
جو کچھ ہو رہا ہے اس کے نتیجے میں چند ہی ماہ کے دوران بھارت ایک ایسے بحران کی زَد میں ہوگا جس کے باعث اس کی وہ حیثیت باقی نہ رہ پائے گی جس کا تصور اور وعدہ کیا گیا تھا۔
اب تک تو معاملہ دور کی گھن گرج کا تھا۔ تب زیادہ فکر کی کوئی بات نہ تھی۔ اب یہ طوفان تیزی سے زور پکڑ رہا ہے۔ صاف محسوس ہورہا ہے کہ اگر صورتِ حال کے بگاڑ پر قابو نہ پایا گیا تو بھارت ویسا نہیں رہے گا جیسا اب تک رہا ہے اور وہ بھی نہ بن سکے گا، جس کا خواب دیکھا گیا تھا۔ آسام میں شہریت سے متعلق قانون اور قواعد و ضوابط میں تبدیلی کا تجربہ خاصا مایوس کن رہا تھا۔ اس حقیقت کے پیش نظر امید کی جارہی تھی کہ شہریت کے قانون کو تبدیل کرنے کا تجربہ دیگر ریاستوں میں نہیں دہرایا جائے گا۔ گزرے ہوئے موسم گرما میں انتخابی مہم کے دوران یہ بات زور و شور سے کہی گئی کہ آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کا جو تجربہ کیا گیا وہ دیگر ریاستوں میں بھی دہرایا جائے گا، تاہم امید کی جارہی تھی کہ انتخابی گرما گرمی گزر جانے کے بعد یہ آئیڈیا ترک کردیا جائے گا۔
اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مرکزی حکومت، بھارتیہ جنتا پارٹی اور اُس کی نظریاتی سرپرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سٹیزن شپ ترمیمی بل (کیب) اور این آر سی کا آئیڈیا نہ صرف یہ کہ ترک کرنے کو تیار نہیں ہیں بلکہ معاملات کو بہت آگے لے جاکر اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل چاہتے ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ملک کی زمین کے ایک ایک انچ کو در اندازوں سے پاک کیا جائے گا۔ انہوں نے ریاستوں سے کہا ہے کہ اپنے ہاں حراستی مراکز قائم کریں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ سٹیزن شپ ترمیمی بل اس طرح منظور کرایا جائے کہ شمال مشرقی ریاستوں کے مفادات متاثر نہ ہوں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور رہنماؤں نے بھی این آر سی کو اپنے ہاں متعارف کرانے کی ’’فرمائش‘‘ کی ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ہندوؤں کو یقین دلایا ہے کہ وہ این آر سی سے کسی بھی طور متاثر نہیں ہوں گے۔
امیت شاہ اور موہن بھاگوت کے بیانات سے ملک بھر میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بہار، بنگال، اتر پردیش اور بڑے شہروں میں بسے ہوئے مسلمان زیادہ پریشان ہیں۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ خود کو بھارت کا اصلی شہری ثابت کرنے کے لیے کون کون سی دستاویزات درکار ہوں گی اور کٹ آف ایئر کون سا ہوگا، ۱۹۴۷ء، ۱۹۵۱ء، ۱۹۷۱ء یا پھر ۱۹۸۷ء؟ اور یہ کہ جو لوگ مطلوب دستاویزات پیش نہیں کرسکیں گے ان کا انجام کیا ہوگا؟ حکومتی اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والی کسی بھی کلیدی شخصیت نے اب تک وضاحت کی زحمت گوارا نہیں کی ہے اور اس حوالے سے ابہام دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا ہے۔ دہلی میں بے گھر افراد کے لیے قائم کیے گئے عارضی رہائشی یونٹس میں آباد بے گھر مسلمان پوچھ رہے ہیں کہ ان کا کیا ہوگا کیونکہ ان کے پاس تو کوئی بھی دستاویز نہیں۔ دوسری طرف دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بظاہر معمولی سے بھی پریشان نہیں۔
آزادی کے بعد ۴۰ سال یعنی ۱۹۸۷ء تک اصول یہ تھا کہ جو بھی بھارت میں پیدا ہوا وہ بھارتی ہے۔ ۱۹۸۷ء میں یہ قانون آیا کہ والدین میں سے کسی ایک کا بھارتی شہری ہونا لازم ہے۔ ۲۰۰۳ء میں یہ قانون سامنے آیا کہ شہریت ثابت کرنے کے لیے والدین میں سے کسی ایک کا بھارتی شہری ہونا لازم ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ والدین میں سے کوئی ایک غیر قانونی تارکِ وطن نہ ہو۔
یہ قانون خطرناک حد تک اخراج کی راہ ہموار کرنے کے بیج بو چکا ہے۔ اگر نیا مجوزہ قانونِ شہریت منظور کرلیا گیا تو پاکستان، بنگلادیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایسے تمام غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت کا حق دے گا، جو اسلام کے سوا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف مشکوک مسلمانوں کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ بھارت میں غیر قانونی طور پر داخل نہیں ہوئے۔ غیر قانونی طور پر بھارت میں داخل ہونے والے مسلمانوں ہی کو نہیں بلکہ اُن کی اولاد اور اولاد کی اولاد کو بھی شہریت کے حق سے محروم کردیا جائے گا۔ نئے قانون کے تحت شہریت کے حوالے سے کیا جانے والا تعین حتمی اور دائمی نوعیت کا ہوگا کیونکہ متعلقہ قانون میں ایسی کوئی تصریح موجود نہیں کہ یہ لوگ (خواہ بھارتی سرزمین پر پیدا ہوئے ہوں) کبھی حقیقی اور اول درجے کے شہری بن سکیں گے۔
شہریت کے نئے قانون کی منظوری سے بھی طے ہو جائے گا کہ مسلمانوں کے سوا جتنے بھی غیر قانونی تارکین وطن ہیں ان پر این آر سی اثر انداز نہیں ہوگا کیونکہ شہریت کے نئے قانون کے تحت کوئی دستاویز نہ ہونے پر بھی انہیں خود بخود شہریت مل جائے گی۔ شہریت کے نئے قانون کی منظوری کے بعد نافذ کیے جانے والے این آر سی کے تحت بھارت کے صرف مسلمان باشندوں سے کہا جائے گا کہ وہ ثابت کریں اُن کے اجداد بھارت میں قانونی طور پر داخل ہوئے تھے۔ دوسرے بھارتیوں سے بھی کہا جائے گا کہ دستاویزات پیش کریں۔ دستاویزات پیش نہ کرنے پر بھی وہ کسی نہ کسی طور شہریت کے لیے کوالیفائی کر جائیں گے۔ سپریم کورٹ نے شہریت کے حوالے سے ثبوت کا بوجھ پہلے شہریوں پر ڈال دیا ہے۔ ناخواندہ، غریب اور پریشان کن حالات سے دوچار شہریوں کے لیے پیدائش کا سرٹیفکیٹ، زمین کی ملکیت کا ثبوت اور ووٹنگ کا حق ثابت کرنے والی دستاویزات بنوانا اور سنبھال کر رکھنا انتہائی دشوار ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ امیت شاہ کی سربراہی میں وزارت داخلہ نے ہر ریاستی حکومت اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس کو ہدایت کی ہے کہ فارنرز ٹربیونلز قائم کریں، جو اپنا طریقہ کار تیار کرکے شہریت کے ثبوت کا معیار طے کریں گے۔
اپوزیشن میں اختلافات اور کنفیوژن کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت کو پورا یقین ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا سے شہریت کے نئے قانون کی منظوری لینے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اس سے بہت پہلے، ۲۰۱۵ء میں، مرکزی حکومت تین پڑوسی ممالک سے غیر مسلم غیر قانونی تارکین وطن کو، ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے، کسی بھی مخالفانہ قانونی اقدام سے مستثنیٰ قرار دے چکی ہے۔ ۲۰۱۸ء میں ان تمام غیر قانونی تارکین وطن کے لیے شہریت کا حق یقینی بنانے کا عمل تیز تر کردیا گیا تھا۔
شہریت کا امتیازی نوعیت کا مجوزہ قانون اور یہ تمام نوٹیفکیشنز بھارت کے آئین کی صریح خلاف ورزی ہیں، جس میں بہت سے بنیادی حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ ان میں ایک حق مساوات کا بھی ہے۔ اگر بھارت کے پڑوس میں مذہبی بنیاد پر روا رکھا جانے والا ظلم ہی کسی کو بھارتی شہریت کے لیے کوالیفائی کرنے کے قابل بناتا ہے تو پھر میانمار کے روہنگیا مسلمانوں، چین کے اویغور مسلمانوں اور پڑوسی مسلم ممالک کے سیکولر دانشوروں اور بلاگرز کو شہریت دینے میں ہچکچاہٹ کیوں محسوس ہونی چاہیے؟
بنیادی طور پر شہریت کے قانون میں ترامیم بھارت کے سیکولر جمہوری آئین کی روح پر حملہ آور ہو رہی ہیں۔ ہم نے مہاتما گاندھی، بی آر آمبیڈکر، جواہر لعل نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد سے ایک ایسا ملک پایا تھا، جو اِس میں بسنے والے تمام لوگوں کا تھا قطع نظر اس کے کہ وہ کون سے مذہب کے پیرو ہیں، کس خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ بھارت کے نام پر کسی ایسے ملک کا تصور نہیں کیا گیا تھا جہاں کسی کو اس کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر قبول کیا یا نکالا جائے۔
۱۹۲۵ء میں ’’مہا سبھا‘‘ نے اور اس کے بعد ۱۹۲۵ء میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے ایک ایسے ہندوستان کا خواب دیکھا تھا، جس میں ہندو اکثریت حکومت سمیت تمام معاملات پر حاوی و متصرف ہو اور مسلمانوں کو یا تو ملک سے نکال دیا جائے گا یا پھر دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے جینے پر مجبور کردیا جائے گا۔ بھارت کی موجودہ حکمراں اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ ۱۰۰ سال گزرنے پر اب وہ وقت آگیا ہے۔ شہریت کا نیا قانون جب این آر سی کے ساتھ ملک بھر میں نافذ کیا جائے گا تو مسلمانوں میں شدید خوف پھیلے گا، پریشانیاں بڑھیں گی اور ملک بھر میں لاکھوں مسلمان بے دری کے عذاب سے دوچار ہوں گے۔ ہمارے مسلم بھائی بہن آنے والی بحرانی کیفیت کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہیں۔ باقی سب اس پورے معاملے سے متاثر ہوئے بغیر زندگی بسر کرتے رہیں گے۔ کیا ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ شہریت کا امتیازی نوعیت کا قانون بھارت کے سیکیولر، جمہوری آئین کی موت ہوگا؟
(یہ مضمون پرنٹ ایڈیشن میں The Rising Storm کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ مصنف بنیادی حقوق کے کارکن اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں)
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Citizenship amendment bill will result in untold fear and dislocation of Muslim citizens”. (“The Indian Express”. October 3, 2019)
Leave a Reply