عصر حاضر میں جو کلمہ انپے معنیٰ و مفہوم کے اعتبار سے انتہائی وسعت اختیار کر چکا ہے وہ کلمہ ’’ثقافت‘‘ ہے۔ جسے ہمارے ہاں انگریزی زبان کے کلمے ’’کلچر‘‘ کے مترادف قرار دے کر اس کی معنوی وسعت کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تعریف کے بارے میں اتفاق نظر نہیں پایا جاتا ہے ہر ایک نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے اس کلمے کی تعریف کی ہے۔
ایک تعریف کے مطابق کلچر یا ثقافت اقوام کی ان تمام روایات، عقائد، آداب و رسوم اور انفرادی و خاندانی رہن سہن کے مجموعے کا نام ہے کہ جس کی پابندی سے وہ قوم دیگر اقوام اور قبائل سے منفرد ہو جاتی ہے باالفاظ دیگر ثقافت کسی شخص یا گروہ کے خاص عقائد اور رسم و رواج کا نام ہے جس کے وہ پابند ہوتے ہیں۔
ماہرین نے ثقافت اور کلچر کی کچھ اقسام بھی بیان کی ہیںمثلاً مادی ثقافت، معنوی ثقافت، عام ثقافت، خاص ثقافت وغیرہ۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ کسی بھی قوم و ملک کی ثقافت کو ہمیشہ بیرونی عوامل کی دخالت کی وجہ سے تبدیل کیا جا سکتا ہے اور دوستی اور دشمنی کی بناء پر اکثر ثقافتیں اور تہذیبیں تبدیل ہو جاتی ہیں لہٰذا دوسرے قیمتی اثاثوں کی طرح ہر قوم کو اپنی ثقافت اور تہذیب کی حفاظت کرنی پڑتی ہے جو قوم و ملت اپنی ثقافت کے بارے میں لاپروائی اور بے حسی کا مظاہرہ کرتی ہے وہ بہت جلد دوسری اقوام کے سامنے مغلوب ہو جاتی ہے اور پھر اُن پر عسکری اور فوجی تسلط کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے کہ جس کو مدنظر رکھ کر ہندوستان کی ایک خاتون سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ ’’پاکستان پر ہمیں فوجی حملہ کرنے کی ضرورت نہیں چونکہ ہماری ثقافت نے پاکستان کو فتح کر لیا ہے‘‘۔
یہ حقیقت کسی بھی پاکستانی پر پوشیدہ نہیں کہ ہمارے سیکولر اور بے دین سیاستدانوں اور حکمرانوں کی پالیسیوں کی وجہ سے ہماری نظریاتی اور ثقافتی سرحدیں انتہائی کمزور ہو چکی ہیں اور دشمن کی ثقافتی یلغار کے نتیجے میں ہم پوری طرح غیر اسلامی ثقافت کے سامنے مغلوب ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف اسلام نابِ محمدیؐ (خالص اسلام) کے بجائے امریکی، استعماری اور ملوکیت پسند اسلام کی ترویج کی وجہ سے ہم ہماری ثقافت پر حقیقی اسلامی ثقافت کے اثرات کے بجائے ہندو رسم و رواج سے متاثر اسلام اور سیکولر مسلمان کلچر کے اثرات بڑھ رہے ہیں چونکہ ہم نے اپنی قدامت پسندانہ سوچ کی وجہ سے ثقافت کے بارے میں اسلامی تعلیمات و نظریات کے بارے میں کبھی بھی سنجیدہ طریقے سے نہیں سوچا اور فرقہ وارانہ سوچ کے تحت اسلامی ثقافت کی تبلیغ کی ہے جس کے مقابلے میں کافرانہ اور ملحدانہ ثقافت کا پھلنا پھولنا یقینی تھا۔
جہاں اسلامی حجاب کے نام پر قدامت پرستانہ سوچوں کو رائج کیا جائے اور فنون لطیفہ کے مقابلے میں اسلام کو لاکھڑا کیا جائے تو وہاں غیر اسلامی ثقافت اور ہنود و یہود کی ثقافتی یلغار کامیاب ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ اسلامی ثقافت کے حوالے سے مطالعہ اس وقت ہر اس مسلمان کے لیے ضروری ہے جو مغرب کی ملحدانہ ثقافت کے خلاف جہاد میں حصہ لینا چاہتا ہے اور اپنی نسلوں کو اس ثقافتی یلغار سے بچانا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ جیسے مجاہد اسلامی رہبر کی تعلیمات کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ جنہوں نے اپنی لازوال جدوجہد کے ذریعے اسلامی تہذیب و ثقافت کو عصر حاضر میں دوبارہ زندگی عطا کی ہے اور مغرب کی ملحدانہ ثقافت کے آگے ایسا بند باندھا ہے کہ جس کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک بار پھر اسلامی ثقافت اور تہذیب کا بول بالا ہو رہا ہے اور اسلام دنیا کی معنوی ثقافت کو زندہ کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور پوری دنیا کے معنویت پسند لوگ اسلامی تہذیب و ثقافت کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ سوچ رہے ہیں۔
امام خمینیؒ کے ثقافت اور اسلامی تہذیب کے بارے میں بیانات، تنبیہات اس قدر اہم ہیں کہ جن کا مطالعہ موجودہ دور میں ہر پاکستانی مسلمان کے لیے ضروری ہے چونکہ اس وقت اگر کوئی ملک سب سے زیادہ مغرب کی ملحدانہ ثقافتی یلغار کا نشانہ بنا ہوا ہے تو ہمارا ملک ہے جہاں کا بچہ بچہ اس یلغار میں تباہ ہو رہا ہے۔ ہم نے امام علیہ الرحمہ کی کتابوں اور بیانات سے ثقافت اور تہذیب کی حفاظت کے بارے میں کچھ اقتباسات منتخب کیے ہیں جن کا مطالعہ یقینا ہمارے قارئین کے لیے سود مند ہو گا۔
ثقافت تمام خوش بختیوں اور بد بختیوں کا نقطہ آغاز ہے
امام خمینیؒکے نزدیک ہر قوم کی خوش بختی اور سعادت کا اہم ترین سبب اس قوم پر حاکم ثقافت ہے اس بارے میں امامؒ فرماتے ہیں: ’’ کسی بھی قوم کی ثقافت اس کی تمام خوش بختیوں اور بدبختیوں کا سرچشمہ ہوتی ہے۔ اگر کسی قوم کی ثقافت ہی خراب ہو جائے تو اس کے زیر سایہ تربیت پانے والے نوجوان آنے والے زمانے میں فتنہ و فساد برپا کریں گے۔ ایک استعماری ثقافت استعماری فکر و سوچ کے جوان ہی ملک کے حوالے کرتی ہے۔ وہ ثقافت جو بیگانے افراد اور اغیار کے منصوبہ کے مطابق بنائی جائے اور غیر ملکی ماہرین کی منصوبہ بندی کے ذریعہ سے تیار شدہ ثقافت ہمارے معاشرے میں رائج کی جائے تو ایسی ثقافت، استعماری اور دوسری اقوام کا خون چوسنے والی ثقافت ہی ہو گی۔ یہ ثقافت تمام چیزوں حتیٰ کہ ان ظالموں کے اسلحے سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ ان ظالم طاقتوں کے اسلحے کچھ عرصے بعد زنگ لگ کر بیکار ہو جاتے ہیں جیسا کہ انہیں آج زنگ لگ چکا ہے لیکن جب وہ اپنی زنگ خوردہ اور فاسد ثقافت ہمارے حوالے کرتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں ہماری ثقافت خراب ہو جاتی ہے تو ہمارے وہ جوان جو آنے والے وقتوں میں ہمارے مستقبل کی بنیاد ہیں، ہمارے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں، وہ دوسروں کے ٹکڑوں، ثقافت اور ٹیکنالوجی پر پلنے لگتے ہیں اور اسی طرز کی تربیت پاتے ہیں اور مغرب زدہ بن جاتے ہیں۔
وہ لوگ اسکول کے پہلے ہی دن اور ابتدائی کلاسوں سے ان نوجوانوں کے ذہنوں میں مسلسل یہ بات ڈالنے لگتے ہیں کہ جب وہ بڑے ہوں اور سن بلوغ میں قدم رکھیں تو کاملاً ہماری ثقافت کے حامل ہوں۔ لیکن اگر ثقافت صحیح ثقافت ہو تو ہمارے نوجوان صحیح تربیت پائیں گے۔ اگر کوئی ثقافت حق کے معیار پر پوری اترنے والی اور خدائی ثقافت ہو اور اپنی قوم اور مسلمانوں کی منفعت کے لیے کام کرنے والی ثقافت ہو تو ملک پر حاکم ایسے برے افراد جو آپ دیکھ رہے ہیں، پرورش نہیں پائیں گے۔ ہماری ثقافت ایک استعماری ثقافت ہے اور ہماری اس ثقافت کے زمامدار نیک اور صالح افراد نہیں ہیں‘‘۔ (صحیفہ امام، ج ۳، ص ۳۰۶)
ثقافت، قوم کی بنیاد ہے:
’’ثقافت کسی قوم و ملت کی بنیاد ہے، اس ملت کی ملیت اور اس کے ایک قوم ہونے کی علامت ہے اور کسی ملت کے استقلال کی مضبوط بنیادوں کی نشانی ہے۔ لہٰذا دشمن نے کوشش کی ہے کہ ہماری ثقافت کو استعماری بنا دے اور ان کی جدوجہد صرف اس بات کے لیے تھی کہ ہمارے ملک میں صحیح معنی میں کوئی انسان پیدا نہ ہو۔ یہ لوگ ایک صحیح انسان سے ڈرتے ہیں۔ ان گزشتہ سالوں میں خصوصاً گزشتہ پچاس سالوں میں ان کی یہی کوشش رہی ہے کہ با بصیرت افراد ایران میں پیدا نہ ہوں۔ انہوں نے علم و دانش اور تحصیل علم کے مراحل کو اس طرح ترتیب دیا تھا کہ کوئی بھی علمی رُشد اور انسانی درجات تک نہ پہنچے۔ ہم کو اتنا خوفزدہ کیا تھا اور اپنے پروپیگنڈے سے ہمیں اتنا ڈرایا تھا کہ ہم اپنے آپ سے بھی خوف کھانے لگے تھے اور اپنی ذات پر بھی اعتماد کرنے سے گریز کرتے تھے۔ اگر کوئی بیمار ہو جاتا تھا تو ہم اسے یہی کہتے تھے کہ اپنے علاج کے لیے باہر چلے جائو جبکہ ملک میں ہمارے پاس ڈاکٹر موجود تھے۔ یہ تھا ان کا ہمارے ساتھ سلوک کہ ہمیں بے انتہا ڈرایا گیا تھا اور ہماری قابلیت و صلاحیت ختم کر کے ہمیں اندر سے خالی کر دیا گیا تھا۔
اگر ہم سڑک بنانا چاہتے تو یہی کہتے کہ اس کا ماہر باہر ملک سے آنا چاہیے۔ جبکہ ہمارے ملک میں ماہرین کی کوئی کمی نہیں تھی۔ انہوں نے ہمیں یہ باور کرا دیا تھا کہ ہماری فوج کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے باہر کے ماہرین کی ضرورت ہے اور ہمارے تیل کے ذخائر کو صحیح انداز سے آئندہ سالوں تک چلانے کے لیے ضروری ہے کہ غیر ملکی ماہرین اس کا نظام سنبھالیں جبکہ سب کچھ ہمارے پاس موجود تھا۔ یہ صرف اس وجہ سے تھا کہ انہوں نے ہمیں اپنے آپ سے بیگانہ اور ہمیں اپنی قابلیت و صلاحیت سے ناآشنا کر دیا تھا، انہوں نے ہمارے ذہنی غسل (برین واشنگ) کے ذریعے سے ہم سے خود اعتمادی چھین لی تھی‘‘۔ (صحیفہ امام، ج ۷، ص ۵۷)
تعمیر انسانیت کا کارخانہ
امام خمینیؒ کے نزدیک ایک اچھی ثقافت کی بنیاد تعلیم و تربیت سے بنتی ہے چنانچہ جس معاشرے اور قوم کی تعلیم و تربیت بہتر ہو گی اس کی ثقافت بھی بہتر ہو گی۔ اسی مطلب کی طرف متوجہ کراتے ہوئے امامؒ فرماتے ہیں: ’’صحیح ثقافت دراصل انسانی تعمیر اور پرورش کا کارخانہ ہے چنانچہ انبیاء بھی انسان کو انسان بنانے کے لیے آئے تھے۔ تعلیم، انبیاء کے کاموں میں سرفہرست تھی، اسی کام کے لیے خداوند عالم نے انہیں مامور کیا تھا۔ خدا کی طرف سے ان کو یہی ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ دنیا میں آئیں اور انسان کی تربیت کریں۔ چنانچہ وہ لوگ جو انبیاء اور ان کی تعلیمات سے زیادہ نزدیک ہیں وہی مقام انسانیت کے زیادہ قریب ہیں‘‘۔ (صحیفہ امام، ج ۷، ص ۴۲۷)
ثقافت اور تمدن کا باہمی رابطہ
بعض دانشوروںکے نزدیک تمدن سے مراد شہر نشینی اور شہری زندگی ہے۔ الفرڈ ویبر بھی ویل ڈیورنٹ کی طرح تمدن کو سائنس اور ٹیکنالوجی کا ثمر سمجھتا ہے اس کے خیال میں جب کوئی عمومی ثقافت ترقی کے کسی درجے تک پہنچتی ہے تو اس میں زراعت کی فکر پیدا ہوتی ہے۔ اس کے بعد تجارتی مبادلات اور شہروں کے باہمی تعلقات سے لوگوں کی شعوری سطح بلند ہوتی ہے۔ ابنِ خلدون کے مطابق انسان کا اجتماعی ہونا تمدن ہے۔ (اسلامی تہذیب و ثقافت، ص۲۲)
لیکن امام خمینیؒ ثقافت کو تہذیب و تمدن کی بنیاد قرار دیتے ہیں اور اسے تمدن پر مقدم سمجھتے ہیں۔ لہٰذا امامؒ اس سلسلے میں فرماتے ہیں: ’’ہر قوم کی ثقافت اس کی تہذیب و تمدن پر مقدم ہوتی ہے۔ چنانچہ ثقافت کو تمدن سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہماری ثقافت دوسروں سے وابستہ، غیرترقی یافتہ اور انحطاط پذیر ہے کہ جو ہمارے نوجوانوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی ہے کہ وہ کسی مقام اور حد سے آگے قدم بڑھائیں‘‘۔ (صحیفۂ امام، ج۴، ص۲۶۹)
تعمیر اپنی ثقافت کے مطابق کی جائے
حضرت امام خمینی علیہ الرحمہ شاہ کے دورِ میں ایران میں ثقافتی بگاڑ سے بہت رنجیدہ تھے جس کا اظہار انھوں نے بارہا کیا ہے اور شاہی دورِ حکومت میں استعمار سے ایرانی معاشرے کے ثقافتی تعلقات کی وجہ سے جو بُرے اثرات ایرانیوں پر مرتب ہو رہے تھے اُس پر امامؒ نے بہت سے مقامات پر تنقید کی ہے چنانچہ ایک موقع پر فرماتے ہیں: ’’ہماری ثقافت ایک استعماری ثقافت ہے۔ ثقافت ہماری اپنی ہونی چاہیے۔ یہ غیرملکی ثقافتیں ایسی ثقافتی ہیں جو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتی ہیں کہ ہمارے بچے اسلامی ثقافت کے زیرِ سایہ پروان چڑھیں۔ کسی کو گلے کی گلٹی کا آپریشن کرانا ہوتا ہے تو اس کام کے لیے یورپ سے ماہرینِ جراحی بلائے جاتے ہیں اور وہ گلے کا آپریشن کرتے ہیں۔ بہت خوب جناب! آپ تو یہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے ملک کو ترقی کی اوج تک پہنچا دیا ہے تو پھر آپ گلے کی گلٹی کے آپریشن کے لیے دوسرے ممالک جاتے ہیں یا دوسرے ملک کے ماہرین آپریشن کے لیے کیوں بلائے جاتے ہیں؟ پس معلوم ہوا کہ تمہارے پاس کچھ نہیں ہے! (صحیفۂ امام، ج۳، ص۵۰۶)
صحیح ثقافت اور صحیح تربیت
ایک اور موقع پر اسلامی ثقافت سے دشمنانِ اسلام کے خوف زدہ ہونے اور مسلمان ثقافت پر اغیار کے اثرات اور اس سے نجات کی تاکید فرماتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ اگر ہماری ثقافت، اغیار کے چنگل سے نجات حاصل کر لے اور ہم ایک خودمختار ثقافت اختیار کر لیں تو اس کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔ چنانچہ اس مسئلے کی اہمیت کے بارے میں امامؒ فرماتے ہیں: ’’دشمن نے ہماری ثقافت اور تہذیب و تمدن کا بغور مطالعہ کیا ہے کہ اگر ان کی ثقافت بیگانوں کی قید و بند سے آزاد اور ایک خودمختار ثقافت ہو گی تو ان کے درمیان سے مختلف استقلال طلب سیاسی اور امانتدار گروہ پیدا ہوں گے جو ان کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوں گے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ ایک طرف اسلام اور علما کو اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے تو دوسری جانب انھیں اس بات کا بھی احتمال تھا کہ ان کی ثقافت اگر ایک استقلال طلب ثقافت ہو تو ان کے درمیان ایسے جوان اور افراد تربیت پائیں گے کہ ملکی مستقبل کے فیصلے لامحالہ انہی کے ہاتھوں انجام پائیں گے لیکن ان سب موانع اور احتمالات کے باوجود وہ یہی کوشش کرتے ہیں کہ یہ جوان اپنے آرزوئوں تک نہ پہنچ سکیں۔ (صحیفۂ امام، ج۴، ص۱۶)
ثقافتی تبدیلی کے ذریعے استقلال طلب جوانوں کی تربیت
امام خمینیؒ، اسلامی انقلاب کے اوئل میں ایران میں رائج شاہ کی موجودہ ثقافت کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’ہماری اس ثقافت کو تبدیل ہونا چاہیے اور ایک استعماری ثقافت کو ایک خودمختار اور مستقل ثقافت میں تبدیل ہونا چاہیے۔ چنانچہ اس کام کے لیے صحیح اور اچھے معلّموں اور استادوں کا انتخاب کرنا ضروری ہے تاکہ وہ ہمارے نوجوانوں کو اغیار اور بیگانوں کے بھروسے پر زندگی گزارنے کے بجائے ان کی صحیح تربیت کریں۔ جیسا کہ ابھی تک یہی ہوا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو مغرب زدہ کیا گیا ہے لیکن اب آپ کو زندگی کے ہر شعبے میں خودمختار ہونا چاہیے‘‘۔ (صحیفۂ امام، ج۶، ص،۳۹۶)
سامراجی ثقافت تمام بیماریوں کی جڑ ہے
امامؒ کے نزدیک مسلمان معاشروں کے تمام مسائل کا سبب مغربی استعمار اور امریکی استکبار ہے اور اس استعماری قوت سے روابط کو امامؒ تمام مشکلات کی بنیاد سمجھتے تھے۔ استعمار کے ساتھ رابطے کا اہم ترین مظہر ثقافتی رابطہ ہے اگر مسلمان ثقافتی لحاظ سے استعمار سے اپنا رابطہ قطع کر لیں اور ثقافتی استقلال حاصل کر لیں تو ان کی تمام سیاسی مشکلات بھی ختم ہو سکتی ہیں۔ لہٰذا استعماری ثقافت سے نجات کی تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہ بات پورے وثوق و اطمینان سے کہی جاسکتی ہے کہ جو چیز ام الامراض اور تمام بیماریوں کی جڑ ہے، وہ روز بروز رواج پانے والی اجنبی سامراجی اور استعماری ثقافت ہے کہ جس نے ماضی میں ایک لمبی مدت تک اپنے مسموم افکار سے ہمارے نوجوانوں کی پرورش کی تھی اور سامراج کے داخلی نوکروں نے بھی اس کے ہاتھ مضبوط کیے تھے۔ یہ بات جان لینی چاہیے کہ ایک بیکار اور فاسد استعماری ثقافت سے صرف استعمار زدہ افراد ہی پرورش پا سکتے ہیں۔ آپ کو موجودہ ثقافت کے بارے میں تحقیق کرنی چاہیے اور اسے دوسری اقوام تک پہنچانا چاہیے۔ آپ کی سعی یہ ہونی چاہیے کہ خداوندِ عالم کی مدد سے ایسی ثقافت کو پیچھے دھکیل کر اس کی جگہ اسلامی ثقافت کو لے آئیں تاکہ آپ کی آنے والی نسلیں انسانی تعمیر و تربیت اور عدل و انصاف کے زیرِ سایہ تربیت پائیں‘‘۔ (صحیفۂ نور، ج۱، ص۱۶۱)
مسلمانوں کی اپنی ثقافت سے دوری
امام خمینیؒ اسلامی ثقافت کو سب سے بہترین ثقافت سمجھتے تھے اور تمام مسلمانوں، خاص کر اسلامی دانشوروں اور علما کی توجہ اسلامی ثقافت کی اہمیت اور اسے زندہ کرنے کی طرف دلاتے تھے۔ اسی سلسلے میں ایک موقع پر آپؒ نے فرمایا: ’’ہر صورت میں ہم سب مسلمان مصنفین اور مقررین کا فریضہ ہے کہ وہ ان تمام مسلمان ممالک کو ہوشیار اور آگاہ کریں کہ ہمارے پاس اپنی بھی ایک ثقافت ہے جو بے نیاز ترین ثقافت ہے۔ اسلامی ثقافت، ایسی ثقافت ہے کہ جو باہر ممالک میں صادر کی گئی ہے اور انھوں نے ہم سے ہی لی ہے۔ ایران اور دیگر اسلامی ممالک میں تحریر شدہ بہت سی کتابوں کو انھوں نے ہم سے لے کر ان سے بہت زیادہ فائدہ حاصل کیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں موجود ہم مسلمانوں کی یہ ثقافت سب سے زیادہ بے نیاز ثقافت تھی اور آج بھی ہے لیکن افسوس یہی ہے کہ مسلمانوں نے اپنی ثقافت سے فائدہ نہیں اٹھایا‘‘۔ (صحیفۂ امام، ج۱۲، ص۳۱۹)
صحیح ثقافت کے ذریعے مشکلات کا حل
امامِ اُمّتؒ مسلمانوں کی تمام مشکلات کا سبب غیراسلامی ثقافت کی پیروی کو سمجھتے تھے۔ اُن کا عقیدہ تھا کہ جب بھی مسلمان اسلامی اور قرآنی ثقافت اور تہذیب کی آغوش میں پناہ لے لیں گے اُن کی تمام اجتماعی و سیاسی حتیٰ کہ معاشی مشکلات بھی ختم ہو جائیں گی۔ اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ایک صحیح اور کامل ثقافت مشکلات کو حل کر سکتی ہے۔ اگر ایک ثقافت ایسی ثقافت بن جائے کہ جو کامل، صحیح، ذمہ دار، غیب پر ایمان رکھنے والے اور خدا کے سامنے جوابدہ باایمان انسانوں کی تربیت کر سکے تو وہ ایک ملک کی بھی حفاظت کر سکتی ہے۔ یہی ثقافت ہے کہ جو ملک سے ہونے والی خیانت کے نتیجے میں دشمن سے ملنے والی تمام چیزوں کو ٹھوکر مار سکتی ہے۔ (صحیفۂ امام، ج۷، ص۴۳۲)
ثقافتی تبدیلی کی ضرورت
یہی وجہ ہے کہ امامؒ اسلامی ممالک میں ثقافتی انقلاب چاہتے تھے۔ چونکہ ثقافتی انقلاب، سیاسی انقلاب کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ امامِ اُمتؒ کا اپنا انقلاب بھی ایک قسم کا ثقافتی انقلاب ہی تھا جس کے نتیجے میں سیاسی تحول رونما ہوا ہے۔ امامؒ نے سب سے پہلے سالہا سال کی محنت کے بعد ایرانی عوام کے اذہان اور نظریات میں انقلاب برپا کیا تھا جس کے بعد ایرانی عوام کے اذہان میں استعماری ثقافت کو اسلامی ثقافت میں تبدیل کرنے کی فکر پیدا ہوئی اور پھر ایک عظیم الشان سیاسی تبدیلی واقع ہو گئی۔ امامؒ ثقافتی انقلاب کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’سب سے بڑا انقلاب ثقافت میں آنا چاہیے اس لیے کہ ثقافت سب سے بڑا وہ قومی ادارہ ہے جو کسی قوم و ملّت کو تباہ و برباد کر سکتا ہے یا اُسے عظمت و قدرت کی بلندی تک پہنچا سکتا ہے۔ ثقافتی پروگراموں میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے اور ثقافت کو ہر حال میں تبدیل ہونا چاہیے۔ کسی بھی ثقافت کا انتظام سنبھالنا دوسرے تمام اداروں کے انتظام سے یکسر مختلف ہے اور اس کا معاملہ دوسرے تمام معاملات سے مختلف ہے۔ اس بنا پر مشکلات زیادہ ہیں لیکن اس کے باوجود میں اس بات پر شکر ادا کرتا ہوں کہ آپ معاشرے کے غریب اور پست طبقے کے لیے ہر قسم کی خدمت کرنے کے لیے تیار ہیں اور آپ کا یہ کام خدا اور اس کی مخلوق کے نزدیک بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن آپ کا اساسی اور بنیادی کام ثقافت سے مربوط ہے۔ آپ کا لوگوں کی خدمت کرنا ایک مادّی کام ہے اور ان کے فقر سے متعلق ہے لیکن آپ کا یہی دوسروں کی مدد کرنا بہت قدر و قیمت رکھتا ہے اور اس کی اخلاقی اور معنوی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے لیکن آپ کا سب سے اہم معنوی کام یہ ہے کہ آپ ثقافت کی اصلاح کیجیے اور اسے ایسا بنائیے کہ یہ آپ کی قوم و ملّت کے لیے مفید ثابت ہو اور یہ کام ایمان کی طاقت کے سوا کسی اور طریقے سے پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا ہے‘‘۔ (صحیفۂ امام، ج۷، ص۴۷۳)
ثقافت کے ذریعے تربیت اور خدمت
امام کے نزدیک ثقافت کو خدمت کا ذریعہ ہونا چاہیے نہ کہ تجارت کا۔ امام خمینیؒ نے اپنی قوم میں یہی سوچ پیدا کی اور پوری قوم میں ثقافت کے ذریعے تعلیم و تربیت حاصل کرنے کا جذبہ پیدا کیا۔ لہٰذا آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایران میں ثقافت قوم کے جوانوں کی تربیت کر رہی ہے جبکہ دوسرے اسلامی ممالک میں خصوصاً ہمارے ملک پاکستان میں ثقافت کے نام پر قوم و ملّت کا اخلاق بگاڑا جارہا ہے۔ امام ثقافت کو قوم کی تربیت کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھتے تھے لہٰذا اسی مطلب کی وضاحت کرتے ہوئے امامؒ فرماتے ہیں: ’’ایک قوم کی تربیت کے صحیح ہونے کا تعلق اس کی ثقافت کے صحیح ہونے سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ اس بات کی کوشش کریں کہ آپ کی ثقافت ایک خودمختار، دوسروں کی مداخلت سے پاک، اسلامی ثقافت ہو۔ کل کو اس ثقافت کے زیرِ سایہ تربیت پانے والے جوان ہی ملک کی باگ ڈور کو اپنے ہاتھوں میں لیں گے۔ اگر ان سب کی صحیح تربیت و پرورش ہو جائے تو یہ سب لوگوں کے خدمت گزار، بیت المال کے امین اور اسلام کی رہبری کے سائے تلے قدم اٹھائیں گے‘‘۔ (صحیفۂ امام، ج۸، ص۸۸)
(بحوالہ: ماہنامہ ’’منتظرِ سحر‘‘)
Leave a Reply