
چند دنوں قبل مغربی بنگال اور جھاڑ کھنڈ سے خبر آئی کہ وہاں سِکّوں کی بہت قلت ہو گئی ہے۔ سِکّوں کی قلت کا یہ اثر ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی دکھائی دی رہا ہے۔ یہ شک کیا جارہا ہے کہ ایک روپے کے سِکّوں میں جو اعلیٰ قسم کا اسٹیل استعمال کیا جارہا ہے، اسے پِگھلا کر شیونگ بلیڈ اور دھات کی مُورتیاں بنانے کے کام میں لیا جارہا ہے۔ دھاتی سِکّوں کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ ان کے بنانے میں جو دھات استعمال ہوتی ہے، اس کی ایک حقیقی قیمت یا قدر ہوتی ہے اور جتنی قیمت کے تبادلے میں وہ سِکّے استعمال ہوتے ہیں، وہ ان کی قدر کا تبادلہ کہلاتی ہے۔ مثلاً اگر سِکّہ ایک روپے کا ہو لیکن اس میں استعمال کی گئی دھات کی قیمت ایک روپیہ ۱۰ پیسے ہو تو اس کی قدرِ حقیقی ایک روپیہ ۱۰ پیسے ہو گی جب کہ اس کی قدر تبادلہ صرف ایک روپیہ ہو گی۔ کیونکہ ہم اس کو بازار میں دے کر صرف وہی چیز خرید سکتے ہیں جس کی قیمت ایک روپیہ ہے۔ یہ قدر تبادلہ چونکہ سِکّہ پر درج ہوتی ہے، اس لیے اسے سِکّہ کی درشنی قیمت بھی کہتے ہیں۔ اگر سِکّہ کی قدر حقیقی زیادہ ہو اور اس کی قدر تبادلہ کم ہو تو لوگوں میں یہ رجحان پیدا ہوتا ہے کہ اس کو گَلا کر دوسرے کاموں میں لیا جائے۔ بے شک یہ ایک غیرقانونی کام ہے لیکن اس کو پکڑنا بہت ہی مشکل ہے۔ یہ نفع بخش کام نہایت آسانی سے انجام پا جاتا ہے۔ اس کا اثر معیشت پر یہ پڑتا ہے کہ سِکّوں کی ایک اچھی خاصی مقدار گردش سے نکل جاتی ہے۔ وہ جس کام کے لیے بنائے گئے ہیں، اس کام کے لیے ان کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ دوسرا رُخ یہ ہے کہ اگر قدرِ حقیقی کم ہو یعنی سِکّہ پر چھپی ہوئی قیمت کے مقابلہ میں اس میں استعمال کی گئی دھات کی قیمت کم ہو تو جعلی سِکّوں کا چلن ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اب دھات سے جعلی سکے بنا کر چلانا نفع بخش ثابت ہوتا ہے۔ دھات کی قیمت میں مسلسل تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں، اس لیے وزارتِ خزاجہ اور ریزرو بینک آف انڈیا کے سامنے یہ مسئلہ ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ کس طرح سِکّہ کی قدر حقیقی اور قدرِ تبادلہ میں توازن پیدا کیا جائے تاکہ نہ سِکّوں کی قلت پیدا ہو اور نہ ہی جعلی سِکّوں کی بھرمار ہو۔ اس مقصد کے لیے سِکّوں کی قدرِ حقیقی میں کمی کر کے اس کو قدرِ تبادلہ کے برابر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ محمد بن تغلق غالباً وہ پہلا بادشاہ ہے جس نے اپنے زمانہ میں رائج سونے چاندی کے سِکّوں کی بجائے یا ان کے ساتھ تانبہ کے سِکّہ چلائے۔ آج بھی دنیا میں اس سلسلے میں نئے نئے تجربات کیے جاتے ہیں۔ مختلف قسم کی دھاتوں سے سِکّے بنانے کا سلسلہ چل رہا ہے۔ سونے چاندی کے بعد تانبے اور جست یہاں تک کہ ایلومینیم کے سِکّے بھی بنائے گئے۔ اب تو مرکب دھاتوں کا استعمال چل رہا ہے۔ سونے چاندی کے بعد تانبے اور جست یہاں تک کہ ایلومینیم کے سِکّے بھی بنائے گئے۔ اب تو مرکب دھاتوں کا استعمال زیادہ ہونے لگا ہے۔ ساری دنیا میں آج اسٹین لیس اسٹیل سے سِکّے بنانے کا عمل جاری ہے۔ ہمارے یہاں تو اَب ۲۰ پیسے تک کے سِکّوں کے بنانے کا رواج ختم ہو گیا ہے۔ کیونکہ ان میں استعمال کی جانے والی دھات کو اب اتنا سستا کرنا ممکن نہ تھا۔ سِکّوں کی تعداد گردش میں چاہے جتنی لائی جائے جب تک ان کی قدرِ حقیقی زیادہ رہے گی اور قدرِ تبادلہ کم تو ان کو پِگھلانے کا اور دوسرے کاموں میں استعمال کرنے کا غیرقانونی عمل جاری رہے گا۔ امریکا میں سِکّوں کو گَلانا غیرقانونی ہے لیکن وہاں غیرملکیوں پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ بھارت میں بھی اگر رانچی اور کولکاتا میں سِکّوں کے غیرقانونی طور پر گَلانے کے عمل کو روک دیا جائے تب بھی نیپال اور بنگلہ دیش میں لے جا کر بھارتی سِکّوں کو اس غیرقانونی کام میں استعمال کرنے سے روکا نہیں جاسکتا۔ سِکّوں کے بازار سے غائب ہونے کا سلسلہ جاری ہی رہتا ہے۔ ان کو جس رفتار سے گَلایا جاتا ہے، اتنی رفتار سے نئے کم قیمت والے سِکّے بازار میں نہیں لائے جاسکتے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، اس کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ اگر قدرِ حقیقی کم ہو اور قدرِ تبادلہ زیادہ تو پھر جعلی سِکّوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ کیونکہ سستی دھات استعمال کر کے زیادہ قدرِ تبادلہ رکھنے والے سِکّے آسانی سے بنائے جاسکتے ہیں۔ سِکّوں کے بنانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ ان کا استعمال تبادلے کے لیے ہو۔ ان کی مدد سے لین دین کے معاملات طے کیے جاسکیں۔ سِکّے دراصل تبادلہ کا میڈیم ہیں۔ ان کا استعمال کسی اور کام کے لیے ہونا یا معیشت میں جعلی سِکّوں کی بھرمار ہو جانا اربابِ سلطنت کے لیے بڑی تشویش کی بات ہے۔ سِکّے قدر کا ذخیرہ ہیں۔ ان میں ذخیرہ کی گئی قدر کو اشیا کی قیمت ادا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ آج کی دنیا میں سِکّوں کی اہمیت ایک اور وجہ سے بھی ہے۔ اگر سیاسی حالات غیریقینی ہو جائیں اور حکومت پر سے لوگوں کا اعتماد متزلزل ہونے لگے تو سِکّے اپنی قدرِ حقیقی اور قدرِ تبادلہ میں توازن رکھنے کی بنا پر تبادلہ کے قابلِ اعتماد میڈیم کے طور پر استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
زیادہ قدرِ حقیقی رکھنے والے سِکّوں کو گَلا کر دوسرے کاموں کے لیے استعمال کرنے کے پیچھے آسانی سے ناجائز دولت کمانے کی ہوس موجود ہوتی ہے۔ آج ہمارے سِکّوں کی قدرِ حقیقی ان کی قدرِ تبادلہ سے زیادہ ہے۔ اس لیے اس ہوس نے ملک میں سِکّوں کی قلت پیدا کر دی ہے۔ گذشتہ سال مئی کے مہینے میں برطانیہ کو بھی یہی مسئلہ درپیش تھا۔ تانبہ کی قیمت میں اضافہ ہو جانے کی بنا پر اس دھات سے تیار شدہ سکوں کی قدرِ حقیقی بڑھ گئی تھی۔ اور ان کو گَلا کر دوسرے کاموں میں ان کو استعمال کرنا نفع بخش کاروبار بن گیا تھا۔ گذشتہ دسمبر میں امریکا میں بھی یہی مسئلہ درپیش ہوا تھا۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ ان کے اس بحران کے ذمہ دار کسی حد تک ہندوستان اور چین ہیں۔ ہندوستان اور چین کی معاشی ترقی کے نتیجے میں بہت سی دھاتوں خاص کر تانبہ کی قیمت میں اضافہ ہو گیا۔ اس لیے ہمارے ملک میں ان دھاتوں کی قیمت بڑھ جانے سے سِکّوں کی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ سِکّوں کو گلا کر ان کو اصل مقصد کے علاوہ دوسرے منافع بخش مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا کاروبار قانونی پابندیوں کے باوجود پھل پھول رہا ہے۔ اگر کچھ لوگ یہ کاروبار بنگال اور جھاڑکھنڈ میں کر رہے ہیں تو کچھ لوگ بنگلہ دیش اور نیپال میں۔ یہ پہلے بھی ہوتا آیا ہے، اب بھی ہو رہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یہ کام دَھڑلّے سے جاری ہے۔ قانون اس جرم کا خاتمہ کرنے میں ناکام ہے۔ زائد قدرِ حقیقی رکھنے والے سِکّوں کو صرف گَلایا ہی نہیں جاتا بلکہ ان میں سے دھات کا کچھ حصہ الگ کر کے اس کو دوسرے استعمال میں لانے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ اس عمل سے سکہ کی قدرِ حقیقی کچھ کم ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ آخر سِکّوں کو بنانے میں دھاتیں ہی کیوں استعمال کی جاتی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بطور زَر استعمال ہونے والی اشیا میں دھات ہی ایک ایسی شے ہے جو قدر کا ذخیرہ ایک طویل عرصے تک کر سکتی ہے۔ دھاتیں پائیدار ہوتی ہیں۔ ان میں ٹوٹ پھوٹ بھی بہت ہی کم ہوتی ہے۔ دھاتی سِکّے زیادہ عرصے تک قابلِ استعمال رہتے ہیں۔ اس طرح ان میں ذخیرہ کی گئی قدر محفوظ رہتی ہے۔ بچہ سقہ نے چمڑے کے سِکّے صرف ایک دن کے لیے چلائے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کو بادشاہت صرف ایک دن کے لیے ملی تھی۔ لیکن وہ اور کوئی حکمراں اس کو زیادہ عرصے تک چلانے کی کوشش کرتا تو اس کو ناکامی ہوتی۔ کیونکہ چمڑے کی قدرِ حقیقی اس سے بنائے گئے سِکّوں کی قدرِ تبادلہ کے مقابلے میں بہت کم ہوتی جس کے نتیجے میں جعلی سِکّوں کا چلن بہت بڑھ جاتا۔ دھات کے سِکّے بنانے میں یہ آسانی بھی ہوتی ہے کہ ان کو جس شکل میں چاہیں، آسانی سے ڈھال سکتے ہیں۔ جو نقش چاہیں اس پر اُبھار سکتے ہیں۔ جدید زمانے میں نئی تکنیک کی مدد سے سِکّوں کو بنانے کے لیے دھاتوں کی بجائے کچھ دوسرے مٹیریل بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ جیسے کاربن فائبر، سیلیکون وغیرہ۔ اس کے علاوہ ان کے اندر مزید خصوصیات بھی پیدا کی جاسکتی ہیں۔ جیسے ان کو گَلایا نہ جاسکے۔ ان میں جتنی سختی چاہے، پیدا کی جاسکے۔ غرض یہ کہ سِکّوں کو صحیح طور سے قابلِ تبادلہ بنانے کے لیے درکار تمام خصوصیات پیدا کی جاسکتی ہیں۔ لیکن ان کو تیار کرنے کا عمل بہت پیچیدہ اور خرچیلا ہو گا۔ دوسری طرف ان کی قدرِ حقیقی بہت ہی کم ہو گی، اس لیے ان سے جعلی سِکّے بنانے کے عمل کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ ایک اور مشکل یہ ہو گی کہ وینڈنگ مشینیں جن کا استعمال دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے اور جو اصلی اور نقلی دھاتی سِکّوں میں ان کی الیکٹرو میگنیٹک خصوصیات کی بنا پر تمیز کر سکتی ہیں۔ وہ غیردھاتی عناصر سے بنائے گئے سِکّوں میں اصلی اور نقلی کی تمیز نہیں کر سکتیں۔ ان اسباب کی بنا پر سِکّوں کے بنانے میں دھاتوں کا استعمال ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے اربابِ حکومت کے لیے یہ دردِ سر ہمیشہ باقی رہتا ہے کہ سِکّوں کے بنانے میں کس طرح کی دھاتیں یا ان کے مرکب استعمال کیے جائیں تاکہ ان کی قدرِ حقیقی اور قدرِ تبادلہ میں لمبے عرصے تک مساوات برقرار رکھی جائے۔ یہ مساوات غیرمتوازن اس لیے ہو جاتی ہے کہ دھاتوں کی قیمتوں میں استحکام نہیں رہ پاتا۔ اکثر تو قدرِ حقیقی بڑھ جاتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ قدرِ حقیقی کم بھی ہو جاتی ہے۔ اگرچہ ایسا بہت کم ہوتا ہے لیکن معاشی مسائل دونوں صورتوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ جب تک مکمل طور سے تمام زَر کو الیکٹرونک کرنسی میں تبدیل نہیں کیا جاتا، مسئلہ باقی رہے گا۔ مگر کون جانے اس سے کچھ دوسرے نئے مسائل پیدا ہو جائیں جن تک آج نگاہ نہیں جارہی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’انقلاب‘‘ ممبئی)
Leave a Reply