زیرِ نظر مضمون ہندوستان کے تناظر میں ہے، تاہم اس میں جن چیزوں کو موضوع بنایا گیا ہے، اُن کا پاکستان کی صورتحال پر بھی انطباق ہوتا ہے۔ ادارہ
یوں تو ہر دور میں میڈیا (اخبارات و رسائل) کی اہمیت رہی ہے، تاہم سٹیلائٹ اور الیکٹرانک میڈیا (ٹی وی، ریڈیو اور انٹرنیٹ) کی حالیہ ترقی نے اس میدان کو غیرمعمولی اہمیت کا حامل بنا دیا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے پر میڈیا کے اثرات واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ جمہوری ملکوں میں میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ ستون جمہوریت کے باقی ماندہ تینوں ستونوں کے توازن کو برقرار رکھنے یا اسے بگاڑنے کا ذریعہ بھی ہے۔ میڈیا صرف خبروں اور واقعات کی ترسیل ہی نہیں کرتا بلکہ رائے عامہ کی تشکیل میں بھی نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔
میڈیا کی اس غیرمعمولی تسخیری و تشہیری قوت کا نتیجہ ہے کہ ہر طاقتور گروہ اسے اپنا دست نگر بنانا چاہتا ہے۔ اچھے اور معیاری اخبارات و رسائل شائع کرنے یا ٹی وی چینل قائم کرنے پر جو غیرمعمولی لاگت آتی ہے اور اسے چلانے پر جو اخراجات آتے ہیں، اُن کا کوئی ذی حیثیت آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج میڈیا کی ملکیت بڑی بڑی بزنس کا رپوریشنوں کے ہاتھوں میں ہے۔ میڈیا پر گرفت سرمایہ دار طبقہ کی تجارتی ضرورت بھی ہے تاکہ ایک طرف وہ ملک کی معاشی پالیسیوں پر اثرانداز ہو سکے اور دوسری طرف مارکیٹ اکانومی کو بھی اپنی طرز پر ڈھال سکے۔ گلوبلائزیشن اور معاشی کھلاپن کی پالیسی نے جہاں بیرونی سرمایہ کاروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے ملک کے دروازے چوپٹ کھول دیے ہیں، وہیں میڈیا میں ان کی مداخلت کی راہیں بھی ہموار کی ہیں۔ چنانچہ حکومت نے میڈیا میں ۲۶ فیصد تک بیرونی سرمایہ کاری (FDI) کی اجازت دے رکھی ہے اور یہ کوشش کی جارہی ہے کہ اسے بڑھا کر ۴۹ فیصد کر دیا جائے۔ بیرونی سرمایہ کاری سے قبل بھی بیرونی ممالک کی کمپنیاں ایک ارب کی آبادی والے ملک ہندوستان کو سونے کی چڑیا اور اپنی قیمتی مارکیٹ سمجھتی تھیں اور اپنے اشتہارات کے ذریعے اس مارکیٹ میں اپنے لیے جگہ بنا چکی تھیں۔ FDI نے انہیں میڈیا پر کنٹرول حاصل کرنے کا براہِ راست موقع فراہم کر دیا۔ جس طرح امریکا اور یورپ میں یہودیوں نے ترسیل و ابلاغ کے اس اہم شعبے پر اپنا تسلط جما رکھا ہے، اُسی طرح ہندوستان میں نام نہاد اعلیٰ ذاتوں نے میڈیا پر اپنی پکڑ بنا رکھی ہے۔ FDI نے بیرونی میڈیا کمپنیوں جو بالعموم یہودیوں کے قبضے میں ہیں جیسے CNN، Fox News اور ABC News کو ملک کے میڈیا پر تسلط جمانے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ استعماری ممالک کی موثر اور مضبوط لابیاں بھی ملکی میڈیا پر اپنا اثر و رسوخ قائم کر چکی ہیں، تاکہ وہ ہندوستان کی پالیسی سازی پر براہِ راست اثر انداز ہو سکیں۔ امریکا اور اسرائیل کے ملکی میڈیا پر اثرات واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ ان ملکوں کے سفارت خانے اس سلسلے میں کافی منصوبہ بند طریقہ پر کام بھی کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ کارپوریٹ میڈیا دراصل سرمایہ دار استعمار کا خدمت گزار میڈیا ہے۔ فسطائی عناصر اور ملک کی سیاسی پارٹیاں بھی میڈیا پر اثرانداز ہونے کے نت نئے طریقے وضع کرتی ہیں۔ بس مسلمان ہی ابلاغ و ترسیل کے اس اہم ذریعے بالخصوص مین اسٹریم میڈیا سے بے نیاز ہیں۔
خبروں کی ترسیل اور معلومات کی فراہمی
خبروں کی ترسیل اور معلومات کی فراہمی میڈیا کا اہم کام ہے۔ ہر اخبار اور ٹی وی چینل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ معروضی انداز میں چیزوں کو پیش کرتا ہے۔ تاہم اس سے بڑا جھوٹ میڈیا میں اور کوئی نہیں ہے۔ میڈیا پر چونکہ بعض مضبوط اور طاقتور طبقات حاوی ہیں، اس لیے ان کے مفاد میں کیا جانے والا ہر کام چاہے اس کا تعلق سماج کے کتنے ہی چھوٹے طبقے سے کیوں نہ ہو، سرورق پر اور شہ سرخیوں میں جگہ پاتا ہے اور خبر کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو اور سماج کے کتنے ہی بڑے طبقے سے اس کا تعلق کیوں نہ ہو لیکن اگر وہ میڈیا پر حاوی استحصالی گروہ کے مفاد کے خلاف ہے تو وہ یا تو اندرونی صفحات میں کوئی غیراہم جگہ پاتی ہے یا اسے سرے سے بلیک آئوٹ کیا جاتا ہے۔ اکثر اوقات استحصالی عناصر کے مفاد میں خبریں گھڑی بھی جاتی ہیں۔
ملکی پالیسی پر اثرانداز ہونا
ملکی کارپوریٹ گروپس ہوں یا ملٹی نیشنل کمپنیاں (MNC’s)، سرمایہ دارانہ استعمار کے مفاد کا تقاضا ہے کہ وہ ملک کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوں۔ بڑی کمپنیوں کے مفادات کی تکمیل کے لیے موجودہ ضابطوں میں ڈھیل دیے جانے کا معاملہ ہو یا MNC’s کے بڑے بڑے کاروباری سودے ہوں یا استعماری ممالک کے ساتھ ہونے والے معاہدے، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ساتھ ہونے والی مفاہمت کی یادداشت ہو یا بین الاقوامی معاہدے، میڈیا اپنے مباحث اور اسٹوریز کے ذریعے ان کے لیے رائے عامہ ہموار کرتا ہے اور حکومت کی پالیسیوں پر براہِ راست اثرانداز ہوتا ہے۔ عوام کو ترقی کے سحر میں بھی مبتلا کرتا ہے۔ جب امریکا کے ساتھ توانائی کے میدان میں نیوکلیائی معاہدہ ہوا تھا اور بائیں محاذ کی جماعتوں نے حکومت کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لینے کے بعد من موہن سنگھ کی سرکار کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے ارکانِ پارلیمان کو دی جانے والی رشوت کا مسئلہ چھایا رہا۔ میڈیا نے یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ ملک کی خودمختاری کو دائو پر لگا کر جو معاہدہ کیا جارہا ہے، اس کے نتیجے میں ملک کو کتنی بجلی برآمد ہو گی۔ اسی طرح Nuclear Liability بل بھی میڈیا کی سنجیدہ گفتگو کا موضوع نہیں بن سکا ہے۔
اشتہارات میڈیا کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اشتہارات کے حصول کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، دونوں اس بات کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ ان کے قارئین اور ناظرین کی تعداد میں اضافہ ہو۔ اس کی TRP (شائقین کی تعداد) بڑھ جائے، اس کے لیے وہ جو طریقے اختیار کر رہے ہیں، اس نے سماج میں اخلاقی اور تہذیبی بحران پیدا کر دیا ہے۔ خبروں کو سنسنی خیز بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ کسی بچے کا ٹیوب ویل کے کھلے سوراخ میں گر جانے میں میڈیا کو اپنے لیے ایک موقع نظر آتا ہے۔ نتیجتاً اس دوران اس کے اہم واقعات اور خبریں اس واقعے کی نذر ہو جاتی ہیں۔
ناظرین کو مصروف رکھنے کے لیے جرائم کی خبروں نے بھی میڈیا میں کافی جگہ بنا لی ہے۔ اسلام جرائم کی تشہیر کی اجازت نہیں دیتا تاکہ اس سے دوسروں کو ترغیب نہ ملے لیکن ہمارا میڈیا جرائم کی خبروں کو بڑے ڈرامائی اور سنسنی خیز انداز میں پیش کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں لگا ہوا ہے۔ ایک سروے کے مطابق اشتہارات کو چھوڑ کر الیکٹرانک میڈیا کا ایک تہائی حصہ اور پرنٹ میڈیا کے سرورق کا ۲۱فیصد حصہ جرائم کی خبروں پر مشتمل ہوتا ہے۔
تفریحی مواد
میڈیا کا ایک اہم کام اپنے قارئین اور ناظرین کو تفریح فراہم کرنا بھی ہے۔ تاہم تفریح کے نام پر جن چیزوں کو فروغ دیا جارہا ہے، اس نے سماج کو ایک اخلاقی بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ سچ کا سامنا، Big Boss جیسے ریالٹی شوز نے بے حیائی، بدچلنی اور آوارگی کو عام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اسی طرح گانوں اور ڈانس کے کل ہند مقابلوں نے نئی نسل کی ترجیحات بدل کر رکھ دی ہیں۔ دیگر کھیلوں کے مقابلے میں کرکٹ کو میڈیا کی ترجیح کی وجہ سے اس کھیل کا لمبا وقت جو اشتہارات کے حصول کا اچھا ذریعہ ہے۔ میڈیا فلمی شخصیات اور کھلاڑیوں کو نئی نسل کے سامنے رول ماڈل کے بطور پیش کرتا ہے۔
مغربی تہذیب کی یلغار
ہندوستانی میڈیا اس وقت مغربی تہذیب کے فروغ کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ بے قید اور آزادانہ جنسی تعلقات کی ترغیب، فیشن کے نام پر فحاشی اور عریانی کا احیا، ہم جنسی کی حمایت، شادی بیاہ سے آزاد رشتوں کی تبلیغ کے ذریعے میڈیا مغربی تہذیب کو ہندوستانی معاشرے پر مسلط کر رہا ہے۔ ٹی وی سلسلوں کے ذریعہ خاندانی نظام کو تہ و بالا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انسانی رشتوں کی بنیاد اخوت و محبت اور ایثار و قربانی پر ہوتی ہے نہ کہ ایک دوسرے کا حریف بن کر۔ آج کل ٹی وی سلسلوں میں ساس کو بہو کا مخالف، بہو کو ساس کا حریف، شوہر کو بیوی کا دشمن اور بیوی کو شوہر کے مظالم کا شکار دکھایا جارہا ہے۔
مادہ پرستانہ طرزِ حیات کی ترغیب
ٹی وی سیریلوں اور فلموں کے ذریعے عالیشان مکانات، کار، بنگلوں، زیورات، قیمتی ملبوسات کی نمائش اور بڑے بڑے ہوٹلوں، ریستوران اور سیاحتی مقامات کو پُرکشش بنا کر اور انہیں زندگی کا ہدف بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ہر شخص جائز اور ناجائز طریقے اختیار کر کے جلد از جلد دولت مند بننا چاہتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کرپشن اور بدعنوانی کا ہر طرف دور دورہ ہے۔ مصنوعات کی تشہیر نے صارفیت کو فروغ دیا ہے۔ جھوٹے اور گمراہ کن اشتہارات نے ہر منفی طرزِ زندگی کو فروغ دیا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں کاسمیٹکس، موبائل فون اور جنک فوڈ کی صنعت کو میڈیا کی بدولت کافی فروغ ملا ہے۔
عورت کا استحصال
کارپوریٹ میڈیا، عورت کو اشیاء صَرف کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اشتہارات چاہے مردوں کے استعمال کی چیزوں ہی کے کیوں نہ ہوں، ایک خوش شکل اور نیم برہنہ عورت اس کی تشہیر کے لیے ناگزیر ہے۔ میڈیا نے عورت کو اپنے کاروبار کے فروغ کے لیے بے لباس کر کے اس کی عصمت و عفت کو تار تار کیا ہے۔
میڈیا کی اسلام دشمنی
میڈیا کا مرغوب ترین مشغلہ اسلام اور مسلمانوں کی کردار کشی ہے۔ اسلام کے احیا کی کوششوں کو میڈیا نے دنیا کے سامنے خوفناک بنا کر پیش کرنے کے لیے نت نئی اصطلاحیں گھڑی ہیں۔ پہلے مسلمانوں کو رجعت پسند، دقیانوس اور بنیاد پرست جیسے القاب سے نوازا جاتا تھا، اب اس کی جگہ جنگجو، جہادی، دہشت گردی اور طالبانی نے لے لی ہے۔ میڈیا کو بے لباس اور عریاں عورت سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا لیکن باپردہ خواتین اسے ٹائم بم نظر آتی ہیں اور ہر داڑھی والے مسلمان میں اسے اسامہ بن لادن کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ مسلمان کے ازدواجی تعلقات ہوں یا مسلم پرسنل لا، اس کا مضحکہ اڑانے میں میڈیا کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھتا۔ لفظ ’طلاق‘ مسلمانوں کو بدنام کرنے کا ایک مرغوب ترین ہتھیار ہے۔ ہر مسلم عورت اس کے نزدیک مظلوم ہے اور اس کی مظلومیت کی وجہ اس کا دین ہے۔ دیوبند کی ویب سائٹس پر جا کر اپنے مطلب کے فتوے تلاش کرنا اور اسے توڑ مروڑ کر پیش کرنا میڈیا کا ایک مرغوب ترین کام ہے۔
مذکورہ بالا سطور میں بہت اجمال کے ساتھ کارپوریٹ میڈیا کی فتنہ سامانیوں اور آئے دن کی تخریب کاریوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد میڈیا سے متنفر کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ میڈیا کسی شرِ مجسم کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو اس دورِ جدید کی ایک طاقتور ٹیکنالوجی ہے۔ آج یہ جن ہاتھوں میں ہے، وہ اسے تخریب کاری، شرانگیزی اور اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طاقتور میڈیا کو استحصالی عناصر کے ہاتھوں سے نکال کر ان ہاتھوں میں لایا جائے جو اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ایک صالح اور پاکیزہ سماج کی تعمیر چاہتے ہیں۔
میڈیا کی غیرمعمولی تسخیری قوت، اس کی فتنہ سامانیوں اور تخریبی صلاحیتوں سے ہم صَرفِ نظر نہیں کر سکتے۔ تحریکِ اسلامی جو کہ معاشرے کو بدلنے کے عزم کے ساتھ میدان میں آئی ہے، وہ کس طرح اس اہم میدان سے دور رہ سکتی ہے۔ وہ جس مقصد اور ایجنڈے کے تحت کام کر رہی ہے، اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ اقتدار و قوت کے ذیلی مراکز، جس میں میڈیا ایک اہم مرکز ہے، پر اثرانداز ہو اور منصوبہ بند طریقوں پر متبادل میڈیا کھڑا کرنے کی کوشش کرے۔ اس سلسلے میں درج ذیل کام انجام دیے جاسکتے ہیں:
میڈیا روابط
میڈیا تک اپنی خبروں کو پہنچانے، اسلام اور مسلمانوں کے لیے اس میں مثبت اور ایجابی جگہ بنانے کے لیے میڈیا سے مضبوط روابط انتہائی ضروری ہیں۔ یہ دور لابیوں کا ہے۔ ہر سماجی، سیاسی اور نظریاتی گروہ، مختلف میدانوں بالخصوص میڈیا میں اپنی لابی بنا رہا ہے۔ تاکہ میڈیا کے ذریعہ وہ عوام کے ذہن و فکر پر اثرانداز ہو سکے۔ اسی طرح استعماری طاقتیں، طبقات اور ممالک بھی دوسرے ملکوں کے میڈیا میں اپنی مضبوط لابی بناتے ہیں۔
انصاف پسند اور صاف ذہن صحافیوں کی نشاندہی اور ان کی ہمت افزائی
میڈیا میں ایسے صحافیوں اور کالم نگاروں کی کمی نہیں ہے جو ظلم و ناانصافی کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں۔ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے جائز مطالبات کی حمایت کرتے ہیں، سماج کے اہم ایشوز اور مسائل پر درست اور متوازن رویہ اختیار کرتے ہیں اور ہندوتوا کے مسلم دشمن رویے پر احتجاج کرتے ہیں لیکن مسلمانوں کی جانب سے نہ تو ان کی پذیرائی ہوتی ہے اور نہ ہمت افزائی۔ ایسے صحافیوں کو باضابطہ خط لکھ کر یا ان سے ملاقات کر کے ان کی کوششوں کو سراہنا چاہیے۔
صحافیوں کو ایوارڈ
ایسے صحافیوں کو ہر سال ایوارڈ دینے کی روایت قائم کی جانی چاہیے جو اَقدار پر مبنی صحافت کے عَلم بردار ہوں، سماجی اور سیاسی مسائل پر متوازن رائے رکھتے ہوں، سرمایہ دارانہ استعمار اور اس کی پالیسیوں کے ناقد ہوں، اقلیتوں، مسلمانوں اور دیگر محروم و مظلوم طبقات کے ایشوز اور مسائل کو ابھارتے ہوں۔
مسلم صحافیوں سے تعلقات
اردو اور علاقائی میڈیا کے علاوہ مین اسٹریم میڈیا (ملکی پریس) میں بھی اب خاصی تعداد میں مسلم لڑکے اور لڑکیاں پیشہ وارانہ ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں۔ بالعموم ان کا دین سے تعلق برائے نام سا ہوتا ہے تاہم میڈیا کے اسلام اور مسلم دشمن رویہ نے ان کے اندر مسلم قوم کی حمایت کے جذبات ضرور پروان چڑھائے ہیں۔ اگر ان سے اچھے تعلقات بنائے جائیں، ان کی دینی حِس کو بیدار کیا جائے تو یہ ہمارے لیے میڈیا میں اپنی بات پہنچانے کا بہترین ذریعہ بن سکتے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کی نگرانی
میڈیا کا اس حیثیت سے نوٹس لینا کہ اس میں اسلام، مسلمانوں، سماج کے کمزور و محروم طبقات کے خلاف کس قسم کی خبریں شائع کی جارہی ہیں یا دکھائی جارہی ہیں، بے حیائی و فحاشی کے فروغ، خواتین کی نازیبا نمائش، جرائم اور مخرب اخلاق چیزوں کی اشاعت کس حد تک اور کس درجے میں کی جارہی ہے، استعماری ایجنڈے کو بروئے کار لانے کے لیے کس قسم کی ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں، تاکہ ان کا بروقت تدارک کیا جاسکے۔ ہر بڑے شہر میں ذرائع ابلاغ کی نگرانی کے لیے مراکز قائم کیے جائیں اور کچھ افراد کو اس کام کی لیے منتخب کیا جائے۔ اخبارات و رسائل اور TV Clippings کے لیے میڈیا ڈاکومینٹیشن مراکز قائم کیے جائیں۔
اس سلسلے میں درج ذیل کام کیے جاسکتے ہیں:
۱۔ اخبارات و رسائل اور ٹی وی چینلوں کو بڑی تعداد میں خطوط اور ای میل روانہ کیے جائیں۔
۲۔ پریس کونسل میں شکایت درج کرائی جائے اور ٹی وی چینلوں کے لیے مقرر کردہ محتسب سے رابطہ قائم کیا جائے۔
۳۔ ٹیلی ویژن چینلوں، فلموں اور اخبارات میں بے حیا مناظر اور تصاویر کی اشاعت کے خلاف انسداد فواحش قانون کی بنیاد پر مقدمات کیے جائیں۔ فلموں میں فواحشات اور جرائم کی اشاعت اور تشہیر کی روک تھام کے لیے سینسر بورڈ سے رجوع کیا جائے۔
۴۔ ضرورت پڑنے پر اخبارات و رسائل اور ٹی وی چینلوں کے خلاف کسی بھی عدالت میں PIL بھی داخل کی جاسکتی ہے۔
اَقدار پر مبنی صحافت
صحافت کو اَقدار کا پابند بنانے، غیرصحت مندانہ انداز اور طریقوں پر قدغن لگانے کے لیے سول سوسائٹی کے ذریعہ دبائو ڈالا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف موضوعات پر مذاکروں اور مباحث کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ بعض پروگراموں کے خلاف رائے عامہ ہموار کر کے بھی میڈیا کی روش کو بدلا جاسکتا ہے۔
ذرائع ابلاغ کی تربیت
ذہین اور باصلاحیت مسلم طلبہ و طالبات کو ترغیب دلائی جائے کہ وہ اپنا مستقبل ذرائع ابلاغ میں بنائیں اور باضابطہ میڈیا کورسز میں داخلہ لیں۔ اس سلسلے میں میڈیا کے اچھے اداروں ان میں داخلہ کی شرائط سے واقف کرانے کے لیے کیریئر کونسلنگ کے جگہ جگہ کیمپس لگائے جائیں۔ SIO اور GIO سے وابستہ طلبہ و طالبات کو میڈیا کی طرف راغب کرنے پر خصوصی توجہ کی جائے۔ بعض اچھے میڈیا اداروں میں داخلہ دلانے کے لیے منتخب طلبہ و طالبات کی کوچنگ کا اہتمام کیا جائے تاکہ ان اداروں میں ان کے داخلہ کو یقینی بنایا جاسکے۔
میڈیا اسکالر شپ
ایسے ذہین و باصلاحیت مسلم طلبہ و طالبات جنہیں کسی اچھے میڈیا کورس میں داخلہ مل چکا ہو لیکن مالی مشکلات ان کی راہ میں حائل ہوں، ان کے لیے میڈیا اسکالر شپ کا اہتمام کیا جائے۔
آگاہی پروگرام
اسکالر شپ حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کے علاوہ میڈیا کی تعلیم حاصل کرنے والے دیگر طلبہ و طالبات کے لیے ایسے آگاہی پروگراموں اور ورکشاپس کا اہتمام کیا جائے جن کے ذریعہ ان کی پیشہ وارانہ اور اسلامی تربیت کی جاسکے۔ ان میں صالحیت اور صلاحیت کا حسین امتزاج پیدا ہو سکے۔ ان طلبہ و طالبات کو اسلامی لٹریچر، قرآن و احادیث کے تراجم بھی فراہم کیے جائیں۔
میڈیا پروڈکشن
آج کے دور میں کوئی معیاری اخبار یا رسالہ نکالنا یا کوئی ٹی وی چینل شروع کرنا ایک لمبے بجٹ کا متقاضی ہے، لیکن بعض ایسے کام ہیں جو کم بجٹ سے کیے جاسکتے ہیں۔
نیوز اور فیچر سروس
آج کے دور میں میڈیا اپنے تمام وسائل اور اسٹاف کے باوجود خبروں، تجزیوں اور فیچرز کے لیے نیوز اور فیچر ایجنسیوں پر انحصار کرتا ہے، بالخصوص علاقائی زبانوں کے اخبارات اور چھوٹے و متوسط درجے کے اخبارات کی یہ ایک اہم ضرورت ہے۔ انگریزی، ہندی، اردو اور علاقائی زبانوں میں ایسی کسی سروس کے لیے میڈیا میں اچھے خاصے مواقع موجود ہیں۔ تحریک سے وابستہ نوجوانوں کو معمولی تربیت اور معلومات کے ذریعے ایک اچھا رپورٹر اور صحافی بنایا جاسکتا ہے۔ اس طرح ملک کے طول و عرض میں موجود اچھے صحافیوں سے بطور کالم نگار کام لیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کم مصارف پر ایک کامیاب نیوز فیچر ایجنسی شروع کی جاسکتی ہے۔
مقامی چینل
تمام بڑے شہروں اور اضلاع میں کیبل آپریٹرز ایک عدد مقامی چینل یا سٹی چینل بھی چلاتے ہیں جن پر عام طور پر فلموں کی نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کہیں کہیں مقامی نیوز چینلز بھی چلتے ہیں جو مقامی خبروں کی ترسیل اور مقامی حالات سے واقفیت کا اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔ جہاں اس طرح کے نیوز چینل چلتے ہیں انہیں ۲۴ گھنٹے اپنے ناظرین کو متوجہ رکھنے کے لیے ہمیشہ خبروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ بہت چھوٹے بجٹ سے ایک چھوٹا اسٹوڈیو قائم کر کے اور ایک دو ٹی وی کیمروں کی مدد سے مقامی خبروں اور مقامی سطح پر پروڈکشنز وغیرہ کا اہتمام کرا کر اس کی ریکارڈنگ ان کو مہیا کرائی جاسکتی ہے۔ یہ اپنی بات عوام تک پہنچانے کا کامیاب، سستا اور انتہائی موثر ذریعہ ہے۔ جن مقامات پر سٹی کیبل پر کوئی نیوز چینل موجود نہ ہو وہاں ہم خود انتہائی کم خرچ پر ایک مقامی نیوز چینل قائم کر کے اس کے لیے جگہ خرید سکتے ہیں۔
سماجی ایشوز پر اسلامی نقطۂ نظر سے مواد اور افراد کی فراہمی
میڈیا میں اکثر و بیشتر نکاح و طلاق، وراثت و شہادت، جرم و سزا سے متعلق اسلامی قوانین اور اسلام میں عورت کی حیثیت اور دیگر سماجی ایشوز پر بحث چھڑ جاتی ہے۔ ان مباحث میں ہمیں شرکت کے مواقع نکالنے چاہئیں۔ صحافیوں کو ان موضوعات پر اسلامی لٹریچر فراہم کرنا، مسلم دانشوروں کے ذریعے صحیح نقطۂ نظر پر مبنی مضامین کی اشاعت، بحث کو صحیح رُخ دینے اور اسلام کے تعارف کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ شائع شدہ مضامین پر مراسلات اور خطوط بھی ایک موثر ذریعہ ہیں۔
ٹی وی چینلوں میں اکثر و بیشتر اسلامی موضوعات، سیاسی و سماجی مسائل پر گفتگو اور مباحثے ہوتے ہیں۔ ان میں اگر مسلمانوں کی صحیح نمائندگی ہو تو یہ اسلام کے تعارف اور مسلمانوں کی تصویر کو صحیح تناظر میں پیش کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ تحریک کو اس سلسلے میں نہ صرف اپنے افراد تیار کرنے چاہئیں بلکہ ان کا مناسب انداز میں تعارف بھی میڈیا کو کرانا چاہیے۔
ویب ٹی وی اور ویب میگزین
آج کل عوام الناس تک اپنی بات بڑے پیمانے پر پہنچانے کا ایک سستا اور کامیاب ذریعہ انٹرنیٹ ہے۔ Web TV اور Web Magazine کا تجربہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے کسی لائسنس یا حکومتی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ پوری طرح سے ایک مکمل چینل کا کام کر سکتا ہے۔
میڈیا ریسرچ
میڈیا کے اثرات اور رجحان کا جائزہ لینے کے لیے ایک تحقیقی مرکز قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس ادارے کے ذریعے درج ذیل امور پر تحقیق اور مطالعہ کرایا جاسکتا ہے:
۱۔ رپورٹنگ کے رجحان کا جائزہ
۲۔ میڈیا کے تہذیبی و ثقافتی اثرات کا جائزہ
۳۔ میڈیا کے سماجی اثرات کا جائزہ
۴۔ سیاست میں میڈیا کی دخل اندازی اور اس کے نتائج کا جائزہ
۵۔ معیشت کی نگرانی میں میڈیا کا کردار
۶۔ بچوں، نوجوانوں اور خواتین پر میڈیا کے اثرات
۷۔ ہندو قوم پرستی اور ہندوتوا کے فروغ میں میڈیا کا کردار
۸۔ ملک کی خارجہ پالیسی پر میڈیا کے اثرات
۹۔ امریکا و اسرائیل کے استعماری عزائم کی تکمیل میں میڈیا کا کردار
متبادل ذرائع ابلاغ
اوپر جو کچھ عرض کیا گیا، اُس کا تعلق موجودہ کارپوریٹ میڈیا میں مداخلت سے ہے۔ تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان تمام کوششوں سے ہم کسی قدر ہی سہی، میڈیا کی فتنہ سامانیوں کا مداوا کر سکیں گے یا اسلام، مسلمانوں اور تحریک کے لیے جگہ بنا سکیں گے۔ لہٰذا ایک متبادل میڈیا جو پوری طرح ہمارے کنٹرول میں ہو اور جو مین اسٹریم میڈیا کی جگہ لے سکے، کی ضرورت، اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا ہمیں اس میدان میں منظم انداز اور منصوبہ بند طریقہ پر تجربات کرنے چاہئیں۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’زندگیٔ نو‘‘ نئی دہلی۔ جون ۲۰۱۲ء)
Leave a Reply