
ممبئی لوکل ٹرینوں میں ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں کے بعد ایک بار پھر مسلمانوں میں احساسِ جرم پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ ایک ایسی سازش ہے جس کا شکار ہندوستانی مسلمان آزادی کے وقت سے ہی ہے۔ کسی بھی حادثے کے بعد مسلمان خود کو کیوں مجرم سمجھنے لگتا ہے؟ یہ کس طرح کی سازش ہے اور یہ کہ اس احساسِ جرم سے باہر نکلنے کا مسلمانوں کے پاس کون سا راستہ ہے؟ زیر نظر مضمون میں یہ اور اسی طرح کے چند سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
صرف مسلم آپریشن کرنے کے پس پشت بھی یہی مقاصد کارفرما ہیں کہ مسلمان احساس جرم میں مبتلا رہیں۔
ایک منظم سازش کے تحت تقسیم ہند کے فوراً بعد مسلمانوں پر ملک کے بٹوارے کا الزام عائد کردیا گیا اور انہیں بار بار یہ احساس دلایا گیا کہ ملک کی تقسیم کے وہی ذمہ دار ہیں۔ ان کی اس سازش میں غیرشعوری طور پر مسلمانوں نے بھی ان کا ساتھ دیا اور جب جب تقسیم ہند کا شوشہ ابھارا گیا‘ مسلمانوں کی جانب سے اپنے دفاع میں آوازیں بلند ہونے لگیں کہ تقسیم ہند کے ذمہ دار ہم نہیں ہیں ۔ یہ موضوع پر انا ہوا تو ہندوستانی مسلمانوں پر وطن سے غداری اور پاکستان سے وفاداری کا الزام عائد کیا گیا‘ جس کے لیے جواز پیش کیا گیا کہ ہند پاک میچ کے دوران مسلمان پاکستان کی فتح کے لیے دعائیں کرتے ہیں اور ان کی جیت پر خوشیاں مناتے ہیں۔ اس کو بنیاد بنا کر ملک میں کئی مقامات پر فساد تک برپا کیے گئے جس میں نقصان بھی مسلمانوں کا ہوا اور ہمیشہ کی طرح گرفتاریاں بھی مسلم نوجوانوں کی ہوئیں۔ دریں اثناء ایک دور ایسا بھی آیا کہ احساس جرم کے شکار مسلمان‘ پوری دنیا میں کہیں بھی ہند پاک کرکٹ میچ منعقد ہوتے تو پاکستان کی شکست کی دعائیں کرتے نظر آنے لگے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش میں کہ ہم غدار وطن نہیں ہیں‘ خود پر عائد الزامات کو تقویت پہنچانے لگے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو شدت پسند اور بنیاد پرست جیسے القاب سے نوازا گیا اور کہا گیا کہ وہ مدرسے میں پڑھتے ہیں ‘ ڈاڑھیاں رکھتے ہیں‘ عورتوں کو گھروں میں قید رکھتے ہیں‘ تہذیب سے ناآشنا ہیں‘ پارٹیاں نہیں کرتے‘ شراب نوشی کو غلط اور شرابیوں کو برا تصور کرتے ہیں۔ غرض کہ مسلمانوں کا پورا طرز معاشرت اور ان کی عبادات کو بنیاد پرستی قرار دے دیا گیا۔ مسلمانوں میں ایک بار پھر احساس جرم بیدار ہوا لہٰذا ان کی جانب سے خود کو روشن خیال ثابت کرنے کی کوششیں ہونے لگیں۔کسی نے مذہبی نقطہ نظر سے انہین قائل کرنے کی کوشش کی تو کسی نے خود کو ہی اسی انداز میں ڈھال لیا۔ مسلمانوں پر بنیاد پرستی کا لیبل چسپاں کرنے کی مہم چل ہی رہی تھی کہ بابری مسجد کی شہادت اور ممبئی‘ سورت و ملک کے دیگر حصوں میں مسلم کش فسادات کے بعد ۱۲ مارچ ۱۹۹۳ء کو ممبئی میں سلسلے وار کئی بم دھماکوں کا سانحہ رونما ہوا۔ دھماکہ ہونا تھا کہ ان طاقتوں کو جو مسلمانوں کو احساس جرم میں مبتلا رکھنے کی کوششیں کرتی رہی تھیں ایک نئی توانائی مل گئی۔ اس کے بعد سے ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن‘ کرے کوئی اور بھرے کوئی کے مصداق ملک کے کسی بھی کونے میں ہونے والی کسی بھی تخریبی کارروائی کو ان سے منسوب کیا جانے لگا اور ہر واقعے میں مسلم نوجوانوں کا ہاتھ تلاش کیا جانے لگا اور ایک ایسی غیر تحریری پالیسی وجود میں آئی جس کے تحت نہ صرف یہ کہ مسلم علاقوں کو بلیک لسٹ قرار دے دیا گیا بلکہ کسی بھی حادثے کی صورت میں اور تفتیشی ایجنسیوں کے کسی حل تک پہنچے بغیر اول دن سے ہی اسلامی دہشت گردی‘ کی اصطلاح کا راگ الاپنا شروع کردیا جانے لگا۔ مسلمانوں میں ایک بار پھر احساس جرم بیدار ہوا اور یہ اس قدر گھر کر گیا کہ کہیں بھی کوئی دھمک محسوس ہوتی‘ ایک جانب جہاں عام مسلمان خوف و دہشت کی وجہ سے گھر سے باہر نکلنا بند کردیتے تو دوسری جانب مسلم قائدین اور تنظیموں پر ذمہ داری عائدہوجاتی کہ اپنی تمام تر مصروفیات اور ترجیحات کو بالائے رکھتے ہوئے مذمتی قرارداد پاس کریں۔ یہ سلسلہ تب سے آج تک جاری ہے۔
دہشت گرد صرف مسلمان ہی کیوں ہیں؟
ان دنوں شہر میں بڑی تیز رفتاری سے ایک فکر انگیز‘ ایس ایم ایس ’’فارورڈ‘‘ کیا جارہا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں مگر تمام دہشت گرد مسلمان ہی کیوں ہیں؟ مذکورہ ایس ایم ایس سے نہ صرف عام مسلمان سکتے میں ہیں بلکہ ہمارا پڑھا لکھا اور دانشور طبقہ بھی احساس جرم میں مبتلا ہوگیا ہے اور اس کی وجوہات بھی تلاش کی جانے لگی ہیں کہ مسلمان دہشت گرد کیوں بنتے ہیں؟ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ اگر کوئی کہہ دے کہ کوّا کان لے کر جارہا ہے توہم اپنا کان دیکھنے کی بجائے کوے کے پیچھے بھاگنا شروع کردیتے ہیں۔ جب کہ اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا البتہ ایک منظم سازش کے تحت صرف مسلمان کو ہی دہشت گرد قرار دیا جاتا رہا ہے۔
دہشت گرد کون ہے اور کون نہیں؟
دہشت گرد کون ہے اور کون نہیں؟ یہ جاننے کے لیے پہلے ہمیں دہشت گردی کے مفہوم پر نظر ڈالنی ہوگی۔ دہشت گردی کے لفظی معنی ہوتے ہیں خوف و ہراس پھیلانا اسی طرح خوف پھیلانے والے کو دہشت گرد کہتے ہیں‘ مگر اصطلاحی معنوں میں اسے تخریب کاری اور تخریب کار تصّور کیا جاتا ہے۔ اس رو سے اگر دیکھیں تو کیا دہشت گردی صرف مسلمان کرتے ہیں اور دہشت گرد صر ف مسلمان ہیں۔ آزادی کے بعد سے اب تک ملک میں ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں اور تمام بڑے فسادات کی مختلف کمیشنوں اور کمیٹیوں کے ذریعہ تحقیقات بھی عمل میں آئی ہیں‘ مگر تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کسی بھی فسادی کو دہشت گرد نہیں کہا گیا۔ حتیٰ کہ مہاتما گاندھی ‘ اندرا گاندھی‘ راجیو گاندھی کے قاتلوں کو بھی دہشت گرد نہیں کہا گیا۔ بابری مسجد پر یلغار‘ گولڈن ٹمپل پر قبضہ اور وانکھیڈے اسٹیڈیم کو کھود کر ملک کا نام رسوا کرنے والوں کو بھی دہشت گرد نہیں کہا گیا۔ بہت دور کیوں جائیں ابھی ابھی ناندیڑ اور گھاٹ کو پر میں بم سازی کی وارداتیں سامنے آئی تھیں‘ جس میں پولیس نے یہ اعتراف بھی کیا کہ انکا تعلق بجرنگ دل سے ہے اور شبہ کا اظہار بھی کیا ہے کہ لانہ وپربھٹی کی مسجدوں میں ہونے والے دھماکوں میں بھی انہی کا ہاتھ ہوسکتا ہے اس کے باوجود انہیں دہشت گرد نہیں کہا گیا۔ نہ میڈیا نے انہیں دہشت گرد کہا‘ نہ پولیس نے او ر نہ ہی ہم نے۔ اگر اور قریب سے مشاہدہ کریں تو ممبئی لوکل ٹرینوں میں ہونے والے دھماکوں کے بعد ممبئی پولیس کو پہلی کامیابی دہلی ایئرپورٹ سے نتین نامی ایک شخص کی گرفتاری کی صورت میں ملی تھی جس کے تعلق سے پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے ممبئی بم دھماکوں کے چار مشتبہ ملزمان سے ملاقات کی تھی‘ مگر اسے بھی دہشت گرد نہیں کہا گیا۔ مدھیہ پردیش کے سُمیت کو جس نے ایک مقامی ہندی روزنامے کو ای میل کے ذریعہ دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی تھی اور یہ الزام مسلمانوں کے سر جائے اس کے لیے اس نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھتے ہوئے خود کو سیمی کا مقامی صدر بتایا تھا مگر اسے بھی دہشت گرد نہیں کہا گیا۔ مدھیہ پردیش کے ویبھورکملکار کو بھی دہشت گرد قرار نہیں دیا گیا جو لشکر الحق نامی تنظیم کی مدد سے مذکورہ دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرچکا ہے۔ منوج جوشی کو بھی دہشت گرد نہیں کہا گیا جس نے صدر مملکت عبدالکلام کو دھمکی آمیز میل کیا تھا۔ ان لوگوں کو دہشٹ گرد صرف اس لیے قرار نہیں دیا گیا کیونکہ ان کا تعلق مسلمانوں سے نہیں تھا۔ یقین جانیے اگر سُمیت کی جگہ کوئی سلمان یا عبداللہ ہوتا تو پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کے کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل ہی ہمارے قومی میڈیا اسے نہ صرف دہشت گردی کا سرٹیفکیٹ جاری کرچکا ہوتا بلکہ خصوصی خبر کے تحت اسے چوبیس گھنٹے دکھایا جاتا اور یہ بتایا جاتا کہ اس سے قبل اس نے کیا کیا کارنامہ انجام دیا ہے۔ میڈیا یہ بھی بتاتا کہ وہ بچپن سے ہی ایسا ہے اور اسے لوگوں کو ڈرانے میں مزہ آتا تھا یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر کھیل کے دوران ساتھیوں سے مار پیٹ کرلیا کرتا تھا۔ بقیہ کام پو لیس کرتی اور پہلی ہی فرصت میں اس کا تعلق لشکر طیبہ یا اس طرح کی کسی دہشت پسند تنظیم سے جوڑ دیاجاتا خواہ اسے عدالت میں بھلے ہی ثابت نہیں کرپاتی۔ کم از کم اب تک ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔
احساس جرم میں مبتلا کرنے کی یہ صیہونی سازش ہے!
مسلمانوں کو غدارِ وطن‘ بنیاد پرست اور دہشت گرد قرار دینے کی کوشش صرف ہندوستان میں نہیں ہورہی ہے بلکہ یہ ایک عالمی سازش ہے اور اس کے تار اسرائیل اور اس کی خفیہ ایجنسی موساد سے ملتے ہیں۔ یہاں یہ کہنے کی ضرو رت نہیں ہے کہ آج امریکا کے اقوال حکم کا درجہ رکھتے ہیں اور پوری دنیا میں سکہ رائج الوقت کی مانند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل جو چاہتا ہے وہ امریکا کے ذریعہ کہلوادیتا اور پوری دنیا خوف یا عقیدت میں اسے قابل اقتدار مان لیتی ہے۔ جہاں تک ہندوستان اوراسرائیل کے روابط کی بات ہے تو اب یہ بھی کوئی راز نہیں رہا۔ سچ تو یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی اسرائیل نے ہندوستان پر ڈورے ڈالنے شروع کردیے تھے‘ جو وقت کے ساتھ استحکام پاتے گئے۔ ۸ ستمبر ۲۰۰۳ء میں ریڈف ڈاٹ کام پر شائع ایک مضمون میں اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ ۱۹۵۰ء میں ہی تل ابیب نے ممبئی میں قونصلیٹ کھولنے کی تیاری شروع کردی تھی۔ مضمون کے مطابق ۱۹۶۸ء میں ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے قیام کے فوراً اولین ڈائریکٹر رامیشورناتھ کائو نے وزیراعظم اندرا گاندھی کی ایماء پر ’’موساد‘‘ سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش شروع کردی تھی جس کے بعد ۱۹۶۷ء کے عرب اسرائیل جنگ سے خبروں میں آنے والے جنرل موشے ڈیان نے کھٹمنڈو آکر ہندوستانی نمائندوں سے ملاقات بھی کی تھی۔ اسرائیل سے تعلقات کو مزید استحکام کانگریس کی نرسمہارائو حکومت نے بخشا اور اسے انجام تک این ڈی اے کی حکومت نے پہنچایا اور آج صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان کو ہتھیار فروخت کرنے والوں میں روس کے بعد اسرائیل کا ہی شمار ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اسرائیل اور موساد کا اثر و رسوخ صرف حکومت کی سطح تک ہی ہے بلکہ ہمارے یہاں جتنی بھی غیرتحریری پالیسیاں نافذ ہیں وہ اسی صیہونی اثرات کا نتیجہ ہیں۔
مسلمانوں کی پالیسیاں کیا ہوں؟
موجودہ صورتحال میں جب کہ مسلمانوں پر چہار جانب سے فکری یلغار جاری ہے‘ مسلمانوں کو نہایت ہی تدبّرانہ اور طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے مسلمانوں کو تعلیمی‘ سیاسی‘ معاشی‘ سماجی اور مذہبی طور پر خو دکو منظم اور مضبوط کرنا ہوگا۔ یہی پالیسی ہندوستانی سطح پر بھی کارآمد ثابت ہوگی اور تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ عالمی سطح پر بھی۔ جہاں تک ہندوستانی مسلمانوں کا معاملہ ہے انہیں ان تمام محاذوں پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ ان چاروں ستونوں میں اپنی نمائندگی بڑھانی ہوگی‘ جس پر جمہوری ہندوستان کی عمارت کھڑی ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں میں خود اتحاد نہیں ہے‘ اسی طرح پولیس میں مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم ہے‘ جس کی وجہ سے انہیں من مانی کرنے کا موقع ملتا ہے۔ مسلمانوں کی زبوں حالی سیاست میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے اور چند ایک جو سیاسی قائد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان میں سے بیشتر محض لکیر پیٹتے نظر آتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال میڈیا میں بھی ہے لہٰذا انہیں ہر نان ایشوکو ایشو بنانے اور اسے مسلمانوں کے خلاف لے جانے میں کسی قسم کی دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔
آج اگر مسلمان متحد ہوجائیں تو کیا مجال کہ کوئی انہیں یوں ہی غدارِ وطن‘ بنیاد پرست اور دہشت گرد کہے۔ ہاں اگر کوئی اس جرم کا مرتکب ٹھہرتا ہے تو دستور اس کے لیے جو بھی سزا تجویز کرے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا مگر اس کی آڑ میں کسی ایک قوم کو احساس جرم میں مبتلا نہیں کیا جاسکتا۔ پولیس کی طاقت کا اندازہ ہر فرقہ وارانہ فساد اور اس طرح کی کسی غیر تحریری پالیسی کے نافذ ہونے کے موقع پر ہمیشہ کیا جاتا ہے۔ اگر پولیس کے محکمے میں آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کی بھی نمائندگی ہو تو شاید اس صورتحال سے بچا جاسکے گا۔ جہاں تک سیاسی حصہ داری کی بات ہے اگر مسلمان پہلی بنیاد مضبوط کرلیں یعنی متحد ہوجائیں تو یہ مسئلہ خود بخود حل ہوجائے گا۔ اس کی وجہ سے نہ صرف شرح نمائندگی بڑھ جائے گی بلکہ ان کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی پارلیمنٹ میں جاکر نہ تو سودے بازی کریں گے اور نہ حق بات کہنے سے خوف کھائیں گے کیونکہ انہیں ایک متحدہ قوم کے سامنے جوابدہ بھی ہونا ہوگا۔ ہمارا چوتھا ستون میڈیا ہے اور یہاں بھی مسلمانوں کی قلت ہے۔ چھوٹے چھوٹے عہدوں پر اگر کچھ نمائندے ہیں بھی تو وہ شاید اتنے بااختیار نہیں ہیں کہ کسی پالیسی کی مخالفت کرسکیں۔ جہاں تک میڈیا کی طاقت کا معاملہ ہے الجزیرہ کی آمد کے بعد دنیا نے دیکھ لیا۔ الجزیرہ سے قبل سی این این اور بی بی سی جو چاہتے تھے دکھاتے تھے‘ جسے ہم سچ ماننے پر مجبور ہوتے تھے مگر افغانستان اور عراق میں صیہونی کوششوں کو من و عن دکھا کر الجزیرہ نے ایک مثال تو پیش کرہی دی ہے کہ اگر میڈیا کی طاقت ہو تو جھوٹ کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے اور آج مسلمانوں کی اسی طرح کے جھوٹ سے مقابلہ آرائی ہے۔ لہٰذا میڈیا کی ضرورت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’سیاست‘‘ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply