
معاشرے کے بارے میں ایک مقبول خیال یہ ہے کہ معاشرہ محض افراد کے مجموعے کا نام ہے۔ افراد سے جدا، معاشرہ اپنا کوئی مستقل تشخص نہیں رکھتا چنانچہ اگر افراد کی اصلاح پر توجہ مرکوز کی جائے تو معاشرے کی اصلاح خود بخود ہو جائے گی۔ اس تخیل کے مقبول ہونے کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ اس میں محض جزوی صداقت ہے۔ اس حد تک تو بات صحیح ہے کہ معاشرے کے سدھرنے یا بگڑنے کا انحصار بڑی حد تک افراد پر ہے لیکن حقیقت کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ معاشرہ اپنا ایک مستقل و ممتاز وجود بھی رکھتا ہے، جو ایک اعتبار سے افراد کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ہر معاشرہ ایک مخصوص ’’مزاج‘‘ کا حامل ہوتا ہے۔ جہاں تک افراد کا سوال ہے معاشرے میں ہر وقت دو طرح کے افراد موجود ہوتے ہیں۔ اکثریت ایسے افراد کی ہوتی ہے جو معاشرے کے مجموعی مزاج سے ہم آہنگ ہوتے ہیں اور اُس کے مطابق اپنے رویے کو ڈھال لیتے ہیں۔ لیکن ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو معاشرے کے مزاج کی مزاحمت کرتے ہیں اور اُسے بدلنا چاہتے ہیں۔ بہرصورت افراد کی اکثریت کے رویے کو معاشرے کا مزاج کہا جاسکتا ہے۔ جو بندگانِ خدا اقامتِ دین کے نصب العین کو سامنے رکھتے ہیں اور معاشرے کی تعمیر صالح خطوط پر کرنا چاہتے ہیں، فطری طور پر اُن کے سامنے یہ سوال آتا ہے کہ ’’کسی معاشرے کے مزاج کو متعین کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ بالفاظِ دیگر معاشرے کے مزاج کو کیسے پہچانا جائے‘‘۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے کا مزاج دو اجزاء سے عبارت ہوتا ہے۔ ایک جزو معاشرے کی اقدار و روایات ہیں اور دوسرا جزو اس کے اجتماعی ادارے۔ معاشرے کے مزاج کو پہچاننے کے لیے ان دونوں اجزا سے واقفیت ضروری ہے۔ اسی طرح معاشرے کی تعمیر بھی ان دونوں اجزاء کی درستی و اصلاح کا تقاضا کرتی ہے۔ ذیل کی سطور میں اقدار کے رول پر گفتگو کی جائے گی۔ معاشرے کے اداروں کا تذکرہ آئندہ کسی اور موقع پر ہوگا۔
اقدار کا مفہوم کیا ہے؟
ہر سماج میں افراد کے رویے کو جانچنے کے لیے کچھ پیمانے ہوتے ہیں۔ ان پیمانوں کی بنیاد پر وہ سماج یہ طے کرتا ہے کہ افراد کا فلاں رویہ قابلِ قبول (Acceptable) ہے یا اس کے برعکس طے کرتا ہے کہ فلاں رویہ ناقابل قبول (Unacceptable) ہے۔ ردّوقبول کے ان پیمانوں کو اقدار کہا جاتا ہے۔ کسی معاشرے کے مزاج کو پہچاننے میں اِن اقدار کی معرفت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ایک مثال سے اس کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔ انسانی معاملات میں غالباً سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مرد اور عورت کے جنسی تعلق کا صحیح یا قابل قبول طریقہ کیا ہے؟ اس سوال کاایک جواب وہ ہے، جو ہدایت الٰہی کا قائل سماج دیتا ہے اور دوسرا جواب وہ ہے، جو جدید مغربی معاشرے نے دیا ہے، جہاں ہدایت الٰہی سے بے نیازی پر سماجی زندگی کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ ہدایت الٰہی کے مطابق اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عورت اور مرد کے جنسی تعلق کی قابلِ قبول صورت اُن کا باہم علانیہ نکاح ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
’’اُن (محرمات) کے علاوہ جتنی عورتیں ہیں انہیں اپنے اموال (یعنی نکاح و ادائیگی مہر) کے ذریعہ سے حاصل کرنا تمہارے لیے حلال کر دیا گیا ہے بشرطیکہ حصارِ نکاح میں ان کو محفوظ کرو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو۔ پھر جو ازدواجی زندگی کا لطف تم اُن سے اٹھائو اُس کے بدلے میں اُن کے مہر بطور فرض کے ادا کرو۔ البتہ مہر کی قرار داد ہو جانے کے بعد آپس کی رضامندی سے تمہارے درمیان اگر کوئی سمجھوتہ ہو جائے تواس میں کوئی حرج نہیں۔ اللہ علیم اور دانا ہے‘‘۔ (النساء: ۲۴)
قرآن مجید میں یہ ہدایت منفی پہلو سے بھی دی گئی ہے۔ چنانچہ بدکاری کو حرام ٹھہرایا گیا ہے:
’’زنا کے قریب نہ پھٹکو، وہ بہت برا فعل ہے اور بڑا ہی برا راستہ‘‘۔ (بنی اسرائیل: ۳۲)
اِن ارشادات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کی دی ہوئی مثبت اقدار میں ایک اہم قدر عفت، پاکبازی اور حیا ہے۔ یہ قدر اسلامی سماج کے مزاج کی عکاس ہے۔ چنانچہ اسلامی معاشرے میں قابلِ قبول رویہ پاک دامنی کا ہے اور اس کے برعکس بے حیائی کا رویہ ناقابلِ قبول ہے۔ اس کے بالمقابل جہاں تک جدید مغربی معاشرے کا تعلق ہے اس کے نزدیک عورت اور مرد کے جنسی تعلق کے لیے نکاح ضروری نہیں۔ اگر بالغ فریقین کے درمیان یہ تعلق اُن کی باہمی رضامندی سے ہو تو خواہ نکاح سے قبل ہی کیوں نہ ہو، مغربی معاشرے کے نزدیک قابل قبول (Acceptable) ہے اور اس پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ اگر کوئی چیز ناقابل قبول ہے تو وہ جبر ہے۔ اگر زبردستی کسی فریق کو اس تعلق پر مجبور کیا جائے تو مغربی معاشرہ اسے غلط قرار دیتا ہے۔ چنانچہ نکاح سے قبل عفت و پاکبازی کو مغربی معاشرہ مثبت ’’قدر‘‘ (Value) کی حیثیت نہیں دیتا، گرچہ جبر سے احتراز کو ضروری سمجھتا ہے۔
کسی سماج کے مزاج کو پہچاننے کے لیے اُن رویوں کو جاننا ضروری ہے جنہیں وہ سماج قابل قدر (Valuable) قرار دیتا ہے اوران کو بھی جنہیں قابلِ اجتناب سمجھتا ہے۔ مغربی معاشرے نے عفت و پاکبازی اور حیاء کی قدر گھٹانے میں اتنا مبالغہ کیا ہے کہ حجاب کو تہذیب کے بجائے وحشت کی علامت قرار دیا ہے۔ مغرب کے نزدیک اس معاشرے کو تہذیب یافتہ (Civilized) نہیں کہا جاسکتا، جہاں حجاب کا چلن ہو اور جہاں بے حیائی کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہو۔ بقول اقبالؒ:
کہاں فرشتۂ تہذیب کی ضرورت ہے
نہیں زمانۂ حاضر کو اس میں دشواری
جہاں قمار نہیں، زن تنک لباس نہیں
جہاں حرام بتاتے ہیں شغلِ مے خواری
نظر وَرانِ فرنگی کا ہے یہی فتویٰ
وہ سرزمین مدنیت سے ہے ابھی عاری
اقدار کا تصادم اور معیارِ انتخاب
عفت و پاکبازی کے سیاق میں اسلامی اور مغربی اقدار کا فرق ہمارے سامنے آچکا ہے۔ اقدار کے تصادم کی صورت میں اُن کے مابین انتخاب کا سوال سامنے آتا ہے۔ یعنی کس بناء پر ایک نظامِ اقدار کو درست اور دوسرے نظامِ اقدار کو نادرست قرار دیا جائے؟ اس انتخاب کے لیے اسلام نے چار معیارات بتائے ہیں۔ اسلام کے مطابق وہ نظامِ اقدار درست ہے جو کائنات کے نظام سے ہم آہنگ ہو، انسانی فطرت کے مطابق ہو، ہدایتِ الٰہی جس کی تعلیم دیتی ہو اور جس کے عملی نتائج پاکیزہ اور خوشگوار ہوں۔
اسلام نے اپنے نظامِ اقدار کا تعارف کراتے ہوئے ان چاروں معیارات کو سامنے رکھا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیات ۲۳ تا ۳۹ میں مختلف پہلوئوں سے اُس رویے اور طرزِ عمل کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں جو اسلام کے نزدیک قابلِ قدر (Valuable) ہے۔ ان ہدایات میں جن مثبت اقدار کا تذکرہ ملتا ہے وہ یہ ہیں: اللہ کی لاشریک عبادت، والدین کے ساتھ حسن سلوک، صلۂ رحمی، مسکین اور مسافر کے حقوق کی ادائیگی، فضول خرچی سے گریز، سائل کے تئیں نرم رویہ، خرچ میں میانہ روی، قتلِ اولاد سے احتراز، زنا اور قتلِ ناحق سے اجتناب، مالِ یتیم کے سلسلے میں احتیاط، ایفائے عہد، ناپ تول کی درستی، گمان کے بجائے علم کی پیروی اور غرور کی روش سے اجتناب۔ درست نظامِ اقدار کے حق میں قرآنی استدلال کے چار پہلو درج ذیل ہیں:
(۱)… درست نظامِ اقدار کائنات سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ چنانچہ میانہ روی کی تعلیم دیتے ہوئے قرآن میں اُس مشیت الٰہی کا تذکرہ کیا گیا ہے جو کائنات کے نظام میں کارفرما ہے۔ انسان کا رویہ مشیتِ ربانی کی درست معرفت کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔ ارشاد ہے:
’’نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اُسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو۔ تیرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور انہیں دیکھ رہا ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل: ۲۹۔۳۰)
علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے آیاتِ بالا کی تشریح میں شاہ ولی اللہؒ کا قول نقل کیا ہے:
’’یعنی محتاج کو دیکھ کر بالکل بے تاب نہ ہوجا، اُس کی حاجت روائی ترے ذمہ نہیں، اللہ کے ذمہ ہے۔ لیکن یہ باتیں پیغمبر علیہ السلام کو فرمائی ہیں، جو بے حد سخی واقع ہوئے تھے۔ باقی جس کے جی سے مال (کی محبت) نہ نکل سکے اس کو پابند کیا ہے (مال راہِ خدا میں) دینے کا۔ حکیم بھی گرمی والے کو سر د دوا دیتا ہے اور سردی والے کو گرم‘‘۔
(۲)… درست نظامِ اقدار کی دوسری خصوصیت فطرتِ انسانی سے اس کی مطابقت ہے۔ مثلاً غرور کی روش سے بچنے کی تعلیم دیتے ہوئے قرآن مجید انسانی طاقت کی فطری محدودیت کی طرف توجہ دلاتا ہے:
’’زمین میں اکڑ کر نہ چلو۔ تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو، نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔ ان امور میں سے ہر ایک کا برا پہلو تیرے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل: ۳۷۔۳۸)
یعنی انسانی قوت کی فطری محدودیت ملحوظ رہے تو غرور کی روش کی نامعقولیت آسانی سے انسان کی سمجھ میں آسکتی ہے۔ اسی طرح زِنا کی برائی بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’’وہ بہت برا فعل ہے اور بڑا ہی برا راستہ‘‘۔ یعنی انسان کی فطرت صالحہ سے یہ برا فعل میل نہیں کھاتا:
’’ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ مجھے زنا کی اجازت دے دیجیے۔ حاضرین نے اُسے ڈانٹ بتلائی کہ (رسولِ خدا کے سامنے ایسی گستاخی؟) ’’خبردار چپ رہو‘‘۔ لیکن حضور نے اُس سے فرمایا کہ ’’میرے قریب آئو‘‘ وہ قریب آکر بیٹھا تو آپ نے فرمایا کہ ’’کیا تو یہ حرکت اپنی ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ میں سے کسی کی نسبت پسند کرتا ہے؟‘‘ اُس نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! خدامجھ کو آپ پر قربان کرے، ہر گز نہیں‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’اسی طرح، دوسرے لوگ بھی اپنی مائوں، بہنوں، بیٹیوں، پھوپھیوں اور خالائوں کے لیے یہ فعل گوارا نہیں کرتے‘‘۔ پھر آپ نے دعا کی کہ ’’اے اللہ! اس کے گناہ معاف فرما اور اس کے دل کو پاک اور شرم گاہ کو محفوظ کردے‘‘۔ ابوامامہ فرماتے ہیں کہ اس دعا کے بعد اُس شخص کی حالت یہ ہو گئی کہ کسی نامحرم کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھتا تھا‘‘۔ (مسند امام احمد)
(۳)… درست نظامِ اقدار کے حق میں تیسری اہم بات یہ ہے کہ اُس کی تعلیم خود ہدایتِ الٰہی نے دی ہے۔ قرآن کے نزدیک برے افعال اس لیے قابل اجتناب ہیں کہ اللہ نے اُن کو حرام ٹھہرایا ہے:
’’کہو کہ آئو میں تمہیں سنائوں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں: یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جائو، خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی۔ اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے، ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ۔ یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو‘‘۔ (الانعام:۱۵۱)
(۴)… درست نظامِ اقدار کی آخری خصوصیت اُس کے عملی نتائج کی پاکیزگی اور خوشگواری ہے۔ صحیح ناپ تول کی تعلیم میں اِس جانب اشارہ کیا گیا ہے:
’’پیمانے سے دو تو پورا بھر کر دو اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو۔ یہ اچھا طریقہ ہے اور بلحاظِ انجام بھی یہی بہتر ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل:۳۵)
خرچ میں میانہ روی کی تعلیم کا ذکر کیا جاچکا ہے۔ وہاں بے اعتدالی کے برے نتائج سے ان الفاظ میں خبردار کیا گیا ہے: ’’نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ کر رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو‘‘۔ حدیث کے یہ الفاظ آیتِ بالا کے منشاء کی تشریح کرتے ہیں:
’’جس نے میانہ روی اختیار کی وہ محتاج نہیں ہوا‘‘۔
سماج کی تعمیر کے لیے اقدار کی اصلاح درکار ہے
سماج کے مزاج کی تشکیل میں اقدار کی اہمیت واضح ہو چکی۔ اس بحث کی روشنی میں ہم سماج کی تعمیر کا مفہوم متعین کر سکتے ہیں۔ سماج کی صالح تعمیر یہ ہے کہ سماج میں اچھی قدریں رائج ہو جائیں بالفاظِ دیگر ردّوقبول کے پیمانے درست ہو جائیں۔ شعیبؑ نے اصلاح کے اِس مفہوم کی طرف اشارہ فرمایا ہے:
’’اور مدین والوں کی طرف ہم نے اُن کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ اُس نے کہا: ’’اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو۔ آج میں تم کو ایک اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں مگر مجھے ڈر ہے کہ کل تم پر ایسا دن آئے گا جس کا عذاب سب کو گھیر لے گا اور اے برادرانِ قوم ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ پورا ناپو اور تولو اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دیا کرو اورزمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔ اللہ کی دی ہوئی بچت تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو۔ اور بہرحال میں تمہارے اوپر کوئی نگران کار نہیں ہوں‘‘۔ انہوں نے جواب دیا: ’’اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنے منشاء کے مطابق تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو؟ بس توہی تو ایک عالی ظرف اور راستباز آدمی رہ گیا ہے‘‘۔ شعیب نے کہا: ’’بھائیو! تم خود ہی سوچو کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر تھا اور پھر اُس نے اپنے ہاں سے مجھ کو اچھا رزق بھی عطا کیا (تو اُس کے بعد میں تمہاری گمراہیوں اور حرام خوریوں میں تمہارا شریکِ حال کیسے ہو سکتا ہوں؟) اور میں ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ جن باتوں سے میں تم کو روکتا ہوں ان کا خود ارتکاب کروں۔ میں تواصلاح کرنا چاہتا ہوں جہاں تک بھی میرا بس چلے اور یہ جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں اُس کا ساراانحصار اللہ کی توفیق پر ہے، اسی پرمیں نے بھروسہ کیا اور ہر معاملہ میں اُسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں‘‘۔ (ہود: ۸۴۔۸۸)
واقعہ یہ ہے کہ سماج میں جو قدریں مستحکم ہوتی ہیں وہ ایک ایسی شاہراہ بنا دیتی ہیں، جس پر افراد کو چار و ناچار چلنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی فرد غیرمعمولی قوت ارادی کا مالک ہو تبھی یہ ممکن ہے کہ وہ سماج کے عام راستے سے مختلف کوئی راستہ اختیار کرسکے۔ سماج کی اصلاح کے لیے یہ تو یقینا ناگزیر ہے کہ ایک ایک فرد کی خودی کو جگایا جائے، اُس کے اندر نیکیوں کی طلب پیدا کی جائے اور اس کے جذبۂ خیر کو اتنا قوی بنا دیا جائے کہ وہ معاشرے کے عام چلن کے خلاف بھی راہِ حق کو اپنا سکے۔ افراد کی اصلاح کی یہ سعی کچھ قوی الارادہ صالح افراد کی تربیت میں بلاشبہ کامیاب ہو جائے گی لیکن معاشرے کی عام اصلاح کے لیے محض اتنی کوشش کافی نہیں ہے۔ عام اصلاح کے لیے تو یہ ضروری ہے کہ اُن قدروں کو درست کیا جائے جو معاشرے میں رائج ہیں۔ فرض کیجیے انسانوں کے ایک قافلے کو ایک خار دار جنگل سے گزر کر اپنی منزل پر پہنچنا ہے۔ اس سفر کو بخیر و خوبی طے کرنے کے لیے یہ تو بہرحال ضروری ہے کہ ہر مسافر کے اندر عزمِ سفر پیدا کیا جائے۔ اُس کو کانٹوں سے بچ کر چلنے اور دامن الجھنے نہ دینے کی تلقین کی جائے اور اس کو جنگلی جانوروں کے خطرے سے باخبر کر دیا جائے۔ ہر مسافر کی اِن پہلوئوں سے تربیت ضروری تو ہے لیکن کافی نہیں ہے۔ اگر پیشِ نظر یہ ہے کہ پورا قافلہ کامیابی کے ساتھ منزل پر پہنچ جائے تو مسافروں کی انفرادی تربیت کے علاوہ جنگل میں ایک محفوظ راستہ بنانا بھی ضروری ہے جو منزل کی طرف جاتا ہو۔ اس راستے کے بنانے کے لیے کچھ اولوالعزم مسافروں کو آگے آنا ہوگا اور سخت جدوجہد کرنی ہوگی۔ کانٹوں اور جھاڑیوں کو بھی صاف کرنا ہوگا اور خطرناک جانوروں کا مقابلہ بھی کرنا ہوگا۔ لیکن ایک مرتبہ صحیح راستہ بن جائے تو مسافروں کے اُس پر چلنے کے لیے معمولی جذبۂ خیر اور تھوڑی سی توجہ بھی کافی ہوگی۔
معاشرے میں اگر درست نظام اقدار موجود و مستحکم ہو تو اس کی مثال جنگل سے گزر کر منزل کی طرف جانے والے محفوظ و روشن راستے کی سی ہے۔ مسافر اطمینان کے ساتھ اس راستے پر چل سکتے ہیں اور اُن کا ہر قدم ان کو منزل سے قریب کرتا جائے گا۔ اس کے برعکس اگر سماج کی قدریں بگڑ چکی ہوں تواس صورتحال کی مثال ایسی ہے کہ جنگل میں بظاہر صاف ستھرے راستے تو موجود ہوں مگر وہ منزل کی طرف نہ جاتے ہوں بلکہ اُن کا اختتام کسی جنگلی درندے کے بھٹ پر یا کسی دلدل یا کھائی پر ہوتا ہو۔ آگے جانے والوں کو چلتے دیکھ کر پیچھے آنے والے اطمینان کے ساتھ ان غلط راستوں پر چلے آرہے ہوں مگر اُس خطرناک انجام سے بالکل بے خبر ہوں جو راستے کے اختتام پر اُن کا منتظر ہے۔ اگر کسی سماج میں یہ نامطلوب صورتحال پیدا ہو جائے یعنی غلط راہیں بن جائیں اور لوگ اُن پر چل پڑیں تو اصلاح و تعمیر کی سعی کرنے والوں کی ذمہ داریاں دوگنی ہوجاتی ہیں۔ ایک طرف تو اُن کا کام یہ ہے کہ مقبول راہوں پر جانے سے لوگوں کو روکیں، ان راہوں کے بھیانک انجام سے انہیں آگاہ کریں اور انہیں آمادہ کریں کہ مقبول اور آسان لیکن غلط راستوں کو چھوڑ کر خاردار جنگل سے براہ راست پنجہ آزمائی کی ہمت کریں اور اپنی بساط بھر اُس رخ پر سفر شروع کردیں جو منزل کی سمت میں ہو چاہے یہ سفر دشوار گزار ہو۔ اس کام کو انفرادی اصلاح کہا جاسکتا ہے۔
لیکن مصلحین کا کام اس انفرادی اصلاح پر ختم نہیں ہوجاتا۔ اُن کا کام یہ بھی ہے کہ سعی پیہم سے ایسا راستہ بنائیں جو منزل کی طرف لے جاتا ہو۔ معاشرے کے سیاق میں اس کام کی تعبیر یہ ہے کہ مصلحین سماج میں صالح قدروں کو رواج دیں، یہاں تک کہ معاشرے کے اندر ردوقبول اور خوب و ناخوب کے پیمانے درست ہو جائیں۔ یہی معاشرے کی تعمیر ہے۔ عام انسانی معاشرے میں امتِ مسلمہ کا رول مصلح کا ہے۔ اگر امت خود اصلاح کی محتاج ہو جائے تو اس میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو خیر کی راہ کی نشاندہی کریں اور اُس کی طرف بلائیں:
’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے‘‘۔ (آل عمران: ۱۰۴)
پوری امت مصلحِ انسانیت کا رول انجام دینے لگے یا امت کا ایک گروہ بنی نوع انسان کے قافلے کو صحیح راہ کی طرف لے جانے کی کوشش کرے، بہرحال اسے دونوں کام کرنے ہوں گے۔ ایک طرف انسانوں کی انفرادی اصلاح کے لیے کوشش کرنی ہوگی اور دوسری طرف انسانی سماج کی قدروں کو درست کرنا ہوگا۔ جس طرح خاردار جنگل کے درمیان سے منزل کی طرف جانے والی روشن اور محفوظ شاہراہ کی تعمیر کوئی آسان کام نہیں، اسی طرح بگڑے ہوئے معاشرے کی سماجی قدروں میں صالح انقلاب بھی آسانی سے نہیں آیا کرتا۔ اس کے لیے انتھک کوشش کرنی ہوتی ہے اور قربانیاں بھی دینی ہوتی ہیں۔ اس بناء پر اگر ایک مرتبہ معاشرے کی اصلاح ہو چکی ہو تو اُس کو بگاڑنے کی کوشش انتہائی ناپسندیدہ اور مبغوض ہے۔ شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو تلقین کی کہ اصلاح ہو جانے کے بعد زمین میں فساد برپا نہ کرو:
’’اور مدین والوںکی طرف ہم نے اُن کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ اس نے کہا: ’’اے برادرانِ قوم! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی صاف رہنمائی آگئی ہے، لہٰذا وزن اور پیمانے پورے کرو، لوگوں کوان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو اور زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اُس کی اصلاح ہو چکی ہے، اسی میں تمہاری بھلائی ہے اگر تم واقعی مومن ہو‘‘۔
مولانا مودودیؒ اس کی تشریح میں انسانی تاریخ کی ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
’’زمین کے انتظام میں اصل چیز فساد نہیں ہے جس پر صلاح عارض ہوئی ہو، بلکہ اصل چیز صلاح ہے جس پر فساد محض انسان کی جہالت اور سرکشی سے عارض ہوتا رہا ہے۔ بالفاظِ دیگر یہاں انسان کی زندگی کی ابتدا جہالت و وحشت اور شرک و بغاوت اور اخلاقی بدنظمی سے نہیں ہوئی ہے جس کو دور کرنے کے لیے بعد میں بتدریج اصلاحات کی گئی ہوں بلکہ فی الحقیقت انسانی انسانی زندگی کا آغاز صلاح سے ہوا ہے اور بعد میں اس درست نظام کو غلط کار انسان اپنی حماقتوں اور شرارتوں سے خراب کرتے رہے ہیں۔ اس فساد کو مٹانے اور نظامِ حیات کو ازسرِ نو درست کر دینے کے لیے اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً اپنے پیغمبر بھیجتا رہا ہے اور انہوں نے ہر زمانے میں انسان کو یہی دعوت دی ہے کہ زمین کا انتظام جس صلاح پر قائم کیا گیا تھا اُس میں فساد برپا کرنے سے باز آئو‘‘۔ (تفہیم القرآن، الاعراف، حاشیہ ۴۴)
(بشکریہ: ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ نئی دہلی۔ جولائی ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply