
کھلا تنازع، خاموش معاہدہ یا پھر شراکت داری؟ جیسے جیسے لیبیا کے مرکزی شہر ’’سرت‘‘ پر کنٹرول کی جنگ آگے بڑھے گی، مصر اور لیبیا ان تینوں آپشنز میں سے کسی ایک کو اختیار کریں گے۔
گزشتہ برس بھی لیبیا ایک ’’پراکسی‘‘ جنگ کے بالکل قریب تھا، جس میں ایک طرف انقرہ تھا تو دوسری طرف مصر، متحدہ عرب امارات اور روس۔
ترک حمایت یافتہ Government of National Accord (GNA) کے ہاتھوں خلیفہ ہفتار کے تریپولی پر حملے کی ناکامی نے مصر کو ازسرنو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس سے پہلے مصر خلیفہ ہفتار کو لیبیا کا ’’سیسی‘‘ بنانے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔
GNA کی مستقل پیش قدمی نے مصری صدر کو جارحانہ پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ انھوں نے وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ تزویراتی شہر ’’سرت‘‘ اور ’’جفرہ کا ہوائی اڈہ‘‘ قاہرہ کے لیے سرخ لکیر کی حیثیت رکھتا ہے۔
مصر کے صدر سیسی نے لیبیا کے قبائلیوں کی ایک محفل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’مصر لیبیا کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہتا تھا اور وہ اس مسئلے کے سیاسی حل کی حمایت کرتا تھا، لیکن اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے‘‘۔
’’اگر لیبیا کے عوام ہم سے مدا خلت کی اپیل کرتے ہیں تو یہ بات دنیا کے لیے اشارہ ہے کہ مصر اور لیبیا ایک ہی ملک ہیں اور ان کے مفاد یکساں‘‘۔ اگرچہ یہ بیان نہایت ہی جارحانہ تھا تاہم بہت سے مبصرین نے اسے مصر کے وزیر خارجہ کی پالیسی کا تسلسل ہی قرار دیا ہے۔ مصری وزیر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’صدر کی تقریر کو اعلان جنگ کے معنی دینا غلط ہو گا۔ اس کے علاوہ ترکی نے بھی لیبیا میں موجودشامی ملیشیا اور امریکی حمایت یافتہ مصری فوج سے کسی بھی قسم کی جنگ کے امکان کو مسترد کیا ہے۔ترک حکام نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’مڈل ایسٹ آئی‘‘کو بتایا کہ مصر کی دھمکیوں میں کوئی سنجیدگی نہیں لگتی کیوں کہ مصر پہلے ہی ہفتا ر کی ہر ممکن مدد کر رہا ہے۔
یہ بیان GNA کو جنگ بندی قبول کروانے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے دیا گیا ہے، جسے روسی حمایت بھی حاصل ہے۔ہمیں نہیں معلوم کہ مصر لیبیامیں اپنی مداخلت کو مزید بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اسی طرح انقرہ میں واقع تھنک ٹینک کے ماہر Murat Yesiltas نے بھی سیسی کے بیان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے سیسی کے بیانات حقیقت پسندانہ معلوم نہیں ہوتے، یہ بیانات انھوں نے دباؤ بڑھانے کے لیے دیے ہیں نہ کہ وہ واقعی ہی فوجی استعمال کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘
Murat Yesiltas کا کہنا ہے کہ ’’سرت‘‘اور مصر کے درمیان ۸۰۰ کلو میٹر کا فاصلہ ہے جو کہ مصری فوج کی مداخلت کو تقریباً ناممکن بناتا ہے۔ ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ مصر کی سلامتی کو پہلے ہی دو خطرات لاحق ہیں،پہلا جزیرہ نما سینا میں داعش کے حملوں کا خطرہ اور دوسرا ایتھوپیاکی جانب سے Grand Renaissance Dam کی بھرائی کا منصوبہ جس سے دریائے نیل سے مصر کو ملنے والے پانی کے تناسب میں خاصی کمی واقع ہو گی۔
بحیرہ روم میں گیس کی سیاست
اگرچہ کھلی جنگ کے امکانات کم ہیں تاہم بحیرہ روم کے خطے میں ایسے باہمی مفادات موجود ہیں، جو انقرہ اور قاہرہ کو قریب لانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ترکی اور GNA نے نومبر میں ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت مشرقی بحیرہ روم کے ایک حصے کو اسپیشل اکنامک زون میں شامل کر دیا گیا۔
مشرق وسطیٰ کے سیاسی تجزیہ نگار خالد فواو کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ مصر کے لیے دو نئی راہیں کھولنے کا باعث بن سکتا ہے۔ پہلی یہ کہ اس معاہدے کے ذریعے EastMed گیس پائپ لانے کو روکا جا سکے گا، اس پائپ لائن کے ذریعے اسرائیلی گیس کو قبرص اور یونان کے راستے یورپ پہنچایا جانا تھا، اگر یہ پائپ لائن مکمل ہو جاتی تو مصر کو جغرافیائی و سیاسی اور معاشی خطرات کا سامنا کرنا پڑتا۔کیوں کہ مصر کے دو شہروں میں پہلے ہی سے گیس برآمد کرنے کے حوالے سے تمام انفرااسٹرکچر موجود ہے،اگر EastMed گیس پائپ لائن مکمل ہو جاتی ہے تو مصر کو گیس کی یورپ برآمدگی میں شدید نقصان اٹھانا پڑے گا۔
ویسے تو اس گیس پائپ لائن کے حوالے سے پہلے ہی کافی شکوک و شبہات موجود تھے،ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پائپ لائن کے قابل عمل ہونے کے حوالے سے سوالات موجود تھے،کیوں کہ اس گیس پائپ لائن سے جتنی مہنگی گیس ملنی تھی اس سے کہیں کم قیمت پر قطر اور روس یورپ کو گیس فراہم کر رہے ہیں۔ترکی اور GNA کے اس معاہدے سے اس پائپ لائن کا روٹ بھی تبدیل ہو گا،کیوں کہ ترکی اور لیبیا کی مشترکہ ساحلی پٹی سے اس کا گزرنا ممکن نہیں ہوگا۔
تجزیہ نگار فواد کا کہنا ہے کہ اسی طرح ایک اور معاہدہ یونان کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے جس پر قاہرہ سے بات چیت جاری ہے، لیکن اس معاہدے سے قاہرہ سے زیادہ یونان کو فائدہ ہونا ہے۔ اس معاہدے سے یونان کو اسپیشل اکنامک زون میں مزید جگہ مل جائے گی، جب کہ دوسری جانب قاہرہ کو اضافی پانی بھی ملے گا۔
تجزیہ نگار فواد کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۳ء میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں سیسی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے مصری حکومت کی سیاسی ترجیحات کا تعین ملکی مفادات سے نہیں ہوتا بلکہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے علاقائی اتحاد کو سامنے رکھ کر کیا جا تا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اپنے اقتدار کے آغاز میں سیسی نے مختلف علاقائی اورعالمی اتحاد میں شامل ہونے کی کوشش کی تاکہ انھیں کچھ قانونی حمایت حاصل ہو سکے،کیوں کہ داخلی طور پر ان کے اقتدار کو آئینی اور قانونی جواز تلاش کرنے میں شدید مزاحمت کا سامنا تھا۔
ان نئے اتحادیوں نے سیسی کی حکومت پر کئی فیصلے مسلط کیے۔ملکی مفادات اورلوگوں کے مطالبات ماننے کے بجائے انھوں نے اپنی حکمرانی کوقانونی جواز فراہم کرنے کے لیے ان ممالک کے فیصلوں کو قبول کیا۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سیسی کبھی بھی ترکی کے ساتھ دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھا سکتے کیوں کہ ان پر اتحادیوں کی جانب سے کچھ پابندیاں ہیں اور یہی وہ اتحادی ہیں جو ان کے اقتدارکو برقرار رکھنے کا باعث ہیں۔
بڑھتی ہوئی کشیدگی
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی تجزیہ نگار Claudia Gazzini کا کہنا ہے کہ ترکی اور مصر کے مابین مذاکرات دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہیں۔اگر ترکی قاہرہ کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو درحقیقت اس سے مصر کو زیادہ فائدہ ہو گا کیوں کہ بحیرہ روم کا مزید حصہ اس کے زیر اثر آجائے گا۔
تاہم لیبیا میں انقرہ کی بڑھتی ہوئی جارحیت مصر کے لیے خطرے کا باعث بن رہی ہے۔ہمارا جو تجزیہ تھا ترکی اس سے کہیں زیادہ جارحیت دکھا رہا ہے۔ترکی کی حد سے بڑھ کر GNA کی حمایت کا بنیادی مقصد بحیرہ روم کے اکنامک زون کی سرحدوں کو اپنی مرضی کے مطابق وسعت دینا ہے۔
Claudia Gazzini کا کہنا ہے کہ ترکی چاہتا ہے کہ GNA لیبیا کی تیل برآمدگی پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے اور اس کا بالواسطہ فائدہ ترکی کو ہو، یعنی تریپولی کے اکنامک زون میں اس کی گرفت مضبوط ہو جائے۔ یہ بھی ابھی واضح نہیں ہے کہ کیا سیسی واقعی ہفتار کو چھوڑنے والے ہیں۔اپریل ۲۰۱۹ء میں جب مشرقی کمانڈ نے تریپولی پر چڑھائی کی تو مصر نے بڑے پیمانے پر ہفتار کی مدد کی تھی تاکہ وہ ان کی پیش قدمی کو روک سکے۔
مصر شائد ترکی سے بات چیت پر تو راضی ہو جائے لیکن وہ کسی صورت یہ نہیں چاہے گا کہ ترکی مشرق کی جانب مزید پیش قدمی کرے،مصر کی خواہش ہے کہ لیبیا میں بھی ایک سیسی حکومت کرے، جو کہ مصر کے مفادات کو پورا کرتا رہے۔
دوسری جانب ترکی مصر سے دوستی اور شراکت داری کا کوئی خاص خواہش مند نہیں ہے۔انقرہ میں سیسی کو اب بھی ایک آمر کے طور پر لیا جا تا ہے۔اس لیے یہ بہت مشکل ہو گا کہ دونوں ممالک کے تعلقات بہتری کی جانب بڑھیں۔
توانائی کے معاملے میں کسی بھی قسم کی شراکت داری سے پہلے ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں بہتری آئے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Conflict, partnership, stalemate: Egypt and Turkey’s Libya options”.(“middleeasteye.net”. June 24, 2020)
Leave a Reply