
اولیور ٹکّل کا کہنا ہے کہ : ماحول میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں اب تک کی مستند ترین رپورٹیں شائع ہو چکی ہے اور دنیا کے لیے درجۂ حرارت کو بڑھانے والی گیسوں کے اخراج کو روکنے کے لیے واقعی سنجیدہ ہونے کا وقت آگیا ہے وہ تمام قوموں سے اپیل کرتے ہیں کہ کیوٹو دو کے لیے ایک ایسا لائحہ عمل تیار کیا جائے جو سنگین و منفی حالت کے سد باب کر سکنے والے بے باک اقدام پر مشتمل ہو۔
بین الحکومتی پینل آن کلائمنٹ چینج یا ماحولیاتی تبدیلیوں کا عالمی پینل ، آئی پی سی سی کی چوتھی جائزہ رپورٹ کے مطابق زمین کا اوسط درجۂ حرارت یقینی طور پر دو سے چار اعشاریہ پانچ سینٹی گریڈ یا تین اعشاریہ چھ سے آٹھ ایک فارن ہائٹ تک بڑھے گا۔بھلا ہو زمین کے ماحولیاتی نظام سے ملنے والے ان مثبت پیغامات کاجو یہ بتاتے ہیں کہ یہ اضافہ چھ درجے سینٹی گریڈ تک بھی پہنچ سکتا ہے اور اگر درجۂ حرارت میں یہ اضافہ اس پیمانے کے نصف تک بھی پہنچ گیا تو بھی اس کا مطلب ایک ہولناک تباہی ہوگا۔اس کے نتیجے میں سمندوروں کی سطح بلند ہو جائے گی اور سیلابوں، سمندری طوفانوں اور خشک سالیوں کے نتیجہ میں سیکڑوں ملین لوگ بے گھر ہو جائیں گے اور یہ کرۂ ارض ایک ایسا حیاتی تغیر اور خاتمہ دیکھے گا جو اس نے پینسٹھ ملین سال قبل اس وقت دیکھا تھا جب اس دھرتی سے ڈینوساروں کا صفایا ہو گیا تھا۔
تاہم ابھی اس صورت حال پر قابو پایا جا سکتا ہے ۱۹۹۷ء میں دنیا نے اس سلسلے میں ایک اہم قدم اٹھایا اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والی گیسوں کے اخراج پر قابو پانے کے لیے کیوٹو اول معاہدے کا مسودہ یعنی کیوٹو پروٹوکول ترتیب دیا۔لیکن تا وقت کیو ٹو پروٹوکول کی حیثیت محض علامتی ہے اور وہ صرف یہ ظاہر کرتی ہے کہ دنیا کرۂ ارض کے مستقبل کو بچانے کے لیے ایسے اجتماعی اقدام کر سکتی ہے جو مستقبل میں کیے جا سکنے والے اقدام کے لیے مثال بن سکتے ہیں۔
تاہم ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والی گیسوں کے اخراج کو روکنے پر اس کا اثر غیر یقینی اور انتہائی کم ثابت ہوا ہے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والی گیسوں کے اخراج کی صورتحال اسی انداز اور رفتار سے جاری وساری ہے جیسا کیوٹو پروٹوکول سے پہلے ۱۹۹۷ء میں تھی۔
بہر صورت ۲۰۱۲ء میںکیوٹو پروٹوکول اپنی مدت ختم کر دے گا تو کیا ہو ا یقین ہے کہ اس کی جگہ ایک ایسے نئے پروٹوکول کی ضرورت ہے جو اپنے دائرۂ عمل اور توقعات میں موجودہ پروٹوکول کی نسبت کہیں دور رس ہو۔
اس پروٹوکول کو حقیقی معنوں میں عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والی گیسوںکے اخراج میں کمی کا باعث بننا ہو گا۔ اس کا لائحہ عمل ایسا ہونا چاہئے کہ تمام ملکوں کو اسکے دائرہ عمل میں لایا جائے اور ان کی شمولیت موثر و مساوی ہو۔
اس پرو ٹوکول کو قدرتی ایندھنوں سے بہت آگے نکل آنے والی دنیا کے لیے ترقی کے ایک ایسے نئے راستے کی نشاندھی کرنی چاہئے جو ان تمام ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے اثرات کا مداوا تجویز کرے، جن سے افراد اس وقت بھی ناممکن دکھائی دیتا ہے اور جو ان ملکوں کو غیر متناسب طور پر زیادہ متاثر کرتے ہیں جو ان سے نمٹنے کے قابل نہیں۔
(بحوالہ : بی بی سی ڈاٹ کام۔ ۲ فروری ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply