
اگست کے مہینہ میں فرانس میں ایک یہودی سینٹر میں آگ لگنے کا واقعہ اور پھر اس واقعہ میں خود اسرائیل کے ملوث ہونے کے ثبوت مل جانے کے بعد اسرائیلی پالیسی کے دو عنصر سامنے آتے ہیں:
(۱) ان یورپین ممالک میں دہشت گردانہ کارروائیاں اور دھماکے کرانا‘ جن کے عالمِ اسلام کے ساتھ تعلقات و روابط قائم ہیں‘ یا جو مسلمانوں کے تئیں نرم رویہ رکھتے ہیں‘ پھر مسلمانوں کو ان دھماکوں اور کارروائیوں کا ذمہ دار ٹھہرانا تاکہ ان ملکوں کے عالمِ اسلام کے ساتھ قائم تعلقات خراب ہو جائیں۔
(۲) سامی دشمنی “Anti Semitism” اصطلاح کے ذریعہ یورپی ملکوں کی ہمدردی حاصل کر کے یہودی پر ہونے والی تنقید و مذمت کا سدِباب کرنے کی کوشش کرنا۔
’’سامی دشمنی‘‘ کے نام پر اسرائیل اسلامی ملکوں میں ایسی تنظیموں‘ تحریکوں‘ شخصیات اور عبارتوں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتا رہتا ہے جن سے یہودیوں پر تنقید و مذمت ہوتی ہو‘ حتیٰ کہ قرآنی آیات‘ احادیثِ نبویہ اور اسلامی تاریخ کے نصابِ تعلیم سے ان حصوں کو نکالنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے‘ جن میں یہودیوں کے خلاف مواد پایا جاتا ہے۔ ایک طرف تو اسرائیل دنیا سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ اس کا احترام ملحوظ رکھا جائے‘ اس کے مفادات کو تحفظ فراہم کیا جائے اور اپنی مظلومیت کا رونا روتا ہے۔ دوسری طرف عربوں‘ مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے کی مہم روز بروز تیز ہوتی جارہی ہے۔ صیہونی قلم کاروں‘ مورخوں‘ ادیبوں اور مصنفین نے اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے اور مذمت میں ایک کتب خانہ تیار کر دیا ہے۔ عالمی میڈیا جس پر صیہونیت کا مکمل کنٹرول اور قبضہ ہے‘ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی خراب شبیہ پیش کر رہا ہے اور مسلمانوں کے خلاف بغض و عداوت اور نفرت و کراہت کی مہم چلا رہا ہے‘ صاف شفاف اسلامی تعلیمات کو مسخ کر کے پیش کر رہا ہے۔ اسرائیل کی یہ اسلام دشمنی مہم کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اس سے ہر وہ شخص واقف ہے جو میڈیا اور ادب و لٹریچر پر نظر رکھتا ہے۔ دشمنوں نے ادب و لٹریچر اور میڈیا کے فن کی راہ سے جو حملے کیے ہیں‘ جو فکری و ثقافتی یلغار کی ہے‘ اس کے اثرات و نتائج جنگوں سے زیادہ خطرناک اور سنگین ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صیہونیوں کی جارحانہ تنقیدی مہم بڑے زور و شور سے جاری ہے اور ۱۱ ستمبر کے حادثہ کے بعد اسلام مخالف مہم اور اسلام دشمن سرگرمیوں میں اور زیادہ شدت آئی ہے۔ حالانکہ یہ مہم تمام عالمی معاہدوں‘ اخلاقی قدروں اور علمی اصولوں کے خلاف ہے۔
اسرائیل سامی دشمن “Anti Semitism” اصطلاح کو مخصوص اغراض و مفادات کی حفاظت کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ سامی دشمن اصطلاح جرمنی میں یہودیوں کے خلاف نازیوں کے اقدامات کے بعد وضع کی گئی تھی‘ جن میں یہودیوں پر مظالم کیے گئے تھے‘ یہود ان مظالم کو ’’ہولوکوسٹ‘‘ کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسرائیل نے ہولوکوسٹ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ میڈیا اور ذرائع نشر و اشاعت کے ذریعہ نازیوں کی وحشیانہ کارروائی کا پروپیگنڈہ کر کے دنیا کی ہمدردی و حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے برخلاف فلسطینیوں کو اسرائیل کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے۔ متعدد بار ہزاروں فلسطینی شہید کیے گئے۔ ’’صبرا‘‘ اور شتیلا‘‘ کے خونی واقعات جس میں فلسطینیوں کا قتلِ عام ہوا‘ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ فلسطین میں جاری جنگی کارروائیاں اسرائیلیوں کی وحشت و بربریت اور ظلم و سفاکی کی واضح دلیل ہیں۔ یہ کارروائیاں حقیقت میں انسانیت دشمنی اور بربریت و درندگی کی بدترین مثالیں ہیں۔ ان کارروائیوں سے نہ معصوم بچے محفوظ ہیں‘ نہ عورتیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے‘ وہ میڈیا پر یہودی کنٹرول کے باوجود ساری دنیا کے علم میں آتا رہتا ہے۔ اس طرح اسرائیل نے سارے حقوق اور اختیارات اور ضمانتیں اپنے لیے مخصوص کر لی ہیں اور دوسری قوموں کو ان سے محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تاریخ کے جائزہ سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں اور عربوں نے یہودیوں کے خلاف دشمنی اور بغض و عداوت کی کوئی تحریک نہیں چلائی اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی جنگی مہم چھیڑی بلکہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ خود یہودیوں ہی نے ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف دشمنی و عداوت کا محاذ کھولا۔ قرنِ اول سے یہودی اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہے‘ متعدد اسلام دشمن تحریکوں کے قائد صیہونی رہے ہیں اور موجودہ دور میں متعدد اسلام دشمن مستشرق صیہونی ہیں۔ اس سے بڑی بے انصافی کیا ہو سکتی ہے کہ عرب علاقہ کو عبرانی علاقہ بنا کر‘ عربوں کو ان کے وطن سے نکال کر مغربی ملکوں سے آئے ہوئے لوگوں کو دیا جائے۔ اصل باشندوں کے گھروں کو منہدم کر دیا جائے‘ کھیتیاں برباد کر ڈالی جائیں‘ مسلم رہنمائوں اور لیڈروں کو جو اس کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں‘ قتل کیا جائے اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے۔ آج بھی ہزاروں مسلم بچے‘ بوڑھے‘ جوان اور عورتیں جیلوں میں بند ہیں اور سخت اذیتوں اور سزائوں سے گزر رہے ہیں اور وحشیانہ و گھنائونے طریقے سے ان پر ٹارچر کیا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیت المقدس کو ڈھانے اور مسجد اقصیٰ خاکستر کر دینے کی ناپاک سازشیں اور مجرمانہ کوششیں کی جائیں اور اس کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جائے بلکہ اس کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ باہر سے آئے ہوئے یہودی‘ عربوں کو قتل کرنے اور ان کو ملک بدر کر دینے کی دھمکیاں دیں اور اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے‘ اس میں پوری انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔
صیہونی ’’سامی دشمنی‘‘ کی اصطلاح کی آڑ میں مسلم رہنمائوں کو کسی بھی یورپی ملک جانے سے رکواتے ہیں اور یورپین ملکوں پر دبائو ڈال کر اسلامی ذہن رکھنے والوں رہنمائوں اور لیڈروں پر پابندی لگواتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال حسن البنا رحمۃ اﷲ علیہ کے پوتے پروفیسر طارق رمضان اور یوسف اسلام کو یورپین ملکوں کے سفر سے روکا جانا ہے۔ صیہونیوں کے دبائو میں آکر وہاں کے سرکاری اداروں نے انہیں ویزا دینے سے انکار کر دیا۔ ان کے علاوہ متعدد اسلامی شخصیتوں کو سامی دشمنی کے الزام پر یورپ کے متعدد ملکوں میں داخل ہونے سے روکا گیا‘ بعض کتابوں پر پابندی کا مطالبہ اسی بنیاد پر کیا گیا کہ ان میں سامی دشمنی کا مواد پایا جاتا ہے۔
اسی طرح صیہونی میڈیا نے اسلامی خطرہ کا پروپیگنڈہ کیا ہے اور پوری مغربی دنیا کو اسلام سے خودفزدہ کر دیا ہے۔ مغربی ممالک میں مسلمانوں کی موجودگی کو ایک بڑے خطرہ کی شکل میں پیش کیا ہے‘ اسرائیلیوں کی طرف سے یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پوری دنیا کے لیے خصوصاً مغربی دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون نے اپنے حالیہ بیان میں جس میں فرانس پر سخت تنقید کی ہے کہا ہے ’’فرانس میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداد جو کہ چھ ملین کے قریب ہے‘ ملک کے لیے خطرہ ہے‘‘۔ اس طرح اسرائیل پوری مغربی دنیا میں مسلمانوں کی موجودگی کو عالمی امن و امان کے لیے خطرہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ چونکہ صیہونیوں کا اکثر مغربی ممالک پر پورا کنٹرول ہے اس لیے صیہونی اسلام مخالف پروپیگنڈہ میں ایک حد تک کامیاب ہیں۔ یہود اپنی نسل کے علاوہ دوسری نسل سے تعلق رکھنے والوں سے عداوت رکھتے ہیں اور ہر ممکن طریقہ سے ان کو پریشان و ہراساں کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ صیہونیوں نے اپنے مفادات کی حفاظت کی خاطر پوری دنیا پر قبضہ کا منصوبہ بنایا ہے‘ جس کو بروئے کار لانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنائے جارہے ہیں۔
درحقیقت اسرائیل دنیا میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرتا رہتا ہے اور پھر ان کی ذمہ داری مسلمانو پر ڈال دیتا ہے‘ اس کا مقصد مسلمانوں کے خلاف عالمی رائے عامہ تیار کرنا ہے۔ اگست کے مہینہ میں فرانس میں ایک یہودی سینٹر میں آگ لگنے کا واقعہ کوئی نیا حادثہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے دنیا کے مختلف ملکوں میں رونما ہونے والے انتہا پسندانہ و دہشت گردانہ واقعات میں اسرائیلی ایجنسیوں پر شبہ کیا گیا ہے۔ استنبول‘ قاہرہ اور ریاض میں ہونے والے دھماکوں میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی کا ملوث ہونا ثابت ہو چکا ہے۔ خود ان ملکوں کی حکومتوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یہ دہشت گردانہ دھماکے اسرائیل کی سوچی سمجھی سازش کے تحت ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ ترکی جو اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے‘ نے استنبول کے حالیہ دھماکوں کے بعد اسرائیل پر ایئر لائنس کمپنی ’’عال‘‘ کو بند کر دیا تھا اور یہ الزام لگایا تھا کہ اس کمپنی میں اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی ’’موساد‘‘ کے ایجنٹ کام کرتے ہیں۔ چنانچہ ترکی حکومت کے اس اقدام کے بعد اسرائیل اور ترکی کے مابین فضائی رابطہ عرصہ تک منقطع رہا‘ مصر اور سعودی عرب کی حکومتوں نے بھی قاہرہ اور ریاض میں ہونے والے بم بلاسٹ اور حملوں کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا ہے۔ عالمی تحقیقی رپورٹوں اور دستاویزوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں جو دھماکے اور دہشت گردانہ واقعات رونما ہوئے ہیں ان میں اسرائیلی ایجنسیوں پر شبہ کیا گیا ہے اور ان کا مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنا ہوتا ہے۔ فرانس میں ہونے والے دھماکے سے ان لوگوں کے موقف کو اور تقویت ملتی ہے جن کا یہ خیال ہے کہ گیارہ ستمبر کا واقعہ بھی صیہونیوں کی سازش کا نتیجہ تھا۔ اس کی تائید میں متعدد رپورٹیں اخباروں‘ رسالوں اور انٹرنیٹ پر شائع ہوئی ہیں۔ گیارہ ستمبر کا واقعہ اسی نہج اور طریقہ پر رونما ہوا تھا‘ جس نہج اور طریقہ پر فرانس کے یہودی سینٹر میں آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا ہے۔ فرانس کے اس واقعہ کے بعد صیہونی میڈیا کے ذریعہ قیامت برپا کر دی گئی۔ فرانسیسی حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ سامی دشمنی کے خلاف سخت کارروائیاں کی جائیں۔ اس پروپیگنڈے کے دوران فرانس کی اسلامی تنظیموں نے ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ یہ واقعہ اسرائیلیوں کی سازش ہو سکتا ہے اور اس کا مسلمانوں کے خلاف فرانسیسی رائے عامہ کو اُکسانا ہے لیکن اس سلسلہ میں ایک یہودی کی گرفتاری کے بعد یہ خدشات حقیقت میں بدل گئے اور یہ بات ثابت ہو گئی کہ یہ کارروائی اسرائیلیوں ہی نے کی ہے۔ کیونکہ جو شخص گرفتار کیا گیا ہے وہ پچاس سالہ یہودی ہے اور وہ اس سینٹر میں جہاں یہ دھماکہ ہوا گارڈ کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔
اس طرح کے دہشت گردانہ دھماکے اور مجرمانہ کارروائیاں مغربی ملکوں میں واقع ہوتے ہیں اور ان میں اسرائیلیوں کا ملوث ہونا بھی ثابت ہو چکا ہے لیکن ان ملکوں کی حکومتوں نے صیہونیوں کے خوف و ڈر سے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ ان واقعات پر پردہ ڈال دیا‘ اس لیے کہ ذرائع نشر و اشاعت پر صیہونیوں کا کنٹرول ہے۔ سیاسی و اقتصادی دبائو ڈالنے کے تمام ذرائع ان کے قبضہ میں ہیں اور اس سے بڑھ کر امریکا کی ان کو مکمل حمایت و تائید حاصل ہے۔ لیکن اب متعدد واقعات میں صیہونیوں کے ملوث ہونے کے ثبوت ملنے پر مغربی ملکوں میں رائے عامہ بیدار ہونے لگی ہے اور یہودیوں سے نفرت و کراہیت بڑھتی جارہی ہے اور اسرائیل کے کالے کرتوتوں سے پردہ اٹھتا جارہا ہے۔ رائے عامہ یہ سمجھنے لگی ہے کہ اسرائیل سامی دشمنی کے نام پر مل رہی حمایت کا کس طرح استحصال کر رہا ہے۔ یورپین ملکوں کی خواص و عوام میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ صیہونیوں کا سیاسیات‘ اقتصادیات اور میڈیا میں اثر و رسوخ بڑھتا جارہا ہے اور اسرائیلی حکومت کس طرح سیاسی اور اقتصادی دبائو کا استعمال کر رہی ہے۔ اگر عوام میں یہ احساس و شعور بڑھتا رہا تو عجب نہیں کہ یہ احساس اور شعور ایک تحریک کی شکل اختیار کر لے اور اس اجنبی عنصر کے تسلط و قبضہ سے چھٹکارا حاصل کرنے کی عالمی سطح پر تحریک شروع ہو جائے۔ امریکا اور مغرب کے بعض اہم ممالک اسرائیلی شکنجہ میں ہیں‘ ابھی حال ہی میں امریکی وہائٹ ہائوس میں اسرائیلی جاسوسی نیٹ ورک کا انکشاف ہوا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ مکر و فریب‘ دجل و مکاری دیرپا نہیں ہوتی بلکہ حقیقت ظاہر ہو کر رہتی ہے اور حق ثابت ہو ہی جاتا ہے۔ ’’جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا‘‘ چنانچہ ایک یورپین مفکر لورانس برائون نے کہا کہ ہم کو پہلے یہودی خطرہ‘ نازی خطرہ‘ جاپانی اور چینی خطرہ سے ڈرایا جاتا تھا لیکن یہ خطرات گمان کے مطابق ظاہر نہیں ہوئے‘ کیونکہ ہم نے دیکھا کہ یہود ہمارے دوست ہیں چنانچہ اس بنا پر ان پر ظلم کرنے والا ہمارا دشمن ہے‘ پھر ہم نے اشتراکیوں کو دوسری عالمی جنگ کے دوران اپنا حلیف اور موافق پایا جہاں تک جاپان اور چین کا تعلق ہے تو یہاں بہت سے جمہوری ممالک ہیں جو ان دونوں کے مقابلہ کے لیے کافی ہیں‘ لیکن حقیقی خطرہ مسلمانوں سے ہے‘ مسلمانوں کے اندر دوسری قوموں کو زیر کرنے کی صلاحیت و قوت ہے اور اس حیرت انگیز قوت حیات سے جس کے مسلمان مالک ہیں‘ ۱۹۵۳ء میں لورانس برائون نے ایک فرانسیسی رہنما سے کہا تھا کہ یورپ کو کمیونزم سے کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ حقیقی خطرہ اسلام ہے۔ مسلمان ہماری مغربی دنیا سے ایک الگ دنیا رکھتے ہیں۔ یہ ایک خاص روحانی سرمایہ کے مالک ہیں‘ ان کے پاس ایک عظیم الشان سچی تہذیب و تمدن ہے۔ اس کے ذریعہ سے مسلمان ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ ان کو صرف وہ ترقی حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو مغرب نے حاصل کر لی ہے۔
لیکن موجودہ حالات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ دنیا کو خطرہ اسلام سے نہیں‘ بلکہ آنے والے دنوں میں مغرب یہ جان لے گا کہ اسلام سراپا رحمت ہے‘ یہ خوشحالی اور امن و امان کا سرچشمہ ہے‘ حقیقی خطرہ تو وہ دشمن ہے‘ جس کو مغرب اپنا دوست سمجھتا ہے جو لوگ حکما صیہونی پروٹوکول اور تلمود سے واقفیت رکھتے ہیں‘ وہ جانتے ہیں کہ اصل خطرہ صیہونیت ہے‘ صیہونیوں نے دنیا کے امن و سکون کو غارت کرنے اور فساد مچانے کے لیے کیسے کیسے منصوبے بنائے ہیں اور وہ پوری دنیا پر اپنا قبضہ جمانے اور غیر یہودیوں کے خاتمہ کے لیے کیسے کیسے ناپاک عزائم رکھتے ہیں اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے گھنائو نے ہتھکنڈے اپنا رہے ہیں۔
(بشکریہ: عربی پندرہ روزہ ’’الرائد‘‘۔ ترجمانی: محمد وثیق)
Leave a Reply