
کورونا وائرس کے حوالے سے جو صورتِ حال پائی جارہی ہے اس میں جرمن چانسلر اینجلا مرکل کا کردار بہت اہم اور قابلِ ستائش رہا ہے۔ انہوں نے قیادت سے زیادہ اتفاقِ رائے پر توجہ دی ہے۔ ان کی بھرپور توجہ خیر اور بھلائی پر ہے۔
ایک بار پھر یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ جرمنی اور فرانس کی حکومتیں دنیا کو مختلف زاویوں سے دیکھتی ہیں۔ کورونا وائرس کے باعث جو انتشار کی سی کیفیت پیدا ہوئی ہے اس میں فرانس کے صدر ایمانویل میکراں نے شہریوں کی آزادی کو زیادہ سے زیادہ کم کرنے پر توجہ دی ہے اور اُن پر زور دیا ہے کہ وہ کم از کم پندرہ دن کے لیے اپنی نقل و حرکت محدود کرلیں، گھروں میں رہیں۔
جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے اس حوالے سے غیر معمولی احتیاط سے کام لیتے ہوئے جرمن عوام سے کہا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے رابطوں کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ احتیاط برتیں۔ اُنہوں نے یکجہتی اور ہم آہنگی کے حوالے سے جرمن عوام کے فہم کو اپیل کرنے کی اچھی کوشش کی ہے۔ اینجلا مرکل نے ایک بار پھر اپنے اُسی رویّے کا اظہار کیا ہے جس کے حوالے سے وہ مشہور ہیں، یعنی جرمن عوام کے لیے انہوں نے سخت اصولوں کے اطلاق سے گریز کیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اینجلا مرکل اور ایمانویل میکراں میں بنیادی فرق کیا ہے؟ میکراں انویسٹمنٹ بینکر ہیں۔ وہ صورتِ حال کا غیر جانب داری سے بھرپور تجزیہ کرنے کے بعد جرأت مندانہ فیصلے کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ دوسری طرف اینجلا مرکل پروٹیسٹنٹ فیملی میں پیدا ہوئیں۔ وہ نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور شہریوں پر کوئی بھی سخت فیصلہ تھوپنے سے گریز کرتی ہیں۔
اینجلا مرکل نے مختلف حوالوں سے جو نرم اور انسان دوست رویہ اپنایا ہے اُسے اندرون ملک اور بیرون ملک سراہنے والوں کی کمی نہیں، مگر بیرون ملک اُن کی ستائش کرنے والوں کو یہ دیکھ کر ضرور حیرت ہوئی ہوگی کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے اقدامات کے دوران جرمنی کے بڑے شہروں میں ریستوران اور کیفے بھرے ہوئے دکھائی دیے۔ اینجلا مرکل کے ایک پرستار نے یہ دیکھ کر کہا کہ پرتگال جیسے کیفوں سے بھرے ہوئے ملک میں بھی لوگ گھروں میں ہیں اور کیفے بند پڑے ہیں۔
جرمن عوام کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ نظم و ضبط کے پابند رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، ترتیب سے بہت پیار کرتے ہیں اور احتیاطی تدابیر کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں۔ دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی ہے کہ کورونا وائرس کی پیدا کردہ صورتحال میں جرمن باشندے غیر معمولی احتیاط برتنے سے قدرے گریزاں رہے ہیں۔
جرمنی میں مکالمے کی روایت توانا اور تابندہ رہی ہے۔ جرمن اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ کسی بھی موضوع پر کھل کر بات کی جائے اور کسی نہ کسی طور اتفاقِ رائے تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے جرمن قیادت نے دنیا سے الگ جانے یا الگ رہنے کی کوشش کی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا ایسا ہے کہ جرمن قیادت ایسا بہت کچھ جانتی ہے، جو فرانس کی قیادت اور باقی دنیا نہیں جانتی؟
٭ کیا جرمن زیادہ جمہوری ہیں؟
جرمنی میں اس نکتے پر بہت زور دیا جاتا ہے کہ تمام معاملات جمہوری انداز سے طے کیے جائیں۔ اتفاقِ رائے یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کورونا وائرس سے متعلق جرمنی کا رویہ معقول اور جمہوری ہے؟ کورونا وائرس کیا اس بات کا انتظار کرے گا کہ جرمن قیادت مکمل اتفاقِ رائے کی منزل تک پہنچ کر کچھ کرے؟ احتیاطی تدابیر اور اقدامات کے حوالے سے جرمنی نے قدرے تاخیر کردی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا جرمنی میں فرانس جیسے اقدامات یقینی بنانے کے لیے آمریت جلوہ نما ہوگی؟
امریکا میں کیلی فورنیا کی ریاست فطری حسن کے اعتبار سے بہت دلکش ہے۔ اس ریاست کے لوگ خاصی مسرّت آمیز زندگی بسر کرنے کے عادی ہیں۔ جرمنی میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ کیلی فورنیا کے لوگ کسی بھی بحرانی کیفیت میں زیادہ پریشان یا بدحواس نہیں ہوتے اور کسی بھی بحران کا سامنا خاصی زندہ دلی کے ساتھ کرتے ہیں۔ اور یہ کہ وہ حفاظتی اقدامات کے نام پر اپنی آزادی سے محروم ہونا پسند نہیں کرتے۔ مگر یہ تصور غلط ثابت ہوا ہے۔ کیلی فورنیا کے گورنر گیون نیوزوم نے بھی کورونا وائرس کے انسداد کے حوالے سے غیر معمولی نوعیت کے اقدامات کیے ہیں اور سخت اصولوں کا نفاذ کیا ہے۔
اینجلا مرکل نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے حوالے سے سخت اقدامات سے گریز کرکے غیر معمولی خطرہ مول لیا ہے۔ پورا یورپ اس وائرس سے نمٹنے کے معاملے میں غیر معمولی حد تک سنجیدہ ہے۔ کوشش یہ کی جارہی ہے کہ اس وائرس کو ایک خاص حد تک رہنے دیا جائے۔ جرمنی نے جو کچھ کیا ہے اس کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ وہ انفیکشن لیگ کے ٹیبل میں بہت اوپر جائے گا۔ جنوبی کوریا اور جاپان نے کورونا وائرس کے حوالے سے غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے مگر اس پر جرمنی میں بحث برائے نام ہے۔
جرمن قیادت نے جُوا کھیلا ہے۔ اگر وہ یہ جُوا ہار گئی تو کسے الزام دیا جائے گا؟ جرمنی کے فیڈرل ازم کو، یا ریاستوں کے حقوق کو؟ یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ کیا اینجلا مرکل کو ایسا کچھ معلوم تھا جو فرانس کے صدر ایمانویل میکراں کو معلوم نہ تھا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Coronavirus: What does Merkel know that Macron doesn’t?” (“theglobalist.com”. March 19, 2020)
Leave a Reply