مسلمانوں کو عالمگیر تباہی سے دوچار کرنے کی سازش

امینہ ودود پر تنقید سن کر اور ۱۸ مارچ کو کمپنی کی طرف سے کیے گئے اقدام پر بعض مسلمانوں کا تبصرہ ہے کہ ’’بلاوجہ اس گمراہ کن عورت کے اقدامات پر اتنی توجہ کیوں دی جارہی ہے۔ یہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں کہ جس پر اتنی توجہ دی جائے۔ اس طرح تو اسے مزید مشہور کرنا ہے اور بھی بہت سارے گراں قدر مسائل ہیں جن پر توجہ دینی چاہیے اور جو حقیقتاً فوری توجہ کے مستحق بھی ہیں‘‘۔ بہرحال یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا کہ یہ لوگ تصور کیے بیٹھے ہیں۔ ان اقدامات کے نتائج جو بزعم خویش ترقی پسند مسلمانوں کی طرف سے کیے جارہے ہیں‘ سے زیادہ سنگین ہیں۔

امینہ ودود کے واقعہ پر خاموشی اختیار کرنے کا مطالبہ مسلمانوں کو ۲۱ویں صدی کے یہودیوں میں تبدیل کرنے کے اقدامات ہیں۔ درحقیقت کئی عوامل ایسے ہیں جو خصوصاً امریکا میں ایک ایسی فضا پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں جس میں مسلمانوں کی حالت اس سے کہیں زیادہ خراب ہو جائے گی جو ۳۰ کی دہائی میں جرمنی کے یہودیوں کی تھی۔ پہلا عنصر خوف ہے جو اسلام سے خوف زدہ عناصر مسلمانوں میں پھیلا رہے ہیں اور مسلمانوں کے لیے اسلام دشمن معیارات تجویز کر رہے ہیں کہ وہ انہیں قبول کریں۔ مثلاً ’’معتدل روش‘‘ کا معیار۔

دوسرا عنصر موقع پرست مسلمانوں کے سامنے پوری طرح ہتھیار ڈال دینا ہے جو صرف میڈیا میں اپنا پروجیکشن چاہتے ہیں اور اپنے بعض ذاتی مفادات کے حصول کے لیے کچھ مرتبہ و مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ اسلام سے خوف پیدا کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔

تیسرا عنصر بعض افراد اور بعض مسلمان گروہوں کی جانب سے امینہ ودود کے رویے کے حوالے پر سرد مہری ہے اور Pipes جیسے لوگوں کو شدت پسند کہہ کر مسترد کر دینے کا رجحان ہے۔ Pipes کوئی شدت پسند نہیں ہے‘ وہ بہت ہی کشادہ ہے اور دیگر دشمنانِ اسلام کے مقابلے میں منافقت کا عنصر اس میں بہت کم ہے۔ یہ وہ ہے جو اعتدال پسندی اور ترقی پسندی کا بہت ہی واضح معیار دے رہا ہے۔ تاکہ اس حوالے سے کوئی ایسا ابہام نہ رہ جائے جس کی اوٹ میں لوگ پناہ لے سکیں۔ اسلام سے خوفزدہ لوگ غیرمسلم ممالک میں ایک ذہنیت پروان چڑھا رہے ہیں‘ جس کا مقصد عام لوگوں کو یہ باور کرانا ہے کہ اسلام اپنی فطرت میں پرتشدد دین ہے اور وہ مسلمان جو قرآن پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہیں‘ وہ اسلام پسند ہیں۔ چنانچہ صرف وہ افراد قابلِ قبول ہیں جو اسلام کے سرچشموں کے حوالے سے سوالات اٹھاتے ہیں اور قرآن کے بعض حصوں کو بالکل ہی ناقابلِ قبول سمجھتے ہیں۔ ترقی پسند موقع پرست ٹھیک اسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ نیز اس ذہنیت کو مستحکم کر رہے ہیں جو اسلام سے خوفزدہ عناصر کی تیار کردہ ہے۔ وہ عوام کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ ہاں ہم وہ لوگ ہیں جو انکار کرتے ہیں‘ قرآن کے جزوی حصوں پر ایمان رکھتے ہیں‘ مستقبل اندیش ترقی پسند ہیں۔ جبکہ باقی مسلمان فرسودہ خیال اور قدامت پرست ہیں‘ بنیاد پرست ہیں‘ اسلام پسند ہیں اور اس وجہ سے اس بات کے مستحق ہیں کہ ان سے ناطہ توڑ لیا جائے۔ وہ لوگ جو مذکورہ بالا مسئلہ کے حوالے سے خاموش تماشائی بنے رہنا پسند کرتے ہیں‘ وہ اپنی تنہائی کے لیے مزید راہ ہموار کر رہے ہیں اس لیے کہ اس معاملے میں اعداد و شمار کی اہمیت نہیں ہے۔ اس میں جس چیز کی اہمیت ہے وہ یہ کہ اسلام سے خوفزدہ لوگوں اور ترقی پسند لوگوں کے ایجنڈے میں کون کتنا فٹ بیٹھتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح کہ جس طرح آج کے فتنہ کی جڑیں یعنی اس فتنہ کی کہ جس میں ایک خاتون نمازِ جمعہ میں مردوں کی امامت کرتی ہے‘ ترقی پسند اور لبرل مسلمانوں کی مہم جوئیوں سے وابستہ ہیں۔ اسی طرح ابھی اور مزید تخم زیرِ نشوونما ہیں جو بھرپور درختوں میں تبدیل ہونے کے منتظر ہیں۔ مسلمانوں کی طرف سے خاموشی صورتحال کی سنگینی کو مزید بڑھا دے گی۔ اس لیے کہ وہ اگر اپنے موقف کو واضح کرنے میں ناکام رہے تو اعتدال پسند اور ترقی پسند موقع پرست صورتحال کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس انتہا پر لے جائیں گے کہ جہاں اگر کوئی اعتدال پسندوں اور ترقی پسندوں کے موقف سے اختلاف کرے گا تو اسے بنیادی طور سے اسلام دشمن ایجنڈا سمجھا جائے گا اور اسے رجعت پسند اور اسلام پسند کہہ کر رد کر دیا جائے گا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر مقامی اور عالمی امن و امان کے لیے خطرہ تصور کرتے ہوئے دہشت گرد قرار دیا جائے گا۔

Daniel Pipes کے اس بیان سے اس نوشتۂ دیوار کو پڑھا جاسکتا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ اسلام پسندوں کی قانونی سرگرمیاں بھی ایک چیلنج ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے۔ اس کا مطلب فسطائیت کو کھلی دعوت دینا ہے۔ جب ایک شخص اپنی قانونی سرگرمیوں کے باوجود بھی معاشرے کے لیے فٹ نہیں سمجھا جاتا ہے تو لازمی طور پر اس کا مقام Concentration Camp یا Gas Chamber ہو گا۔ فسطائیت کا ہر پیکیج بتدریج منظر عام پر آتا ہے۔ مثلاً پہلے لیبل آتا ہے‘ پھر کلاسیفکیشن (درجہ بندی) پھر اس کے بعد اس کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے کہ ایسے لوگوں کو ان کی قانونی سرگرمیوں کے باوجود ختم کر دینا چاہیے۔ قدرے حقیقت پسندانہ الفاظ میں یہ کہا جائے گا کہ امینہ ودود اس کے ماننے والے اور اسے پروان چڑھانے والے دراصل نفرت کے بیج پروان چڑھا رہے ہیں جسے Daniel Pipes جیسے لوگوں نے بویا ہے۔ یہ ترقی پسند صرف ایسے حالات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ جس میں آئندہ امریکا اور دوسری جگہوں کی جیلیں مسلمانوں کی بھاری تعداد سے بھر جائیں گی۔ قتلِ عام یا وہ عمل جو ۳۰ کی دہائی میں جرمنی میں ہوا‘ دوبارہ ہونا ہے۔ مگر اس کے لیے ایک ذہنیت اور سوچ کی ضرورت ہے‘ جسے اسلام سے خوفزدہ عناصر پہلے ہی سے بڑی حد تک فروغ دینے میں کامیاب ہیں۔ اس بار ان عناصر کی صرف اتنی کوشش ہے کہ یہ دوسری بڑی تباہی (Holocaust) ایسا ہو کہ یہ مظلوموں کے حق میں کسی ہمدردی کی گنجائش نہ چھوڑے۔ اسی وجہ سے معتدل مسلمانوں کا یہ مسئلہ بہت ہی سنگین ہے۔ جن کا مطلب قرآن کے بعض اجزا کو چھوڑنا ہے۔ ملاحظہ ہو www.danielpipes.org/article/2226۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے وراثت کے حوالے سے قرآن کے واضح احکامات کو چھوڑنا ہے۔ (2:282)‘ (2:275, 276, 278-9)‘ (3:39)‘ (4:161)‘ (30:130)‘ (4:11-14,33,176)۔

حتیٰ کہ ربا بھی۔ Daniel Pipes کو رجعت پسند یا شدت پسند نہیں کہنا چاہیے‘ اس لیے کہ ایسے مسائل پر وہ کھل کر اظہارِ خیال کرتا ہے جن پر دوسرے مثلاً Thomas Friedman کھلوکھلے شور مچانے پر اکتفا کرتے ہیں‘ اس کے باوجود کہ یہ حضرت اپنے عقائد میں Pipes سے کہیں زیادہ فسطائی ہیں۔ اس بات کا اندازہ ان کی اس حمایت سے لگایا جاسکتا ہے جو وہ Mangi جیسے اعتدال پسندوں کو دے رہے ہیں۔ ملاحظہ ہو Friedman’s کا تازہ کالم Brave, Young and Muslim نیویارک ٹائمز ۳ مارچ ۲۰۰۵ء۔

یہ وقت ایسا نہیں ہے کہ مسلمان خاموش رہیں اور اسلام سے خوفزدہ عناصر کو رجعت پسند اور شدت پسند کہہ کر نظرانداز کریں۔ یہ وقت نہیں ہے کہ انہیں کسی لائق نہ سمجھتے ہوئے قابلِ اعتنا نہ سمجھا جائے اور ترقی پسندوں کو غیراہم سمجھ کر ان کی طرف سے نظریں پھیر لی جائیں۔ اصلاً یہ وہ لوگ ہیں جو اصل فسطائیت کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اس کی راہ ہموار کر رہے ہیں‘ جس کے نتیجے میں ایک ایسا وقت آئے گا کہ مسلمانوں کا قتلِ عام ہو گا مگر ان کے حق میں کوئی صدائے ہمدردی یا احتجاج بلند نہیں ہو گی۔ ترقی پسندوں کو یہ کم ہی یقین آتا ہے کہ وہ آگ جو اس وقت وہ اپنے سطحی مفادات کی خاطر بھڑکا رہے ہیں‘ اس میں یہ خود بھی بھسم ہو جائیں گے۔ بات صرف اتنی ہے کہ پہلے ہوں گے یا آخر میں۔ اس وقت قرآن کی وہ آیت یاد آتی ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ:

’’تم ان کافروں کو کبھی خوش نہیں کر سکتے جب تک کہ تم ان کے لیے اپنے مذہب کو نہ چھوڑ دو‘‘۔ (سورۃ البقرہ:۱۲۰)

یہی وہ معیار ہے جو اسلام سے خوفزدہ عناصر اعتدال پسندوں کے لیے طے کر رہے ہیں اور تمام مسلمانوں سے اسے قبول کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

(بشکریہ:: انگریزی ہفت روزہ ’’ریڈینس‘‘۔ دہلی)ِ

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*