ایران کی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سربراہ سعید جلیلی کا حالیہ دورۂ شام اور بشارالاسد انتظامیہ سے اظہار یکجہتی اس امر کا مظہر ہے کہ تہران انتظامیہ اب تقیّہ (Hypocrisy) کرنے پر یقین نہیں رکھتی۔ شام کے صدر بشار الاسد نے سعید جلیلی سے ملاقات کی اور اس کے فوراً بعد شام کی سیکورٹی فورسز نے ملک کے دوسرے بڑے شہر حلب (Aleppo) میں ایک اور گرینڈ آپریشن شروع کیا۔ شام کے لیے ایران کی حمایت اور مدد بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اب شام کی صورت حال اس قدر سنگین ہوچکی ہے کہ ایران اپنے عزائم کو چھپانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتا۔
عام مسلمانوں سے شیعوں کو الگ کرنے والی ایک خصوصیت تقیہ ہے یعنی یہ کہ غیرمعمولی دباؤ کے تحت یا ایذا رسانی سے بچنے کے لیے انسان چاہے تو اپنے اصل عقائد اور عزائم کو نہ صرف یہ کہ چھپا سکتا ہے بلکہ اُس کا طرز عمل اِس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بنیادی شیعہ عقائد میں سے ہے۔ ایران کی خارجہ پالیسی میں بھی تقیہ کا اہم کردار رہا ہے۔ جن ممالک سے کسی نہ کسی امر میں اختلاف پایا جاتا ہے ان سے معاملات میں ایران نے ہمیشہ تقیہ کا سہارا لیا ہے۔ تقیہ کے اصول کی افادیت اس امر میں ہے کہ اس سے کب اور کس حد تک کام لیا جاتا ہے۔ اگر ایران کی قیادت محسوس کرتی ہے کہ معاملات اس کے ہاتھ سے نکلے جارہے ہیں تو وہ قومی مفادات کو تقویت بہم پہنچانے کی خاطر تقیہ کا اصول عارضی طور پر نظر انداز بھی کرسکتی ہے۔
علیحدگی پسند کردوں کی جماعت کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) سے تعلقات بھی ایک ایسا ہی معاملہ ہے جس کے حوالے سے ایران نے تقیہ ترک کردیا ہے۔ چند سال قبل تک ایران پی کے کے سے لڑ رہا تھا۔ اب وہ اس دہشت گرد تنظیم کی مدد کر رہا ہے۔ ترک سرحد کے نزدیک شاہدان (Sehidan) کیمپ سے کرد باغی ترکی پر حملے کر رہے ہیں۔ ترکی کے علاقے سیمدنلی (Semdinli) پر سب سے بڑا حالیہ حملہ اِسی کیمپ سے کیا گیا تھا۔ اب ایران پی کے کے کو ترکی میں خوف پیدا کرنے کے لیے بھرپور طور پر استعمال کر رہا ہے۔ ایران کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل سید حسن فیروز آبادی کی یہ دھمکی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ دہشت گردی ترک سرزمین تک بھی پہنچ سکتی ہے۔
ترک سرزمین پر پی کے کے کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ ازمیر (Izmir) میں حملے بڑھے ہیں۔ ترکی ایک مضبوط ملک ہے۔ پی کے کے کوئی ایسی تنظیم نہیں جس کے وسیع تر اسٹریٹجک مفادات اِن حملوں سے وابستہ ہوں۔ ہاں، اِتنا ضرور ہوسکتا ہے کہ اِن حملوں کے نتیجے میں ترکی کو اپنی سلامتی پالیسی پر نظر ثانی کرنی پڑے۔ پی کے کے کی پشت پر موجود قوتوں کا یہی مطمح نظر ہوسکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پی کے کے کی پشت پر کون ہے۔ شام اس پوزیشن میں نہیں کہ پی کے کے کی مدد کرسکے۔ ہاں، پی کے کے کی سرگرمیوں سے شام کی حکومت پر دباؤ کم کرنے میں مدد ضرور مل سکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ تزویراتی معاملات میں برتری حاصل کرنے کے لیے کون پی کے کے کی مدد کرسکتا ہے اور پی کے کے کسی بھی مشکل لمحے میں مدد کے لیے کس کی طرف دیکھے گی؟ اِس سوال کا صرف ایک ہی جواب ہے… ایران۔
ترک سرحد کے نزدیک شاہدان کے دہشت گرد کیمپ سے ایران کی حکومت ترکی کو نشانہ بنا رہی ہے۔ اس سلسلے میں وہ پی کے کے کو بھرپور طور پر استعمال کر رہی ہے۔ اِس معاملے میں ایران اِس قدر کھل کر کھیل رہا ہے کہ اِسے باضابطہ جنگ کا اعلان سمجھا جاسکتا ہے۔ کسی نہ کسی طور شام کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے ایران اب ترکی سے دوستی کو داؤ پر لگا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران کے لیے ترکی سے دوستی زیادہ سود مند ہے۔ چند برسوں کے دوران مغربی ممالک کے دباؤ کا سامنا کرنے میں ترکی نے ایران کی غیرمعمولی معاونت کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران کی خاطر ترکی نے اپنے مفادات کو کسی حد تک داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کیا۔
ترکی نے ایران کے لیے جو کچھ بھی کیا اس کی پشت پر منافقت نہیں تھی۔ یہ کسی بھی سطح پر تقیہ کا معاملہ نہیں تھا۔ ایران اور مغربی دنیا کے درمیان کشیدگی کا ختم ہونا خطے کے مفاد میں ہے۔ ترکی نے خیر سگالی کا جو جذبہ پیدا کیا تھا اسے ایران پی کے کے کی معاونت کے ذریعے تباہ کر رہا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں طویل مدت سے جو اعتدال پسند پالیسیاں چلی آ رہی تھی اور جو توازن بڑی مشکل سے پیدا کیا گیا تھا وہ اب ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ شام میں بشارالاسد کی حکومت کو بچانے کی کوشش خود ایران کو کمزور کر رہی ہے اور اس سے ناراض ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ترکی کے خلاف دہشت گردی کے لیے ایران کی سرزمین کا استعمال ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ ترکی یہ سب نہیں بھول سکتا۔ اِس معاملے میں ایران کے لیے فتح یاب ہونا ممکن نہیں۔
(“Could Iran Win?”… “Todays Zaman”. August 12th, 2012)
Leave a Reply