
خلاصہ:
نیٹو (معاہدہ شمالی اوقیانوس) ۱۹۴۹ء میں بننے والی ایک ایسی تنظیم ہے جس میں امریکا اور کینیڈا سمیت تمام مغربی یورپی ممالک شامل ہیں۔ اپنی ابتدا سے لے کر اب تک یہ تنظیم کئی بار توسیع کے مراحل سے گزر چکی ہے۔ نیٹو ایک ایسا فوجی اتحاد ہے جو امریکا کی سرپرستی میں پوری دنیا میں فوجی حکمرانی کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیٹو تنظیم کی وجہ سے یورپ میں امن کو استحکام حاصل ہوا اور یورپی ممالک کو اپنی سلامتی کے مسائل سے بے فکری حاصل ہوئی۔ اور ان ممالک نے اپنے وسائل تعمیر و ترقی کے لیے وقف کر دیے۔ گو کہ وہ مقاصد پورے ہو چکے ہیں جن کی وجہ سے اس تنظیم کاوجود عمل میں آیا۔ پھر بھی اس تنظیم کے جواز اور عدم جواز کی بحث جاری ہے۔ زیر نظر مقالے میں یورپی یونین اور امریکا کے مابین دفاعی تعلقات اور نیٹو کی ضرورت کے ساتھ ساتھ نیٹو کے out of area operations کو لے کر بلقان، پاکستان اورافغانستان پر بحث کی گئی ہے۔
تعارف:
انسانی تاریخ میں افراد و اقوام کے مابین بے شمار معاہدے طے پائے۔ ان میں سے بہت سے معاہدے کامیابی سے ہمکنار ہوئے تو کچھ معاہدے ناکامی کا شکار بھی ہوئے۔ کچھ معاہدوں کو مثالی حیثیت بھی حاصل ہوئی۔ ایسا ہی ایک معاہدہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے مابین ہوا۔ جسے معاہدہ شمالی بحر اوقیانوس کا نام دیا گیا اور عرف عام میں اسے نیٹو کہا جاتا ہے۔
اس معاہدے پر ۴، اپریل ۱۹۴۹ء میں واشنگٹن میں بلجیم، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، اٹلی، آئس لینڈ، لکسمبرگ، نیدر لینڈ (ہالینڈ)، ناروے، پرتگال، برطانیہ اور امریکا نے نارتھ اٹلانٹک علاقوں میں امن اور سلامتی کو آگے بڑھانے کے لیے دستخط کیے۔ اس کے علاوہ یونان اور ترکی نے ۱۹۵۲ء میں اس میں شمولیت اختیار کی۔ مغربی جرمنی ۱۹۵۵ء میں اور اسپین ۱۹۸۲ء میں اس کا رکن بنا۔ ۱۹۹۰ء میں جب جرمنی متحد ہو ا تو مشرقی جرمنی بھی نیٹو کا حصہ بن گیا۔ ۱۹۹۹ء میں چیک ریپبلک، ہنگری اور پولینڈ اس کے رکن بنے۔ ۲۰۰۴ء میں اس کا دائرہ بڑھاتے ہوئے بلغاریہ، اسٹونیا، لیٹویا، رومانیہ، لیتھونیا، سلوواکیہ اور سلووینیا کو اس میں شمولیت دی گئی اور ۲۰۰۹ء میں البانیہ اور کروشیا نے اس تنظیم سے وابستہ ہو کر اس کی کل تعداد ۲۸ کر دی۔ مقدونیہ کو فی الحال فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔
اس تنظیم کو دو مقاصد کے پیشِ نظر بنایا گیا۔ اول جرمنی کو طاقت کے حصول سے روکنے کے لیے اقدامات کرنا اور دوم مغرب کو روس کے ممکنہ خطرے سے بچانا۔ مغربی ممالک امریکی ایٹمی برتری کی بدولت عالمی سیاست میں توازن پیدا کرنے کے لیے امریکا کے زیرِ اثر نیٹو کی تنظیم قائم کرنے پر متفق ہوگئے تھے۔ اس معاہدے کے قیام کی اصل وجہ یہ تھی کہ روسی افواج مشرقی یورپی ممالک سے واپس نہیں جارہی تھیں۔ جبکہ امریکا اپنی افواج کو و اپس بلاچکاتھا۔ اس طرح مغربی ممالک کی دفاعی ساخت کمزور ہورہی تھی۔
نیٹو کے قیام کے ایک سال بعد یعنی جنوری ۱۹۵۰ء میں امریکا نے آٹھ یورپی اتحادیوں کے ساتھ دوطرفہ معاہدے کیے۔ جن کی بنا پر امریکی ہتھیار اور طیارے یورپ میں آنے لگے۔ یورپیو ں کو سوویت یونین سے جو خدشہ لاحق تھا اس کی وجہ سے وہ چاہتے تھے کہ امریکی د ستے یورپ میں رہ کر انہیں تحفظ فراہم کریں۔ یورپیوں کو اصل تحفظ اپنی فوجی صلاحیتوں کی بنا پر حاصل نہیں ہوا بلکہ امریکی فوجی یا نیوکلیائی طاقت کی بنا پر حاصل ہوا اور وہ اپنے تحفظ کے لیے امریکا پر انحصار کرنے لگے۔
درج ذیل سطور میں ہم نیٹو میں پہلے یورپی ممالک اور امریکا کے کردار کا جائزہ لیں گے۔
نیٹو میں یورپی ممالک کا کردار:
نیٹو اتحاد میں برطانیہ اپنا کردار بڑی کامیابی کے ساتھ ادا کر رہا ہے۔ اور Concensus Builder کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی برطانوی حکمت عملی کی اہم خصوصیت ہے۔ وہ ایک نیوکلیائی رکن ہے۔ فرانس کے برعکس برطانیہ یورپ تحفظ کے حوالے سے نیٹو میں اپنااہم کردار اد ا کرتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ اس کی حیثیت دوسرے فیصلہ کن مرکز (Second Centre of Decision Making) کی ہے جس کی وجہ سے سابقہ سوویت یونین کو نیٹو کے حوالے سے کیے جانے والے مشاہدات میں مشکل پیدا ہوئی۔ برطانیہ اپنی دہری پالیسی کی بنا پر نیٹو کے ذریعے اپنے اور یورپ کے اجتماعی تحفظ کے سلسلے میں بھر پور کوششیں کرتا رہاہے۔ برطانیہ نیٹو کی ہر طرح کی کارروائیوں اورفوجی آپریشن کی حمایت کر تا ہے اور ہر طرح کے سیاسی اصولوں کے تحت جو کسی بھی دو ممالک کے درمیان طے پاتے ہیں ان کے مطابق کام کرتا ہے۔ نیٹو کی حکمت عملی بنانے میں برطانیہ اور جرمنی دونوں کا بہت عمل دخل ہے۔ خصوصاً برطانیہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے فیصلے ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔ برطانوی حکومت کے خیال میں نیٹو اتحاد کے ذریعے سرد جنگ کے دوران وہ اپنے خاص مقاصد حاصل کر چکے ہیں۔ جبکہ امریکا کے اپنے تحفظات ہیں۔ امریکیوں کے مطابق امریکی یورپ کے ساتھ منسلک ہیں اور جرمنی بھی امریکی منصوبے سے متفق ہیں کہ کس طرح مغربی یورپ کے دفاع کو ممکن بنایا جا سکے۔
نیٹو میں جرمنی کا کردار ایک مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ جرمنی کے بغیر نیٹو کو برقرار رکھنا تو اصولی طور پر ممکن ہے لیکن امریکا کے بغیر وسطی یورپ کا دفاع ناقابل قیاس ہے اور اگر امریکی فوج کو یورپ کی سلامتی کے لیے یورپ میں رہنا ہے تو اسے جرمنی میں رہنا چاہیے۔ سرد جنگ کے زمانے میں نیٹو کی مشرقی یورپ کے خلاف کی جانے والی تمام کاروائیاں براستہ مغربی جرمنی کی گئیں۔ تمام طرح کے بڑے اور درمیانی طرح کے Intelligence Operation ناروے،مغربی جرمنی، یونان، شمالی ترکی کے ذریعے اور مزید سیٹلائٹ اور دیگر فوجی آلات کے ذریعے کیے گئے۔ ابتدائی طور پر جرمنی نیوکلیائی ہتھیاروں کے حوالے سے سخت خوفزدہ تھا۔ خصوصاً سوویت یونین سے، اور وہ طویل جنگی کاروائیوں کے حق میں نہیں تھا۔ پوری سرد جنگ کے دوران جرمنی یورپی نیوکلیائی حوالے سے اپنے خدشات کو ظاہر کرتا رہا۔
مغربی یورپ میں امریکا اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ فرانس بھی ایک نیو کلیائی طاقت ہے۔ جو طویل حد تک نیو کلیائی میزائل اور بم داغنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ برطانیہ نیوکلیائی ہتھیاروں کو نیٹو کی چھتری تلے استعمال کرنے کا حامی ہے۔ جبکہ دوسر ی طرف فرانس اپنے نیو کلیائی ہتھیاروں کو ایک انفرادی ضرورت سمجھتا ہے۔ اور وہ نیٹو کی ملٹری فورسز کا روایتی رکن نہیں ہے۔ باقی یورپی ممالک کے مقابلے میں فرانس سب سے زیادہ احتجاج کرنے والا ملک تھا۔ وہ چاہتاتھا کہ نیوکلیائی مسائل یا پالیسی ترتیب دینے میں اس کا بھی کردار ہو۔ برطانیہ نے اپنی دفاعی افواج نیٹو کے سپرد کردیں لیکن فرانس مزید تحفظ کو بڑھانے کے حق میں نہیں تھا۔ لہذا فرانس کے جنرل ڈیگال نے ۱۹۶۶ء میں نیٹوکی کمانڈ سے علیحدگی اختیارکرلی۔ مگر وہ ادارے کا رکن رہا۔
فرانسیسی صدر متراں یورپی یونین کے دیگر ارکان کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام رہے کہ اب یورپ کو نیٹو سے الگ ہوکر ایک اپنا دفاعی نظام قائم کرنا چاہیے۔ ان کے جانشین راک شیراک اس خیال کی تائید حاصل کرنے کے لیے اسے نیٹو میں ضم کرنے پر رضا مند ہو گئے۔ یہ سمجھوتہ جون ۱۹۹۶ء میں برلن میں ہوا۔ دسمبر ۱۹۹۶ء میں فرانس اور جرمنی کے مشترکہ اعلامیے میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ٹرانس اٹلانٹک تعلقات مستقل نوعیت کے ہیں۔ جب فرانس نے نیٹو کے دفاعی وزرا کی کونسل اور اس کی فوجی کمیٹی میں دوبارہ شمولیت اختیا ر کی تو راک شیراک نے تجویز پیش کی کہ اسے کمانڈ اسٹرکچر میں نمائندگی ملنی چاہیے جسے امریکا نے مسترد کر دیا۔
فرانس نیٹو کے دیگر ممالک کی طرح اپنے کردار کو واضح کرنا چاہتا ہے تا کہ وہ اپنے مفادات کے ساتھ اس اتحاد میںاہم کردار ادا کرتا رہے۔
سابقہ سوویت یونین کے ماہرین کی نظر میں نیٹو کے یورپی ممالک کا مقصد امریکا سے صرف دفاعی مددحاصل کرنا ہی نہیں بلکہ افرادی قوت بھی حاصل کرنا تھا تا کہ نیٹو افواج کے ذریعے سوویت یونین کی بری افواج کا مقابلہ کیا جا سکے۔ یورپی اتحاد کا مقصد نیو کلیائی ہتھیاروں کے ذریعے سوویت افواج سے بچائو بھی تھا جن کے حوالے سے امریکا اور مغربی یورپ کو خدشات تھے۔
دوسری طر ف یہ بھی حقیقت ہے کہ مغربی یورپ نے کسی بھی سطح پر مغربی پالیسیوں اور کاروائیوں کے بر خلاف فیصلے کا حق بھی محفوظ رکھا ہے۔ مثال کے طور پر ایران اور افغانستان کے حوالے سے امریکی پالیسی کے ساتھ متفق نہ ہونا۔ اور اس وقت نیٹو اور امریکا کو مغرب میں تنقید کا نشانہ بنایاجارہاہے۔
نیٹو میں امریکا کا کردار:
معاہدہ شمالی اوقیانوس(نیٹو) دراصل دوسری جنگ عظیم کے بعد مشرقی یورپ میں کمیونسٹ اثرات کے خاتمے کے پیش نظر امریکا کی سرکردگی میں قائم کیا گیا تھا۔ اگر نیٹو کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہر لمحے احساس ہوتا ہے کہ قیام سے لے کر اب تک امریکا یورپی معاملات میں ثالث بنا رہاہے۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت مارشل پلان ہے۔ گوکہ مارشل پلان ۱۹۴۷میں بن چکاتھا۔ دراصل دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد امریکا نے یورپ کے معاملات میں ملوث ہونے کے لیے پہلاقدم مارشل پلان کی صورت میں ہی اٹھایاتھا اور وہیں سے امریکی خارجہ پالیسیوں میں اہم تبدیلیاں ہونا شروع ہوگئیں۔ امریکا نے بعد میں سینٹ سے اس کی اجازت بھی لے لی کہ امریکا علاقائی دفاعی تنظیموں میں شامل ہوسکتاہے۔ امریکا کے اس اقدام کا عالمی سیاست پر گہرا ا ثر پڑا۔ یہاں ہم یہ بھی کہ سکتے ہیںکہ اس اجازت کا بعد میں امریکا نے غلط فائدہ اُٹھانا شروع کردیا اور out of area operations اسی کی ایک کڑی نظر آتی ہے۔
۱۹۴۵ء کے بعد امریکی پالیسیوں کا سب سے اہم مقصد سوویت یونین کے مقابلے میں اپنی روایتی اور نیوکلیائی طاقت کی برتری قائم کرنا تھا۔ یہ اتحاد بہت ہی وسیع بنیادوں کے ساتھ امریکا کے زیر سایہ پروان چڑھا۔ ۱۹۷۸ء میں نیٹو سربراہان نے سوویت فوج کی حقیقت کو قبول کر لیا اور نیٹو کے ذریعے اپنی دفاعی ضروریات کی بنا پر امریکا کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا۔ نیٹو کے فیصلے نہ صرف فوجی اور دفاعی حد تک تھے بلکہ یہ مغربی یورپ کے لیے ایک اہم شناخت بن گئے اور اس براعظم کی امریکی پالیسیوں کے ساتھ عہد و فا پوری دنیا کے لیے اہم پیغام ہے۔
نیٹو کے ذریعہ امریکا نے پہلی دفعہ اس بات کی ضمانت دی کہ وہ یورپ کو تحفظ فراہم کرے گا۔ اور ضرورت پڑنے پر نیو کلیائی طاقت کا بھی استعمال کریگا۔ لیکن یہ بات زیادہ تر یورپیوں کے لیے مشکوک تھی۔ کیونکہ امریکا کا یورپ کو تحفظ دینے کے پس پشت اہم مقصد یورپ کے اندر سوویت یونین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو بتدریج کم کرتے ہوئے ختم کرنا تھا۔ جس میں امریکا کامیاب رہا۔
امریکا نے نیٹو کی تشکیل کے لیے قدم اٹھایا اور بعدازاں دیگر طاقتوررکن ممالک اس کی تشکیل کے لیے متفق ہوئے۔ یہ اتحاد بین الاقوامی نظاموں میں سنگ بنیاد ثابت ہو ا۔ نیٹوروس کے اثر و رسوخ کو کم کرنے میں اہم ستون ثابت ہوا اور سوویت یونین کو بین الاقوامی سطح پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نیٹو کی تشکیل کے دوران ہی مغربی یورپ کو اقتصادی طور پر پھلنے پھولنے کا موقع ملا ور امریکا کو اب تک اس اتحاد میں انفرادی حیثیت حاصل ہے۔
ماہرین کے خیال میں فرانس جنگ کے دنوں میں ہمیشہ امریکا اور برطانیہ کے ساتھ مشاورت میں شامل ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانیہ اور فرانس مغربی یورپ کی دو ایسی طاقتیں ہیں جو امریکی اجازت کے بغیر اپنے نیو کلیائی ہتھیاروں کو با آسانی استعمال کر سکتی ہیں۔ باوجود اس کے کوئی بھی ملک امریکا میں موجود اس کی نیو کلیائی طاقت کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ کیونکہ یہ سب نیٹو نیو کلیائی طاقت کا حصہ ہیں۔
سرد جنگ کے دوران امریکا کی اہمیت مغربی یورپ کے تحفظ کے لیے بہت ضروری تھی اس کی تین وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ: دوسر ی جنگ عظیم کے بعد امریکا کی موجودگی نے نہ صرف یورپ کو اندرونی حریفوں سے زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا بلکہ اس نے سوویت یونین کوبڑھنے سے بھی روکا۔ ایسے واقعات بھی تاریخ کا حصہ ہیں کہ بہت سے یورپی ممالک اور اقوام آپس میں لڑتے رہے ہیں۔ لیکن یہ سب بیسویں صدی میں ہوا تھا جس میں انہوں نے ایک دوسرے کو بہت زیادہ نقصان پہنچایاتھا۔ اور پانچ سو سالہ دنیا کی حاکمیت ختم ہو گئی تھی۔ دنیا کی دو عظیم جنگوں کے پیچھے جرمنی کی بڑھتی ہوئی طاقت ہی تھی جس نے یورپ کو تقریباً تباہ و برباد کر دیاتھا اور جس نے دنیا کی دو نئی بڑی طاقتوں کو اس خلا کو پر کرنے کا راستہ دکھایا۔ نیٹو جس کی بنیاد ۱۹۴۹ء میں رکھی گئی تھی،جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیاجاچکاہے کہ نیٹو کے مقاصد میں ایک مقصد جرمنی کو زیر کرنا بھی تھا۔ جو کہ بنیادی طور پر صحیح تھا۔ جرمنی کو دوبارہ معاشی اور دفاعی طاقت کی اجازت دینے سے پہلے یقینا جرمنی پوری طرح زیر اثر تھا۔ یہ سب مل جل کر کیا گیا تھا۔ جس میں نیٹو اور بڑی یورپی اقتصادی یونین جو کہ بعد میں سیاسی یونین بھی بن گئی، شامل تھیں۔ امریکا نے کبھی بھی یورپی سیاسی اتحاد کے راستے میں مسائل پیدا نہیں کیے بلکہ اس نے چار دہائیوں تک یورپ کو آگے بڑھانے میں مدد فراہم کی تاکہ یورپ سوویت یونین کے خلاف ایک طاقتور اتحادی بن کر ابھرے۔
مغربی یورپ اور امریکا کے در میان مفادات کے تنازعات ۸۰ کی دہائی میں سامنے آئے۔ ۱۹۸۰ء کی ابتدا میں امریکا نے بے شمار یورپی پالیسیوں کو اپنے مفادات کے خلاف جانا اس لیے امریکا یورپ کے خلاف ان تنازعات کا سد باب کرنا چاہتا تھا۔ سرد جنگ کے اختتام تک امریکی اور یورپی افواج کی صلاحیتوں میں ایک واضح خلا پیدا ہوا۔ یورپی اور امریکی افواج بمشکل ہی اس قابل تھیں کہ وہ مل کر کسی بھی فوجی آپریشن کو جاری رکھ سکیتں۔ یہاں مسئلہ اگر صرف یورپی تحفظ کا ہوتا تو یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن اس خلا کو نظر انداز کر کے یورپیوں کی فوجی قوت اثر انداز ہو رہی تھی۔ کیونکہ بہت سارے امریکی یورپیوں کو فوجی تعاون میں بہت عرصے تک سنجیدگی سے نہیں لینا چاہتے تھے۔ وہ ان کو برابری کی بنیاد پر صرف اتحادی شراکت دار سمجھتے تھے۔ ان حالات میں کسی بھی مؤثر کردار کو روکنا یورپ کے لیے خاص کر امن و امان قائم رکھنا ان کے خطے سے باہر مشکل تھا۔ دوسری وجہ: نیٹو ہمیشہ ہی ایک فوجی اتحاد نہیں تھا بلکہ سیاسی اتحاد بھی تھا۔ جس کی بنیاد جمہوریت اور آزادی کی مشترکہ اقدار پر تھی۔ کیونکہ امریکی یورپی تعلقات میں مشترکہ اقدار ایک ضروری عنصر تھا۔ اور نیٹو سیاسی Consultation کے لیے ایک اہم چینل تھا جو کہ آج بھی باقی ہے۔ اور تیسری وجہ: دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ نے جو اپنی اقتصادیات کو بحال کیا اور کامیابی اور ترقی حاصل کی وہ پہلے تو امریکی امداد (مارشل پلان) کے ذریعے ممکن ہوئی اور پھر دوسرے اس تحفظ کی وجہ سے جو امریکی فوجی قوت نے یورپ کو نیٹو کے فریم ورک میں رہتے ہوئے فراہم کیا۔
نیٹو کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ نیٹو ممالک میں امریکا کا کردار سب سے اہم ہے۔ جو ۱۹۸۹ء میں کمیونزم کو شکست دینے کے بعد مزید واضح ہو گیا۔ امریکا نے یورپ کے ساتھ ساتھ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی نیٹو کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی کوشش کی۔ وہ کوشش چاہے بحالی امن کے لیے ہو یا جنگ بندی کے لیے یا پھر کسی ملک کو ’’آزاد‘‘ کرانے کے لیے۔
۱۹۸۹ء میں دیوار برلن کے منہدم ہوجانے اور اس کے بعد سوویت یونین کے خاتمے سے بین الاقوامی نقشے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو ئیں۔ جس نے مغربی یورپ کی ترجیحات کو ایک نئی شکل دی۔ اور اس کے انفرادی بین الاقوامی کردار اور بحیثیت سپر طاقت اس کے کردار کو نمایاں کیا۔ وقتاً فوقتاً بین الاقوامی نظام میں پیچیدگی بڑھتی گئی۔ اور بے شمار قسم کے چیلنج بڑھتے ہی چلے گئے اور یہ خصوصاً یورپ کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں پیدا ہوئے اور خاص طور سے تحفظ کو استحکام ملا۔ بین الاقوامی آرڈر کے باعث سیاسی اور اقتصادی تنازعات کوجلا ملی اور تحفظ انتظام کی ضرورت نا گزیر ہوئی جس کی وجہ سے اپنی اپنی فوجی طاقت کو مضبوط کیا جانے لگا اور اس کے باعث فوجی طاقت کے مقاصد نے ایک نئے چیلنج کو پروان چڑھا یا۔ اور جوابی حملے، دھمکانے اور ایک ساہ آرڈر کے ذریعے نہیں بلکہ حفاظتی تعلقات کے باعث فیصلے ہونے لگے۔
سرد جنگ کا خاتمہ اورنیٹو:
نیٹو کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بے شمار معاہدات تشکیل دیے گئے جو اپنے مقاصد حاصل کرنے یا نہ کرنے کے بعد اختتام پذیر ہو گئے۔ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نیٹو کے حوالے سے ایسی کوئی پیشگوئی نہیں کر سکتے۔ تاہم یہ اتحاد ایک طویل عرصے سے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بخیر و خوبی رواں دواں ہے۔
دیوار برلن کے منہدم ہونے اور مشرقی اور مغربی سرحدوں کے ایک ہوجانے کے ساتھ ہی یورپ میں ایک بڑی تبدیلی کی ابتدا ہو گئی۔ نیٹو ایک ایسی تنظیم ہے جو سرد جنگ کے بعد بھی اہمیت کے حامل ایک بین الاقوامی اتحاد کے طور پر جانی جاتی ہے۔
سرد جنگ کے ختم ہونے کے بعد کچھ عرصہ یہ بحث ضرور چلی کہ نیٹو کی اب ضرورت ہے کہ نہیں۔ مگر پھر ۱۹۹۰ء میں اسکاٹ لینڈ میں نیٹو کے وزراء خارجہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سابقہ برطانوی وزیر اعظم ماگریٹ تھیچر نے سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد نیٹو کی توجہ یورپ سے ہٹاتے ہوئے کہا کہ’’دنیا کے سلگتے ہوئے خطوں مثلاً مشرق وسطی میں موجود خطرات سے کامیابی سے نمٹنے کے لیے نیٹو کو اپنی توجہ مرکوز کر کے خود کو مضبوط کرنا چاہیے۔ وارسا پیکٹ کے خاتمے کے بعد نیٹو کو ختم کرنے کے بجائے اس کی افواج کو نیٹو کے علاقے یعنی یورپ اور بحیرہ اوقیانوس سے باہر استعمال کرنے کے لیے تیا ر رہنا چاہیے۔ کیونکہ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد دوسرے قسم کے خطرات جو کہ اسلامی جارحیت (Islamic Militancy) اور Non-State Actors سے اور مختلف علاقوں سے اٹھ سکتے ہیں،ان سے نپٹنا یورپ اور ان کی تہذیب کی بقا کے لیے بہت ضروری ہے‘‘۔ تھیچر نے جو تصورپیش کیا بعد میں نیٹو کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں زیر بحث لایا گیا۔
۱۹۹۱ء میں امریکا نے ٹرانس اٹلانٹک شراکت داری کو استحکام بخشا۔ خصوصاً تحفظ کے معاملات میں اعتماد بحال ہوا۔ امریکا نے یورپی انضمام کو تقویت بخشی اور نیٹو کے ذریے یورپ کے تحفظ کے معاملات احسن طریقے سے حل کیے۔ اس اتحا د نے ابتدائی سالوں میں بروقت فیصلوں کے ساتھ ساتھ بحرانوں پر قابو پانے کے لیے بھی کارکردگی کا مظاہر ہ کیا۔
موجودہ حالات میں اکثر روسی دانشور نیٹو کے مشرق کی جانب پھیلائو کے حقیقی مضمرات کا ادراک رکھتے ہیں۔ روس میں ’’غیر یقینی صورتحال‘‘ کی موجودگی کو نیٹو کے پھیلائو کا جواز بنانا کسی کوبھی قائل نہیں کرتا۔ ماضی میں سوویت یونین اور اس کی سرکردگی میں اشتراکی ممالک کے مضبوط فوجی بلاک معاہدہ وارسا کی موجودگی نیٹو کی مضبوطی کو بہر حال ایک جواز فراہم کرتی تھی۔ جبکہ آج کا کمزور روس فی الحال کسی مغربی طاقت کے لیے خطرہ نہیں۔ امریکا نیٹو میں قائدانہ حیثیت کا حامل ہے۔ اس لیے ہنری کسنجر نے ایک کتاب “Does America need a foreign policy” لکھ کر نیٹو کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
کمیونزم کے خاتمے کی وجہ سے مشرقی اور مغربی سرحدوں کا فرق مٹ گیا اور یورپی ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ سرد جنگ کے دوران دونوں اطراف کے یورپی ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی رنجشوں اور تنازعات کو ختم کر کے آپس میں دوستی، ہم آہنگی اور شراکت داری قائم ہونی چاہیے۔ اسی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے ’’نارتھ اٹلانٹک کو آرڈی نیشن‘‘ بنائی۔ اس گروپ میں وارسا پیکٹ کے رکن ممالک بھی شامل تھے۔ مثال کے طور پر البانیہ جو ایک کمیونسٹ ملک تھا۔ اس گرو پ میں شمولیت کاخواہش مند تھا۔ یہ اس بات کی غمازی ہے کہ یہ اتحا د انتہائی مشہور اور دلچسپی سے مزین تھا اور دیگر ممالک بھی اس میں شمولیت کے خواہش مندتھے۔ ان حالات نے یورپ کے اس اتحا دکو وسعت اور جلا بخشی۔ اور یہ پہلی دفعہ ایسا فورم ثابت ہو ا جس پر یورپ کے بیشتر ممالک متحد ہوئے اور ان کے درمیان شراکت داری کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی جس سے متحد یورپ میں ایک مضبوط اور مساوی تعاون کا آغاز ہوا۔ (۔۔۔جاری ہے!)
(بشکریہ: ششماہی ’’معارف مجلۂ تحقیق‘‘ کراچی۔ جنوری۔جون۲۰۱۱ء)
Leave a Reply