
مشرق وسطیٰ، خلیج اور جزیرہ نما عرب کے بارے میں تجزیہ نگاروں کے ذہن میں اب بھی واضح نہیں کہ سال رواں کے دوران عوامی بیداری کی لہر کیا اب سعودی عرب کا رخ کرے گی؟
مشرق وسطیٰ کے بارے میں کبھی پیش گوئیاں مت کیجیے۔ میں شیشے کے جس گولے میں دیکھ کر پیش گوئی کیا کرتا تھا، وہ کب کا ٹوٹ چکا۔ ۱۸۸۳ء میں ایک غیر ملکی سیاح نے بغداد کی سیر کے بعد لکھا تھا کہ عرب دنیا میں بیداری کی لہر اٹھ رہی ہے اور بہت جلد اس خطے کے پچھڑے ہوئے مسلمان اسلامی دنیا میں اپنے لیے ایک بلند مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس سے ایک سال قبل مکۂ مکرمہ میں ایک برطانوی افسر نے لکھا تھا کہ میرے علم میں بھی یہ بات آئی ہے کہ اگر کوئی آزادی کی بات کرے تو دماغوں میں کچھ ہلچل ہوتی ہے۔
اب آئیے ۲۰۱۳ء کی طرف۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ ۱۹۳۸ء میں جارج اینٹونیس کی کتاب ’’عرب اویکننگ‘‘ (Arab Awakening) کی طرح عرب دنیا میں جمہوریت کی طرف تو نہیں مگر ہاں، آزادی کی طرف رواں رہنے کی روایت تابندہ رہے گی اور عرب دنیا کے محلات کے ساتھ ساتھ امریکا کے ایوان ہائے اقتدار میں بھی ہلچل مچتی رہے گی۔
تاریخ کی سطح پر جائزہ لیجیے تو یہ عین ممکن دکھائی دیتا ہے۔ بے چینی اور ہلچل برقرار رہے گی اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ فلسطینی ریاست دنیا کے نقشے پر موجود نہیں۔ اور شاید کبھی معرض وجود میں آئے گی بھی نہیں۔ اسرائیلی حکومت عرب سرزمین پر یہودیوں کو بساتی رہے گی اور ان علاقوں کو خالی کرانا محض خواب ہی رہے گا۔ فلسطینیوں کو اندازہ ہے کہ نئے سال میں بھی ان کے بنیادی مسائل حل طلب ہی رہیں گے۔ وہ جانتے ہیں کہ کوئی ان کی مدد کو نہیں آئے گا، اسرائیلی مظالم کا سلسلہ جاری رہے گا، اور یہ کہ امریکا، برطانیہ اور فرانس کے سربراہان حکومت و مملکت میں سے کسی میں دم نہیں کہ اسرائیل میں لکود پارٹی پر اثرانداز ہوسکے۔ اسرائیل کو جہاں بھی اپنے مفادات کے خلاف معمولی سی بھی بات دکھائی دے گی، وہ یہودیت مخالف لہر کا رونا روکر اپنی بات منوائے گا۔
محمود عباس اور ان کی کابینہ کے ارکان اسرائیل کو ہر طرح کی رعایتیں دینے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ اور اگر آپ کو میری بات کا یقین نہیں تو کلیٹن سوائشر کی کتاب ’’دی پیلیسٹائن پیپرز‘‘ پڑھ دیکھیے جس میں لکھا ہے کہ محمود عباس اسرائیل کو وہاں بھی رعایتیں دیں گے جہاں کسی بھی نوعیت کی رعایت دینے کی کوئی گنجائش ہی نہ ہو۔ حماس اور خالد مشعل کی جانب سے یہ کہا جاتا رہے گا کہ اسرائیل کو دنیا کے نقشے پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اور اس بیان کو جواز بیان بناکر اسرائیل کہے گا کہ کوئی نہیں جس سے بات کی جائے! اور پھر غزہ کے خلاف ایک اور جنگ چھیڑ دی جائے گی۔ آخر میں مغربی قوتیں بھیگی بلی کی طرح اسرائیل سے درخواست کریں گی کہ کارروائی روک دے اور یہ بات کچھ اس انداز سے کہی جائے گی جیسے فلسطینیوں کے پاس ٹینک اور ڈرون ہوں! اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک اور انتفاضہ ہوگی؟ شاید۔
اسرائیل کے خلاف عرب سرزمین پر یہودی بستیاں تعمیر کرنے کے حوالے سے احتجاج کے لیے عالمی عدالت انصاف بھی جایا جاسکتا ہے۔ مگر خیر، اس سے کیا ہو جائے گا۔ فلسطینیوں نے اسرائیلیوں کی جانب سے سیکیورٹی کو بہانہ بناکر بنائی جانے والی دیوار کے خلاف بھی مقدمہ جیت لیا تھا مگر کچھ بھی نہ ہوسکا۔ یہی فلسطینیوں کا مقدر ہے۔ ٹام فرائیڈ مین جیسے لوگ فلسطینیوں سے کہتے ہیں کہ تشدد کی راہ پر مت چلو اور گاندھی جی کے طور طریقے اپناؤ۔ مگر جب وہ گاندھی جی کے طور طریقے اپناتے ہیں تب بھی ان پر مظالم کا سلسلہ تو نہیں رکتا۔ اور اس پر ٹام فرائیڈ مین خاموش رہتے ہیں۔ یہ گاندھی ہی تو تھے جنہوں نے کہا تھا۔ ’’مغربی تہذیب ایک اچھا آئیڈیا ہوگی‘‘۔
۲۰۱۳ء میں بھی فلسطینیوں کے لیے بری ہی خبریں ہیں۔ ایران؟ یاد رکھیے، ہم ایرانیوں کو جتنا جانتے ہیں اس سے زیادہ وہ ہمیں جانتے ہیں۔ آپ کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ایرانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے مغرب میں تعلیم پائی ہے۔ اور انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی بھی معاملے میں اپنی پوزیشن بہتر اور برتر کس طور رکھنی ہے۔ جارج واکر بش اور ٹونی بلیئر نے افغانستان میں شیعوں کو طالبان سے نجات دلائی۔ اور دوسری طرف عراق میں شیعوں کو صدام حسین سے نجات دلائی گئی۔ ایرانیوں نے ایک بھی گولی چلائے بغیر دونوں ممالک میں اپنی جنگ بے مثال طریقے سے جیت لی۔
ہاں، اگر امریکا یا اسرائیل نے ایٹمی تنصیبات پر حملہ کیا تو ایران ضرور جوابی کارروائی کرے گا۔ اسرائیل میں ایران سے بھرپور جنگ کی ہمت نہیں۔ وہ ہارے گا۔ اور امریکا عراق اور افغانستان کے بعد تیسری جنگ بھی ہارنے کے موڈ میں نہیں۔ بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے مگر امریکا نے کوئی دھمکی نہیں دی نہ کوئی خاص پابندی ہی لگائی۔ پاکستان نے ایٹمی ریاست کا درجہ پالیا مگر امریکا نے شدید عدم استحکام سے دوچار اس ریاست کے خلاف بھی کچھ نہ کیا۔ ایران کے خلاف مغربی پابندیوں نے وہ مصائب پیدا کیے ہیں جو اسرائیل کے ایف اٹھارہ طیاروں کی بمباری سے بھی شاید پیدا نہ ہوئے ہوتے۔ امریکا کو کوئی بھی کارروائی اس وقت یاد آتی ہے جب جمہوریت اس کی مرضی کے مطابق نہ ہو۔ حماس نے غزہ کی پٹی میں حکومت بنائی تو امریکا اور اسرائیل کو جمہوریت میں خرابیاں نظر آنے لگیں۔
براک اوباما دوسری بار صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ دوسرے دور صدارت میں بھی ڈرون حملے جاری رہیں گے اور چند عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر شہری ہلاکت کے گڑھے میں گرتے ہی رہیں گے۔ اگر کسی دن مغربی این جی او کے دفتر پر یا مغربی باشندوں کے گروہ پر ڈرون حملہ ہوگیا تو اوباما معافی مانگتے پھریں گے۔ امریکا میں گن لابی کہتی ہے کہ قتل گن نہیں کرتی، انسان کرتے ہیں۔ اگر یہی بات پاکستان میں ڈرون حملوں اور غزہ میں اسرائیلی فضائی کارروائی پر منطبق کیجیے تو معاملہ کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ وہاں ڈرون، راکٹ اور بم ہلاک کرتے ہیں، یہی حال اسرائیل کا ہے۔ طیاروں سے جو بم داغا جاتا ہے وہ شہریوں کو قتل کرتا ہے، اسرائیلی فوج کہاں چاہتی ہے کہ کوئی قتل ہو! مگر خیر، حماس کے داغے ہوئے کسی بھی راکٹ کے لیے آپ یہ جواز پیش نہیں کرسکتے۔
شام کا معاملہ یہ ہے کہ بشارالاسد کی پشت پر کئی قوتیں ہیں۔ وہ فی الحال جاتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس نے باغیوں میں سے چند گروہوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بہت خطرناک ہتھکنڈا ہے مگر خیر، بشار الاسد نے رسک لیا ہے۔ بشار الاسد کو جانا ہے۔ ایک نہ ایک دن وہ جائے گا۔ یہ بات تو وہ خود بھی کہتا ہے۔ مگر مستقبل قریب میں وہ جاتا دکھائی نہیں دیتا۔ اور معمر قذافی کے سے انداز سے تو ہرگز نہیں۔ وہ پرانا اصول یاد کیجیے۔ مصر تیونس نہیں تھا، یمن مصر نہیں تھا، لیبیا یمن نہیں تھا اور شام لیبیا نہیں ہے۔
عراق کا حال کون سا اچھا ہے۔ وہاں بھی قتل و غارت ہو رہی ہے۔ بہت سے مواقع پر عراق میں ہلاکتوں کی تعداد شام سے زیادہ ہوتی ہے مگر میڈیا میں یہ بات دبا دی جاتی ہے۔ عراق میں خون کی ندیاں بہانے والی خانہ جنگی ہوتی رہے گی اور ہم مجموعی طور پر اسے نظر انداز ہی کرتے رہیں گے۔
سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں؟ وہاں بھی انقلاب کی لہر اٹھ سکتی ہے۔ یاد رکھیے، سعودی سرزمین ہی سے ایک انقلاب اٹھا تھا جسے اسلام کا نام دیا گیا۔ وہاں اب بہت کچھ بدل رہا ہے اور بہت سی اہم تبدیلیاں کچھ ہی دنوں میں رونما ہونے کو ہیں۔
(“Could Saudi Arabia be Next?” “The Independent” Dec 31st, 2012)
Leave a Reply