بنی اسرائیل کی سنگدلی کا تذکرہ
ترجمہ: ’’پھر تمھارے دل سخت ہو گئے پتھر کی طرح یا اس سے بھی زیادہ سخت‘‘۔
دل میں ’’قسوت‘‘ سے مراد پتھر جیسی سختی ہے، اس آیت میں لفظ ’’او‘‘ (جس کا ترجمہ ’’یا‘‘ کیا جاتا ہے) ’’بل‘‘۔۔۔ بلکہ۔۔۔ کے معنے میں ذکر ہوا ہے (کیونکہ یہ مقام ہی ’’بلکہ‘‘ کے استعمال کا ہے)۔
اس آیت میں خداوند عالم نے بنی اسرائیل کے دلوں کی سختی (ان کے سنگدل ہونے) کو بیان کرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایاِ ترجمہ: ’’کچھ پتھر ایسے ہوتے ہیں کہ ان سے نہریں پھوٹ پڑتی ہیں‘‘۔ اس میں پتھر اور پانی کا تقابلی تذکرہ نہایت خوبصورت انداز میں کیا گیا ہے کیونکہ عام طور پر سخت چیز کو پتھر کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے جبکہ نرم چیز کی مثال پانی سے دی جاتی ہے گویا خداوندِ عالم نے بنی اسرائیل کی سنگدلی اور قساوتِ قلب کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ پتھر کی تمام تر سختی کے باوجود جب اسے توڑا جائے تو اس سے پانی کی نہریں جاری ہوتی ہیں جبکہ پانی کی نرمی اور پتھر کی سختی دو مدمقابل چیزیں ہیں تاہم ان کے درمیان بھی کسی قدر قرب پایا جاتا ہے لیکن بنی اسرائیل کے دل اس قدر سخت ہیں کہ ان میں حق کی کوئی صورت اور کسی حق بات اور حقیقی کمال سے ہم آہنگ ہونے کی کیفیت ہی نہیں پائی جاتی، (ان کے دل حق سے اس قدر دور ہیں کہ وہ کوئی حق بات تسلیم ہی نہیں کرتے)۔
خشیتِ الٰہی کا حوالہ
ترجمہ: ’’اور کچھ پتھر ایسے ہیں جو خوفِ الٰہی سے گر پڑتے ہیں‘‘۔
اس آیتِ مبارکہ میں پتھروں کے گرنے کا سبب خشیت و خوفِ الٰہی ذکر کیا گیا۔
’’ہبوط‘‘ یعنی پتھروں کے گر پڑنے سے مراد چٹانوں اور پہاڑوں کی چوٹیوں کا ریزہ ریزہ ہونا ہے کہ جو زلزلوں کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرتے ہیں اور سخت سردیوں کے بعد موسم بہار میں برف کے تودے پگھل کر پانی بن کر بہہ جاتے ہیں، خداوندِ عالم نے ان کے اپنے طبیعی اسباب کی وجہ سے اس طرح گر پڑنے کو خشیت و خوفِ الٰہی کے سبب گرنے سے تعبیر کیا ہے کیونکہ وہی تمام اسباب کا منتہا ہے (سب اسباب اسی کے ایجاد کردہ اور اسی کی قدرت و اختیار میں ہیں) لہٰذا پتھروں کا اپنے مخصوص اسباب سے گر پڑنا درحقیقت ان کا خدا کے امر و حکم کی عملی اطاعت سے عبارت ہے کیونکہ ان میں تکوینی و تخلیقی طور پر اپنے پروردگار کے احکامات کو سمجھنے کی صلاحیت موجود ہے اور ان کا تخلیقی شعور ہی اس امر کا سبب بنتا ہے کہ وہ خدا کے فرمان پر ریزہ ریزہ ہو کر گر پڑتے ہیں، ان کے اس تخلیقی شعور کا ذکر خداوندِ عالم نے اس طرح فرمایا:
سورۂ اسریٰ آیت۴۴:
ترجمہ: ’’کوئی چیز ایسی نہیں جو خدا کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بجا نہ لاتی ہو لیکن تم ان کے تسبیح کرنے کو نہیں سمجھ سکتے‘‘۔
سورۂ بقرہ آیت۱۱۶:
ترجمہ: ’’۔۔۔سب اس کی عبادت میں مصروف ہیں‘‘۔
پس حکمِ الٰہی کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے اس کی عملی اطاعت (شعوری انفعال) کا نام ہی ’’خشیتِ الٰہی‘‘ ہے کہ جس کے سبب پتھر گر پڑتے ہیں، لہٰذا زیرِ بحث آیتِ شریفہ درج ذیل آیات کے مانند ہے:
سورۂ رعد، آیت۱۳:
ترجمہ: ’’اور بجلی کی گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتی ہے اور فرشتے خوفِ الٰہی سے اس کی تسبیح کرتے ہیں‘‘۔
سورۂ رعد، آیت۱۵:
ترجمہ: ’’آسمانوں اور زمین میں رہنے والے سب لوگ چاہتے ہوئے اور نہ چاہتے ہوئے دونوں صورتوں میں خدا کے لیے سجدہ کرتے ہیں یہاں تک کہ ان کے سائے بھی صبح و شام بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہوتے ہیں‘‘۔
ان آیتوں میں آسمانی بجلی کے کڑکنے کی آواز کو حمدِ الٰہی کے ساتھ تسبیح کرنے کا نام دیا گیا ہے اور سایوں کو خدا کے حضور سجدہ ریز کہا گیا ہے، اسی طرح دیگر آیات میں بھی تجزیہ و تحلیل کے ساتھ اس مطلب کو بیان کیا گیا ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ زیرِ بحث آیتِ مبارکہ کا جملہ ’’وَ اِنَّ مِنْہَا لَمَا یَہْبِطُ‘‘ بنی اسرائیل کی سنگدلی کی بابت دوسرا بیان ہے جو اس امر کو ثابت کر رہا ہے کہ ان کے دل پتھر بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہیں کیونکہ پتھروں میں خشیت و خوفِ الٰہی پایا جاتا ہے اور وہ خوفِ خدا سے گر پڑتے ہیں لیکن ان لوگوں کے دلوں میں خشیت و خوفِ الٰہی نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔
(بحوالہ ترجمہ ’’المیزان فی تفسیر القرآن‘‘)
Leave a Reply