
سول سوسائٹی اور جمہوری تعلقات کا وہی معاملہ ہے جو مرغی اور انڈے کا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان میں سے پہلے نمبر پر کون ہے یعنی کس نے کس کو جنم دیا اور تقویت بخشی مگر اتنا ہم ضرور جانتے ہیں کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر بے معنی ہیں، ادھورے ہیں۔
ترکی میں کمال پاشا کے پیروکاروں نے معاشرے کو دبوچنے اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوشش کی۔ ان کی کوشش یہ تھی کہ طاقت کے ذریعے عام آدمی کی زندگی کو کنٹرول کرکے ایک ہم آہنگ معاشرہ تشکیل دیا جائے۔ مگر ترکی میں سول سوسائٹی نے اس جابرانہ نظام کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور ریاست کی طاقت کو ایک خاص حد تک رکھنے کی کوشش کی ہے۔ جمہوری روایت اور متحرک سول سوسائٹی کی بقائے باہمی نے صرف کمال پاشا کے حامیوں ہی کو نہیں بلکہ ریاست کے وجود پر غیر متزلزل یقین رکھنے والے اسلام پسند ترکوں کو بھی تبدیل کیا ہے۔ آزاد منڈی کی معیشت کے فروغ، معاشرے میں صاحبِ ثروت افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد، بیرون ملک تعلقات اور اسلامی سول سوسائٹی کا تیزی سے پنپتا ہوا اثر۔۔۔ یہ سب مل کر ترک معاشرے کو تبدیل کر رہے ہیں۔
ترک میں اسلام پسند افراد ہمیشہ غیر تشدد پسند رہے ہیں۔ سلطنتِ عثمانیہ کے دوران رواداری ایک بنیادی وصف تھا۔ دوسروں کو برداشت کرنا اور انہیں بھی پنپنے کا موقع دینا سلطنتِ عثمانیہ کے دور سے چلی آرہی خصوصیت ہے۔ اس دور کے حکمرانوں نے مذہب کی بنیاد پر منافرت کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ آئین کی پاسداری اور پارلیمانی روایات کا ہر دور میں احترام کیا جاتا رہا۔ اس کے واضح اثرات ترکی کے اسلام پسند عناصر اور اسلامی روایات دونوں پر بخوبی دیکھے جاسکتے ہیں۔ اسلام کی یہ شکل نجم الدین اربکان کی اسلامی جماعتوں سے مجموعی طور پر دور رہی ہے۔ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۰ء تک کے عشروں میں اس کی حمایت کرنے والے بھی خال خال تھے۔ وہ دائیں بازو کی مرکز پسند سیکولر جماعتوں کی زیادہ حمایت کیا کرتے تھے۔
ترکی اسلام پسندوں کے نظریات پر فتح اللہ گولن اور ہزمت تحریک نے بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ترک اسلام پسندوں نے تصادم سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ ان کی کوشش رہی ہے کہ معاشرے میں کہیں کوئی خرابی یا گڑبڑ پیدا نہ ہو۔ ۱۹۹۴ء میں جب فتح اللہ گولن نے اعلان کیا کہ جمہوریت کی منزل سے واپسی کی اب کوئی گنجائش نہیں تو اسلام پسندوں کو واضح سمت ملی اور ان کے لیے واضح سیاسی سوچ کو پروان چڑھانے اور اس پر عمل کی راہ ہموار ہوئی۔
ایکومینیکل پیٹریارچ بارتھولومیو اول سے ہزمت تحریک کے مذاکرات کے نتیجے میں ہلکی سیمینری (Halki Seminary) کے دوبارہ کھولنے کی راہ ہموار ہوئی۔ سول سوسائٹی پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملا۔ سوشل انجینئرنگ کے بغیر آزادی، انسانی حقوق اور یورپی یونین کی رکنیت کا معاملہ اصلاً غیر اسلامی نوعیت کا ہے، اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ بہت حد تک غیر اسلامی نوعیت کا ثابت ہوا ہے۔ اس پوری صورتِ حال نے اسلام پسندوں کے نظریات کو بلندی پر لے جانے اور واضح سمت اختیار کرنے میں معاونت کے حوالے سے غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔
ہزمت تحریک نے ترکی میں جمہوریت کو پروان چڑھانے کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس تحریک نے جمہوری روایت کو مضبوط کرنے کی ہمیشہ وکالت اور حمایت کی ہے۔ غیر معمولی جذبے سے کام کرنے والے اس کے میڈیا آؤٹ لیٹس نے کبھی کبھی ماضی کی خامیوں اور بالخصوص عدلیہ کی خرابیوں کو نشانہ بنانے میں غیر معمولی تیزی و تندی دکھائی ہے۔ اظہارِ رائے کی آزادی کے حوالے سے بھی ہزمت تحریک سے ہمدردی رکھنے والے میڈیا آؤٹ لیٹس کا رویہ کہیں کہیں غیر متوازن رہا ہے۔ مگر خیر، جمہوری روایات کو سمجھنے اور آگے بڑھانے سے متعلق ہزمت تحریک کی سوچ نے ترک معاشرے کو زیادہ جمہوری بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
ہزمت تحریک نے غیر مسلموں سے تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے بنیادی اقدامات کیے ہیں۔ ثقافتی ہم آہنگی کے نقطہ سے کیے جانے والے اقدامات نے بہتر نتائج پیدا کیے ہیں۔ ہزمت تحریک نے کُردوں کے بنیادی حق کے طور پر ان کی زبان کے فروغ کی بھی حمایت کی ہے۔ پارلیمان میں یہ تجویز بھی پیش کی گئی ہے کہ کرد زبان میں تعلیم کی اجازت دی جائے۔ ہزمت تحریک سنیوں اور علویوں کا ایک مشترکہ اسلامی مرکز تعمیر کرکے یہ پیغام دینے کی بھی کوشش کر رہی ہے کہ وہ معاشرے میں مکمل ہم آہنگی چاہتی ہے۔ اس منصوبے کی مخالفت سے بھی یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ بہت سے ترک مذہبی اور ثقافتی سطح پر ہم آہنگی پیدا کرنے والے ہزمت تحریک کے اقدامات سے زیادہ خوش نہیں۔
جو کچھ بھی Gezi میں ہوا، اس سے یہ بات واضح طور پر سامنے آگئی کہ اگر عوام چاہیں تو اپنی طاقت کے بھرپور اظہار اور استعمال سے ریاست کو اس کی حدود یاد دلا سکتے ہیں۔ ایسا اس وقت ناگزیر ہوتا ہے جب ریاستی ادارے عوام کی آزادی اور حقوق پر ڈاکا ڈال رہے ہوتے ہیں۔ جب حکمران ان لوگوں کے حقوق بھلا دیتے ہیں جنہوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا، تب طاقت کے بے محابہ استعمال کی راہ ہموار ہوتی ہے اور ہر معاملے کو جبر کے ذریعے نمٹانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ اسی سے خرابی پیدا ہوتی ہے۔ گیزی کیس میں مظاہرین کے پاس ایک کاز تھا مگر بعد میں غنڈوں اور شر پسندوں نے ان کا احتجاج ہائی جیک کرلیا۔ ابتدائی مرحلے میں مظاہرین نے ثابت کیا تھا کہ سول سوسائٹی معاشرے کو بہتر سمت دینے میں اہم اور مثبت کردار ادا کرسکتی ہے۔ اکثریت جب بھی اپنی مرضی اقلیت پر تھوپتی اور مسلط کرتی ہے، تب خرابی پیدا ہوتی ہے اور اس کے جواب میں مزاحمت بھی سامنے آتی ہے۔ گیزی کیس میں ایسا ہی ہوا۔
کسی بھی معاشرے میں جمہوریت کو تھوپا یا لگایا نہیں جاسکتا۔ جمہوری مزاج تو لوگوں میں خود بخود پنپتا ہے مگر اس کے لیے لگن اور محنت بنیادی شرط ہے۔ تصادم سے گریز کرنے والے گروپوں اور تحریکوں کو بر وقت مدد ملتی رہے تو وہ بہتر نتائج کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
(“Civil Society-Democratic Relations, Gezi and the Middle East”… “Todays Zaman” Turkey. Oct. 4, 2013)
Leave a Reply