ہم نے اکیسویں صدی میں ایک ایسے مرحلے میں قدم رکھا ہے کہ صارفیت کا بڑھتا رجحان ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے قائم اس فطری نظام کو بری طرح متاثر کر رہا ہے، جس پر ہم سب کا انحصار ہے اور رہے معاشرے کے مفلوک الحال لوگ، ان کے لیے بنیادی ضروریات کا حصول مشکل سے مشکل تر بنتا جا رہا ہے۔
یہ الفاظ ورلڈ واچ انسٹی ٹیوٹ کے صدر Chiristopher Flavin کے ہیں، جو صارفیت کے روز بروز بڑھتے مضر اثرات سے نہ صرف فکرمند ہیں بلکہ اس کی روک تھام کے لیے انہوں نے باقاعدہ ایک ادارہ قائم کر رکھا ہے۔ نہ صرف ایک کرسٹوفر، بلکہ نہ جانے دنیا میں ایسے کتنے ادارے، تنظیمیں اور افراد ہیں جو انسانوں کی فطری ترقی کی راہ میں حائل صارفیت کے زہریلے کانٹوں کو اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔ یو ںتو صارفیت (Consumerism)، کسی بھی شئے سے متعلق ایک فرد کی پسند کو ظاہر کرتی ہے۔ لیکن موجودہ دور میں اس کی ترقی نے اسے معنوں کے مختلف جامے پہنائے ہیں۔ صارفیت لوگوں کے ایسے رجحان کے لیے مستعمل ہے جو کسی بھی شئے کو خریدنے یا کسی سروس سے مستفید ہونے کے لیے ان کے اندر پایا جاتا ہے، جیسے قیمتی آٹو موبائلس، مختلف النوع ملبوسات، مہنگے زیورات، عالیشان گھر وغیرہ۔ اس کے سلسلے میں یہ بات بھی خاصی عام ہے کہ:
Consumerism is a term used to describe the effect of market economy on an individual ’’صارفیت حقیقت میں وہ اصطلاح ہے جسے کسی بھی فرد پر مارکیٹ کی معیشت کے اثر کو معلوم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے‘‘۔
مادّہ پرستی کے بڑھتے رجحانات کے سبب صارفیت کا ترقی کر جانا بالکل واضح ہے۔ لیکن گزشتہ چند دہائیوں میں ہوئی ترقیوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ صارفیت کو فروغ دینے کے لیے باضابطہ اور منصوبہ بند کوششیں ہوئی ہیں:
(۱) اس میدان کے ماہرین کا یہ خیال ہے کہ اکیسویں صدی کی صارفیت کا ایک غالب عنصر ایک دوسرے سے بڑھنے کی چاہت (Emulation) ہے۔ معاشرے میں ہر طرف اس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ غریب، امیر کی نقالی (Imitation) کرتے ہیں اور امیر، معروف شخصیات (Celebreties) کی۔ یہی وجہ ہے کہ اشیا کی فروخت اور ان کی بڑے پیمانے پر تشہیر کے لیے معروف شخصیات ہی کا استعمال کیا جاتا ہے، جن میں خصوصیت کے ساتھ فلمی ستارے اور کرکٹ کھلاڑی شامل ہیں۔ حال ہی میں منعقد ہوئے، DLF کے ۲۰، ۲۰ کرکٹ میچ، ان دو میدانوں کی نمایاں شخصیات کے باہمی تعاون کے ساتھ اشیائے غیر ضروریہ کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی واضح مثال ہیں۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ اس کے بعد لگژری کاریں، موبائل سیٹ، ایئرکنڈیشنڈ وغیرہ کا بڑے پیمانے پر کاروبار ہوا ہے۔ ہندوستان میں آج سے دس سال قبل ایک بھی Shopping Mall نہیں تھا۔ ایک سال قبل تقریباً ۶۰ وجود میں آ گئے اور آئندہ ۲ برسوں میں ۲۵۰ قائم ہونے کے پورے امکانات نظر آ رہے ہیں۔
(۲) صارفیت کی حیرت انگیز ترقی کا ایک اور سبب یہ ہے کہ اشیا کو ہر فرد کے لیے قابل استعمال بنانے کی کافی سہولتیں مہیا کی گئی ہیں۔ ہر شئے تک، ہر فرد کی رسائی کو ممکن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قیمتی کاروں کی خریداری ہو یا گھر کی تعمیر، سودی قرض کی فراہمی آسان ہے۔ اعلیٰ طریقے سے تیار کی گئی غذائیں ہوں یا استعمال کی دیگر چیزیں، یہ گھر بیٹھے وقت کے تعین کے ساتھ فراہم کی جاتی ہیں۔ اس طرح اشیا کے کثرت سے استعمال نے لوگوں میں Use & Throw کی ذہنیت کو فروغ دیا ہے۔ چنانچہ کیمروں سے لے کر پین تک ایسی چیزیں مارکیٹ میں مہیا ہیں، جو صرف ایک مرتبہ استعمال کی جا سکتی ہیں، ان کی مرمت ممکن نہیں۔
(۳) گلوبلائزیشن کی وجہ سے بھی جو چیزیں کبھی بڑی قیمتی سمجھی جاتی تھیں اور جن کا استعمال عام آدمیوں کے لیے تصور نہیں کیا جا سکتا تھا، اب وہ ہر خاص و عام کے دسترس میں آ گئی ہیں۔ جیسے ٹی وی، کمپیوٹر، ایئرکنڈیشنڈ وغیرہ۔ پھر عالمگیری نے خصوصیت کے ساتھ نوجوانوں کے سامنے اپنے کیریئر کو سنوارنے کے لیے بے پناہ دروازے کھول دیے ہیں۔ یہاں تک کہ ۱۸ تا ۲۲ سالہ نوجوان بڑے شہروں میں ماہانہ ہزاروں روپے کمانے لگے ہیں اور جس انداز سے وہ اپنی رقم خرچ کرتے ہیں، اس بنا پر ان کی کمائی کو Disposable Income کہا جانے لگا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ۲۰ تا ۲۴ سالہ کمانے والے نوجوان ہر سال ۳ ملین کی تعداد میں بڑھتے ہیں۔
صارفیت کا یہ بڑھتا رجحان کئی پہلوئوں سے محتاجِ اصلاح بنا ہوا ہے۔ یہ صرف کسی فرد یا گروہ کا کوئی غیر ضروری شئے کو خریدنے کا وقتی معاملہ ہی نہیں بلکہ، صَرف کی بڑھتی چاہت نے معاشرے میں باقاعدہ ایک صارف طبقے (Consumer Class) کو وجود بخشا ہے، جس کی پہچان بس صَرف (Consumption) ہے۔
(۱) ورلڈ واچ کی رپورٹ: ۲۰۰۴ء کے مطابق پوری دنیا میں ۷ء۱ بلین ایسے افراد ہیں جو Consumer Class سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی آدھی تعداد ترقی یافتہ ممالک میں رہتی ہے۔ چین میں ۲۴۰ ملین اور ہندوستان میں ۱۲۰ ملین۔
(۲) معیارِ زندگی کو بڑھانے کے لیے، زیادہ قرض لیا جاتا ہے۔ اس کی ادائیگی کے لیے ضرورت سے زیادہ کام پر توجہ دی جاتی ہے۔ نتیجتاً فیملی سے تعلقات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ دوست احباب کا حلقہ بھی روز بروز سکڑتا جا رہا ہے۔ سماج کی بھلائی کے لیے تعاون کرنے والے افراد کی بڑی قلت ہے۔
(۳) معیارِ زندگی میں تبدیلی کے لیے اعلیٰ پیمانے پر تیار کی گئی جن غذائوں کا استعمال کیا جا رہا ہے، ان سے موٹاپے (Obesity) کی بیماری میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ ایک سنگین معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے۔ امریکا میں ۶۵ فیصد بالغ آبادی موٹاپے کے مرض کے شکار ہیں۔ اس کے علاوہ دل اور شکر کی بیماریوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
(۴) اشیا غیر ضروریہ پر خرچ کا راست اثر عام انسانوں کی واجبی ضروریات پر پڑا ہے۔ حسب ذیل چارٹ سے اس کی وضاحت ہو جائے گی:
پورے عالم میں لوگوں کی ترجیحات | خرچ کی گئی رقم (ارب امریکی ڈالر میں) |
افزائش حُسن کی اشیا (Cosmetics) | ۸ |
یورپ میں آئس کریم کی خرید | ۱۱ |
یورپ اور امریکا میں عطریات کی خرید | ۱۲ |
یورپ و امریکا میں گھریلو جانوروں کی غذا کی خرید | ۱۷ |
جاپان میں ملازمین کی سیرو تفریح پر | ۳۵ |
یورپ میں سگریٹ نوشی پر | ۵۰ |
یورپ میں شراب کے استعمال پر | ۱۰۵ |
دنیا بھر میں نشیلی ادویات کی خرید پر | ۴۰۰ |
دنیا بھر میں ملٹری کے اخراجات | ۷۸۰ |
اگر اس نقطہ نظر سے غور کیا جائے کہ دنیا بھر کے انسانوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے کتنی رقم درکار ہے تو حسبِ ذیل صورتحال سامنے آتی ہے:
سب کے لیے بنیادی تعلیم | ۶ ؍ارب امریکی ڈالر |
سب کے لیے پانی کی فراہمی اور نکاسی | ۹ ؍ارب امریکی ڈالر |
خواتین کی بہتر صحت | ۱۲ ؍ارب امریکی ڈالر |
صحت عامہ کے لیے بنیادی سہولیات کی فراہمی | ۱۳ ؍ارب امریکی ڈالر |
(۵) لوگوں کا سواریوں پر زیادہ انحصار، ماحولیاتی آلودگی، گنجان ٹریفک کا سبب بنا ہوا ہے۔ ہمارے ملک میںایسے کئی بڑے شہر ہیں جن کی ٹریفک دنیامیں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ شہر بنگلور ایشیا کا سب سے زیادہ گنجان ٹریفک والا شہر ہے۔ کاروں اور نقل و حمل کے دیگر ذرائع کے استعمال کی وجہ سے دنیا کی توانائی کا ۳۰ فیصد حصہ خرچ ہو جاتا ہے اور پوری دنیا میں پیٹرول اور ڈیزل کا جو خرچ ہے اس میں سے ۹۵ فیصد نقل و حمل کے ان ہی ذرائع میں خرچ ہو جاتا ہے۔ اس لیے بجا طور پر کہا جارہا ہے کہ ماحولیاتی بحران سے جڑے تقریباً تمام مسائل کا تعلق صارفیت کے بڑھتے ہوئے رجحانات سے ہے۔ ورلڈ واچ کی رپورٹ کے مطابق اگر ماحولیاتی آلودگی یوں ہی برقرار رہی تو دنیا میں سے ۳۷ فیصد مخلوقات (Species) فنا ہو سکتی ہیں۔
(۶)کھانے پینے کی عادتوں میں فرق نے بھی معاشرے پر نمایاں اثرات مرتب کیے ہیں۔ گوشت کا کثرت سے استعمال اور اس کی دن بہ دن بڑھتی مانگ نے اس کی تجارت کو باضابطہ ایک انڈسٹری (Factory Farming) کی شکل دے دی ہے۔ اس کی وجہ سے پانی اور سبزیوں کی قلت عام ہوتی جا رہی ہے۔ فارم میں پَل رہے جانوروں کے لیے ۹۵ فیصد سویا بین کا استعمال ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ مرغیوں کو پنجرے میں رکھنے کے لیے ۹ مربع انچ جگہ مہیا کی جاتی ہے اور زیادہ انڈے حاصل کرنے کے لیے مرغیوں کو بھوکا رکھا جاتا ہے۔ مرغیوں کو ذبح کرنے سے پہلے مختلف ہارمونس کے انجکشن دے کر انہیں موٹا کر دیا جاتا ہے۔ ان تمام وجوہ کی بنا پر مرغیوں میں بیماریاں پھیلتی جا رہی ہیں، جن سے حفاظت کے لیے طرح طرح کے Anti-biotics کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں WHO نے ایک چونکا دینے والی رپورٹ شائع کی ہے۔ جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ جانوروں کی اس طرز پر افزائش اور ان لوگوں کا ان کو استعمال کرنا ایک قسم کی مزاحمت کا سبب بنا ہوا ہے، جس کی وجہ سے انسانوں اور جانوروں میں پھیل رہی بیماریوں کا علاج پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔
صارفیت سے متعلق موجودہ صورتحال، اس کی وجوہ اور اثرات پر اختصار کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔ یہ ساری بحث دنیوی وسائل کے استعمال سے متعلق ہے۔دینِ اسلام دنیوی وسائل سے استفادے کے لیے صحت مند طریقوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان کے حصول کی راہیں ہموار کرتا ہے۔ اس کے لیے کی جانے والی کوششوں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ بعض اوقات یہ نماز اور روزہ جیسی عظیم عبادتوں سے بھی افضل ہو جاتی ہیں۔ اسلام نے ضروریات زندگی کے حصول اور ان کے استعمال میں بعض پابندیاں عائد کی ہیں۔ صارفیت سے متعلق موجودہ رجحانات اور ان کی وجہ سے پیدا شدہ حالات، دین اسلام کی ان ہی پابندیوں سے انحراف کا نتیجہ ہے۔ اسلام، اشیا ضروریہ کا حصول نہ صرف ضروری قرار دیتا ہے بلکہ اس کی ترغیب دلاتا ہے:
’’کھائو اور پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو‘‘۔ (الاعراف:۳۱)
’’اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کرنا‘‘۔ (القصص:۷۷)
اور یہ کہ ساری کائنات انسانوں کے لیے مسخر کر دی گئی ہے۔
’’اور اس نے زمین اور آسمانوں کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے، سب کچھ اپنے پاس سے‘‘۔ (الجاثیہ: ۱۳)
صارفیت کے بڑھتے رجحانات سے متعلق لوگوں کی اصلاح کرنا نہ صرف ان کی دنیا و آخرت کی بھلائی کے لیے ضروری ہے بلکہ معاشرے کی ہمہ جہت ترقی بھی اسی سے وابستہ ہے۔ صارفیت کے مضر اثرات سے انسانیت کو بچانے کے لیے بنیادی باتوں کی وضاحت ضروری ہے:
دنیا کی بے ثباتی
دنیا میں رہتے ہوئے، دنیا سے متعلق صحت مند رویہ، صحت مند فکر و خیال کو یقینی بناتا ہے۔ دنیا میں رہنا، اس کے وسائل کا استعمال کرنا سب اس ذہن کے ساتھ ہو کہ یہ جگہ پائیدار نہیں، بلکہ اصل گھر تو آخرت کا گھر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں مسافر کی مثال دی کہ جتنا تعلق ایک مسافر کا سفر سے ہوتا ہے، ویسا ہی تعلق ایک بندۂ خدا کا دنیا سے ہونا چاہیے اور دنیا میں رہتے ہوئے وسائل کو اکٹھا کرنے کی بجائے، عمل پر توجہ دینی چاہیے۔ ایک حدیث میں فرمایا گیا:
ترجمہ: ’’آج تم ایک ایسے گھر میں ہو، جہاں عمل کی گنجائش ہے، حساب نہیں لیا جائے گا۔ کل تم ایسے گھر میں داخل ہو جائو گے جہاں حساب لیا جائے گا، عمل کی گنجائش نہیں رہے گی‘‘۔
دنیا کا سامانِ عیش چاہے کتنا ہی کیوں نہ ہو، اس کی اصل حیثیت ناپائیدار ہے، اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے جو نیک اعمال کیے جائیں گے، ان کے بدلے میں ملنے والا سامان عیش ہمیشہ باقی رہنے والا ہے:
’’جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ خرچ ہو جانے والا ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے‘‘۔ (النحل: ۹۶)
مال کا صحیح تصور
صارفیت جس نظام کا حصہ ہے، اس نظام ہی نے دولت کے صحیح مقام کا تعین نہیں کیا، اس لیے عمل کا صحیح تصور، صارفیت کے بڑھتے اثرات کو بڑی حد تک کم کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو وسائل انسان کو دیے ہیں ان پر اس کو نگرانِ کار بتایا ہے، جو دولت اسے حاصل ہوئی ہے، جن اسباب اور ذرائع سے اس نے اسے کمایا ہے، وہ سب کے سب اللہ کے ہیں۔ انسان کا مطلوب رویہ یہی ہونا چاہیے کہ جس خدا کے فضل سے اسے مال ملا، اس کو اسی کے بتائے ہوئے راستے میں خرچ کرے:
’’اور خرچ کرو ان چیزوں میں سے جن پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے‘‘۔ (الحدید: ۷)
مال کے اسی تصور سے یہ بات بھی عقل قبول کر لیتی ہے کہ اطراف و اکناف میں جو لوگ رہتے ہیں وہ دولت کے حصے دار ہیں۔
’’جن کے مالوں میں سوال کرنے والے اور محروم کا مقرر حق ہے‘‘۔ (المعارج: ۲۵۔ ۲۶)
اس تصور کے ساتھ زندگی گزارنے والوں کو اللہ تعالیٰ بڑا محبوب رکھتا ہے۔ ان کے خرچ کرنے کے مختلف طریقوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ ہر حال میں مال خرچ کرتے ہیں۔ کھلے، چھپے، تنگ حالی میں اور خوشحالی میں، رات میں اور دن میں۔ اگر کوئی شخص اپنے مال سے اپنے اعزا واقربا اور دست سوال دراز کرنے والوں کی خبر گیری نہیں کرتا تو اس کا ایسا طرزِ عمل اس کی تباہی کے لیے کافی بتایا گیا ہے۔ رسول اکرمﷺ فرماتے ہیں:
’’کسی شخص کی تباہی کے لیے اس کا بس یہ ایک گناہ کافی ہے کہ جس کی روزی روٹی کا وہ ذمے دار بنایا گیا ہے اس کو ضائع کر دے‘‘۔
حقیقت میں مال و دولت کا یہی وہ تصور ہے جو صارفیت کی وجہ سے عام ہوئی فضول اور بے موقع خرچ کی ذہنیت پرروک لگا سکتا ہے۔
’’رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق۔ فضول خرچی نہ کرو۔ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں‘‘۔ (الاسرا: ۲۶۔ ۲۷)
احساس جواب دہی
انسان اگر یہ احساس اپنے اندر ہمیشہ زندہ رکھے کہ مجھے اپنے ہر عمل کا حساب اپنے علیم و خبیر خدا کے سامنے دینا ہے، تو دولت اور وسائل کے استعمال میں محتاط رویہ اختیار کرنا اس کا فطری عمل بن جاتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے جن پانچ سوالات کا جواب دیے بغیر اللہ کے حضور سے ہٹنا ناممکن بتایا ہے اس میں مال کے کمانے کا ذریعہ اور خرچ کا طریقہ شامل ہے، جو حقیقت میں ایک بندۂ خدا کے اندر احساسِ جوابدہی کو اجاگر کرتا ہے اور ایسا ہی ذہن اللہ تعالیٰ کی اس تنبیہ کی حقیقت کو بھی سمجھ سکتا ہے:
’’دردناک سزا کی خوشخبری دو ان کو، جو سونے او رچاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے‘‘۔ (التوبہ: ۳۴)
عزت و شرف کا اصل معیار
یہ کہا جاتا ہے کہ اس صدی کی صارفیت کا ایک اہم عنصر مال و دولت کے بارے میں لوگوں کا ایک دوسرے سے سبقت لے جانا ہے۔ اس حقیقت کو قرآنِ کریم نے بہت پہلے واضح کر دیا کہ اگر کسی انسان یا کسی گروہ میں یہ بُری خصلت گھر کر جائے تو دنیا کو حاصل کرنے کی چاہ اور لوگوں سے دنیوی معاملات میں سبقت لے جانے کی دُھن اس وقت تک سوار رہے گی جب تک کہ اس کا قبر جانے کا وقت نہ آ جائے۔ (اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُ…)
عزت و شرف کے لیے جس بنیادی بات کی طرف اسلام نے انسانوں کو متوجہ کیا ہے وہ مادّی اعتبار سے نہیں، بلکہ اخلاقی بلندیوں تک پہنچتا ہے۔:
’’درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔ (الحجرات: ۱۳)
زمانہ چاہے کتنی ہی ترقی کر لے، یہی الٰہی اصول حقیقی کامیابی کا ضامن ہو سکتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیوی وسائل کے بالمقابل، اعلیٰ اخلاق و کردار کی وضاحت بڑے ہی دلنشین انداز میں فرمائی ہے:
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان اخلاق تقسیم کیے ہیں‘ جیسے اس نے تمہارے درمیان سامانِ زندگی تقسیم کر رکھے ہیں‘‘۔
یعنی حقیقی زندگی وہ زندگی ہے جو نہ صرف خدا کے دیے ہوئے وسائل کو ظاہر کرتی ہے بلکہ خدائی اخلاق بھی جس سے ظاہر ہوتے ہوں۔
قناعت پسندی
آج کی مادّی ترقی نے دنیا کو بڑا خوبصورت بنا دیا ہے۔ ایسے میں قناعت پسندی کا درس، بڑی حد تک دنیا کی بھول بھلیوں میں گم ہونے نہیں دے گا۔ دنیا کتنی حاصل کی جائے، اس کی کوئی حد نہیں۔ اگر ہے بھی تو ہر ایک کی اپنی ضروریات اور حالات کے مطابق۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی بعض نعمتیں ایسی ہیں، جن کا ہونا بذاتِ خود، دنیا اور مافیہا سے بہتر ہو جاتا ہے۔
رسول اکرمﷺ نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے مال و اسباب پر ہمیشہ اطمینان کا اظہار کیا جائے۔
’’جو اللہ کے دیے ہوئے رزق پر راضی ہوا، اللہ تعالیٰ اس کے تھوڑے عمل سے راضی ہو جائے گا‘‘۔
پھر یہ بھی کہ کسی کا پُرامن ماحول میں گزر بسر کرنا، صحت مند رہنا اور چند وقت کا رزق مہیا رہنا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ وہ نعمتیں ہیں گویا دنیا اپنے پورے سازوسامان کے ساتھ سمیٹ کر پیش کر دی گئی ہو:
’’جو تم میں سے کوئی ایسی حالت میں صبح کرے کہ اسے امن میسر ہو، جسم ٹھیک ٹھاک ہو، اور اس کے پاس ایک دن کا کھانا موجود ہو، تو یہ حالت ایسی ہے گویا کہ دنیا اپنے پورے سازو سامان کے ساتھ اس کے سامنے پیش کر دی گئی ہو‘‘۔
مقصد زندگی کا صحیح تصور
بحیثیت مجموعی پورے عالم کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے سرمایہ دارانہ استعمار کی مختلف شکلوں کی اصلاح، مقصد زندگی کے صحیح تصور ہی سے ممکن ہو سکتی ہے۔ انسانوں کا لہو و لعب میں پڑ جانا۔ دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھ لینا۔ مادّی وسائل کے حصول کی خاطر، ظلم و ناانصافی کا سہارا لینا۔ محض اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنے رحیم و کریم آقا کو بھولا ہوا ہے۔ پس اس کو یاد دلایا جائے کہ اس کا حقیقی خدا کون ہے؟ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اس دنیا میں رہتے ہوئے اسے کس طرح زندگی گزارنی چاہیے؟ جب اس کی ذہنی ساخت درست ہو گی تو اس کا رویہ ہر ایک کے تئیں درست ہو گا۔ صارفیت کے دائرے میں نہ صرف انسانوں کے مسائل موجود ہیں بلکہ ماحولیات سے لے کر دوسرے چرند اور پرند تک کے مسائل اس میں شامل ہیں۔ انسان خدا کو جان لے تو وہ اپنی دولت اور وسائل کا صحیح استعمال کرے گا۔ ارشاد ربانی ہے:
’’تم میزان میں خلل نہ ڈالو، انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو‘‘۔ (الرحمن: ۹۔۸)
اس صدی میں دینِ اسلام کی اشاعت کو اور صارفیت سے متعلق اس کی تعلیمات کو ایک معرکہ آرائی سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ صدی Islam Vs West’s Daily Bread کے مصداق ہے۔ دینِ اسلام کی حیات بخش تعلیمات کی، عالمی تناظر میں بڑے ہی دلنشین پیرائے میں وضاحت کرنے کی ضرورت ہے، یہ صدی اس کے لیے تیار شدہ اسٹیج کی حیثیت رکھتی ہے اور اس صدی کا انسان اس کا جویا معلوم ہوتا ہے۔ صرف صارفیت کے اس ایک معاملے کو لیجیے۔ دیکھیے انسان کس طرح اس کے بُرے اثرات سے انسانوں کو محفوظ رکھنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ ۲۹ نومبر ۲۰۰۸ء کو عالمی سطح پر ایک یوم Buy Nothing Day منایا گیا، کہ اس دن کوئی شخص، کچھ بھی نہ خریدے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہم ایک قابلِ عمل منصوبہ بنا کر اس کے مؤثر نفاذ کے ذریعے دنیا پر یہ حقیقت واضح کر سکتے ہیں کہ انسانی مسائل کا حل، الٰہی ہدایات کے تحت انسانی کوششوں سے ہی ممکن ہے۔ (صارفیت: موجودہ صورتحال، اسلامی نقطۂ نظر)
(بشکریہ: ’’دعوت‘‘ دہلی۔ خصوصی شمارہ مارچ ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply