ایران کے خلاف سازشیں

خلیجِ فارس میں عراق کے خلاف جنگ کرنے اور اس نہتّے ملک کے نہتّے عوام کو نشانہ بنانے اور وہاں تباہی مچانے کے بعد اَب امریکا اور اُس کے حواری ممالک ایران کو نشانہ بنانے کی مہم شروع کیے ہوئے ہیں۔ ایران پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ نیوکلیئر ہتھیار تیار کرنے کے عمل میں مصروف ہے اور امریکا اور اُس کے دوسرے حواری ممالک نہیں چاہتے کہ اسلامی ملک کی شناخت کے ساتھ ایران ایک نیوکلیئر طاقت بن جائے۔ ایران اس الزام کی مسلسل تردید کرتا رہا ہے کہ وہ نیوکلیئر ہتھیار تیار کر رہا ہے۔ ایران کا استدلال ہے کہ وہ اپنا نیوکلیئر پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے جاری رکھنا چاہتا ہے اور وہ نیوکلیئر سرگرمیاں توانائی کے شعبہ میں فروغ دینا چاہتا ہے تاکہ اس کی داخلی ضروریات کی تکمیل ممکن ہو سکے۔ تاہم امریکا اس استدلال کو قبول کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں ہے اور وہ چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح ایران کا مسئلہ اقوامِ متحدہ میں سلامتی کونسل سے رجوع ہو جائے اور پھر وہاں اپنے اثرات کو استعمال کرتے ہوئے رائے دہی کروائی جائے تاکہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی راہ ہموار ہو سکے۔ خلیج میں امریکا کے حواری یہودی ملک اسرائیل نے انٹیلی جنس کی اطلاعات کے بموجب‘ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی تیاریاں شروع کر دی ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے اور اس کی نیوکلیئر صلاحیتوں کو تَلف کر دیا جائے۔ اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم ایریل شیرون کی حکومت نے اپنی فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کا منصوبہ تیار کرے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ ایران کے خلاف اس سال مارچ سے قبل یہ کارروائی شروع ہو جائے‘ ورنہ اطلاعات کے بمطابق ایران اس وقت تک یورانیم کی اتنی مقدار کی افزودگی مکمل کر لے گا کہ آئندہ دو تا چار برس میں وہ نیوکلیئر ہتھیار تیار کرنے کے موقف میں آجائے گا۔

امریکا اور اس کے حواریوں نے عراق کے خلاف بھی یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والے ہتھیاروں کا ذخیرہ رکھتا ہے‘ جس کی وجہ سے اس سارے علاقہ اور اس کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں اور ان ہتھیاروں کو تَلف کرنا ضروری ہے۔ جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارہ نے بھی یہاں کئی معائنے کیے اور اس کے معائنہ کاروں و انسپکٹروں نے کئی سائیٹس کا دورہ کرنے کے بعد یہ رائے دی تھی کہ عراق بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والے ہتھیار موجود نہیں ہیں۔ لیکن امریکا نے بین الاقوامی ادارہ کی رائے کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی انٹیلی جنس اطلاعات کا اعادہ پیش کیا اور بالآخر عراق پر حملہ کیا‘ وہاں تباہی پھیلاتے ہوئے وہاں قابض ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ عراق جنگ کے بعد کافی عرصہ گزرنے کے بعد اب یہ بات سامنے آنے لگی ہے کہ امریکی انٹیلی جنس اداروں کی رائے بالکلیہ طور پر مفروضات پر مبنی تھی اور عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار قطعی طور پر موجود نہیں ہیں۔ یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ بش نظم و نسق کے بعض عہدیداروں نے اپنے اعلیٰ حکام کو خوش کرنے کے لیے ان انٹیلی جنس اطلاعات میں الٹ پھیر بھی کر دی تھی تاکہ دنیا کے سامنے عراق پر حملے اور فوجی کارروائی کا جواز پیش کیا جاسکے۔ بالآخر دنیا کی رائے درست ثابت ہوئی اور امریکا کے تمام کے تمام دعوے جھوٹے ثابت ہوئے۔ تاہم اس وقت تک امریکا عراق پر قبضہ کرنے اور وہاں اپنے من پسند حکمرانوں کو اقتدار سونپنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے امریکا نے بین الاقوامی رائے کو قطعی نظرانداز کر دیا اور نہ ہی بین الاقوامی ادارہ کی رپورٹ اور اس کے انسپکٹرز کے بیانات کو قبول کیا‘ اپنی من مانی کی اور وہاں اپنے ارادوں کو مکمل کر لیا۔ اس طرح یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اقوامِ متحدہ جیسے عالمی ادارہ کو امریکا اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ امریکا اب ایران کے خلاف بھی اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے اقوامِ متحدہ کو استعمال کرنا چاہتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ایران معاملہ کسی نہ کسی طرح سلامتی کونسل سے رجوع کر دیا جائے اور پھر علاقہ کے عوام اور یہاں کی سکیورٹی کی دہائی دیتے ہوئے امریکا کو ایران کے خلاف بھی فوجی کارروائی کا موقع ہاتھ لگ جائے۔

موجودہ حالات میں امریکا اور اس کے حلیف ممالک کو لگام دینا ضروری ہے ورنہ یقینا امریکا اپنی ریشہ دوانیوں کے ذریعہ ایران کے خلاف بھی فوجی کارروائی کا پلیٹ فارم تیار کرنے سے گریز نہیں کرے گا اور اگر ایسا ہو جائے تو پھر یہ بھی اندیشے ہیں کہ سارے علاقہ میں تباہی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ ایران اپنے نیوکلیئر پروگرام کے تعلق سے یقینا سخت اور کٹّر موقف رکھتا ہے لیکن اس بات کا حق امریکا کو قطعی نہیں ہے کہ وہ عالمی سلامتی اور سکیورٹی کے بہانے کرتے ہوئے کسی ملک کو اس کے اختیار سے محروم کر دے اور فوجی کارروائی کرے۔ اسرائیل کو بھی لگام دینا ضروری ہو گیا ہے کیونکہ سارے علاقہ کی سکیورٹی کو اسرائیل سے ہی سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے اور وہ نہتّے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ برسوں سے جاری رکھے ہوئے ہے اور وہ علاقہ کا واحد نیوکلیئر طاقت رکھنے والا ملک ہے۔ امریکا اور اسرائیل کی یہ ملی بھگت ہے کہ کسی نہ کسی طرح ایران کو نیوکلیئر طاقت بننے سے روکا جائے‘ ورنہ سارے عرب میں اسرائیل کی جو دھاک ہے اور اُس کا جو دبدبہ ہے‘ وہ ختم ہو جائے گا اور ایران بہرحال اسرائیل کے بڑھتے ہوئے اثر کو زائل کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔

(بشکریہ: روزنامہ ’’سیاست‘‘۔ حیدرآباد دکن)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*