
اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن میں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ بہترین محافظ‘ بہترین سرپرست اور ارحم الرحمین ہے (قرآن ۳:۱۵۰‘۲:۲۵۷)۔ دورِ حاضر میں اسلام محاصرے میں ہے۔ محاصرہ ایک جنگی طریقہ ہے‘ جارحیت ہے اور حملہ ہے۔ جنگی اصطلاح میں حکمت عملی کے اعتبار سے بھی اور چال کے اعتبار سے بھی محاصرہ میں ہونا گویا نرغے میں ہونا ہے۔ اس کا اطلاق ایک ایسی صورتحال پر بھی ہوتا ہے جب دشمن سرحدوں کو اپنے گھیرے میں لے لیتا ہے اورلوگوں کی رسائی بند کردی جاتی ہے‘ نہ آدمی آسکتا ہے اور نہ جاسکتا ہے‘ اس کا مطلب دشمن کو اس طرح کچلنا ہے کہ فوجی سپہ سالار و فوجی سپاہی نیز عوام اور شہری سرِ تسلیم ختم کردیں۔ انہیں یا تو غلام بنالیا جاتا ہے یا بیشتر صورت میں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ مقابلہ کرتے ہیں یہ ایک بہت سنگین صورتحال ہوتی ہے۔ بظاہر ایک مضبوط قوت اپنے دشمن کو نرغے میں لے لیتی ہے۔ دشمن بیشتر اوقات اکیلا بھی ہوتا ہے۔ دشمن مختلف شکلوں میں متحد ہوکر سامنے آتے ہیں ۔مختلف فوجیں اور ریاستیں اپنے مشترک دشمن کے خلاف سازش کرتی ہیں تاکہ اسے ختم ہوتا دیکھیں اس کی قوت کو بے اثر اور ناکارہ بنانا چاہتی ہیں‘ یا تو اس لعنت کو بالکل ختم کردینا چاہتی ہیں یا اسے کمزور کردینا چاہتی ہیں جو دشمن نے اُن پر مسلط کی ہیں‘ سازش لہٰذا ایک حکمت عملی ہے ایک پہلے سے سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کو زمین پر نافذ کیا جاتا ہے۔ اگر میدان جنگ محاصرے کا مظہر ہے جو کہ ایک چال ہے تو محاصرہ کرنے والی فوج کا مرکزی دفتر منصوبہ بناتا ہے یعنی سازش تیار کرتا ہے جو کہ حکمت عملی ہے اور Clausewitz روایت میں جنگ۔۔ بحران کا خونی حل‘ دشمن کی فوجوں کو تباہ کرنے کی کوشش پہلا بیٹا ہے جسے جنگ جنم دیتا ہے۔ (O’Sullivan and M.ller198:52)
جنگ خود بھی Clausewitz کی اپنی اصطلاح میں سیاست ہے کچھ دوسرے ذرائع سے (Clausewitz 1963:494)۔ اس تزویراتی تجزیہ میں اترنے کا مقصد درپیش مسئلے کی شدت کو واضح اور نمایاں کرنا ہے۔ اگر ہم اتفاق کرتے ہیں کہ اسلام محاصرے میں ہے تو ہمیں اس سے بھی اتفاق کرنا ہو گا کہ ہم جنگ کی حالت میں ہیں۔ اور اگر کوئی سازش ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی ایک دشمن کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ بہت سارے دشمنوں کی بات کر رہے ہیں۔ لہذا ان سے نمٹنے کا طریقہ بھی کثیرالجانبہ ہونا چاہیے۔ اس کے بعد جو سوال سامنے آتا ہے کہ دشمن کون ہیں؟ کیا مغرب اس کی پشت پر ہے جو کچھ اسلام کے خلاف ہو رہا ہے؟ اسلام اسے یا اس کے مفادات کو کیا نقصان پہنچا سکتا ہے کہ وہ اس کے خلاف متحد ہو گئے ہیں؟ سازش میں یہ کن طریقوں کا استعمال کرتے ہیں اور یہ اپنے منصوبہ کو کس طرح عملی شکل دیتے ہیں؟ اس محاصرے کے کیا مضمرات ہیں۔ کیا اسلام اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اس محاصرے کو توڑ سکے۔ ایک لفظ میں اگر اسلام نرغے میں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسلام کی حیثیت دفاعی ہے۔ کون سی جنگی چالیں اس محاصرے کو توڑنے کے لیے مطلوب ہیں؟ کیا اسلام کو صورتحال کی سنگینی کا ادراک ہے؟ اس صورتحال کی پیداوار کون ہیں اور اس میں فیصلہ ساز کون ہیں؟ کیا اس صورتحال کے شکار عام لوگ بھی ہیں؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کا اس مضمون میں جواب دیا جاتا ہے۔
صورتحال: فرانسیسی جنرل نپولین بونا پارٹ نے ایک بار کہا تھا کہ خدا بہتر بٹالین کے ساتھ ہے۔ ہم اس محاصرے کی کس طرح وضاحت کریں گے جس میں اسلام اس وقت جکڑا ہوا ہے؟ تاریخی اعتبار سے جیسا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ ’’حق آگیا اور باطل فرار ہو گیا، باطل کو تو رفوچکر ہونا ہی ہے‘‘۔ (۸۰:۳)
تمام سرزمینوں اور ماحول میں اسلام کو جو نمایاں فتح ہوئی تھی‘ وہ بتدریج اور امتدادِ زمانہ کے ساتھ بیشتر مسلم سرزمین میں اُن دشمنوں کے ذریعہ شکستِ فاش پر ختم ہوئی جو ہنوز شجاعت مند مسلمانوں کی قوت سے خوفزدہ اور ہراساں ہیں۔ ساتویں صدی عیسوی میں رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد جب مسلمان نے لشکر کی صورت میں پیش قدمی کی تو پوری دنیا بوکھلا گئی۔ یکے بعد دیگرے بڑی بڑی سلطنتوں پر زوال آگیا اور وہ مسلم افواج کے سامنے ٹھہر نہ سکیں۔ فارس (قادسیہ ۶۳۵ء‘ ctesiphon ۶۳۷ء) میں چلیڈا اور میسو پوٹامیہ (۶۳۵ء) میں‘ مصر (اسکندریہ ۶۴۱ء) میں Maghrib (قیروان ۶۷۰ء‘ West Maghrib ۷۱۱۔۷۰۴ء‘ اسپین ۷۱۱ء) میں مسلمان فتحیاب ہوئے۔ ان مقامات اور بہت سارے دوسرے مقامات پر اسلام کی فتوحات مسلمانوں اور اسلامی قانون کی حکمرانی کا سبب بنی۔ پروفیسر گِب کے الفاظ میں کہ اسلام کے پھیلنے سے اقوام اور ثقافتوں کی نئی یکجہتی کی راہ ہموار ہوئی (۳:۱۹۷۵Gibb) اس کے بعد ہی اسلامی سلطنت کے مرکز میں شگاف ظاہر ہونے شروع ہو گئے یعنی جنگ صفین کی ابتدا سے ہی۔ ملک بن نبی کے مطابق صفین کی جنگ قرآنی روح اور جاہلی روح کے مابین تصادم کی علامت تھی جس میں اول الذکر کی قیادت امام علی کر رہے تھے اور موخر الذکر کی قیادت امیر شام معاویہ کر رہے تھے جو ابو سفیان کے صاحبزادے تھے۔ بہر صورت مسلم سرزمینوں میں جب اسلامی تہذیب کو فروغ حاصل ہوا تو ناقابلِ تصور حد تک اندرونی خرابی نے بھی اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا۔ ملوکیتیں تشکیل پائیں‘ باہمی منافرت‘ محاذ آرائی اور غیرصحتمندانہ مسابقت نے سر اٹھایا کہ مسلمانوں نے ایمانی طاقت کی اہمیت کو نظرانداز کر دیا جو کہ ان کی دعوت کی جان تھی اور جس کی وجہ سے انہیں دوسروں پر فتح حاصل ہوتی تھی۔ مسلمان اپنی پتوار چھوڑ بیٹھے‘ ان کا بحری سفر ماند پڑ گیا‘ انہوں نے اپنے ہتھیاروں کی طرف سے بھی غفلت برتی اور اپنے دشمنوں کو معمولی خیال کیا۔ بابائے عمرانیات ابنِ خلدون کے الفاظ میں کہ مسلمان شہر کے باشندوں کی طرح نازک آبادی میں تبدیل ہو گئے اور اپنی یافت میں مست رہنے لگے یہاں تک کہ وحشی قبائل کے لشکر ان کی سرزمین پر غالب آگئے‘ اسلام کو صدیوں اس مسئلے کا سامنا رہا۔ گیارہویں صدی عیسوی کے آخر میں سلطنتِ کلیسا (مسیحی مغرب) کی جانب سے دنیا پر مسلمانوں کے غلبہ کو ختم کرنے کی کوششوں کا آغاز ہو گیا۔ یہ ایک جارحیت تھی‘ یہ ایک محاصرہ تھا‘ اور اسلام کے خلاف اس سازش میں پوری مسیحی دنیا متحد تھی۔ یہ مسلم سلطان اور جنرل کے مفاد میں ہے کہ ہم مسلم دنیا کے اس مسئلے کی وسعت کو سمجھ سکیں۔ یہ مسلم قیادت کے حق میں بھی ہے کہ اس فرض کا ادراک کریں جس کی توقع مسلمانوں کو اپنے لیڈروں سے ہے تاکہ مغرب کی لعنت کو ختم کیا جا سکے۔ Lane-poole نے صلاح الدین ایوبی کی قوت سے نمٹنے کے لیے مغرب کی جرأت اور عزم کی شدت کو صحیح طور پر سمجھا ہے۔ اس کا ایک حوالہ ہمارے نکتے کو سمجھنے میں معاون ہو گا۔
۱۰۹۶ء میں پہلی صلیبی جنگ کا آغاز مشرق کی جانب پیش قدمی سے ہوا۔ ۱۰۹۸ء میں عدیسہ (Edessa) اور انطاکیہ (Antioch) کے عظیم شہر اور بہت سارے قلعے قبضے میں چلے گئے۔ ۱۰۹۹ء میں عیسائیوں نے خود یروشلم کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اگلے چند سالوں میں فلسطین کا بیشتر حصہ اور شام‘ Tortosa‘ Akka‘ ترپولی‘ صیدون (۱۱۱۰) کے ساحلی علاقے صلیبیوں کے ہاتھ میں چلے گئے۔ یہاں تک کہ ۱۱۲۴ء میں صور (Tyre) کی فتح ان کی قوت کے نقطۂ عروج کی آئینہ دار تھی۔ یہ وہ متعین لمحہ تھا جب یورپ کی جانب سے کامیاب حملہ ممکن تھا۔ ایک نسل پہلے سلجوق کی طاقت ناقابلِ تسخیر تھی‘ ایک نسل بعد نورالدین زندگی نے شام میں سلجوقیوں کے اقتدار پر مضبوطی سے براجمان ہو گیا اور شاید حملہ آوروں کو سمندر میں دھکیل دیا۔ ایک خوش قسمت ستارہ نے پہلی صلیبی جنگ کے مبلغوں کو موقع سے فائدہ اٹھانے کی طرف رہنمائی کی جس کی اہمیت سے وہ شاید ہی واقف تھے۔ Peter the Hermit اور UrbenII نے اس بابرکت لمحے کا انتخاب بڑی دانائی کے ساتھ کیا۔ انہوں نے یہاں کسی غلطی کی گنجائش نہیں چھوڑی‘ گویا کہ وہ ایشیائی سیاست کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کر چکے ہوں۔ صلیبی جنگ اس طرح اندر پیوست ہو گئی جس طرح کہ کلہاڑی بوسیدہ اور نئی لکڑی میں پیوست ہو جاتی ہے اور تھوڑی دیر کے لیے ایسا معلوم ہوا کہ یہ مسلم سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دے گی۔ (Lane poole-1968;163-164)
صلاح الدین ایوبی کی طرف سے جس کی ابتدا ہوئی اور اس کے بعد جن دوسرے مسلم بہادر جانبازوں نے اس کی پیروی کی‘ اس کے نتیجے میں عیسائیوں کی کامیابیاں زائل ہونے لگیں۔ ۱۱۳۰ء کی دوسری صلیبی جنگ میں عیسائیوں کو شکست ہوئی۔ ۱۱۸۹ء کی تیسری صلیبی جنگ ’’محاصرہ کرنے والوں کے محاصرے‘‘ کے طور پر عیسائیوں کے لیے شکست تھی۔ ۱۲۱۲ء کی اطفال صلیبی جنگ تباہی پر منتج ہوئی۔ ۱۲۱۷ء میں ہنگری کی قیادت میں لڑی گئی‘ صلیبی جنگ ایک ناکامی تھی۔ حتیٰ کہ ۱۲۲۸ء میں فریڈرک دی گریٹ کی قیادت میں لڑی گئی صلیبی جنگ بھی ناکامی تھی۔ ۱۲۳۹ء میں نوارّے (Navarre) کے بادشاہ کی سپہ سالاری میں لڑی جانے والی صلیبی جنگ بھی شکست سے دوچار ہوئی۔ یہی انجام ۱۲۴۹ء کی جنگ کا بھی ہوا جو فرانس کے شاہ لوئس ہشتم کی قیادت میں لڑی گئی تھی اور یہ بھی ایک بڑی تباہی پر ختم ہوئی (Lane-poole 1968;163-256) ان صلیبی جنگوں کا جو ایک بہت عظیم نتیجہ سامنے آیا‘ وہ یہ تھا کہ عیسائی دنیا نے مسلمانوں کے گہرے علمی‘ ثقافتی اور سائنسی کارناموں کا اعتراف کر لیا۔ انہوں نے مسلمانوں سے مستعار لیے ہوئے افکار سے بہت کچھ سیکھا۔ مغرب کا مشرق کے ساتھ رابطہ جب قائم ہوا تو عیسائی دنیا نے اس سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو بہتر بنانے کا عزم کیا۔ اسلام اور یورپ کے مابین رابطے کے نتیجے میں جو صورتحال رونما ہوئی‘ وہ کسی بھی طرح سے نشاۃِ ثانیہ سے کم نہ تھی (عزت بیگویچ ۱۴۳:۱۹۹۹)۔
اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ عیسائی دنیا اسلام کو نقصان سے دوچار کرنے کی امید سے ہرگز دستبردار نہیں ہوئی۔ صلیبی جنگوں میں مغرب کی شکست کے بعد اسلام ایک جمود کے دور سے گزرا۔ لیکن صلیبی جنگ کی حتمی شکست کی صدی میں بھی سلطنتِ عثمانیہ کا قیام (۱۲۹۹ء میں) عمل میں آیا۔ اگلی صدی تک یہ سلطنت بہت ہی طاقتور سلطنت ہو گئی۔ ۱۴۵۳ میں قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے ساتھ ہی ۱۵ویں صدی کے وسط تک یورپ کے بیچ و بیچ یہ سلطنت اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ درحقیقت اپنے قیام کے آئندہ تین صدیوں تک (۱۴ویں صدی سے ۱۶ویں صدی تک) سلطنتِ عثمانیہ ’’یورپ کے لیے عذاب‘‘ بن گئی مثلاً جیسے دہشت گردی آج کی دنیا کا مسئلہ ہے ( Lewis 1974:198-199)۔ ترک یورپ کے نزدیک ’’عیسائی دشمن ترک‘‘ کے طور پر مشہور ہو گئے اور یوں مشرق و مغرب کے درمیان دشمنی کی چنگاریاں سُلگ اٹھیں۔ جس طرح پہلے کی اسلامی سلطنتوں کے ساتھ ہوا تھا‘ عثمانیہ سلطنت کی بھی طاقت کمروز پڑنے لگی‘ داخلی انتشار نے یہاں اپنی جگہ بنالی اور آئندہ
تین صدیوں (۱۷ویں صدی سے ۱۹ویں صدی تک) یہ عظیم سلطنت کمزوری سے دوچار ہو گئی اور یہ کمزوری بیسویں صدی کے اوائل میں ہونے والی پہلی جنگِ عظیم کے دوران اس کی شکست کی صورت میں نقطۂ عروج پر پہنچ گئی۔ اس لیے کہ داخلی کمزوری نے بیرونی جارحیت کو دعوت دے دی (Oluwatoki 2001:29)۔۔۔
(جاری ہے)
(بشکریہ: سہ ماہی انگریزی مجلہ “Echo of Islam”۔ تہران)
Leave a Reply