ریاست ہائے متحدہ امریکا نے اب تک اربوں ڈالر مصر پر خرچ کیے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اہم ترین امر یہ رہا ہے کہ مصری افواج کے ہزارہا افسران کی تعلیم و تربیت امریکا کی انتہائی اہم اور خصوصی تعلیم گاہوں میں کی جائے اور یہی ان دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان تعلقات کی ایک اہم بنیاد رہی ہے۔
اور اس وقت سیاسی خلفشار کی وجہ سے مصر ایک ہیجانی و اضطرابی کیفیت سے دوچار ہے، یہ تعلقات جنھیںپچھلی کئی دہائیوں سے باقاعدگی سے استوارکیا گیا‘ وہ ایک اہم کردار اداکرنے کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔اس وقت مشرق وسطیٰ میں امریکا کے اہم اور قریبی اتحادی کے طور پر مصر ی فوج کو سامنے لایا گیا ہے، جس نے گزشتہ ہفتے کے دوران مصر کے منتخب صدر محمد مرسیٰ کی حکومت کو برطرف کردیا ہے۔
۱۹۷۹ء سے اسرائیل کے بعد ساری دنیا میں امریکا کے جانب سے سب سے زیادہ امداد مصر کو دی جاتی رہی ہے ، امریکی کانگریس کے تحقیقاتی مرکز کی ایک رپورٹ کے مطابق ۶۸؍ارب امریکی ڈالر امریکی امداد کے نام پر دیے گئے ہیں۔
مصر نے پڑوسی یہودی ریاست کے ساتھ معاہدہ امن پر دستخط کیے ہوئے ہیں اور یہی ایک بات امریکا کی دنیائے عرب کے ساتھ تعلقات کی پالیسی کا مرکزی نکتہ تھا اور ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ امریکی بحریہ کو نہر سویز کے استعمال کی آزادی حاصل ہے۔ ان ہی تعلقات اور سہولتوں کی وجہ سے صدر اوباما نے سال ۲۰۱۳ء کے لیے کانگریس سے مصری افواج کے لیے ۱۳۰؍ کروڑ امریکی ڈالر اور اقتصادی امداد کی مد میں ۲۵ کروڑ امریکی ڈالر امنظور کرائے۔
امریکی قانون کے مطابق فوجی بغاوت کے بعد اُس ملک کی امداد فوری طور پر بند کردی جاتی ہے لیکن صدر بارک اوبامانے صدر مرسی کی برطرفی کو مصری فوج کی بغاوت نہیں کہا ہے اور گزشتہ روز وہائٹ ہاؤس (ایوانِ صدر) کی جانب سے کہا گیا کہ ’’ایسا کرنا ہمارے اہداف اور مفادات کے حق میں نہیں‘‘ کہ مصر جیسے انتہائی اہم اتحادی کے لیے فوجی اور اقتصادی امداد بند کردی جائے۔ امریکی کانگریس کے تحقیقاتی مرکز کے مطابق امریکا مصر کی فوجی ضروریات کا ۸۰ فیصد اور اس کے بجٹ کے ایک تہائی پر کنٹرول رکھتا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مصر امریکا کے لیے کتنی اہمیت رکھتا ہے۔
امریکا کے M1A1 ابرام ٹینک اِس وقت مصر میں امریکی اجازت کے ساتھ تیار کیے جارہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ۱۲۰۰ بکتر بند گاڑیاں اور تقریبا ً۲۲۰ کی تعداد میں ایف۔۱۶ جنگی ہوائی جہاز بھی ۱۹۸۰ء سے حاصل کرچکا ہے۔
ہر دو سال بعد دونوں افواج ’’برائٹ اسٹا ر‘‘ کے نام سے مشترکہ طور پر جنگی مشقوں کا اہتمام کرتی ہیں۔ آئندہ مشقیں ستمبر ۲۰۱۳ء میں ہونی ہیں، جو موجودہ پیچیدہ صورت حال کے باوجود پینٹاگون کے مطابق اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوں گی۔اس کے ساتھ ساتھ امریکا نے سیاسی طور پر مختلف عرب ممالک پر اثر انداز ہونے کے لیے ایک اور حربہ بھی آزمایا ہے، اِسی لیے مصری فوجی کمانڈر عبدالفتاح السیسی کو فائدہ پہنچا ہے۔
السیسی اور مصر ی افواج کے چیف آف اسٹاف صدقی صبحی (Sedki Sobhi) دونوں امریکا میں قائم انتہائی اہم فوجی کالج جو ریاست پنسلوانیا کے ایک چھوٹے سے قصبہ کارلائل میں قائم ہے، ایک ایک سال بالترتیب ۲۰۰۶ء اور ۲۰۰۴ء میں گزارچکے ہیں۔
اسٹیفن گیراس کے مطابق ’’ مصری فوج کے دونوں انتہائی اہم افسران (السیسی اور صدقی صبحی) دونوں کے امریکی افواج سے تعلقات نسبتاً تازہ ہیں ‘‘۔اسٹیفن گیراس انتہائی اہم فکری کورس ، السیسی کو پڑھا چکے ہیں اور وہی اس کے تحقیقاتی مقالے کے انچارج بھی تھے۔گیراس نے مزید بتایا کہ ’’(السیسی) انتہائی سنجیدہ ، تیز اور گرم جوش ہے۔ السیسی اور صبحی نے امریکی ثقافت کو بہت قریب سے دیکھا اور برتا ہے اور امریکی طرز فکر و عمل سے بخوبی واقف ہیں‘‘ ، انھوں نے مزید بتاتے ہوئے کہا: ’’ ایسے ہی تعلقات ہیں جو بعد میں بھی قائم رہتے ہیں‘‘۔
۲۰۰۰ء اور ۲۰۰۹ء کے درمیان ۱۱۵۰۰؍ افسران جو موجودہ مصر ی فوج کا تقریبا ۵ء۲ فی صد ہیں، نے امریکا ہی میں تعلیم و تربیت حاصل کی ہے۔
اِسی قسم کے ذاتی تعلقات ہی ’’دوطرفہ فوجی تعلقات میں بہتر تعاون میں اضافہ کی بنیاد بنتے ہیں اور خاص طور پر اس وقت میں، جب علاقائی صورتِ حال بحرانی کیفیت میں ہو‘‘۔ یہ بات آرمی وار کالج کے اسٹریٹجک اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے گریگوری افتان دیلیان کی جانب سے کہی گئی۔
ان قریبی تعلقات کا ایک مظاہرہ اس وقت سامنے آیا، جب حال ہی میں امریکا کے سیکرٹری دفاع چک ہیگل نے ’’طویل اور بے تکلف گفتگو‘‘ فون کے ذریعے السیسی سے گزشتہ جمعہ اور اتوار کے درمیان ایک بار نہیں بلکہ چار بار کی۔ میکائیل ڈن (جو اٹلانٹک کونسل کے رفیق حریری سینٹر برائے مشرق وسطیٰ کے ڈائریکٹر ہیں) نے کہا کہ فوجی افسران کے درمیان تمام تر قریبی تعلقات کے باوجود واشنگٹن نے ’’ مصر سے متعلق اپنی پالیسی کا ملغوبہ تیار کردیا ہے‘‘۔
’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے لیے میکائیل ڈن نے لکھا: ’’امریکی افسران نے بحران کو سمجھنے میں وقت گنوایا اور ان کے تمام مشورے۔۔۔ بعد از وقت تھے۔۔۔ اور اسی لیے دونوں جانب سے نامنظور کیے گئے‘‘۔
امریکا کی مسلح افواج سے متعلق شخصیات میں سے ایک اہم ترین شخصیت یعنی جنرل مارٹن ڈیمپسی نے ’’سی این این‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے اقرار کیا کہ وہ ہیگل کی طرح مصری افسران سے برابر رابطہ میں تھے لیکن ’’میں اس کے متعلق کچھ نہیں جانتا کہ وہ (مصری فوج) کیا کرنے جارہے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا: ’’میں نے ان کو سمجھایا کہ وہ کسی بھی مسئلہ پر جانب داری اختیار نہ کریں اورنہ کسی گروہ کی طرف داری کریں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ وہ اس مسئلہ کے حل میں شریک ہوں۔ اپنے اصل کردار یعنی مسلح افواج کے طور پر کہ جس کی بنیادی ذمہ داری سلامتی کو یقینی بنانا ہے، نہ کہ نتائج کو مرضی کے مطابق بنانا‘‘۔ (ترجمہ: محمد صالح رفعت)
(“Close US-Egypt Military ties forged on American Soil”… Daily “Dawn”. July 10, 2013)
Leave a Reply