جراثیم آلودہ خوراک اور ہم

ہمارے روز مرہ استعمال میں آنے والی اشیائے خوردونوش کس حد تک معیاری اور ملاوٹ سے پاک ہیں‘ اس کا اندازہ ہمیں لاہور کی ضلعی حکومت کے ’’شعبہ خوراک‘‘کی پچھلی پانچ سالوں کی رپورٹ سے باآسانی ہوتا ہے جو اگست ۲۰۰۱ء سے جون ۲۰۰۵ء کے دورانیہ پر مشتمل ہے۔

یہ رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں اس ادارے نے شہر کی مختلف مارکیٹوں سے اشیائے خوردونوش کے جتنے نمونے لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے حاصل کیے‘ ان میں سے نصف سے زیادہ میں ملاوٹ پائی گئی۔

رپورٹ کے مطابق اس ادارے نے پچھلے پانچ سالوں میں لاہور میں فروخت ہونے والی کھانے پینے کی ۴۴۴۴۴ اشیاء کا معائنہ کیا اور ان میں سے ۲۰۸۲۴ کو ملاوٹ زدہ پایا۔ ان میں کھانے پینے کی عام اشیاء مثلاً دودھ‘ پکانے کا تیل‘ گھی‘ مصالحے‘ سبزیاں‘ پھلوں سے تیار کی جانے والی اشیاء ‘ سیریلز ‘ جوس ‘مٹھائیاں اور بیکری کی دوسری اشیاء شامل تھیں۔ ان اشیاء کی تیاری کے طریقۂ کار‘ ان کی تیاری کی جگہ مثلاً فلور ملز‘ ہوٹلوں‘ بیکریوں‘ مٹھائی کی دکانوں وغیرہ کا بھی معائنہ کیا گیا۔ ضلعی انتظامیہ نے ان تمام ملاوٹ شدہ مصنوعات اور ان کی تیاری میں استعمال ہونے والی ناقص مشینوں کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ پچھلے پانچ سالوں میں ۲۴۴۲۶ چالان کاٹ کر چھ ضلعی عدالتوں میں کیس جمع کرائے گئے جس کے نتیجے میں ان میں سے بیشتر برانڈز اور انہیں تیار کرنے والے ادارے بند کردیئے گئے۔

سب سے زیادہ آلودگی دودھ کے نمونوں میں پائی گئی۔ جبکہ پکانے والے تیل‘ پان کا کتھا‘ بوتل میں بند پانی کے برانڈز‘ پھلوں اور سبزیوں سے بننے والی مصنوعات مثلاً کیچ اپ‘ جیم جیلی وغیرہ اور مٹھائیوں کے آدھے سے زیادہ نمونے بھی غیر معیاری اور ملاوٹ زدہ پائے گئے۔

پکانے کے تیل اور گھی میں کئی ضروری وٹامن موجود نہیں تھے جبکہ ان میں سے بہت سے عام درجہ حرارت پر جم جانے والے تھے۔ عام طور پر جو شکایات سامنے آئیں وہ کچھ اس قسم کی تھیں: پھلوں اور سبزیوں کی مصنوعات میں مصنوعی رنگوں کی کثرت‘ آٹے میں بورے کی ملاوٹ‘ سیریلز میں آٹے اور سوجی کی موجودگی ‘ مٹھائیوں کی تیاری میں دیسی گھی یا مکھن کے استعمال سے متعلق جھوٹ وغیرہ۔ ایسے ٹماٹوکیچپ کے برانڈز بھی پکڑے گئے جن میں ٹماٹر سرے سی موجود ہی نہیں تھا۔

ایک انتہائی تشویشناک تحقیق جو اس معائنے سے سامنے آئی وہ چائے کے پیکٹوں میں چائے کی پتی کے ساتھ جانوروں کے خون کی شمولیت سے متعلق تھی۔ چائے میں خون اس لیے ملایا جاتا ہے تاکہ چائے کا رنگ اور خوشبواچھی ہوجائے۔

ان برانڈز کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان میں سے بیشتر کو بند کردیا گیا ہے۔ تاہم اس وقت مارکیٹ میں جو برانڈ موجود ہیں ان میں سے بیشتر کے بارے میں جنہیں ضلعی حکومت کے شعبہ خوراک نے چیک نہیں کیا ہے‘ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ان میں سے کتنے معیاری ہیں اور کتنے غیر معیاری۔ ان کی چیکنگ کا کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں۔ مارکیٹ میں انسپکشن ٹیم کا دورہ عموماً اتفاقی نوعیت کا ہوتا ہے اور ایسا کبھی ایک تسلسل کے ساتھ کسی معمول کے تحت نہیں ہوتا۔ جبکہ اس کام کے لیے ایک مکمل ادارہ حکومتی خرچے پر کام کررہا ہے۔ دکانوں پر بکنے والی اشیاء کو اگر باقاعدگی سے اور طویل وقفوں کے بغیر چیک کیا جائے تو صورتحال کو کہیں بہتر بنایا جاسکتا اور صارفین کی صحت کے تحفظ کو زیادہ یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

اس رپورٹ میں ضلعی حکومت کے شعبہ خوراک نے برانڈز یا انہیں تیار کرنے والے افراد اور اداروں کا نام دینے سے احتراز کیا ہے اور نہ ہی انتظامیہ اس حوالے سے کوئی معلومات فراہم کرنے پر آمادہ ہے۔ حالانکہ یہ صارفین کا حق ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ کون سے برانڈز غیرمعیاری ثابت ہوئے اور ان کے حوالے سے کیا کارروائی کی جارہی ہے اور یہ بھی کہ آئندہ ایسے غیرمعیاری برانڈز پر چیک رکھنے کے لیے کیا ٹھوس اقدامات کیے جارہے ہیں۔

اس کے باوجود کہ یہ رپورٹ صارفین کو مکمل معلومات فراہم نہیں کرتی ہے‘ یہ ہمیں ایک اہم شہر میں بکنے والی اشیاء کے معیار سے متعلق تشویش ناک صورتحال سے آگاہ کرتی ہے اور اس رپورٹ کی بنیاد پر ہمیں یہ اندازہ لگانے میں دشواری نہیں ہوتی کہ پورے ملک میں اشیائے خوردونوش کی کیا صورتحال ہے۔ جبکہ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں اشیاء کی جانچ پڑتال کا نظام کہیں زیادہ بے قاعدہ اور غیر منظم ہے۔

(بشکریہ: معاصر ’’صارف کی پسند‘‘ )

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*