اگر آپ عراق سے اچھی خبروں کے منتظر ہیں تو ٹمٹماتی ہوئی اُمیدیں ہیں۔ گذشتہ ہفتے امریکی افواج نے عراقی حکومت کے اشتراک سے قدرے پھرتی اور صفائی کے ساتھ کارروائی کرتے ہوئے سمرہ پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا۔ وہ شہر جو امریکا مخالف مزاحمت کاروں کے زیرِ اقتدار تھا اب عراقی حکومت کے ہاتھوں میں ہے۔ امریکی افسران امید کرتے ہیں کہ سنی علاقوں میں یہ استحکام کا آغاز ہے۔ لیکن اس مہم کا موثر ہونا جس اہم ترین بات پر منحصر ہے وہ جنگ کے بعد کی کارروائیاں ہیں۔ امریکی افواج کو عراقی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے تاکہ سمرہ میں استحکام اور قانون پر عمل داری کی فضا پیدا ہو نیز معیشت کی تعمیرِ نو آغاز ہی میں ایک اچھی جست لگا سکے۔ یاد کیجیے کہ عراق امریکی حملہ قدرے تیز رفتاری اور صفائی سے کیا گیا تھا لیکن محض جنگ کے بعد کی کارروائیوں نے ان سب پر پانی پھیر دیا۔ پال بریمر نے اب اس بات کا اعتراف کیا ہے جو بہتوں کے سامنے بغداد کے سوقط کے ایک ہفتہ بعد ہی واضح ہو چکی تھی۔ انہوں نے ایک کانفرنس میں کہا کہ ’’ہمارے پاس بہت زیادہ فوجیں نہیں تھیں‘‘۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں مزید افواج کی ضرورت پر اصرار کرنا چاہیے تھا۔ سینئر افسران جو پال بریمر کے ساتھ اس وقت کام کر رہے تھے‘ نے مجھ سے کہا کہ پنٹاگون کی سویلین قیادت مزید فوج بھیجے جانے کی سخت مخالف تھی اور اس بات کی اجازت دینے کی ہرگز روادار نہ تھی کہ عراق میں موجود امریکی افواج پولیس کے فرائض انجام دے۔ اس سے اس امر کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ کیوں امریکی افواج نے وسیع الاطراف لوٹ مار کو روکنے کی کوشش نہیں کی اور پُرخطر مقامات پر موجود اسلحوں کے ذخائر کو اپنی تحویل میں لینے میں ناکام رہی۔ (اسی طرح امریکی افواج کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ وہ افغانستان میں روز افزوں منشیات کے کاروبار کو رکے)۔
بریمر نے غاصبانہ قبضے کی دوسری اہم غلطی کی نشاندہی نہیں کی۔ امریکا عراق میں حب الوطنی کے شدید احساسات کا بھی اندازہ لگانے سے قاصر رہا جو بعد میں امریکا دشمنی جذبات میں تبدیل ہو گئے۔ نتیجتاً امریکا مزاحمت کے ظہور کا پہلے سے ادراک نہ کر سکا اور جب مزاحمت سامنے آئی تو واشنگٹن مزاحمت کاروں کی طاقت اور ان کی مقبولیت کا صحیح اندازہ نہ لگا سکا۔ ڈونالڈ رمز فیلڈ نے بہ تکرار انہیں چند ’’جمود زدہ یا قنوطیت زدہ لوگوں‘‘ (A few dead-enders) سے تعبیر کیا۔ اس اطمینان کے بعد کہ عراقی عوام امریکا کا بطور نجات دہندہ استقبال کریں گے‘ امریکی انتظامیہ کسی مزاحمت کے امکان کو معدوم قرار دینے پر بضد رہی اور کہتی رہی کہ بیرونی جنگجو اصل مجرم ہیں اور یہ کہ چھاپہ مار کارروائی کرنے والے سبھی ’’دہشت گرد‘‘ ہیں۔ حقیقت کا غلط اندازہ لگانے‘ کہ نظریاتی پیمانے میں درست بیٹھ جائے‘ کا رجحان اب بھی باقی ہے۔ صرف دو ہفتے قبل صدر بش نے عراق کو ایک ایسا ملک قرار دیا جو جمہوریت کی راہ پر گامزن ہے اور ’’جسے مٹھی بھر دہشت گردوں‘‘ کی مخالفت کا سامنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۵ ہزار مزاحمت کار جو عراق کی جیلوں میں بند ہیں‘ ان میں غیرملکیوں کی تعداد صرف ۳ سو ہے۔ جنرل جان ابی زید جو سینٹرل کمانڈ کے سربراہ ہیں‘ کا کہنا ہے کہ ’’یہ کہنا درست نہیں ہے کہ غیرملکی جنگجوئوں کا ایک سیلاب ہے جو اندرونِ عراق امڈ آیا ہے‘‘۔ جنگ کے بعد کے عراق کے لیے واشنگٹن کا اس طرح کا منصوبہ دراصل جنگِ عظیم دوم کے بعد جرمنی کے قبضے کے منصوبوں کے نقشے پر تیار کیا گیا ہے۔ لیکن جرمنی اور جاپان انتہائی غیرمعمولی مثالیں ہیں۔ انہوں نے اپنے تمام ہمسایوں کے خلاف ایک جارحانہ جنگ چھیڑ رکھی تھی۔ یہ مکمل طور سے شکست کھا گئے اور دنیا کی نظر میں یہ اپنی قانونی حیثیت کھو بیٹھے۔ ان فیصلوں کے ساتھ جس غالب رجحان کو دنیا کے اطراف میں پذیرائی حاصل ہوئی وہ قوم پرستی کا رجحان تھا جس نے برطانیہ‘ فرانس اور دیگر استعماری قوتوں کو اپنی نوآبادیات چھوڑنے پر مجبور کیا۔ سامراج مخالف جذبات بالخصوص مشرقِ وسطیٰ میں بہت ہی زیادہ توانا ہیں۔ امریکا کی ننگی جارحیت کے خلاف عراقیوں کے غم و غصے اور ان کی مزاحمت پہلے سے متوقع تھی۔ ۱۹۹۱ء میں رینڈ کارپوریشن برطانیہ کی جانب سے بہت ساری مزاحمتی تحریک کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں سے سبق سیکھنے کے موضوع پر ایک جائزہ سامنے لایا تھا۔ اس کے چند کلیدی نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ تھا کہ مزاحمت کی شناخت میں تاخیر کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ تاخیر مزاحمت کاروں کو منظم ہونے اور عوام میں ان کو اپنی جڑیں مضبوط کر لینے کا موقع فراہم کر دیتی ہے۔ یہ انہیں عدم استحکام اور عدم تحفظ کے بیج بونے کا بھی موقع دیتی ہے جس کی وجہ سے ایستادہ فوج اور پولیس فورسز پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ جنرل ابی زید اب عراق میں جنگ کو ’’روایتی چھاپہ مار قسم کی مہم‘‘ کا نام دے رہے ہیں۔ لیکن جیسا کہ رینڈ کے جائزے میں Bruce Hoffman کہتے ہیں کہ یہ درست نہیں ہے۔ روایتی مزاحمتوں کے برعکس یہاں کوئی مرکزِ کشش نہیں ہے‘ نہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی کا کوئی مرکزی دفتر ہے۔ ہوف مین عراق جنگ کو پہلی پُرپیچ جنگ (Netwar) کے نام سے معنون کرتے ہیں یعنی ایسی جنگ جسے چھوٹے چھوٹے گروپ لڑ رہے ہیں جن کے آپس میں رابطے بھی ہیں اور تعاون بھی۔ نیز وہ ایک دوسرے سے اندرونی طور پر مربوط ہو کر مہم جوئی کر رہے ہیں لیکن بغیر کسی متعین مرکز کے (جیسا کہ ابتداً اس کا دفاع John Arquilla اور David Ronfeldt نے کیا)۔ عراق کی مزاحمتی تحریک متضاد اور مختلف النوع گروہوں پر مشتمل ہے جس میں بعثی‘ اسلامی اور قوم پرستانہ سوچ رکھنے والے لوگ شامل ہیں اور ان کے مابین ایک ڈھیلے قسم کا اشتراک بھی پایا جاتا ہے اور وہ سب جس ایک نکتے پر متحد ہیں وہ ہے امریکا دشمنی۔ ایسی کسی جنگ میں بلکہ تمام ہی مزاحمتی تحریک میں عسکری فتح اگرچہ اہمیت کی حامل ہے مگر یہ بڑا کردار نہیں ادا کر پاتی ہے۔ اس میں بنیادی جدوجہد سیاسی ہوتی ہے۔ مقامی آبادی کی حمایت حاصل کرنا اور اس نظریے کو شکست دینا جو مزاحمت کو غذا فراہم کرتی ہے یا پھر جنگجوئوں کو حکومت کی حمایت میں لے آنا جو بتدریج مزاحمتی تحریک کی قوتوں کو یکے بعد دیگرے ختم کر دینے کا عمل ہے۔ لہٰذا پُرپیچ جنگ کو ختم کرنے کے لیے فوجی اور سیاسی ہر دو حکمتِ عملی سے کام لینا ہو گا۔
(اداریہ ’’نیوز ویک‘‘۔ ۸ا؍اکتوبر ۲۰۰۴ء)
Leave a Reply