
امریکی صدر باراک اوبامہ نے افغانستان اور پاکستان کے لیے نئی حکمتِ عملی کو قابلِ عمل بنانے کی غرض سے ایران اور بھارت پر مشتمل ایک رابطہ گروپ تشکیل دینے پر زور دیا ہے جو کہ دہشت گردی سے نمٹنے کی صلاحیت کا حامل ہو گا جس کا مرکز و محور پاکستان کو قرار دیا ہے۔ اس رابطہ گروپ سے امریکا کو کس قسم کی توقعات ہیں، یہ سب کچھ جاننے کے لیے گزشتہ تیس برسوں میں اس علاقے میں رونما ہونے والی تزویراتی تبدیلیوں کے پس منظر میں اس کا تجزیہ کرنا ضروری ہے جن کی وجہ سے تمام علاقے خصوصاً پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کی سلامتی پر شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
۱۹۷۹ء سے اب تک ہمارے خطے میں جو اہم واقعات رونما ہوئے ہیں ان کی وجہ سے نئے تزویراتی حقائق نے جنم لیا ہے۔ روسی افواج کی افغانستان پر چڑھائی اور مجاہدین کی آٹھ سالہ جنگِ آزادی، ایران کا اسلامی انقلاب اور آٹھ سالہ طویل ایران۔عراق جنگ، خلیج کی پہلی جنگ، افغانستان اور عراق پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کا قبضہ اور افغانستان میں امریکی و اتحادی فوجوں کی موجودہ مزاحمتی جنگ کا تسلسل، ایسے واقعات ہیں جن کی وجہ سے نئے طاقتی مراکز وجود میں آئے ہیں جو کہ اپنی اپنی افادیت قائم کرنے کے لیے باہم کوشاں ہیں۔ امریکا اپنی عالمی بالادستی کے خواب کی تعبیر کی خاطر ان طاقتی مراکز کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔ آئیے ان نئے جنم لینے والے طاقتی مراکز پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
اسلامی مدافعتی قوت:
جس نے افغانوں کی جنگِ آزادی کی کوکھ سے جنم لیا تھا اس میں پوری دنیا کے جہادی شامل تھے۔ اس جنگ کی منصوبہ بندی سی آئی اے اور آئی ایس آئی نے مشترکہ طور پر کی تھی اور آخرکار وہ روسی افواج کو افغانستان سے پسپا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جب روس نے افغانستان سے فوجیں نکالیں تو اس وقت افغانستان میں دنیا کے تقریباً ستّرممالک سے آئے ہوئے ساٹھ ہزار کے لگ بھگ مجاہدین موجود تھے اور چالیس ہزار پاکستانی مجاہدین ان کے علاوہ تھے۔ اس وقت تمام مجاہدین اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے تھے، سوائے اسامہ بن لادن اور ان کے رفقا کے، جنہیں ان کے اپنے ہی ممالک نے خطرناک تصور کرتے ہوئے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، اس طرح وہ دنیا میں بے وطن ہو کر رہ گئے۔ انہوں نے امریکا کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔ اسلامی مدافعتی قوت کا صرف ایک ہی مقصد ہے: ’’اپنے وطن کی آزادی‘‘۔ اس مرکز کی پہنچ عالمی سطح تک ہے جو کہ چیچنیا سے فلسطین، عراق، افغانستان اور کشمیر میں جاری آزادی کی جنگوں میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ’’اس بکھری ہوئی غیرمنظم فوج کی کمان کامل ایمان والے مجاہدین کے ہاتھوں میں ہے جنہوں نے گزشتہ تیس برسوں میں بڑی بڑی عالمی طاقتوں کا غرور خاک میں ملایا ہے‘‘۔ درحقیقت یہ اسلامی مدافعتی قوت ہی ہے جو نئے ابھرتے ہوئے عالمی نظام کے خدوخال مرتب کر رہی ہے اور عراق سے کشمیر تک آزادی اور قیامِ امن کی علمبردار ہے۔
آئی ایس آئی ہدفِ تنقید کیوں؟
آٹھ سالہ افغان جنگِ آزادی کے دوران آئی ایس آئی نے جس کردار کا مظاہرہ کیا اس سے سی آئی اے پر اس کی صلاحیتیں واضح ہو گئی تھیں۔ اس دوران آئی ایس آئی نے غیرملکی حریت پسندوں سے رابطے قائم کر کے عالمی سطح تک رسائی اختیار کر لی تھی جن سے خائف ہو کر امریکا آئی ایس آئی کے کردار کومحدود کرنے کے در پے ہو گیا۔ ۱۹۸۹ء میں امریکا نے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو اس بات پر قائل کر لیا تھا کہ وہ افغانستان میں آئی ایس آئی کے کردار کی حوصلہ شکنی کرے اور اس طرح افغانستان میں پاکستان کے رابطے منقطع ہو گئے۔ ۱۹۹۴ء میں ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے امریکا کے حکم پر آئی ایس آئی کے ۱۰۰ سے زائد افسروں اور اہلکاروں کو فارغ کر دیا جس میں بیس سے زائد ڈائریکٹرز اور ڈپٹی ڈائریکٹرز شامل تھے۔ اس طرح آئی ایس آئی کو اپنے تجربہ کار اور آزمودہ اثاثے سے محروم کر دیا گیا اور اس کا کردار اندرونی سیاست تک محدود ہو کر رہ گیا۔
۲۰۰۳ء میں جبکہ جارح افواج نے افغانستان پر مکمل قبضہ کر لیا تھا۔ جنرل مشرف نے سی آئی اے اور ایف بی آئی کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کارروائی کرنے کی کھلی چھٹی دے دی تھی اور آئی ایس آئی کو دانستہ اس عمل سے الگ رکھا گیا۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سی آئی اے اور ایف بی آئی نے پورے علاقے میں بھارت کے تعاون سے جاسوسی کا جال بچھا کر اپنے حمایتی گروپ اور ایجنٹ بنا لیے اور انہیں پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کے خلاف سازشیں کرنے کا کام سونپا گیا۔ ۲۰۰۴ء میں جنرل مشرف کو اس بات پر قائل کر لیا گیا کہ ان پر راولپنڈی کے قریب جو دو قاتلانہ حملہ ہوئے تھے ان کا ماسٹر مائنڈ وزیرستان میں تھا۔ اس طرح مشرف نے انتقام میں اندھا ہو کر وزیرستان پر لشکر کشی کر دی جس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ۲۰۰۴ء سے پہلے قبائلیوں نے پاکستان کی طرف ایک گولی بھی فائر نہیں کی تھی۔ ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کے باوجود آج بھی وہ پاکستان کے وفادار ہیں۔
اہم تبدیلی اس وقت آئی جب ۲۰۰۸ء میں منتخب جمہوری حکومت نے آئی ایس آئی کو قبائلی علاقوں سے امریکی اہلکاروں، سی آئی اے اور ایف بی آئی کے نمائندوں کو پیچھے دھکیلنے کی ذمہ داری سوپی جس سے امریکی مفادات کو ٹھیس پہنچی اور یہی وہ وجہ ہے کہ انہوں نے آئی ایس آئی کو ہدف تنقید بنایا ہوا ہے اور صدر اوبامہ نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ آئی ایس آئی کو حریت پسندوں سے روابط فوری طور پر منقطع کر دینے چاہییں۔ یہ ایک ایسا حکم ہے جس کی تعمیل ناممکن ہے۔ کوتاہ بینوں کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ آئی ایس آئی کا ہمارے ملکی دفاع میں نہایت اہم کردار ہے لہٰذا اس کی صلاحیتوں کو محدود کرنا قومی سلامتی کو دائو پر لگانے کے مترادف ہو گا۔ اگر آپ کو اس کا جواب چاہیے تو آپ ایک دفعہ پاک۔ افغان سرحد پر جا کر بچشم خود زمینی حالات کا مشاہدہ کریں جہاں ایک لاکھ پاکستانی مسلح فوجی نقل و حرکت کی نگرانی کی خاطر تعینات ہیں۔
شیعہ طاقت کا مرکز (Shia Crescent):
ایک نئی حقیقت بن کر ابھر رہا ہے جو کہ ایران سے عراق اور خلیج و پاکستان کی شیعہ اقلیت پر مشتمل ہے۔ اس طاقت کا خطے میں اہم کردار اور مفادات ہیں۔ امریکا اب ایران کو تھپکی دے رہا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ ملک کر ’’رابطہ گروپ‘‘ کی شکل میں خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ میں تعاون کرے۔ ۲۰۰۵ء میں امریکا نے بھارت کے ساتھ ’’اسٹراٹیجک پارٹنر شپ‘‘ کا معاہدہ کیا تھا اور افغانستان کو اس لیے جنوبی ایشیا کا حصہ بنایا تھا تاکہ بھارت کی افغانستان سے سری لنکا تک اجارہ داری قائم ہو جائے اور خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت کا دائرہ محدود کیا جاسکے اور اسلامی مدافعتی قوت کو موثر طریقے سے ختم کر دیا جائے لیکن اس رابطہ گروپ کے لیے ایسا کرنا ناممکن ہے کیونکہ درمیان میں ’’پختون طاقت‘‘ کھڑی ہے جو بقول امریکی صدر کے مشیر، ڈیوڈ کلکولن کے ’’عظیم تر پختونستان کا قیام جس سے پاکستان کی سرحدیں کوہ ہندو کش تک پھیل چکی ہیں، امریکا کے لیے ناقابلِ قبول ہے لہٰذا امریکا کو خطے میں ایران کے جاندار کردار کی اہلیت کے پیشِ نظر، اس سے مذاکرات کرنا لازم ہے‘‘۔
پختون طاقت:
اسلامی مدافعتی قوت، پختون قوم اور پاک۔افغان مشترکہ قومی اَقدار کی مجموعی شکل ہے۔ مزاحمت کا حوصلہ جو کہ اس علاقے سے ابھرا ہے اس نے گزشتہ تیس برسوں میں دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتوں کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ ان کی اکثریت سنی العقیدہ مسلمان ہیں، وہ قوت پاکستان اور افغانستان کے مابین اتحاد کی واضح علامت ہے۔ امریکا اس طاقت کے خلاف ایران کو صف آرا دیکھنا چاہتا ہے اور بھارت اس کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار ہے کیونکہ بقول ہالبروک: ’’تزویراتی استحکام کے لیے ایران اور امریکا کے کچھ مفادات باہم مشترک ہیں‘‘۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایران کے امریکا اور بھارت کے ساتھ اس قسم کے کوئی مفادات وابستہ نہیں ہیں جن سے مسلم اُمہ کو گزند پہنچے۔ مزید برآں ہمارے بحیثیت برادر اسلامی ممالک ہونے کے قدیم تاریخی و ثقافتی تعلقات ہیں جن کی پاسداری ہر مسلمان کا اوّلین فرض ہے۔
امریکی پالیسی اب لائن سے ہٹتی جارہی ہے اور ایاز امیر کے بقول ’’پاکستان کو امریکا اور القاعدہ دونوں جانب سے خطرات کا سامنا ہے‘‘۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ’’زرداری کے دن گنے جاچکے ہیں‘‘۔ یہ کس قدر گھٹیا اور مضحکہ خیز بات ہے کیونکہ زرداری نے سوات اور باجوڑ کے قبائل سے کامیابی سے معاہدہ کیا ہے جسے عنقریب وہ وزیرستان اور بلوچستان تک وسعت دینے کے متمنی ہیں۔ ان کی اس کامیابی میں آئی ایس آئی کا کردار نمایاں ہے اور یہی ان کی پہلی دفاعی لائن ہے جبکہ دوسری دفاعی لائن پختون پاور ہے جو کہ اسلامی مدافعتی قوت کا دوسرا نام ہے۔ زرداری کو ایسے منفی ہتھکنڈوں سے مرعوب نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ کامیاب حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہیں جو ان کے پانچ سالہ اقتدار کی تکمیل کی ضمانت دیتی ہے۔
نئی سازشی چال:
جو کہ امریکا اور اس کے اتحادی ’’رابطہ گروپ‘‘ تشکیل دے کر چلنا چاہتے ہیں، اس کا منطقی انجام ناکامی ہے کیونکہ اسلامی مدافعتی قوت، شیعہ طاقت اور پختون طاقت کا تعلق تین برادر ہمسایہ اسلامی ممالک سے ہے یعنی ایران، پاکستان اور افغانستان۔ تینوں برادر اسلامی ممالک تاریخی، تہذیبی و ثقافتی تعلقات کی ڈوری میں بندھے ہوئے ہیں جو کہ ان کے باہمی اتحاد کی اہم دلیل ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ غیروں کی غلامی ان تینوں طاقتوں کی قومی غیرت کے خلاف ہے۔ تینوں طاقتیں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو یکجا کر کے باہمی اتحاد کی جانب موڑ کر ایک ایسی طاقت کا روپ دھار سکتی ہیں جو دراصل عالمِ اسلام کی طاقت ہو گی اور اس طاقت سے ’’تزویراتی گہرائی‘‘ (Strategic Depth) کے نظریے کی تکمیل ہو گی۔ تزویراتی گہرائی، اس اتحاد کا نام ہے جس کی بدولت اتحادیوں کے قومی سلامتی کے تقاضے ان کے مفادات، نظریات اور روایات کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ ۱۹۸۸ء میں یہ تصور پیش کیا گیا تھا اور اب اس خواب میں حقیقت کے رنگ بھرنے شروع ہوئے ہیں۔ ہمیں سوویت یونین، امریکا، یورپی یونین اور ان کے اتحادیوں جیسی عالمی جارح طاقتوں کا شکر گزار ہونا چاہیے جنہوں نے عالمِ اسلام کو نئی صلاحیتیں اور طاقت عطا کی ہے۔ ماشاء اﷲ!
{}{}{}
Leave a Reply