
جمال خاشقجی کا سایا اب تک سعودی عرب کے سر پر منڈلا رہا ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان کو امید تھی کہ یہ معاملہ جیسے تیسے رفع دفع ہو جائے گا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ سیکورٹی کے حوالے سے سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات کم و بیش ۷۵ برس پر محیط ہیں۔ یہ تعلقات اب داؤ پر لگتے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ امریکا کے لیے جمال خاشقجی کے قتل میں ولی عہد محمد بن سلمان کے مبینہ کردار کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔
سعودی منحرف جمال خاشقجی کو استنبول میں سعودی قونصلیٹ کے اندر بلایا گیا۔ انہیں اپنی شادی کے سلسلے میں دستاویزات درکار تھیں۔ دستاویزات حوالے کرنے کے بہانے بلاکر جمال خاشقجی کو قتل کرادیا گیا۔ اقوام متحدہ کے تحت کی جانے والی تحقیقات سے اندازہ ہوا کہ اس قتل میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کلیدی کردار ادا کیا، جسے کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
جمال خاشقجی کے قتل سے چند ماہ قبل محمد بن سلمان نے امریکا کا دورہ کیا تھا، جو خاصا مثبت رہا تھا۔ محمد بن سلمان کو مشرق وسطیٰ میں حقیقی تبدیلی کا نمائندہ اور کلیدی کردار قرار دیا گیا تھا۔ بہت سوں نے تو انہیں ’’مصلح‘‘ کا درجہ دے ڈالا۔ محمد بن سلمان کو سراہنے والوں نے یمن کو مکمل طور پر نظر انداز کیا، جہاں محمد بن سلمان کی ایما پر چھیڑی جانے والی جنگ نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ اس جنگ یا خانہ جنگی نے یمن میں غذا اور غذائیت کی شدید قلت پیدا کی ہے۔ ایران اور اُس کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے اب جنگ کو سعودی عرب منتقل کردیا ہے۔ کئی ماہ سے بیلسٹک میزائلوں اور راکٹوں کے ذریعے سعودی عرب کے شہروں اور تنصیبات کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ڈرون بھی استعمال کیے جارہے ہیں۔ اب مبینہ طور پر ایران نے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر براہِ راست حملہ کیا ہے۔ اس حملے سے یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ سعودی معیشت کو خطرناک حد تک نشانہ بنانا ایران کے لیے ذرا بھی دشوار نہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر ایرانی حملے کے حوالے سے محض بڑھک مارنے سے کام لیا ہے۔ سعودی عرب کو یقین دلایا گیا ہے کہ اس کا دفاع ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے پرنس سلطان ایئر بیس پر متعین امریکی فوجیوں کی تعداد بڑھانے پر بھی غور کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کے دفاع میں ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ نے کانگریس سے باضابطہ اجازت حاصل کرنے کے حوالے سے اب تک کچھ بھی نہیں کیا۔ امریکی کانگریس کے ایوانِ زیریں ایوان نمائندگان کی سربراہ نینسی پلوسی نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب کو دفاعی معاملات میں غیر معمولی اقدامات کی یقین دہانی نہیں کرائی جاسکتی۔
نینسی پلوسی نے امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پومپیو نے ایک ایسے شخص سے بات کی جس نے ایک رپورٹر کو قتل کرایا، پھر اس کی لاش کے ٹکڑے کیمیکلز میں حل کردیے۔ کانگریس میں مضبوط ترین ڈیموکریٹ نینسی پلوسی کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتی کہ سعودی عرب کے دفاع کی ذمہ داری کسی بھی زاویے سے امریکا پر عائد ہوتی ہے۔ نینسی پلوسی نے سوال کیا ہے کہ کیا کوئی ایسا معاہدہ موجود ہے کہ امریکا ہر حال میں سعودی عرب کا دفاع کرے گا۔ ان کی بات درست ہے۔ امریکا کسی بھی معاہدے کے تحت سعودی عرب کے مکمل دفاع کا پابند یا ذمہ دار نہیں۔ جس طور نیٹو نے جاپان، فلپائن، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے دفاع کی ذمہ داری قبول کر رکھی ہے، اُس طور سعودی عرب کے دفاع کے حوالے سے کوئی بھی باضابطہ معاہدہ موجود نہیں۔
سعودی عرب کے دفاع کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہ کرنے کے حوالے سے نینسی پلوسی تنہا نہیں ہیں۔ صرف ۱۳ فیصد امریکی اس بات کے حق میں ہیں کہ امریکا کو سعودی عرب کے دفاع کے لیے ایران کے خلاف طاقت استعمال کرنی چاہیے۔ ۲۵ فیصد امریکی چاہتے ہیں کہ امریکا مشرق وسطیٰ سے نکل آئے۔ سعودی عرب کو امریکی عوام کی حمایت کے حصول میں ہمیشہ مشکلات کا سامنا رہا ہے، بالخصوص نائن الیون کے بعد۔ اور اس وقت سعودی عرب کے لیے امریکیوں کی حمایت پست ترین سطح پر ہے۔
نائن الیون کے بعد سعودی عرب میں امریکی سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے رابرٹ جارڈن نے اِس بات پر زور دیا ہے کہ جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل اور یمن پر مسلط کی جانے والی خانہ جنگی کی پاداش میں سعودی عرب کی عسکری اور لاجسٹک امداد بند کردی جائے۔ ان کا استدلال ہے کہ جمال خاشقجی کے کیس میں ذرا بھی لچک دکھائی گئی تو دنیا بھر میں آمر اور آمریت پسند حکمران مزید دیدہ دلیری کے ساتھ کچھ بھی کرتے پھریں گے۔
سعودی عرب امریکی کانگریس میں دونوں جماعتوں سے بھرپور حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہا ہے۔ سابق سعودی سفیر شہزادہ بندر بن سلطان اس حوالے سے خاصے کامیاب رہے تھے، مگر اب سعودی عرب کے لیے دونوں جماعتوں سے بھرپور حمایت کا حصول خاصا دشوار ہوچکا ہے۔ جمال خاشقجی کے معاملے میں صرف ڈیموکریٹس نہیں کانگریس بلکہ ری پبلکن ارکان کی اکثریت بھی سعودی عرب کے خلاف جاچکی ہے۔
سعودی امریکی تعلقات کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ امریکا کو کسی زمانے میں سعودی تیل کی جتنی ضرورت تھی، اُتنی اب نہیں رہی۔ بیشتر امریکی مشرق وسطیٰ میں جنگوں سے تنگ آچکے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ثابت کیا ہے کہ اُن کی نظر میں بنیادی حقوق کی کوئی اہمیت نہیں، کچھ احترام نہیں۔
امریکا جمال خاشقجی کے قاتلوں کو سزا نہیں دلا سکتا۔ ولی عہد محمد بن سلمان کے خلاف کوئی کارروائی بھی امریکا کے بس کی بات نہیں مگر ہاں، یمن میں خانہ جنگی رکوانے کے حوالے سے امریکا بہت کچھ کرسکتا ہے۔ وہ یمن میں فضائی حملے کرنے والی سعودی رائل ایئر فورس کی لاجسٹک سپورٹ ختم کرسکتا ہے، فاضل پرزہ جات اور بارود کی فراہمی روک سکتا ہے۔ سعودی فضائیہ امریکی لڑاکا طیاروں پر منحصر ہے۔ اور کوئی متبادل نہیں۔ ایف۔۱۵ طیاروں میں روسی راڈار کام نہیں کرسکتا۔
یمن پر حملے اور وہاں خانہ جنگی رکوانا کانگریس کی ذمہ داری ہے۔ جمال خاشقجی کے آخری کالمز میں سے ایک یمن کی خانہ جنگی کے حوالے سے تھا، جس میں سعودی قیادت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ جمال خاشقجی کے قتل کا ایک سال مکمل ہونے پر کانگریس کو سعودی ولی عہد کی جنگ کے لیے ہر طرح کی امداد روک دینی چاہیے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Congress: Respect Jamal Khashoggi’s legacy by ending support for the Saudi war in Yemen”. (“brookings.edu”. September 27, 2019)
Leave a Reply