
جان بولٹن کی امریکا کے سفیر کی حیثیت سے نامزدگی پر جاری بحث میں ان کے دفاع میں بولنے والے ای شوز پر حقیقی بحث کے امکان پر خوش نظر آتے ہیں۔ ویلیم کرسٹول نے ویکلی ’’اسٹینڈرڈ‘‘ میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ’’سینٹر فرسٹ‘‘ کو چاہیے کہ وہ وقت کی تحدید کے بغیر فلور ڈبیٹ طے کریں۔ کرسٹول لکھتے ہیں کہ اگر ڈیمو کریٹس اس بحث کے خواہشمند ہیں تو ریپبلکن ان سے اس کی قیمت ادا کروائیں۔ ڈیوڈ بروکس جو ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے ایک قدامت پرست کالم نگار ہیں‘ اتفاق کرتے ہیں یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ بولٹن کے ’’عالمی حکومت‘‘ سے متعلق تنفر کو ملک میں مضبوط حمایت حاصل ہے۔
’’ہم کبھی اسے قبول نہیں کریں گے۔۔۔ کیونکہ یہ غیرجمہوری ہے۔۔۔ ملٹی لیٹرل تنظیمیں غیرمنتخب اشراف اور ٹکنو کریٹس کے اجلاس کی مانند نظر آتی ہیں جو پردۂ خفا میں اپنے فیصلے کرتی ہیں۔۔۔ ہم کبھی بھی ٹرانینشل تنظیموں کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمارے اپنے قوانین‘ ضوابط اور نظائر کی خلاف ورزی کریں‘‘۔ شاید بحث کو دنیا کے طاقتور ترین بین الاقوامی ادارہ ’’ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن‘‘ پر مرکوز ہونا چاہیے۔ اقوامِ متحدہ کے برعکس ڈبلیو ٹی او کو حقیقتاً ضرورت پڑ سکتی ہے کہ ایک ملک اپنے قوانین‘ ضوابط اور نظائر تبدیل کرے‘ صرف ملکی قوانین نہیں بلکہ صوبائی اور مقامی قوانین بھی۔ ممالک کے مابین تنازعہ کی صورت میں اس کے فیصلے کی اطاعت لازم ہے۔ یہ غیرجمہوری ہے اور ٹکنو کریٹس سے یہ ادارہ پُر ہے۔ یہ امریکی تخلیق جس کی قدامت پرست دل سے حمایت کرتے ہیں (ٹھیک ہے کہ تمام قدامت پرست نہیں کرتے۔ بعض قدامت پرست مثلاً Pat Buchanan شروع سے ہی مستقل اس کے خلاف رہے ہیں)۔
یہ عجیب بات ہے۔ ملٹی لیٹرل اداروں کے متعلق ہماری بیشتر بحثیں ان تنظیموں کو شامل کرتی نظر آتی ہیں جو ٹاکنگ شاپ کی حیثیت رکھتی ہیں‘ سوائے چند حقیقی قوتوں کے۔ وہ تنظیمیں جو واقعتا اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہیں‘ وہ معیشت و اقتصاد کے شعبوں سے متعلق ہیں اور یہ یقینا امریکیوں کے لیے بہت زیادہ اہم ہیں۔ بہرحال عام امریکی بے قوت یو این ڈس آرمامنٹ کمیٹی کے ٹھیک ڈھانچے کے بارے میں کوئی پروا نہیں کرتے۔ لیکن انہیں ان قوانین سے متعلق ضرور فکر ہے جو مقامی معیشت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ڈبلو ٹی او نے کئی مسائل پر امریکا کے خلاف فیصلے دیے ہیں۔ ان تمام فیصلوں کو امریکا نے خاموشی سے قبول کر لیا جو کہ کسی حد تک ’’بین الاقوامی قانون‘‘ کا حصہ ہیں۔ اور آپ جان بولٹن یا اس کے حامیوں کو ایسے کسی فیصلے یا قانون کی مخالفت کرتے ہوئے نہیں پائیں گے۔ مجھے غلط مت سمجھیے۔ میرا خیال ہے کہ ڈبلو ٹی او امریکیوں اور باقی دنیا کے لیے بھی بے حد مفید ہے۔ اس نے تجارت کو وسعت دی ہے‘ بازاروں کو کھولا ہے اور ہماری معیشت کو پیداواری لحاظ سے بہت زیادہ سودمند بنایا ہے۔ اس لحاظ سے یہ حقیقتاً غیرجمہوری نہیں ہے۔ صدر اور کانگریس رضاکارانہ طور پر اس کے لیے دستخط کرتے ہیں اور کسی وقت بھی اس سے سبکدوش ہو سکتے ہیں۔ یہ لوگ متفق ہیں کہ دوسرے ممالک کے تنازعہ کی صورت میں ایک ثالثی پینل یہ فیصلہ کرے گا کہ کیا کرنا ہے۔ یہ تفویضِ اختیار ہے آمریت نہیں ہے اور جمہوریتیں بھی ہمیشہ یہی کام انجام دیتی ہیں۔ ڈبلو ٹی او امریکا کی سوچ ہے‘ یہ دوسرے ممالک کو اپنی مارکیٹس کھولنے پر آمادہ کرنے کا اور تجارت بڑھانے کا ایک طریقہ ہے۔ ہم اپنے آپ کو ان قوانین کا پابند بنانے پر راضی ہیں اس لیے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر کوئی اس کے قوانین کے دائرے میں کام انجام دے گا۔ اس تنظیم نے تمام رکن ممالک پر اپنی تبدیلی کو نافذ کیا ہے۔ بعض معاملے میں تو امریکا اس سے کہیں زیادہ بڑی تبدیلی جو امریکا نافذ کرنے کی سوچ سکتا تھا۔ دنیا میں برازیل‘ ترکی‘ بھارت اور چین اپنے قوانین تبدیل کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو کھولنے کی مشق کر رہے ہیں اور ڈبلو ٹی او کے مطیعِ فرمان بن رہے ہیں۔ اصلاحات ہمیشہ اتنی تیز رفتار اور جامع نہیں ہوتیں جتنی کہ لوگ توقع کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ممالک تبدیلی کے عمل میں اس مقام سے بہت آگے بڑھ چکے ہوتے ہیں‘ جہاں پر آج سے ۲۰ سال پہلے تھے۔ امریکی فرموں کو یہ احساس ہے کہ اس سے حاکمیت کسی نہ کسی طور پر مجروح ہوئی ہے۔ کیپیٹل گڈز اور سروسز کی سرحدوں کے آر پار پوری آزادی کے ساتھ نقل و حرکت ہو رہی ہے۔ اور اب مواصلات کی نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ حتیٰ کہ اب لیبر بھی رواں دواں ہیں۔ لوگ اب وہاں نہیں جاسکتے جہاں ملازمتیں ہیں بلکہ ملازمتیں وہاں جاتی ہیں جہاں لائق اور اہل لوگ ہیں‘ خواہ وہ شانگھائی ہو‘ بنگلور ہو یا وارسا ہو۔ اس طرح کی دنیا میں حاکمیت کی مجروحیت پر شور مچانا ایک بے معنی سی بات ہے۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ اس پورے عمل کی اس طرح تنظیم کی جائے کہ یہ سب کے لیے مفید ہو۔ جس کا عام سا مطلب یہ ہے کہ عالمی قوانین پر مشتمل کوئی نظام ہو۔ آپ امریکی کمپنیوں کے ایک سلگتے ہوئے مسئلے کو لیجیے مثلاً مائیکرو سافٹ اور ڈزنی کے مسئلے کو۔ ان کی خواہش ہے کہ چین اور بھارت سافٹ ویئر اور موویز کے حقِ ملکیت کو پامال کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم علمی ورثہ کے حقوق کے تحفظ پر عالمی اتفاقِ رائے کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ یہ عالمی قانون بن کر اس شعبے میں حکمراں ہو۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان مسائل پر امریکا کی گرفت کچھ کمزور پڑے گی۔ لیکن ایک نظام وضع کرنے کی خاطر یہ کیفیت ہر ایک کو قبول کرنی پڑے گی جو کہ ایک بہتر اور قدرے خوش آئند قدم ہے۔ تجارت کوئی ایسی شے نہیں ہے جو دوسرے شعبوں سے بالکل غیرمتعلق رہے۔ یہی حقیقت اس دنیا کی ہے جہاں سرحدیں عبور ہوتی ہیں اور حاکمیت کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس مثال کا اطلاق دوسرے شعبوں پر بھی ہوتا ہے اگرچہ سب پر نہیں۔ ایک ایسی دنیا کا حقیقت کے روپ دھارنے کا امکان روز افزوں ہے جہاں دوسرے ممالک اپنے مفادات کو خاطر میں لائے جانے کی آرزو رکھتے ہیں۔ بہت سارے مسائل میں‘ تمام مسائل میں ہرگز نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ واحد پائیدار حل وہی حل ہوں گے جو ایسے قوانین کے پابند ہوں گے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ جسے سادہ ترین الفاظ میں ’’عالمی حکمرانی‘‘ (Global Governance) سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ کئی ایسے علاقے پر غور کریں جو اس طرح کے ٹرانینشنل ایپروچ سے بہت کم متاثر ہوتے ہیں یعنی اونچی سیاست کا شعبہ۔ امریکا دارفور میں بھیانک جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دینا چاہتا تھا۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے اسے کسی نظام کی تلاش ہو گی جس کے ذریعہ وہ اس طرح کے فیصلے کر سکے۔ یہ خالص امریکی عمل نہیں ہو سکتا ہے اس لیے کہ پھر اسے استعماری اقدام تصور کیا جائے گا جو کسی بین الاقوامی جوازِ قانونی سے محروم ہو گا۔ لہٰذا واشنگٹن بڑی مشکل سے اور چپکے سے دارفور مسئلے کو انٹرنیشنل کِرمنل کورٹ میں بھیجنے پر آمادہ ہوا‘ جس عدالت کو ختم کرنے کے لیے ہم کافی فعال رہے اور سخت امریکی اعتراضات کے باوجود اس نے اپنا وجود برقرار رکھا۔ کیا جان بولٹن اس کی منظوری دیں گے؟ یہ تمام باتیں سچ مچ ایک طویل بحث کی متقاضی ہیں۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ ۲۵ اپریل ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply