنے سے روک دیا تھا۔ رک فرانکونا کے بقول واشنگٹن اس نتیجے سے بہت خوش تھا کیونکہ ایرانیوں کو حملہ کرنے کا موقع ہی نہیں مل پایا تھا۔ ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکا کے حملے سے پہلے سی آئی اے اور دیگر ایجنسیوں نے عراق کے کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق جو جعلی تخمینے فراہم کیے تھے، وہ عراق کے مذکورہ پروگرام کے بارے میں امریکی معلومات سے کافی حد تک الٹ تھے۔ جہاں تک ایران عراق جنگ کے زمانے کا تعلق ہے تو امریکی انٹیلی جنس خطے تک بہتر رسائی رکھتی تھی اور نقصانات کا اندازہ لگانے کے لیے اپنے افسران کو وہاں بھیج سکتی تھی۔
کرنل رک فرانکونا نے جزیرہ نما فاؤ پر عراقیوں کے قبضے کے فوری بعد اس کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے میدان جنگ ایٹرو پائن نامی دوا کی سیکڑوں خالی شیشیوں سے اٹا ہوا پایا۔ یہ دوائی عمومی طور پر سرین کے ہلاکت انگیز اثرات کا علاج کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ رک فرانکونا چند خالی شیشیاں بغداد لے آئے۔ وہ اس امر کا ثبوت تھیں کہ عراقیوں نے جزیرہ نمائے فاؤ میں سرین گیس استعمال کی تھی۔
رک فرانکونا نے رپورٹ دی کہ اس کے بعد کے مہینوں میں عراقیوں نے تین مرتبہ بہت بڑی مقدار میں سرین گیس استعمال کی۔ اسے توپوں کی بے تحاشا گولہ باری اور دھوئیں کے دوران استعمال کیا گیا تھا تاکہ اعصابی گیس کا استعمال پوشیدہ رکھا جاسکے۔ ہر حملہ اس باعث بہت زیادہ کامیاب رہا تھا کہ عراقیوں نے اعصابی گیسیں بہت بڑی مقدار میں نہایت موثر طریقوں سے استعمال کی تھیں۔ آخری حملہ رمضان میں کیا گیا تھا۔ عراقیوں نے یہ حملہ اپریل ۱۹۸۸ء میں کیا۔ اس حملے میں عراقیوں نے اتنی مقدار میں سرین گیس استعمال کی تھی، جو تمام گزشتہ حملوں میں استعمال ہونے والی سرین گیس کی مقدار سے زیادہ تھی۔ صدام حسین نے جتنے بڑے پیمانے پر غیر روایتی ہتھیار استعمال کیے، ماضی میں کبھی اتنے بڑے پیمانے پر انہیں استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ دمشق کے نواح میں گزشتہ ہفتے کیا جانے والا حملہ شاید اس سے بھی بڑا تھا۔
(“CIA Files Prove America helped Saddam as he gassed Iran”. “Foreign Policy”. Aug. 26, 2013)
Leave a Reply