
نیٹو کے مقاصد سرد جنگ سے پہلے اور بعد، تقابلی جائزہ:
اگر ہم نیٹو کے قیام کے مقاصد کے پس منظر اور پیش منظر کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ روسی استعمار کے خاتمے کے بعد یورپ میں معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم نیٹو کے وجود کے جواز عدم جواز کی بحث جاری رہی۔ جیسے پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ یورپی ممالک کا یہ دفاعی اتحا د بنیادی طور پر روسی کیمونزم کے خلاف بنایا گیا تھا تا کہ ممکنہ روسی جارحیت کا موثر طور پر مقابلہ کیا جا سکے۔ ایک خفیہ مقصد جرمنی کے زوال کی نگرانی بھی تھا۔ روسی خطرے کے خاتمے سے اس دفاعی معاہدے کی حیثیت ختم ہو گئی اور دفاعی مبصرین نے نیٹو کے وجود کو غیر ضرور ی قرار دے دیا۔ لیکن پھر نیٹوکو عالمی سلامتی کے لیے ضروری خیال کیا گیا اور اسے مزید وسعت دی گئی۔
وارساپیکٹ کے خاتمے کے بعد نیٹو نے نئے سرے سے اپنی پا لیسیوں کو ترتیب دیا۔ اس نے ایک mutual force structure ترتیب دیا اور پھر وسطی اور مشرقی یورپ کے سابقہ وارساپیکٹ کے ممالک تک پہنچنے کا راستہ بنایا۔ جس پر عملدرآمد کے لیے جنوری ۱۹۹۶ء میں معاہدہ برسلز کے ذریعے Combine Joint Task Force (CJTF) بنائی۔ یہ وہ خیال تھا جو پہلے ہی معاہدے روم جو کہ نومبر ۱۹۹۱ء میں ہوا تھا، میں زیرِبحث لایا گیا تھا۔ یہ معاہد ہ بعد میں Partnership for Peace (PfP) میں اپنے عروج پر پہنچا۔
۱۹۸۹ء کے بعد نیٹو کے ارکان نے یہ فیصلہ کیا کہ نیٹو میں اضافی طورپر کچھ ایسی چیزوںکو شامل کیاجائے کہ نیٹو کے رکن ممالک کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے یورپی ممالک بھی ان سہولیات سے فائدہ اُٹھاسکیں۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل ہیوئیر سولانا کے خیال میں اب کمیونسٹ خطرہ ٹل چکاہے۔ لیکن اس اتحاد کوچاہیے کہ اب اسلام کے خطرے کے آگے ا پنے آپ کو تیار رکھے۔ اس کے بعد امریکا کے دبائو میںآکر اس بحث کا آغاز کیاگیاکہ بحرالکاہل جیسے نیوزی لینڈ اورآسٹریلیا میں اپنے تعلقات بڑھائے جائیں تاکہ دنیا میں جو لڑائی کے خطرات بڑھ رہے ہیں، ان میںاپناکردار ادا کیا جاسکے۔
ایک عام سیاسی سوچ کے لیے مغربی فوجی بلاک نیٹو کااس طرح کا ہمہ گیر پھیلائو کسی بھی طرح کے عقلی و اصولی جواز سے محروم ہے۔ کیونکہ در حقیقت ہم عصر دنیا میں نیٹو اپنی طرز کا واحد مضبوط فوجی بلاک رہ گیا ہے۔ اور دنیا بھر میں ریاستوں کا کوئی بھی فوجی گروپ یا علیحدہ عظیم طاقت نہیں ہے جو نیٹو کے خلاف کھڑی ہو سکے۔ نیٹو کی متحدہ فوجی طاقت اتنی زیادہ ہے کہ خود امریکا اور ا س کے اتحادی بھی بعض اوقات اس بلاک کے پاس موجود نیو کلیائی اسلحہ کی بعض اقسام میں کمی کی تجاویز دیتے رہتے ہیں۔ نیٹو اپنی نیوکلیائی حکمتِ عملی کی مناسب طریقے سے وضاحت نہ کرسکا۔ جس کی وجہ سے نیٹوکی نیوکلیائی حکمتِ عملی دراصل امریکی حکمتِ عملی سمجھی گئی۔
سرد جنگ کے بعد نیٹو نے یوگوسلاویہ اور کوسوو کے مسئلے پر کردار ادا کیا۔ امریکا نے سرب ٹھکانوں پر نیٹو کے حملوں کا یہ جواز پیش کیا کہ یہ حملے یورپ تک جنگ کے اثرات روکنے کے لیے کیے گئے۔ جبکہ ان حملوں کے بعد سرب فوج نے کوسوو پر مزید حملے اور مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ شروع کر دیا۔
دراصل سرد جنگ کے بعد یوگوسلاویہ کی جنگ نے یورپ کی فوجی کمزوری اور اس کے درمیان اختلافات کو مزید اجاگر کیا۔ ان کے پاس نیٹو سے مدد کی درخواست کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ جس پر اقوامِ متحدہ نے فیصلہ دیا کہ نیٹو اس کے مسلح نمائندے کے طور پر کا م کرے۔ کوسوو کی جنگ نے اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ امریکا نے مکمل طور پر اقوامِ متحدہ کے بغیر ہی یہ جنگ لڑنے کا فیصلہ کر لیا اور بلا شرکت غیرے نیٹو کے استعمال کی راہ اختیار کی۔ جس میں فرانس بھی شامل تھا۔ اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے بین الاقوامی ماہرین کے ذہن میں جو پہلاسوال ابھرتاہے وہ یہ کہ جب ا قوا م متحدہ جیسا ایک وسیع ادارہ موجود ہے تو پھر نیٹو تنظیم کی کیا ضرورت باقی ہے؟
نیٹو کا قیام ۱۹۴۹ء میں ہوا اور دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اقوام متحدہ کا ادارہ دوسری جنگ عظیم کے فوراََ بعد قائم ہوا۔ اس سے یہ پتا چلتاہے کہ نیٹو کے قیام سے پہلے ہی دنیا میں ایک ایسا ادارہ وجود میں آچکاتھا جوکہ بین الاقوامی تنازعات کو حل کرتااور عالمی طاقت کے توازن کو برقرار رکھتا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس تنظیم نے اپنے مقاصد کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اگر یہ تنظیم صحیح طورپر اپنے فرائض انجام دیتی تو کسی اور تنظیم کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ سرد جنگ کے بعد جب سے دنیا میں ایک طاقتی نظام وجو د میں آیا ہے، اقوام ِ متحدہ کا کردار کافی حدتک کم ہوگیاہے۔ اقوام متحدہ کی ناکامی کی وجہ اس کا حقِ تنسیخ (Veto Power) نظر آتا ہے۔ جن ممالک کو یہ حق حاصل ہے وہ اس تنظیم کو انصاف سے کام نہیں لینے دیتے۔ اقوام متحدہ اگر کسی مسئلے پر ایکشن لینے کا فیصلہ کرتی بھی ہے تو کوئی نہ کوئی ویٹوپاور اسے منسوخ کروادیتی ہے۔ یہاں پر’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘والا محاورہ صادق آتاہے۔ جس طرح نیٹومیں امریکا حاوی نظرآتاہے بالکل اسی طرح اقوام ِ متحدہ کے فیصلوں کا دارومدار بھی ا مریکہ پر ہوتاہے۔ اس کی بہترین مثال یہ ہے کہ سرد جنگ کے فوراََ بعد امریکا نے جب ۱۹۹۱ء عراق کے خلاف کارروائی کی، وہ بالکل غیر قانونی تھی۔ اس کاروائی کے لیے امریکا نے د وسرے نیٹورکن ممالک مثلاً فرانس، برطانیہ، جرمنی، ترکی اور یونان پر زور ڈالاکے وہ اس میں حصہ لیں۔ یہاں نیٹونے اپنے ا تحاد سے باہر کام کیا۔ نیٹو جسے کمیونزم کے خاتمے کے لیے سوویت یونین کے خلاف بنایاگیاتھا جبکہ عراق کمیونسٹ ملک نہیں تھااور نہ ہی وہ امریکا اور یورپی ممالک کے لیے خطرہ تھا۔ اس وقت امریکا نے نیٹو ممالک کے ساتھ مل کر ایک اتحاد بنایا مگر اس کو نیٹو کے آپریشن کے طور پر نہیں لیا گیا۔
یوں تو اقوام ِمتحدہ کے بہت سے ذیلی ادارے وجود میں آئے۔ لیکن خاص طور پر “UDHR” کا تذکرہ ضروری ہے۔ کیونکہ اس کا تعلق براہِ راست انسانی حقوق سے ہے Universal Declaration of Human Rights اقوامِ متحدہ کا ایک ایسا ادارہ ہے جس کی شقوں کے مطابق کسی بھی انسان کو چاہے وہ د نیا میں کہیں بھی ہو اس کا تعلق کسی بھی رنگ،مذہب،قوم یا زبان سے ہو، اسے تمام طرح کی قومی ا ٓزادی اور حقِ خود ارادیت حاصل ہوگا۔ اور اس ادارے کا مقصد دنیا میں آزادی،انصاف اور ا من کو قائم رکھنا ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ کیا اقوامِ متحدہ اپنے ہی بنائے ہوئے قواعدو ضوابط پر عمل پیراہے؟
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کیے جانے والے امریکی فیصلوں نے نیٹو کے دائرہ کار کو مزید وسیع کر دیا۔ اور یوں اس علاقے میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا جہاں نیٹو مداخلت کر سکتی تھی۔ اب سابق مشرقی بلاک کے ممالک بھی اس میں شامل ہو چکے ہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ صرف امریکا ہی ان ممالک کے تحفظ کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔
پولینڈ، چیک ریپبلک اورہنگری جوسابقہ وارساپیکٹ کے ارکان تھے، کہ نیٹو کے دائرے میں آتے ہی نیٹو نہ صرف اپنی ترجیحات اور ایجنڈے میں تبدیلی لایا ہے بلکہ اس نے ایک نئی اصطلاح کو بھی جنم دیا ہے جسے “Out of area opeation” کا نام دیاگیاہے۔ اس ا ٓپریشن سے نیٹو جو اب تک ایک براعظم تک محدود تھا، اب بین الاقوامی کھلاڑی کی حیثیت سے سامنے آیا، ا س طرح اس کے اراکین کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ جو ۱۹۴۹ء میں ۱۶ تھی وہ ۲۰۰۹ء میں ۲۸ ہوگئی۔ لیکن اس وسعت نے اس کی ذمہ داریوں کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ ۴؍اپریل ۲۰۰۹ء کو نیٹوکی ساٹھویں سالگرہ کے موقع پر یہ بات واضح ہوگئی کہ نیٹو کو اپنے اس پندرہ سالہ out of area operation کی وجہ سے اپنے نظریے میں جن میں نیٹو کو بین الاقوامی امور اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتاتھا، میں ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ خاص طور پر بلقان اور افغانستان میں۔
درج ِ ذیل میں ہم بلقان، پاکستان، افغانستان اور عراق میں نیٹوکی کاروائیوں کا جائزہ لیں گے۔
خطّہ بلقان میں نیٹو کی کارروائیاں:
یورپ کا قلب کہلانے والے خطے بلقان میں سرد جنگ ختم ہونے کے فوراََ بعد ہی ایک بڑی جنگ چھڑ جانے کے خطرات کے لیے خطّے میں موجود ہٹلر سلوبورین میلو سوک عظیم ترسربیا بنانے کے لیے خطے میں موجود دیگر قوتوں کو ختم کرنے کی سرگرمیوں میں مصروف عمل رہا۔ اس نے پہلے کروشیائوں کو مسلمانوں سے لڑایا۔ پھر ان دونوں کو کمزور کرکے ان کی نسل کشی کا عمل شروع کردیا۔ اس کی نسل کشی کی اس فہرست میں بوسنیا،مقدونیہ،البانیہ اور کوسووشامل تھے۔ اور یہ نسل پرستی ہی تھی جس نے ۱۹۹۲ء میں بوسنیا میں حالات خراب کرکے جنگ کا جواز پیداکیا۔ میلوسوک کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے کوسوو میں نفرتوں میں اضافہ ہوا۔ میلو سوک کی ان ظالمانہ کاروائیوں کو روکنے کے لیے امریکا اور نیٹو کو مداخلت کرنی پڑی۔
سب سے پہلے اس طوفان خیز خطّے کے مرکزی ملک بوسنیا پر نظر ڈالی جائے تویہاں سربوں کی کاروائیوں کے سلسلے میں اگست ۱۹۹۵ء میں ایک معاہدہ طے پایا جسے ’’ڈیٹن امن معاہدہ‘‘ کہاجاتاہے۔ یہ معاہد ہ امریکا کی قیادت میں کیاگیا اس معاہدے پر عمل در ا ٓمد کے لیے نیٹو کی ۶۰ ہزار افواج تعینات کی گئیں۔ یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ صرف نیٹو ہی امریکی قیادت میں امن قائم کرسکتی تھی۔ اس معاہدے کے بعد بوسنیا میں قیامِ امن کی امید بندھی تھی مگر بعد میںکچھ وجوہات کی بنا پر اس معاہدے پر عمل درآمد ہوسکا۔
نیٹو کے حوالے سے جب مقدونیہ پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاں بھی نسل کشی کا سلسلہ جاری تھا۔ ۱۹۹۵ء میں معاہدہ ڈیٹن کی منظوری کے بعد یہ سمجھا جانے لگا کہ امریکا کی موجودگی مستقل امن قائم کرنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔ لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا اور ۱۹۹۷ء میں یہ تنازعہ دوبارہ شروع ہوگیا۔ لیکن اس کے باوجود مقدونیہ کی حکومت کا مفاد نیٹو کی حمایت ہی سے وابستہ تھا۔ کیونکہ اس صورت میں اسے نیٹو کی رکنیت ملنے کا مطلب تھا کہ کم از کم اپنا وجود برقرار رکھا جاسکے۔ اسی طرح اگر کوسووپر نظر ڈالیں تو کوسوو کے البانوی نژاد مسلمانوں کے خلاف سربوںکی فوجی کاروائی کاآغاز ہوا۔ سربوں کی اس کارروائی کے جواب میں کوسوو کے مسلمانوں نے ایک عسکری تنظیم کوسود لبریشن آرمی (KLA) بنائی۔ تاکہ مسلما نوں پر ہونے والے مظالم کا جواب دیاجاسکے۔ ۱۹۹۸ء میں نیٹو اور امریکا نے اس فوج اور سربیا کے درمیان جنگ بندی کروادی۔ کوسوو کے البانوی مسلمانوں نے نیٹو اور امریکا کی یقین دہانیوں کے بعد امن سمجھوتہ قبول کرلیا۔ یہ قبولیت امن قائم رکھنے کے لیے ایک بہت بڑی پیش رفت تھی۔ سربوں نے ابتدائی مرحلے میں ہی حسب سابق امن معاہدے سے انحراف کیا اور اپنی کاروائیوں میں مزید شدّت پیدا کرلی۔ مارچ ۱۹۹۹ء میںجب سربوں نے سب کچھ تباہ وبرباد کردیا اور کوسوو پر ٹینکوں کی یلغار کردی تب نیٹو کو احساس ہوا کہ سرب مقررہ حد سے آگے نکل گئے ہیں۔ نیٹو کے ۴۰۰ خطرناک اور جدید جنگی جہازوں سمیت ۶ بحری جہازوں نے جو طیّاروں اور جدید اسلحے سے لیس تیار کھڑے تھے، سربوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے فضائی حملوں کاسلسلہ شروع کیا ان حملوں نے بظاہر سربیا کی معیشت کو تباہ وبرباد کردیا لیکن اس کے باوجود کوسوو کے مسلمانوں کی نسل کشی کرنے سے سربوں کو روکا نہیں جاسکا۔ بہرحال جون ۱۹۹۹ء میں البانیوں نے نیٹو کے مطالبات مان لیے اورنیٹو نے اپنے امن دستے کوسوو میں امن بحال کرنے کے لیے تعینات کر دیے۔
نیٹو کے حملوںکا مقصد کوسوو کے مسلمانوں کی نسل کشی روکنے یا اس کو خود مختار ی کی ضمانت دینے سے زیادہ یورپ کو تیسری جنگِ عظیم سے بچانے کی کوشش کرنا تھا۔ اب اگر اس کوشش کے نتیجے میںکوسوو کے مسلمانوں کو کچھ حاصل ہو جائے تو یہ بالکل دوسری بات ہے۔ یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ نیٹو نے خطے میں ا من قائم کیا۔ تاہم کوسوو کا آئینی معیار ابھی تک متزلزل ہے جو مزید مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔
افغانستان میں نیٹو کی کاروائیوں کا جائزہ:
افغانستان تین عشروں سے حالت جنگ میںہے۔ ۱۷اکتوبر ۲۰۱۰ کو نیٹو اور امریکا کو افغانستان میںآئے ہوئے ۱۰سال مکمل ہوگئے۔ دنیا کی طاقتور ترین افواج کی موجودگی میں نیٹو نے افغانستان میں کتنی کامیابی حاصل کی ہے یہ سب جانتے ہیں۔ اس دوران ایساف (ISAF) کی ز یر نگرانی دنیا کے پچاس ترقی یافتہ ممالک کی تقریباََ ایک لاکھ بیس ہزار افواج افغانستان میں لڑرہی ہیں۔ یہ نیٹواورامریکا کی تاریخ کی سب سے لمبی اور خطرناک جنگ ہے۔ یہ نیٹوکی ایشیا میں پہلی جنگ ہے مگر افسوس کہ اس کے نتائج کا غلط ا ندازہ لگایا گیا۔ ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۰ء نیٹو اور امریکی افواج کے لیے افغان جنگ کا سب سے خوفناک سال ثابت ہواہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ جون ۲۰۰۹ء کو افغانستان میں جاری جنگ کے دورانیے کا سب سے زیادہ نیٹوافواج کی اموات کامہینہ قرار دیاگیاہے۔ جس میں ۷۶ بین الاقوامی افواج کے ارکان مارے گئے۔ جن میں ا مریکیوں کی تعداد ۴۶ تھی اس کے بعد جولائی میں یہ تعداد ۷۵ تھی۔ اور اکتوبر میں ۵۹ تھی۔ ۲۰۰۹ء میں امریکی صدر اوباما نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اکیس ہزار اضافی فوجی افغانستان میں طالبان یلغار کے خاتمے اور القاعدہ کو شکست دینے کے لیے بھیجے۔
اگست ۲۰۰۹ء میں افغانستان میں امریکی ونیٹو افواج کے اعلیٰ کمانڈر جنرل اسٹنلے مک کرسٹل کے مطابق افغانستان میں بین الاقوامی کوششوں کو شدید ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ زیادہ تر افغان اب بھی اس علاقے کے استحکام کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن کسی موثر متبادل حکمت عملی کی غیر موجودگی میںطالبان جنوب اور مشرق کے بیشتر علاقوں پر پہلے ہی سے قابض ہوچکے ہیں۔ ایک بہتر حکمت عملی کے لیے جنرل کرسٹل نے غیر ملکی فوجوں کے رویے میں بڑی تبدیلیوں کے احکامات جاری کیے تاکہ انہیں مقامی آبادی میں احترام کا درجہ حاصل ہوسکے۔ ان کے مطابق اس تبدیلی اور پالیسی میں نرمی سے ممکنہ طورپر مغربی افواج کے جانی نقصانات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف امریکا اور یورپ میںرائے عامہ جنگ کے خلاف ہے۔ حکومتیں اس سچ کو قبول نہیں کرپارہی ہیں۔ چنانچہ افغانستان کے لیے آنے والے وقت میں اچھی امیدیں رکھنا بہت مشکل ہے جبکہ امریکی کمانڈر خود بھی غیر ضروری طور پر مایوسی کا شکار ہیں۔
عراق کے مسئلے پر نیٹو کا رد ّ عمل:
عراق کے مسئلے پر امریکا کو ہمیشہ ہی بہت زیادہ حساس دیکھا گیا ہے۔ مارچ ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکا کی چڑھائی کے ساتھ ہی امریکا اور نیٹو ارکان کے درمیان اختلافات کا سلسلہ شروع ہوا۔ عراق کے مسئلے پر نیٹو کے ردّعمل کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔ نیٹو کا عراق کے خلاف مہم میں کوئی کردار نہیں اس سے ظاہر ہے کہ نیٹو اس مسئلے کو ا مریکہ کی ذاتی جنگ سے تعبیر کرتاہے اور اس کے رکن ممالک اس جنگ کو اپنی جنگ نہیں سمجھتے۔ حالانکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نیٹو اپنے آرٹیکل نمبر۵ کے تحت امریکا کی مکمل مدد کا پابند ہے۔ اور اس کاثبوت افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف جنگ میں کثیر ملکی افواج کا حصہ لینا تھا۔ تاہم نیٹو نے عراق کے خلاف امریکی مہم جوئی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے الگ سمجھا۔
(بشکریہ: ششماہی ’’معارف مجلۂ تحقیق‘‘ کراچی۔ جنوری۔جون۲۰۱۱ء)
Leave a Reply