بنگلا دیش اس وقت دستوری بحران سے دوچار ہے۔ حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ بنگلا دیش میں اس وقت کوئی دستور نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکمران جماعت نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس بحران کو پیدا کیا۔ بنگلا دیش کے دانشوروں اور دستور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حالات اس طرح سے نہیں ہونے چاہییں۔ اگر حالات ایسے رہے تو بنگلا دیش کی سالمیت اور خودمختاری خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے۔
یہ حالات ایک دن کی پیداوار نہیں۔ پچھلے سال بنگلا دیش کے سپریم کورٹ نے دستور کی پانچویں اور ساتویں ترمیم کو کالعدم قرار دیا۔ تب سے اس بحران کا آغاز ہوا۔ پانچویں ترمیم مرحوم صدر ضیاء الرحمن کے دور میں کی گئی تھی جس سے بنگلا دیش کو شناخت ملی۔ دستور کے آغاز میں بسم اﷲ الرحمن الرحیم لکھا گیا، اﷲ پر مکمل ایمان و یقین کا اظہار کیا گیا۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ بنگلا دیش دنیا کے سب ملکوں بالخصوص مسلم ممالک سے تعلقات استوار کرے گا۔
۱۹۷۲ء کے دستور میں بنگلا دیش کے شہریوں کو ’’بنگالی‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ اس ترمیم کے ذریعے بنگلا دیش کے شہریوں کو ’’بنگلا دیشی‘‘ قرار دیا گیا۔ اس سے دراصل اردو بولنے والوں اور قبائلیوں کی محرومی کا ازالہ ہوا۔ بنگالی لفظ استعمال کرنے سے شروع میں ہی شیخ مجیب الرحمن نے بنگلا دیش کی سالمیت اور اتحاد کو بہت بڑا نقصان پہنچایا۔ نیا ملک بننے کے بعد چٹاگانگ ہل کے قبائل (یہ قبائل نہ بنگلا بولتے ہیں اور نہ ہی مسلمان ہیں) جب اپنے مسائل کے حل کے سلسلے میں بڑے توقعات کے ساتھ شیخ مجیب الرحمن سے ملنے آئے تو شیخ مجیب الرحمن نے ان سے کہا کہ ’’تم سب بنگالی بن جائو‘‘ اس سے ان لوگوں کو بڑا صدمہ ہوا اور ان لوگوں نے مجیب کے دورِ حکومت میں ہی بنگلا دیش سے علیحدگی کی تحریک شروع کر دی۔ شیخ مجیب کے دور کے بعد بھارت نے ان علیحدگی پسندوں کی خوب پذیرائی کی۔ علیحدگی پسندوں کے لیے بھارت میں باقاعدہ تربیتی مراکز کھولے گئے جہاں ان قبائلیوں کو عسکری تربیت دی جاتی تھی۔ یہ لوگ وطن واپس آکر سکیورٹی فورسز پر حملے کرتے تھے۔
دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اس سے بنگلا دیش کے شہریوں کی شناخت گم ہو گئی کیونکہ بھارت کے صوبے مغربی بنگال میں بنگالیوں کی آبادی آٹھ کروڑ ہے، بھارت کے ایک اور صوبے تری پورہ میں بھی بنگلا بولنے والے آباد ہیں، اس کے علاوہ صوبہ آسام کی آبادی کا قابل ذکر حصہ بھی بنگلا بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ لفظ ’’بنگالی‘‘ سے کون سے بنگالی مراد ہیں؟ مغربی بنگال کے رہنے والے، تری پورہ کے باسی، صوبہ آسام کے بنگالی یا پھر بنگلا دیش کے باشندے، سابق صدر ضیاء الرحمن نے لفظ ’’بنگالی‘‘ کو ’’بنگلا دیشی‘‘ سے بدل کر یہ مسئلہ حل کیا۔ یعنی بنگلا دیش کا کوئی بھی شہری ’’چاہے وہ کوئی بھی زبان بولے وہ بنگلا دیشی کہلائے گا‘‘۔ عوامی لیگ نے ضیاء الرحمن کے اس اقدام کی یہ کہہ کر مذمت کی کہ وہ بنگلا دیش کو دوسرا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن پوری قوم نے ضیاء الرحمن کے اس اقدام کا خیرمقدم کیا۔
۱۵؍ دسمبر ۱۹۷۵ء کو شیخ مجیب کے قتل کے بعد مشہور عوامی لیگی لیڈر خوندکر مشتاق کی قیادت میں حکومت بنی۔ لیکن یہ حکومت زیادہ دیر نہ چل سکی۔ فوجیوں اور عوام کی مشترکہ تحریک سے ضیاء الرحمن برسرِاقتدار آئے۔ عوامی لیگ کبھی بھی ضیاء الرحمن کو دل سے تسلیم نہ کرسکی، وہ ہمیشہ ان کو قوم و وطن کا غدار اور پاکستان کا ایجنٹ قرار دیتی رہی۔ عوامی لیگ کو شیخ مجیب کے یک جماعتی نظام پر بھی شرمندگی کا احساس نہیں ہوا حالانکہ شیخ مجیب کے یک جماعتی نظام نے تو پورے سیاسی نظام کے ساتھ ساتھ عوامی لیگ کا گلا بھی گھونٹ دیا تھا۔ یہ تو بھلا ہو سابق صدر ضیاء الرحمن کا جنہوں نے پانچویں ترمیم کے ذریعہ ایک دفعہ پھر کثیر الجماعتی نظام کو بحال کیا۔ گویا عوامی لیگ کی یہ موجودہ زندگی بھی صدر ضیاء الرحمن کی مرہونِ منت ہے۔ لیکن طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اس کے باوجود بھی عوامی لیگ کی قیادت ہمیشہ اس بات پر اصرار کرتی رہی کہ موقع ملتے ہی ہم ۱۹۷۲ء کے دستور کو اصل صورت میں بحال کریں گے۔
۲۰۰۸ء کے الیکشن میں زبردست کامیابی کے بعد عوامی لیگ کو اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا موقع ملا۔ کیونکہ دستور میں تبدیلی کے لیے دوتہائی کی اکثریت درکار ہے جو عوامی لیگ کو حاصل تھی۔ لیکن ۱۹۷۲ء اور ۲۰۱۱ء میں کافی فرق ہے۔ اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ گیا ہے۔ عوامی لیگ کی قیادت بھی اس حقیقت کو سمجھ گئی ہے کہ ۱۹۷۲ء کے دستور کو ہو بہو بحال کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے انہوں نے عدلیہ کا سہارا لیا لیکن حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ موجودہ عدلیہ غیر جانبدار نہیں بلکہ عوامی لیگ کی تابع ہے۔ عدلیہ نے پانچویں اور ساتویں ترمیم کو کالعدم قرار دیا لیکن اس کی بعض شقیں حالات کے تقاضوں کے پیش نظر باقی رکھیں جس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم، بنگلا دیش کے شہریوں کے لیے لفظ ’’بنگلا دیشی‘‘ نمایاں ہیں۔ اس کے بعد حکومت نے عدالت کے حکم کے تحت مذکورہ دستور کو شائع بھی کر دیا۔ شدید عوامی ردعمل سے بچنے کے لیے شیخ حسینہ سمیت عوامی لیگ کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں عدالتی حکم کی روشنی میں کر رہے ہیں۔ لیکن حزب اختلاف اور دستور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت نے جو دستور شائع کیا ہے، یہ جعلسازی پر مبنی بہت بڑا فریب ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ایڈوکیٹ خوندکر محبوب حسین نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آٹھ جگہوں پر تبدیلی کی تجویز دی ہے جبکہ حکومت نے اپنی مرضی سے ۷۱ مقامات پر تبدیلیاں کی ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ حسینہ حکومت قدم قدم پر فریب دیتی ہے۔ پچھلے سال ۲۱ جولائی کو وزیراعظم شیخ حسینہ نے دستور میں ترمیم کے لیے ۱۵ رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنائی۔ جس میں ۱۲ ارکان کا تعلق عوامی لیگ سے جبکہ تین ارکان باقی اتحادی جماعتوں سے لیے گئے۔ اس وقت بی این پی سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنا ایک ممبر اس کمیٹی میں شامل کر سکتے ہیں۔ لیکن بی این پی نے اس پیشکش کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اگر حزب اختلاف کو حکومتی ممبران کے برابر حصہ نہ دیا جائے تو ہم شامل نہیں ہوں گے۔
۱۲؍اپریل ۲۰۱۱ء کو شیخ حسینہ نے اس کمیٹی سے کہا کہ دستور میں ترمیم کا کام مکمل کرنے سے پہلے حزب اختلاف کی رہنما بیگم خالدہ ضیاء، سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس صاحبان، پارلیمنٹ میں شامل سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور دستور کے ماہرین کو مشاورت کے لیے بلایا جائے۔ لیکن پہلی بسم اللہ ہی اس طرح غلط ہوئی کہ جماعت اسلامی بنگلا دیش کو کوئی وجہ بتائے بغیر اس مشاورت سے باہر رکھا گیا۔ حالانکہ ۱۹۸۶ء سے اب تک پارلیمنٹ میں جماعت اسلامی کی نمائندگی رہی ہے۔ جماعت اسلامی کو مشاورت سے باہر رکھنے کی وجہ سے دستوری ترمیم پر قومی اتفاق رائے کا ڈھونگ کھل کر سامنے آیا۔ سپریم کورٹ کے سابق ۱۳ سربراہوں (چیف جسٹس) میں سے صرف پانچ کو اس کام کے لیے بلایا گیا۔ حکومت کا یہ ’’انتخاب‘‘ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ ۱۹۷۲ء کی دستور ساز کمیٹی کے چیئرمین اور بنگلا دیش کے معروف وکیل اور شیخ مجیب الرحمن کے قریبی ساتھی ڈاکٹر کمال حسین نے کمیٹی سے کہا کہ دستور میں ترمیم لانے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا جائے جو عوامی رائے معلوم کرے لیکن اس خصوصی کمیٹی کے شریک چیئرمین اور ترجمان سُرن جیت سِن گپتا نے ڈاکٹر کمال حسین کے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن بنانے کا کوئی موقع نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں ہم آگے بڑھیں گے۔ ہم کسی بھی صورت میں اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور ہم جو تبدیلیاں لائیں گے، وہ پارلیمنٹ سے پاس کرائیں گے۔ سرن جیت سن گپتا کے اس بیان کے بعد یہ بات صاف ہوگئی کہ حکومت اپنے ہی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے اور مشاورت محض دکھاوا ہے۔ خود حکمران جماعتوں میں بھی اس معاملے پر سخت اختلاف پایا جاتا ہے۔ حکمران گرینڈ الائنس کی دوسری بڑی جماعت جاتیو پارٹی صدارتی طرزِ حکمرانی کے حق میں ہے۔ اس کے چیئرمین سابق فوجی حکمران جنرل حسین محمد ارشاد نے کمیٹی کے سامنے ایک تحریری بیان میں کہا کہ دستور کے شروع میں ’’بسم اللہ‘‘ اور ریاست کا مذہب ’’اسلام‘‘ ضرور رہنا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دینی سیاسی جماعتوں پر بھی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ یاد رہے کہ جنرل حسین محمد ارشاد ہی کے دور میں دستور میں اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا گیا تھا۔ حکمران اتحاد میں شامل بائیں بازو کی دو تین چھوٹی پارٹیوں کے سربراہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ ہمیں ۱۹۷۲ء کا سیکولر دستور چاہیے۔ جس میں ’’بسم اللہ‘ اور ریاست کے مذہب ’’اسلام‘‘ کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس کمیٹی کو سب سے بڑا دھچکا اس وقت لگا جب حزب اختلاف کی رہنما خالدہ ضیاء نے کمیٹی کی مشاورت میں شمولیت سے معذرت کر دی۔ ۲۵؍اپریل کو خالدہ ضیاء نے کمیٹی کے خط کے جواب میں لکھا کہ کمیٹی کی طرف سے دعوت پر میں اس کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ لیکن خط میں کوئی ایجنڈا نہیں دیا گیا۔ حکومت نے جو دستور چھاپا، اس کی کاپی بھی نہیں بھیجی۔ خالدہ ضیاء نے کہا کہ وزیر قانون ۱۰ فروری ۲۰۱۱ء کو گزٹ نوٹیفکیشن کے تحت شائع شدہ دستور کو بنگلا دیش کا دستور قرار دے رہا ہے جبکہ اس کمیٹی کے شریک چیئرمین کا کہنا ہے کہ یہ دستور کا مسودہ ہے، دستور نہیں۔ اس دستور کے متعلق خود حکمرانوں کے متضاد بیانات نے عوام کو مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ اور یہ معلوم نہیں ہو رہا کہ حکومت کا صحیح موقف کیا ہے؟ ان حالات میں ہمیں بحث کے لیے دعوت دینا کوئی نیک نیتی پر مبنی نہیں ہے۔ لہٰذا میں اس میں شریک نہیں ہوسکتی۔
بنگلا دیش کے چوٹی کے وکلاء اور دستور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پانچویں ترمیم پارلیمنٹ کا ایک (Act of Parliment) ہے جس میں ترمیم لانا یا کالعدم قرار دینا پارلیمنٹ کے ایکٹ ہی سے ممکن ہے۔ یہ عدلیہ کا کام نہیں ہے، عدلیہ کا کام صرف دستور کی تشریح ہے۔ عدلیہ دستور کی تابع ہے اور اس کا دائرۂ اختیار اور دائرہ کار بھی دستور میں درج ہے۔ لہٰذا سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ انتہائی متنازع ہے۔
☼☼☼
Leave a Reply