ارضیاتی سائنسدانوں کی ایک ٹیم‘ سرد جنگ کے دوران فوج کی تیار کردہ حساس ٹیکنالوجی کے استعمال سے کیلیفورنیا میں سان اینڈریاس (San Andreas) کے علاقے میں ارضیاتی رخنوں پر اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ کر رہے ہیں۔ یہ بات ہوسٹن‘ ٹیکساس میں رائس یونیورسٹی سے جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز میں بتائی گئی ہے۔ محققین ایسے اعداد و شمار جمع کریں گے جن سے انہیں سطح زمین سے دو سے تین کلو میٹر نیچے بجری کے سائز کے پتھروں پر مشتمل ارضیاتی نقص کے علاقے کی واضح تصویر حاصل ہو سکے گی۔ چٹانوں کے یہ ٹکڑے‘ براعظمی طبقوں کے آپس میں رگڑ کھانے سے بنتے ہیں۔ رائس یونیورسٹی میں ارضیاتی طبیعات کے پروفیسر مانک تلوانی کا کہنا ہے ’’اگر یہ ٹیکنالوجی قابلِ عمل ہوئی تو اس سے ارضیاتی سائنسدانوں کے لیے رخنوں اور دلچسپی کے دیگر ارضیاتی حصوں کے بارے میں کم خرچ معلومات حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ سائنسدانوں کی ایک ٹیم ان حساس الات کے استعمال سے‘ جو سرد جنگ کے دوران ایٹمی آبدوزوں کی رہنمائی کے نظاموں کے لیے تیار کیے گئے تھے‘ سان اینڈریاس کے ساتھ مختلف جگہوں پر کششِ ثقل کی تبدیلیوں کی شرح کا جائزہ لے گی۔ نیشنل سائنس فائونڈیشن‘ نیشنل امیجری اینڈ میپنگ (Imagery and Mapping) ایجنسی اور کئی صنعتی فرموں کے اشتراک سے یہ کام وسطی کیلیفورنیا میں پارک فیلڈ کے قریب شروع کیا جارہا ہے۔ اس جگہ ایک سائنسی مشن‘ انٹرنیشنل کانٹی نینٹل ڈرلنگ پراجیکٹ‘ کے تحت ارضیاتی نمونے حاصل کیے جارہے ہیں جن کا جائزہ تلوانی کی ٹیم لے رہی ہے۔ ان نمونوں سے ٹیم کو اپنے اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے میں مدد ملے گی۔ ڈرلنگ منصوبے کے ارکان کا تعلق آسٹریا‘ کینیڈا‘ چین‘ جمہوریہ چیک‘ جرمنی‘ آئس لینڈ‘ جاپان‘ میکسیکو‘ پولینڈ اور امریکا سے ہے۔ سان اینڈریاس پراجیکٹ کے بارے میں معلومات درج ذیل ویب سائٹ پر دستیاب ہیں:
http://chesion.rice.edu/naturalscience/
earthscience/research.cfm?doc_id=2815
(آغازِ متن) ہوسٹن‘ ۷ ستمبر ۲۰۰۴۔۔۔ رائس یونیورشٹی کے مانک تلوانی کی قیادت میں ارضیاتی سائنسدانوں کی ایک ٹیم سرد جنگ کے دوران فوج کی تیار کردہ حساس ٹیکنالوجی کے استعمال سے کیلیفورنیا میں سان اینڈریاس کے مشہور ارضیاتی رخنے پر اس ہفتے اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ کر رہی ہے۔ محققین ایسے اعداد و شمار جمع کریں گے جن سے انہیں سطح زمین سے دو سے تین کلو میٹر نیچے بجری کے سائز کے پتھروں پر مشتمل ارضیاتی رخنے کے علاقے کی واضح تصویر حاصل ہو سکے گی۔ چٹانوں کے یہ ٹکڑے براعظمی طبقوں کے آپس میں رگڑ کھانے سے بنتے ہیں۔ زمین کی گہرائی میں ارضیاتی رخنوں کی ساخت کے بارے میں اب تک معمولی اعداد و شمار حاصل کیے جاسکے ہیں کیونکہ سطح زمین سے خاصا نیچے تک کھدائی کرنا اور آلات نصب کرنا بہت مہنگا کام ہے۔ اس ہفتے کے تجربے میں کششِ ثقل کے بارے میں ارضیاتی حساس آلات استعمال کیے جائیں گے۔ ایک ہوائی جہاز میں تلوانی اور ان کے ساتھ ان آلات کے ذریعے وسطی کیلیفورنیا میں پارک فیلڈ قصبے کے قریب سان اینڈریاس کے سو مربع کلو میٹر علاقے کا فضائی جائزہ لیں گے۔ ارضیاتی طبیعات کے پروفیسر تلوانی کا کہنا ہے ’’اگر یہ ٹیکنالوجی قابلِ عمل ہوئی تو اس سے ارضیاتی سائنسدانوں کے لیے رخنوں اور دلچسپی کے دیگر ارضیاتی حصوں کے بارے میں کم خرچ معلومات حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ ان پروازوں سے ہمیں بنیادی اعداد و شمار حاصل ہوں گے جن کا موازنہ یہ معلوم کرنے کے لیے ہم آئندہ کے سروے سے کریں گے کہ رخنوں کی سطح سے نیچے کی زمینی تہہ میں کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں‘‘۔ تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ سطح زمین پر چٹانوں اور دیگر اشیا کی کمیت میں ہونے والی تبدیلیوں سے کششِ ثقل میں کچھ کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ سرد جنگ کے دوران ایٹمی آبدوزوں کے لیے تیار کیے جانے والے حساس آلات کی مدد سے تحقیقی ٹیم‘ سان اینڈریاس کے ساتھ کشش ثقل میں کمی بیشی یا مختلف جگہوں پر کشش ثقل کی تبدیلی کی شرح کا جائزہ لے گی۔
اس مقصد کے لیے پروازوں کا سلسلہ پارک فیلڈ کے قریب جاری ہے کیونکہ یہ ایک سائنسی مشن‘ انٹرنیسنل کانٹی نینٹل ڈرلنگ پراجیکٹ‘ کی جگہ ہے جہاں علاقے کے مختلف حصوں سے بنیادی نمونے حاصل کیے جارہے ہیں اور ان کا جائزہ تلوانی کی ٹیم لے رہی ہے۔ ان ثبوتوں سے تلوانی کی ٹیم کو اپنے اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے میں مدد ملے گی۔ تلوانی کو امید ہے کہ اس ٹیکنالوجی سے رخنوں کے جائزے پر آنے والی لاگت کم کرنے میں مدد ملے گی۔ اسے رخنوں کے بنیادی اور بعد کے سروے کے لیے کم خرچ بنا دیا جائے گا۔ زمینی آلات کے ذریعے اس کام پر خاصی لاگت آتی ہے۔ کششِ ثقل میں اتار چڑھائو کو ماپنے کا جو آلہ اس ہفتے استعمال کیا جارہا ہے وہ لاک ہیڈ مارٹن (Lockeed-Martin) نے سرد جنگ کے دوران کثیر لاگت سے تیار کیا تھا۔ اصل میں یہ آلہ ایٹمی آبدوزوں کے رہنمائی نظام کے لیے تیار کیا گیا تھا اور اس کی کچھ خفیہ ٹیکنالوجی انتہائی حساس نوعیت کی ہے۔ تلوانی کا گروپ‘ کششِ ثقل میں کمی بیشی کے فضائی سروے کا کنٹریکٹ‘ ہوسٹن میں قائم بل جیوسپیس کارپوریشن کو دے گا۔ نیشنل سائنس فائونڈیشن‘ نیشنل امیجری اینڈ میپنگ ایجنسی اور کئی صنعتی ادارے اس منصوبے میں تعاون کر رہے ہیں۔ تلوانی‘ جو فی الوقت رائس یونیورسٹی سے چھٹی پر ہیں‘ انٹیگریٹڈ اوشن ڈریلنگ پروگرام مینجمنٹ انٹرنیشنل (Integrated Ocean Drilling Program Management International) یہ سمندر کی تہہ میں کھدائی کے مربوط پروگرام (IODP) کا مرکزی انتظامی ادارہ ہے۔ اس کے دفاتر واشنگٹن ڈی سی او سپورو (Sapporo) جاپان میں ہیں۔ IODP-MI کے فرائض میں سائنس کی منصوبہ بندی‘ انجینئرنگ کی ترقی‘ کسی علاقے کے سروے کی بارے میں اعداد و شمار جمع کرنے کے انتظام‘ بنیادی نمونے محفوظ کرنے‘ اشاعت‘ تعلیم اور سمندری علاقوں میں جغرافیائی سائنس کی تحقیق کے بارے میں دنیا کے سب سے بڑے پروگرام کی نگرانی کرنا شامل ہے۔ امریکا‘ یورپ اور جاپان میں سمندر کی تہہ میں ڈرلنگ کے طریقوں اور ڈرلنگ پلیٹ فارموں کی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے‘ IODP کی جائزہ ٹیمیں‘ دنیا بھر میں سمندر کی تہہ سے چٹانوں اور دوسرے مواد کے نمونے حاصل کر کے ان کا جائزہ لیتی ہیں۔ IODP کے لیے فنڈز‘ دی نیشنل سائنس فائونڈیشن اور جاپان کی تعلیم‘ ثقافت‘ کھیلوں‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت فراہم کرتی ہیں۔ تلوانی‘ اس سے پہلے گلف ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے چیف سائنٹسٹ اور کولمبیا یونیورسٹی کی لیمنٹ۔ڈوہرٹی (Lamont-Doherty) ارضیاتی رصد گاہ کے ڈائریکٹر رہے ہیں۔ انہوں نے رائس یونیورسٹی میں جیو فزکس کے شعبے میں ۱۹۸۵ء میں شمولیت اختیار کی۔
(بحوالہ: ’’خبرونظر‘‘۔ امریکی شعبۂ تعلقاتِ عامہ۔ اسلام آباد)
Leave a Reply