
پاکستان کے معروف اشتراکی دانشور پروفیسر سید جمال الدین نقوی کے اعترافات ایک اہم دستاویز کا درجہ رکھتے ہیں۔ دائیں اور بائیں بازو والے “Leaving the Left Behind” کو بھرپور دلچسپی سے پڑھیں گے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ رکھنے والے پروفیسر جمال الدین نقوی کے اعترافات کو سوشلزم اور اشتراکیت پر بھرپور تنقید کے تناظر میں پڑھیں گے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے دانشور کی طرف سے ہے جو کبھی خود کو سُرخوں میں سُرخ ترین قرار دینے سے نہیں کتراتا تھا۔ اور جو کچھ بھی لکھا گیا ہے وہ رضاکارانہ شہادت کا درجہ رکھتا ہے۔ پاکستان میں بائیں بازو کی سوچ کے حامی اس کتاب کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ انہیں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور ان سے نمٹنے کے لیے کیا کرنا لازم ہے۔
سیاسی اور فکری حلقوں میں یہ کتاب چند ایک تنازعات کو جنم دینے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی شخصیت کے امیج کو اُبھارے گی، جو سیاسی کیریئر کے اختتامی مراحل میں شکست و ریخت سے دوچار ہوگیا۔ جمال نقوی یکے بعد دیگرے جن پیچیدگیوں کا شکار ہوئے، ان کی بنیاد پر اُن سے ہمدردی نہ رکھنا کسی بھی پڑھنے والے کے لیے ممکن نہ ہوگا۔
پروفیسر جمال نقوی کی کتاب کا آغاز خاندانی پس منظر سے ہوتا ہے۔ یہ پس منظر علم و ثقافت کے حوالے سے کامیابیوں کا ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانے مغرب سے اثرات قبول کرنے کے معاملے میں ملک کے کم مراعات یافتہ خاندانوں سے ایک قدم آگے تھے اور اِنہی کے درمیان مصنف کو کام کرنا تھا۔ ۱۹۵۰ء کی دہائی کے دوران جمہوریت کے لیے تحریک چلانے والے طالب علم رہنماؤں کی جدوجہد سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ ان میں ڈاکٹر سرور نمایاں تھے۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں پروفیسر کرار حسین سے محمد حسن عسکری تک اہل علم کی جدوجہد کا اندازہ ہوتا ہے جو ملک میں تعلیم کو بامعنی اور بامقصد بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کرتے رہے تھے۔
اس کتاب کے مطالعے سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے پاکستان کمیونسٹ پارٹی میں کس طور شمولیت اختیار کی، پھر اس کی دس رکنی کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے اور آخر میں چار رکنی پولٹ بیورو کے بھی رکن بنے۔ ساتھ ہی ہمیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کس طور پہلے ان پر بھینس چرانے کا مقدمہ قائم کیا گیا اور اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کا تختہ الٹنے کا۔ کتاب کے اس حصے کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے بائیں بازو کی تحریک کو کچلنے کے لیے کس طور تمام قوانین کو پامال کیا اور اپنے جابرانہ اقتدار کی خرابیوں کو چھپانے کے لیے کس طور قوانین کو استعمال کیا۔
جمال نقوی نے فیصلہ سازی کے حوالے سے اپنے کردار کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بنیادی طور پر پارٹی کے فیصلہ ساز نہیں تھے مگر بعض حالات میں انہیں ایسا کرنا پڑتا تھا۔ ایک موقع پر پولٹ بیورو کے رکن نذیر عباسی قتل کر دیے گئے، جام ساقی جیل میں تھے اور امام علی نازش بیرون ملک۔ ایسے میں تمام معاملات کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر آن پڑی۔ ایسے میں انہیں پارٹی کی پالیسی کا تعین بھی کرنا پڑا اور ساتھیوں کی رہنمائی بھی۔ چند ساتھیوں کا انہوں نے قدرے اجنبی کی حیثیت سے ذکر کیا ہے۔
جمال نقوی نے بتایا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان نے ماسکو سے ہدایت کے باوجود ۱۹۷۷ء تک ذوالفقار علی بھٹو کی حمایت نہیں کی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں پارٹی کی پالیسی لازمی طور پر سوویت یونین میں پارٹی کی پالیسی سے ہم آہنگ نہیں تھی۔ صاف گوئی کے معاملے میں جمال نقوی کو داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے کردار کے حوالے سے ابہام دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
جمال نقوی نے کمیونسٹ پارٹی کے انڈر گراؤنڈ رہتے ہوئے کام کرنے کی وجوہ بھی بیان کی ہیں۔ انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے بینر تلے کام کرنے کی ستائش کی ہے مگر ساتھ ہی نیپ پر پابندی کے بعد شیر باز خان مزاری کی طرف سے قائم کی جانے والی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں ایم آر حسن کی شمولیت پر تنقید کی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے نیپ سے ٹوٹ کر الگ ہونے والے دھڑے پاکستان نیشنل پارٹی میں ساتھیوں کی شمولیت کو بھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔ اس حصے کی توضیح ناگزیر ہے (جو شاید اگلے ایڈیشن میں ممکن ہو) کیونکہ نیپ سندھ کے صدر عزیز اللہ شیخ نے شکایت کی ہے کہ کمیونسٹ پارٹی انہیں مطلع کیے بغیر نیپ کے کور میں کام کر رہی تھی۔ جمال نقوی نے عزیزاللہ شیخ کی یادداشتوں کا بھی نوٹس لیا ہے جو انہوں نے جمال نقوی ہی کے ایک ساتھی حمیر اشتیاق کی مدد سے لکھی ہیں۔ ایک چھوٹے نکتے پر جمال نقوی نے جام ساقی کا دفاع کیا ہے۔
جمال نقوی نے اشتراکیت کے فلسفے اور نظریے کو ترک کرنے کا سبب بھی بیان کیا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ سابق سوویت یونین کے پندرہ روزہ دورے میں انہوں نے دیکھا کہ سوویت عوام تو پاکستانیوں سے بھی زیادہ کچلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ اشتراکیت کے نظریے میں بہت سی خامیاں ہیں اور یہ کہ اشتراکی انقلاب بھی مسائل اور دکھوں سے نجات کی ضمانت نہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو جمال نقوی کو بزرگانہ حیثیت میں کچھ دے سکتا ہو۔ بیشتر ساتھیوں نے ان پر غیر لچکدار ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ جمال نقوی نے فیض احمد فیضؔ، سید سبطِ حسن اور غوث بخش بزنجو کو بہت سی خوبیوں پر سراہا ہے مگر خیر، اشتراکیت کے فہم کے معاملے میں نہیں۔ سید سبطِ حسن نے کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت کی بحالی سے انکار کر دیا تھا اور ہمیں اس کی وجوہ بیان نہیں کی گئیں۔ نظریے کے معاملے میں جمال نقوی خاصے جارحانہ موڈ میں دکھائی دیتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ معاشروں میں محنت کشوں کو اشتراکی معاشروں سے زیادہ فوائد کے ملنے پر بحث کرنے کے بعد انہوں نے سوویت اشتراکیت پر بحث کی ہے۔ انہوں نے مالدار کسان کے تصور سے نجات پانے کے لینن کے نظریے کو بھی خامیوں سے بھرا ہوا پایا۔ انہیں اس بات پر بھی حیرت ہے کہ عوام کی پارٹی پر محنت کشوں کی پارٹی کو ترجیح کیوں دی گئی۔ انہوں نے فاضل قدر کو محنت کشوں کا حق قرار دینے کے تصور کی بھی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ سرمایہ دار عمارت، مشینری، بنیادی سہولتیں اور خام مال فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کو اجرت بھی فراہم کرتا ہے تو منافع میں بڑا حصہ اُسی کا ہونا چاہیے۔ یہ امر ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے کہ چھوٹے اور تنگ ذہن اشتراکیت کی تشریح کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔
جمال نقوی نے اپنے آپ سے یہ بھی کہتے ہوئے زیادتی کی ہے کہ ان کی زندگی صریح ضیاع کی شکل رہی۔ امید ہے کہ وہ کسی بھی ذاتی خواہش کی تکمیل میں ناکامی کا ذکر نہیں کر رہے،
کیونکہ وہ زندگی بھر ایک عظیم تر مقصد کے لیے متحرک رہے۔ حکمرانوں کے استبدادی ہتھکنڈوں کے باوجود پاکستان میں بائیں بازو کے لوگوں نے بہت سے مقاصد میں کامیابی حاصل کی ہے۔ جمہوریت کو پروان چڑھانے، بنیادی حقوق اور بالخصوص خواتین اور اقلیتوں کے حقوق، فیڈرل ازم اور دیگر مقاصد کا حصول بہت حد تک ممکن ہوسکا ہے۔ جمال نقوی نے اپنے گھرانے کے لیے بھی بہت بنیادی نوعیت کا کردار ادا کیا ہے۔ نذیر عباسی، حسن ناصر اور پارٹی کے دیگر جاں نثار قسم کے کارکن ایسی کامیابی کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
اگلے ایڈیشن میں جمال نقوی کو وضاحت کرنی چاہیے کہ دائیں یا بائیں بازو کی سیاست کو صحیح یا غلط کی نہج پر لے جانا کیوں ضروری ہے۔ بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ افراد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح یعنی عدم مساوات کے خاتمے کے لیے اور غلط یعنی کچلے ہوئے طبقات کے استحصال کے استیصال کے لیے کام کر رہے ہیں۔
پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کے حوالے سے کم ہی لکھا گیا ہے، اس لیے پرفیسر جمال نقوی کے رشحاتِ قلم کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ اگر لکھنے کا سلسلہ شروع ہو تو کہا جاسکے گا کہ جمال نقوی نے اپنے ساتھیوں کی اچھی خدمت کی۔ انہیں یہ جاننے کا حق تو حاصل ہے ہی کہ مدتوں ان کے ساتھ کس نے کیا کیا۔
[تبصرہ نگار ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل ہیں۔]
“Confessions of a Pakistani communist”.
(Daily “Dawn” Karachi. April 13, 2014)
Leave a Reply