
کارپوریٹ سیکٹر کی مطلق العنانیت۔ مطلب کاروباری مفادات پر مکمل کنٹرول۔ یہ لوگ اگر جنگ چاہیں گے تو جنگ ہوگی۔ اگر ان کو جینیاتی طور پر حیاتیات کی نظرثانی چاہیے، تو ان کو جینیاتی طور حیاتیات کی نظرثانی شدہ چیزیں ملیں گی۔ اگر ان کو تیل کی زیادہ مقدار چاہیے، یا ٹیکس بریک یا پھر ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ۔۔ یہ سب حاصل کر لیں گے۔ اگر یہ بچوں کے قوانین سے متعلق پابندیاں ہٹانا چاہتے ہیں تو وہ پابندیاں ہٹائیں گے، جتنی وہ چاہتے ہیں۔ اور اگر وہ بوڑھے، جوان اور غریبوں کی بے بسی کے ذریعے بھی کوئی منافع کمانا چاہتے ہیں تو انہیں کوئی روک نہیں سکتا۔
سیاستدانوں، سیاسی جماعتوں اور کاروباری میڈیا پر گرفت کے ذریعہ یہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ان سے مزاحمت کرنے والے سیاسی امیدوار کو کوئی طاقت حاصل نہ ہو۔ اور یہ حادثاتی نہیں۔ ٹرمپ کو بنانے والے بھی یہ ہیں اور ہیلری کلنٹن کو سپورٹ بھی انہوں نے کیا اور سینڈرز کو سائڈ لائن کرنے والے بھی یہی ہیں۔
وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہاں کوئی سیاسی انقلاب نہیں۔ میں اُن سے کہتی ہوں اگر یہ سچ ہے تو بہت بھیانک ہے۔ جو کچھ آج امریکا میں ہورہا ہے، وہ کارپوریٹ بغاوت کا نتیجہ ہے۔ امریکی حکومت یا کوئی بھی اس پر غمزدہ نظر نہیں آتا۔
کس بنیاد پر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ اجتماعی انا کا اظہار اور قدیم خیال کی تازہ ترین تشکیل، جاگ جائیں گے اور کہیں گے، ٹھیک ہے تمہیں اپنا ملک واپس چاہیے؟ نہیں، وہ ایسا نہیں کہیں گے۔ بقول فریڈرک ڈگلس کے ’’کسی طلب کے بغیر طاقت کچھ بھی نہیں۔ نہ کبھی ایسا ہوا ہے نہ ہوگا‘‘۔
اور اگر ہم جلد نہیں جاگے تو وہ کھڑکی بھی بند ہوجائے گی جس سے ہم انہیں کہہ سکیں کہ ’’اصل میں ہم یہ سوچتے اور ترجیح دیتے ہیں۔ حکومت عوام کی ہونی چاہیے۔ عوام سے ہونی چاہیے اور عوام کے لیے ہونی چاہیے‘‘۔
کوئی شخص یا پارٹی قیادت، جن کی سیاست نئی مطلق العنانیت سے سمجھوتے کی کوشش کر رہی ہو، سب کچھ کرے گی۔ جیسے وہ اس قابض قوت کو نرم بنا کر اس کے تعلقاتِ عامہ کو بڑھائے گی۔۔۔ اور اس سے پیدا ہونے والی تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کرے گی۔ لیکن اس صورتحال میں تکلیف اور بڑھے گی۔ اور بالآخر ایک بہت بڑا تجربہ ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم انہیں ایسا کرنے دے رہے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ہمارے ضمیر کو سُلا دیا ہے اور یوں وہ جیتیں گے یا نہیں، یہ اس نسل نے طے کرنا ہے۔
(ترجمہ: علی حارث)
“Corporate totalitarianism, or not”. (“huffingtonpost.com”. March 1, 2016)
Leave a Reply