
امورِ خارجہ اور دفاع سے متعلق بھارتی پالیسیوں کی بنیاد پائیدار شرحِ نمو پر استوار ہے۔ بھارتی معیشت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا اِن دونوں پالیسیوں کا بنیادی مقصد ہے۔ توجہ اس نکتے پر مرکوز ہے کہ خطے میں امن و سلامتی یقینی بنائی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ ترقی کرنے کا موقع ملے۔ بھارت چاہتا ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی اور مارکیٹس تک رسائی میسر ہو، تاکہ زیادہ سے زیادہ مہارت کا حصول یقینی بناکر زیادہ سے زیادہ ترقی یقینی بنائی جاسکے۔ ساتھ ہی ساتھ بھارت عالمگیر سطح پر ایسا کردار ادا کرنا چاہتا ہے، جو سب کے مفاد میں ہو اور امن و استحکام کے ساتھ بھرپور ترقی کی راہ ہموار ہو۔
وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی خارجہ پالیسی کو نئی زندگی اور نئی توانائی ملی ہے، جس کے نتیجے میں باقی دنیا کے ساتھ نئے اور پُرجوش انداز سے جڑنا ممکن ہوسکا ہے۔ چار برس کے دوران بھارت نے امن اور ترقی کے حوالے سے مختلف معاملات میں پہل کی ہے۔
نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں پڑوسیوں کو مدعو کرکے نئی ابتدا کی گئی۔ خطے کے تمام ممالک کے سرابراہانِ مملکت و حکومت کو مدعو کرکے بھارتی قیادت نے عندیہ دیا کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔ تب سے اب تک ہمارے پڑوسیوں کو پالیسیوں میں اولیت حاصل رہی ہے۔ ہماری کوشش رہی ہے کہ خطے کے تمام ممالک اور بالخصوص پڑوسیوں کو اقتصادی اور دیگر بہت سے معاملات میں بہترین اشتراکِ عمل یقینی بنانے کا موقع ملے۔ ہم نے خلائی ٹیکنالوجی، آئی ٹی، سائبر سکیورٹی، سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور دوسرے بہت سے معاملات میں پڑوسیوں سے تعاون کی پالیسی اپنائی ہے۔
اقتصادی ترقی اور عالمگیر نوعیت کے معاملات میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہونے کی ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ ہم عالمگیر سطح پر اپنے کردار کو وسعت دیں۔ اس حوالے سے گزشتہ چار برس کے دوران انٹر نیشنل پارٹنرز سے ہمارے اشتراکِ عمل کی نوعیت غیر معمولی رہی ہے۔ نریندر مودی نے فلسطین، منگولیا اور پرتگال جاکر یہ ثابت کیا ہے کہ بھارتی قیادت عالمگیر نوعیت کے معاملات میں باقی پوری دنیا کے ساتھ مل کر چلنا چاہتی ہے۔ بھارت کی طرف سے عالمی برادری کو یہ پیغام گیا ہے کہ وہ تمام اہم علاقائی اور عالمی معاملات میں باقی دنیا کے ساتھ مل کر چلنا چاہتا ہے۔ ایک طرف بھارت افریقا کو ساتھ ملانا چاہتا ہے اور دوسری طرف وہ جنوب مشرقی ایشیا کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ انڈیا افریقا فورم سمٹ میں ۵۴ سربراہانِ مملکت و حکومت کی شرکت اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بھارت کے یوم آزادی کی تقریب میں جنوب مشرقی ایشیا کی تنظیم ’’آسیان‘‘ کے تمام دس سربراہان مملکت کی شرکت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ بھارت صرف مشرق کی طرف دیکھنے کا قائل نہیں، بلکہ اس حوالے سے فعال ہونے کی بھی تیاری کرچکا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بھارت وسط ایشیا کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے۔ ۲۰۱۸ء کے اوائل میں انڈیا نارڈک سربراہ کانفرنس کا انعقاد بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔
عالمگیر سطح پر کچھ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ بھارت اپنے پڑوسیوں کو بھول چکا ہے۔ بنگلادیش اور نیپال کے ساتھ بھارت نے سیلگری کے راستے بس سروس شروع کرنے کی بھرپور تیاری کی ہے۔ اپریل میں اس حوالے سے آزمائشی سفر بھی کیا جاچکا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ مشرق کے حوالے سے فعال ہوتے وقت پڑوسیوں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ ’’ایکٹ ایسٹ پالیسی‘‘ کے پہلو بہ پہلو ’’نیبرہُڈ فرسٹ‘‘ کی پالیسی بھی اختیار کی گئی ہے۔ بھارتی قیادت علاقائی سطح پر مواصلات کو زیادہ سے زیادہ ترقی دینا چاہتی ہے تاکہ تجارت آسان ہو اور عوامی سطح پر بھی رابطے بڑھیں۔ دی بے آف بنگال انیشیئٹیو فار ملٹی سیکٹورل ٹیکنیکل اینڈ اکنامک کوآپریشن (بی آئی ایم ایس ٹی ای سی) کے ساتھ ساتھ بی بی آئی این (بنگلا دیش، بھوٹان، انڈیا اینڈ نیپال) فورم بھی علاقائی سطح پر رابطوں کو بڑھاوا دینے کی غرض سے قائم کیا گیا ہے۔
مودی سرکار کی بھرپور توجہ اس امر پر مرکوز رہی ہے کہ ترقی کا گراف بلند کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ بھارتی بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں۔ شہروں کو ترقی دی جارہی ہے۔ اشیا سازی کے شعبے کو غیر معمولی پیش رفت کے قابل بنایا جارہا ہے۔ اس حوالے سے خارجہ پالیسی سے بھی مدد لی گئی ہے۔ بھارتی قیادت چاہتی ہے کہ دنیا بھر سے سرمایا کاری کی جائے تاکہ ایک طرف تو بھارتی باشندوں کو زیادہ سے زیادہ ہنر مند بنایا جاسکے اور دوسری طرف ان کے لیے روزگار کے بہترین مواقع پیدا کرنا بھی ممکن ہو۔ بھارتی قیادت نے عالمگیر سطح پر کوششیں کرکے اس بات کو یقینی بنانا چاہا ہے کہ ٹیکنالوجی کے حصول کی راہ میں حائل دشواریاں دور ہوں، بیرونی سرمایا کاری کا گراف بلند ہوتا رہے، پیداواری شعبہ بھرپور پیش رفت کا حامل رہے اور ساتھ ہی ساتھ کروڑوں بھارتیوں کو جدید ترین مہارتوں کا حامل بنایا جائے تاکہ وہ بیرون ملک کام کرکے اپنے لیے اعلیٰ معیار کی زندگی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ زر مبادلہ کے ذخائر کو توانا تر بنانے کا ذریعہ بھی ثابت ہوں۔
مودی سرکار نے پوری کوشش کی ہے کہ ایک ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے اپنے تجربے کو دیگر ترقی پذیر ممالک سے شیئر کرے اور اُن کے تجربے سے بھی سیکھنے کی کوشش کرے۔ اس حوالے سے علاقائی سطح پر زیادہ فعال رہنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دوسری طرف بھارتی قیادت افریقا کے متعدد ممالک کے ساتھ بھی مل کر چلنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ ترقی کے سفر میں ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھا جاسکے۔ بھارت نے فلسطین، منگولیا، ماریشس، سیشلز اور دیگر ریاستوں سے انسانی وسائل کے حوالے سے بھی اشتراکِ عمل کیا ہے۔ متعدد چھوٹے ممالک کو بھارت میں اسکالر شپس دی گئی ہیں تاکہ مختلف شعبوں میں مہارت کا گراف بلند کیا جاسکے۔
بھارتی قیادت کو اس بات کا اندازہ ہے کہ ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں بہت سے سوالوں کے جواب اب تک نہیں مل سکے، بہت سے مسائل اب تک حل کیے جانے کے منتظر ہیں، متعدد تنازعات طے کیے جانے کی راہ تک رہے ہیں۔ ایسے میں ہم آہنگی برقرار رکھنا بہت دشوار ہے۔ لازم ہے کہ غیر معمولی ذہانت اور قوتِ برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کو درست کرنے کی کوشش کی جائے۔ گزشتہ برس منعقدہ شنگریلا ڈائیلاگ میں بھی وزیراعظم نریندر مودی نے اس نکتے پر زور دیا کہ جن معاملات میں اختلافات ہیں اُنہیں کام کی باتوں پر حاوی یا اثر انداز نہ ہونے دیا جائے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ بہت سے ممالک کے اندرونی معاملات کا اثر بیرون ملک بھی مرتب ہو رہا ہے۔ دفاعی اخراجات کے بڑھنے سے غیر یقینیت کا عنصر بھی نمایاں ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تمام اختلافات کو ایک خاص حد تک رکھنے پر توجہ مرکوز کی جائے اور کسی بھی بڑے تنازع کو بین الاقوامی تعلقات پر زیادہ اثر انداز نہ ہونے دیا جائے۔
انسدادِ دہشت گردی، ایٹمی عدم پھیلاؤ، ماحول کے تحفظ اور دیگر معاملات پر بھارت نے عالمی ایجنڈے کو مضبوط بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ دہشت گردوں کو الگ تھلگ کرنے اور ان کے سہولت کاروں کے لیے بھی مشکلات پیدا کرنے کے حوالے سے بھارتی قیادت غیر معمولی حد تک فعال رہی ہے۔ جی ٹوئنٹی سربراہ کانفرنس میں نریندر مودی نے اس حوالے سے جو گیارہ نکاتی روڈ میپ پیش کیا اُسے سبھی نے سراہا۔ دہشت گردی کو بالکل برداشت نہ کرنے کے حوالے سے بھارتی قیادت بنگلادیش کے ساتھ ہے اور اس کا بھرپور ساتھ دیتی رہے گی۔
بھارت نے منی لانڈرنگ کے حوالے سے بھی عالمی برادری سے بھرپور تعاون کیا ہے۔ اس کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ مالیاتی ذرائع کا غیر قانونی استعمال روکنے میں جو کردار بھی ادا کیا جاسکتا ہے، کیا جائے۔ اب تک بھارت تین کنٹرول ریجمز کا حصہ بن چکا ہے۔ ان میں میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول ریجم، ویزینار ایگریمنٹ اور آسٹریلیا گروپ شامل ہیں۔
توانائی کے متبادل ذرائع کو اپناکر بھارت نے ماحول کو لاحق خطرات کم کرنے میں بھی مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس حوالے سے بھارت کم و بیش ۱۲۱؍ممالک سے اشتراکِ عمل کر رہا ہے۔ شمسی توانائی پر انحصار بڑھاکر بھارت نے ماحول کو پہنچنے والے نقصان کا گراف نیچے لانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
بھارتی قیادت ایشیا و بحرالکاہل کے خطے میں زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی کو فروغ دے کر بہترین صنعتی اور تجارتی ماحول برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے شنگریلا ڈائیلاگ میں بھی بات کی گئی۔ بھارت چاہتا ہے کہ بحر ہند کے خطے میں تجارت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ ممالک کو عالمی تجارت کا حصہ بننے میں مدد ملے اور بھارت کے لیے مزید بہتر امکانات پیدا ہوں۔ جہاز رانی کے حوالے سے پائے جانے والے تنازعات کو بھی بھارت بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں نمٹانا چاہتا ہے تاکہ سب کے لیے کھل کر ترقی کرنے کے مواقع پیدا ہوں۔ بحر ہند کے خطے میں بہترین تجارتی ماحول یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ بھارتی قیادت یہ بھی چاہتی ہے کہ کوئی چھوٹا ملک قرضوں کے دباؤ کا شکار نہ ہو۔ کسی بھی ملک کے بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنے کی کوئی بھی کوشش اس کی معیشت پر غیر ضروری دباؤ کی صورت منفی اثرات مرتب نہ کرے، یہ یقینی بنانا بھی لازم ہے۔
بھارتی قیادت نے اس نکتے پر زور دیا ہے کہ احترام، مکالمے، تعاون، امن اور ترقی کے آدرش کو حاصل کرنے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے تاکہ کوئی بھی ملک یہ محسوس نہ کرے کہ اُس کے مفادات پر ضرب لگائی جارہی ہے۔
بھارتی قیادت بنگلادیش کو غیر معمولی اہمیت دیتی ہے۔ ویسے تو خیر ہر دور میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے بہت قریب رہے ہیں، تاہم گزشتہ دس برس کے دوران دونوں ممالک نے اشتراکِ عمل کا دائرہ وسیع کیا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ بنگلادیش مستحکم رہے اور ترقی کرتا رہے۔ سیکورٹی، بارڈر منیجمنٹ، ٹیکنالوجی، تجارتی، سرمایا کاری اور دیگر شعبوں میں بنگلادیش کی طرف دستِ تعاون دراز کرنے سے بھارت نے کبھی گریز نہیں کیا۔ بھارت چاہتا ہے کہ بنگلادیش سے عوامی سطح کے رابطوں کو بھی فروغ دیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ تعلیم، ٹیکنالوجی اور دوسرے بہت سے شعبوں میں بھی غیر معمولی پیش رفت یقینی بنائی گئی ہے۔ نریندر مودی نے بھارت اور بنگلادیش کی دوستی کو ایک ’’سونالی ادھیائے‘‘ (سنہرا دور) سے تعبیر کیا ہے۔
بھارت اور بنگلادیش نے ۲۰۱۵ء میں زمینی اور دریائی حدود کا تنازع بھی طے کرلیا۔ دونوں طرف کے جو لوگ الگ تھلگ علاقوں میں آباد تھے اُنہیں اب شہریت کے حقوق مل گئے ہیں۔ اس حوالے سے کیا جانے والا معاہدہ بھارتی پارلیمنٹ میں بھی مکمل اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا، جو اس بات کا مظہر ہے کہ بھارت کے منتخب نمائندے بھی چاہتے ہیں کہ بنگلادیش سے تمام معاملات احسن طریقے سے طے کرلیے جائیں تاکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور اشتراکِ عمل کی پوزیشن میں آجائیں۔
بحری حدود سے متعلق تنازعات طے کرلیے جانے کی صورت میں دونوں ممالک کے لیے اب آبی وسائل کو احسن طریقے سے بروئے کار لانے کی راہ ہموار ہوچکی ہے۔ گہرے سمندر میں ماہی گیری اور دیگر بہت سے معاملات بھی بہتر ہوچکے ہیں۔ بحری حدود کے تنازعات نمٹائے جانے سے دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون بھی بڑھا ہے اور مشترکہ مشقیں بھی یقینی بنائی جاسکی ہیں۔
محض تین سال کی مدت میں بھارت اور بنگلادیش کے درمیان کم و بیش ۶۰ معاہدے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر معاہدے پرانے معاہدوں کی تجدید پر مشتمل نہیں بلکہ ہائی ٹیک کے حوالے سے اشتراکِ عمل بڑھانے کی نیت سے ہیں۔ اسپیس، سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی، بلیو اکانومی، آئی ٹی، الیکٹرانکس اور سائبر سکیورٹی کے شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان مزید اشتراکِ عمل کی راہیں تلاش کی جارہی ہیں۔
بھارت اور بنگلادیش کے درمیان مواصلات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ٹرین اور بس سروس بھی چلائی جارہی ہے۔ بنگلا دیش کے شہر کھلنا سے بھارتی ریاست مغربی بنگال کے درالحکومت کولکتہ کے درمیان ٹرین سروس بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ڈھاکا اور کولکتہ کے درمیان میتری ٹرین کے مسافروں کو بھی اینڈ ٹو اینڈ امیگریشن اور کسٹمز سروسز فراہم کرنے کا معاملہ بھی طے پاچکا ہے۔
بھارت میں رادھیکا پور سے بنگلا دیش میں بائرول تک کا ریلوے لنک بھی بحال کردیا گیا ہے۔ یہ روٹ ۱۹۶۵ء سے پہلے فعال تھا۔ اِسی کے ساتھ ۶ دوسرے ریل روٹس کی بحالی پر بھی کام ہو رہا ہے۔ کولکتہ، کھلنا اور ڈھاکا روٹ پر ایک نئی بس سروس نے بھی ۲۰۱۷ء میں کام شروع کیا ہے۔
بھارت نے بنگلا دیش کے ساتھ دریائی راستے سے تجارت پر بھی خاص توجہ دی ہے۔ مختلف آبی راستوں کو بہتر بنانے پر توجہ دی جارہی ہے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان دریاؤں کو تجارتی گزر گاہ کے طور پر اچھی طرح بروئے کار لایا جاسکے۔ کولکتہ اور پن گاؤں کے درمیان دریائی تجارت کو فروغ دینے پر کام ہو رہا ہے۔ دریائے کشیارا اور دیگر دریاؤں میں تجارتی گزر گاہیں بہتر بنانے پر بھی کام ہو رہا ہے۔ دونوں ممالک کے دریاؤں میں مسافر جہاز چلانے پر بھی بات چیت جارہی ہے اور امید ہے کہ اس حوالے سے پیش رفت جلد ممکن بنائی جاسکے گی۔
بنگلادیش سے سرحدی منیجمنٹ پر بھی اشتراکِ عمل ہو رہا ہے۔ تجارت بڑھانے اور عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے تصور کو عملی شکل دینے کے لیے ۷ لینڈ کسٹم اسٹیشنوں کو اپ گریڈ کرکے انٹیگریٹیڈ چیک پوسٹ بنائی جارہی ہے۔ پیٹرا پول (مغربی بنگال) اور اگرتلہ (تری پورہ) میں انٹیگریٹیڈ چیک پوسٹیں پہلے ہی کام کر رہی ہیں۔ سرحدی علاقوں میں بسنے والے لوگوں کو بہتر زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کرنے کے لیے بارڈر ہاٹ قائم کرنے پر بھی کام ہو رہا ہے۔
اپریل ۲۰۱۷ء سے مارچ ۲۰۱۸ء کے دوران بھارت اور بنگلادیش کے درمیان تجارت کا حجم کم و بیش ۹؍ارب ڈالر رہا۔ بنگلا دیش کو بھارتی منڈیوں تک مکمل رسائی دی گئی ہے جس کے نتیجے میں بھارت کے لیے بنگلا دیش کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ بیشتر برآمدات ریڈی میڈ گارمنٹس کی ہیں۔ بھارت نے بنگلا دیش میں توانائی کے شعبے میں کم و بیش ۱۰؍ارب ڈالر کی سرمایا کاری کی بھرپور تیاری کر رکھی ہے۔ اس وقت بھارت بنگلا دیش کو ۶۵۰ میگا واٹ بجلی فراہم کر رہا ہے۔ بہت جلد مزید ۵۰۰ میگا واٹ بجلی بھی فراہم کی جانے لگے گی۔ بھارت اور بنگلا دیش کے درمیان ایل این جی اور ایل پی جی سیکٹر میں بھی اشتراکِ عمل کی بھرپور تیاری کی جارہی ہے۔ بھارت نے اس حوالے سے کھلنا سیکٹر میں سیٹ اپ لگانے کی تیاری کرلی ہے۔ بھارت نے بنگلا دیش کو سیلگری سے ڈیزل تیزی کے ساتھ فراہم کرنے کے حوالے سے بھی تیاریاں کرلی ہیں۔ پائپ لائن کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ بنگلا دیش کو ایسے ذرائع سے توانائی دی جائے جو قابلِ تجدید بھی ہوں اور ماحول کو نقصان بھی نہ پہنچاتے ہوں۔
بھارت نے بنگلا دیش میں بنیادی ڈھانچے کو بحال رکھنے ہی پر توجہ نہیں بلکہ اپ گریڈ کرنے کو بھی ترجیحات میں شامل رکھا ہے۔ اس شعبے میں بھارت نے بنگلا دیش میں کم و بیش ۸؍ارب ڈالر کی سرمایا کاری کر رکھی ہے۔ بنگلا دیش میں متعدد مقامات پر بنیاد ڈھانچا کمزور ہے جسے اپ گریڈ کیے بغیر تجارت اور مواصلات کے شعبوں میں وسیع البنیاد دو طرفہ تعاون بڑھانے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ روڈ، ریلویز، ایئر پورٹس اور دیگر معاملات میں بھارت نے وسیع البنیاد تعاون کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ بھارت نے اس حوالے سے تکنیکی تربیت کا بھی اہتمام کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بنگلا دیش کو منشیات کی روک تھام، امن برقرار رکھنے سے متعلق سرگرمیوں اور دیگر بہت سے معاملات میں بھی بھارت کی طرف سے بھرپور تعاون حاصل رہا ہے۔ دی انڈین ٹیکنیکل اینڈ اکنامک کوآپریشن پروگرام کے تحت بنگلا دیش کی پولیس اور دیگر شعبوں کے افسران کو تربیت بھی دی جارہی ہے۔ دی انڈین کاؤنسل فار کلچرل ریلیشنز پروگرام کے تحت بنگلا دیش کے ہونہار طلباء کو بھارت میں اسکالر شپس بھی دی جارہی ہیں۔
۱۹۷۱ء کے حوالے سے بھارت اور بنگلا دیش کی بہت سی یادیں مشترکہ ورثے کا درجہ رکھتی ہیں۔ بھارت کو اس بات پر فخر رہا ہے کہ اُس کے فوجیوں نے عوامی لیگ کے رضا کاروں کے ساتھ بنگلا دیش کے قیام کے حوالے سے قربانیاں دی تھیں۔ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کا دائرہ وسیع تر کرنے پر بھی بھارتی قیادت زور اور توجہ دیتی رہی ہے۔ بھارت نے بنگلادیش کو دفاعی تعاون کے معاہدوں کے تحت مالیاتی وسائل فراہم کرنے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اس حوالے سے حال ہی میں مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں جس کے تحت بنگلا دیش کو ۵۰ کروڑ ڈالر دیئے جائیں گے۔ یہ رقم دفاعی تیاریوں پر خرچ کی جائے گی۔ دونوں ممالک کے درمیان سرحدوں کی حفاظت کے حوالے سبھی وسیع البنیاد اشتراکِ عمل ممکن بنایا گیا ہے۔ بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس اور بارڈر گارڈز آف بنگلا دیش کے درمیان بہت اچھے تعلقات پائے جاتے ہیں۔ دونوں فورسز نے مل کر ڈی کرمنلائزڈ زون تشکیل دینے پر خاص توجہ مرکوز کی ہے۔ مئی ۲۰۱۷ء میں ساؤتھ ایشیا سیٹلائٹ بھیجنے پر اتفاق کیا گیا تاکہ خطے کے تمام ممالک کو ٹیلی مواصلات، ٹیلی میڈیسن اور دیگر شعبوں میں ایک دوسرے کے زیادہ قریب آنے کا موقع ملے۔
دونوں ممالک نے عوامی سطح کے رابطے بہتر بنانے پر بھی خاص توجہ مرکوز کی ہے۔ بنگلا دیشی باشندوں کے لیے بھارتی ویزے کا حصول آسان بنانے پر بھی کام ہو رہا ہے۔ ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔ بھارتی قیادت چاہتی ہے کہ بنگلا دیش سے تعلقات ہمہ گیر نوعیت کے ہوں۔
(مصنف بنگلا دیش میں بھارت کے ہائی کمشنر ہیں۔ انہوں نے یہ تقریر ۱۳؍اگست ۲۰۱۸ء کو نیشنل ڈیفنس کالج، ڈھاکا میں کی تھی۔)
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Contemporary India: Its foreign policy, security, Bangladesh-India relations”. (“theindependentbd.com”. September 5, 2018)
Leave a Reply