امریکی عدالتی نظام کی الجھن

گوانتا نامو بے جیل کو بند کرنے کے فیصلے نے اوباما انتظامیہ کو عجیب الجھن سے دوچار کر رکھا ہے۔ ایک طرف تو جیل کو بند کرنے کا معاملہ اٹکا ہوا ہے اور دوسری طرف اس جیل کے ان قیدیوں کی منتقلی بھی بڑا مسئلہ ہے جن کے بارے میں یہ طے ہوچکا ہے کہ ان سے امریکی سلامتی کو واضح خطرہ نہیں۔ ان ملزمان کو اگر ان کے وطن بھیجا گیا تو امتیازی سلوک روا رکھے جانے کا خطرہ برقرار ہے۔ ایسی صورت میں امریکا کو انسانی حقوق کے علمبردار اداروں کی جانب سے مزید تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔

امریکی سپریم کورٹ نے ۲ مارچ کو ایک کیس خارج کردیا جو اختیارات کے علیحدگی سے متعلق تھا۔ اس کیس میں گوانتا ناموبے کے ان قیدیوں کو رہا کرنے سے متعلق فیڈرل ججوں کے اختیارات پر بحث کی گئی تھی جن کے بارے میں اس نکتے پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ان سے امریکی سلامتی کو خطرہ نہیں۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے اوباما انتظامیہ کے اس موقف سے بظاہر اتفاق کیا کہ صورت حال بدل گئی ہے جس کے تناظر میں سپریم کورٹ کو چین کے اوغور مسلمانوں کے ایک گروپ کو رہا کرنے سے متعلق درخواست کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔ اوباما انتظامیہ ان مسلمانوں کو محفوظ طریقے سے منتقل کرنے کے لیے کسی تیسرے ملک کی خدمات حاصل کرنے کے لیے سرگرم رہی ہے تاکہ سپریم کورٹ سے ایک اور شو ڈاؤن ٹالا جاسکے۔ اس پیشکش کو بیشتر زیر حراست افراد نے قبول کرلیا جبکہ پانچ افراد نے پیشکش مسترد کی ہے اور وہ اب تک گوانتا نامو بے جیل میں ہیں۔

سپریم کورٹ نے تین پیراگراف کے فیصلے میں کہا ہے کہ اب تک کسی بھی نچلی عدالت نے اس کیس میں کوئی حتمی رائے دینے سے گریز کیا ہے اس لیے ہم کوئی مثال قائم نہیں کرنا چاہتے۔

اوغور مسلمانوں کے گروپ کو ۲۰۰۱ء میں افغانستان اور پاکستان سے حراست میں لیا گیا تھا اور تب سے اب تک انہیں گوانتا نامو بے جیل میں رکھا گیا ہے۔ بش اور اوباما انتظامیہ نے تسلیم کیا ہے کہ ان مسلمانوں کو حراست میں لینا غلطی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی قرار دیا ہے کہ ان سے امریکی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ چینی حکومت انہیں دہشت گرد قرار دیتی ہے اور وطن واپسی کی صورت میں ان کے خلاف عدالتی کارروائی خارج از امکان نہیں۔ فیڈرل جج رکارڈو ایم اربینا نے رولنگ دی تھی کہ کوئی بھی ملک ان قیدیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور انہیں آزاد کرکے امریکا میں بسنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ڈسٹرکٹ آف کولمبیا سرکٹ کے تین ججوں کے پینل نے رکارڈو ایم اربینا کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ کسی بھی غیر ملکی کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت یا نکالنے کا حکم دینے کا اختیار صرف مقننہ اور منتظمہ کو حاصل ہے۔

سپریم کورٹ نے ۲۰۰۸ء میں فیصلہ سنایا تھا کہ گوانتا نامو بے جیل کے قیدیوں کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ امریکا میں کسی بھی فیڈرل جج کے روبرو اس بات کو ثابت کریں کہ وہ امریکا کے خلاف برسر پیکار نہیں اور انہیں غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔ اوغور مسلمانوں کے وکلا نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ وہ کیس خارج نہ کرے کیونکہ ایسا کرنے سے ایک اہم فیصلے کی راہ میں محض تاخیر ہوگی، فیصلے کی راہ نہیں روکی جاسکے گی۔ ان کا یہ بھی موقف تھا کہ گونتا نامو بے جیل میں ۱۸۸ ؍قیدی موجود ہیں جن کے کیس عدالتوں میں آئیں گے۔ ایسے میں جوڈیشل پاور کا معاملہ طے کرنا ناگزیر ہے۔ انہوں نے عدالت سے یہ استدعا بھی کی تھی کہ اگر عدالت حالات کی تبدیلی کو بنیاد بناکر اس کیس کی سماعت سے انکار کرے تب بھی ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے پینل آف ججز کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جانا چاہیے تاکہ وہ نظیر نہ بن سکے۔ سپریم کورٹ نے راہ تبدیل نہ کی ہوتی تو ایک اچھی مثال قائم ہو جاتی اور گوانتا نامو بے جیل کے دوسرے بہت سے قیدیوں کو بھی یہ استحقاق مل جاتا کہ وہ امتیازی سلوک کے خدشے کی بنیاد پر اپنے ملک نہ جائیں اور امریکا ہی میں کہیں آباد ہو جائیں۔ ۲۰۰۸ء کے بورن میڈینس بنام بش جونیئر کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ کسی بھی فیڈرل جج کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسے کسی بھی قیدی کی رہائی کا حکم دے جس کے بارے میں حکومت کہہ چکی ہو کہ اسے غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا تھا اور یہ کہ اس کی موجودگی امریکا کی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں۔

گوانتا نامو بے کے قیدیوں کے بارے میں امریکی عدالتی نظام کی الجھن امریکا کی پوزیشن کو مزید خراب کر رہی ہے۔ اوباما انتظامیہ نے بش انتظامیہ سے ورثے میں ملنے والے اس بوجھ کو سر سے اتار پھینکنے کی کوشش ضرور کی ہے مگر اب تک کامیابی نہیں ملی۔ مشکل یہ ہے کہ گوانتا نامو بے جیل کے بیشتر قیدیوں کے خلاف فرد جرم بھی سامنے نہیں آسکی اور بیشتر معاملات میں حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ گرفتاریاں بلا جواز تھیں۔ جن قیدیوں کو امریکا کے لیے خطرہ گردانا جاتا تھا اب انہیں تمام الزامات سے بری قرار دیا جارہا ہے مگر عدالتی نظام گو مگو کی کیفیت سے دوچار ہے۔

(بشکریہ: ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘۔ ۲ مارچ ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*