
ترکی کے شہر استنبول میں پچھلے ہفتے ترک زبان بولنے والے ممالک کی تنظیم ترک کونسل کے سربراہان کے اجلاس کے دوران اس تنظیم کو عرب لیگ کی طرز پر باضابطہ ایک سیاسی فورم کی شکل دی گئی۔ اجلاس کے اختتام پر بتایا گیا کہ ترک کونسل کا نام تبدیل کرکے ترک ریاستوں کی تنظیم رکھ کر اس کو مزیدفعال بناکر تعلقات کو مزید مضبوط اور نئی راہداریاں قائم کرکے اشتراک کی نئی راہیں ڈھونڈی جائیں گی۔ ترک وزیر خارجہ حیولت چاوش اوغلو نے کہا کہ کونسل ایک تبدیلی کے منصوبے سے گزر رہی ہے اور عالمی سیاست میں ایشیا کے عروج کے تناظر میں یہ تنظیم، جس میں ترکی کے علاوہ آذربائیجان، قزاقستان، کرغزستان، ازبکستان باضابطہ رُکن ہیں، ایک اہم کردار ادا کریںگے۔ ہنگری اور ترکمانستان کو اس تنظیم میں مبصر کا درجہ حاصل ہے۔ گو کہ ترکمانستان بھی کلی طور پر ترک زبان بولنے والا ملک ہے، مگر ایک پالیسی کے تحت یہ کسی بین الاقوامی فورم کا ممبر بننے سے احتراز کرتا ہے۔ اس فورم میں یوکرائن اور افغانستان کی ممبرشپ پر جلد ہی فیصلہ کیا جائے گا۔ کابل پر طالبان کے قبضہ سے بس چند ماہ قبل ہی سابق اشرف غنی حکومت نے ترک کونسل کی ممبرشپ کی درخواست جمع کروائی تھی۔
ترک کونسل اکتوبر ۲۰۰۹ء میں ترکی، آذربائیجان، قازقستان اور کرغزستان کے نخچیوان معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد قائم ہوئی تھی، تاکہ ترک زبان بولنے والے ممالک کے درمیان گہرے تعلقات اور یکجہتی کو فروغ دے کر، یوریشیائی براعظم بالخصوص وسطی ایشیا اور قفقاز میں تعاون کی راہیں تلاش کی جائیں۔ مگر آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان کشیدہ تعلقات اور نگورنو کاراباخ پر آرمینیا کے قبضہ کے بعد ترکی اور آذربائیجان کے لیے راہداری تک رسائی بند ہوگئی تھی۔ اس کی وجہ سے ترکی اور آذربائیجان دیگر ترک زبان بولنے والے وسط ایشیائی ممالک سے کٹ گئے تھے۔ پچھلے سال آرمینیا کو جنگ میں ہرانے اور نگورنو کاراباخ پر قبضے کے بعد آذربائیجان نے نخچیوان یا زنگذیو راہداری پر رسائی حاصل کرکے ترک دنیا کو ایک بار پھر جوڑنے کا کام کردیا ہے۔ ترکی نے توپہلے ہی نخچیوان تک ۲۷۰ ملین ڈالر کی لاگت سے ۲۳۰ کلومیٹر طویل ریلوے لائن بچھانے کا اعلان کیا ہے۔ اس لائن کو بعد میں آذربائیجان، ایران کے راستے افغانستان اور پاکستان تک وسعت دی جائے گی۔ چاوش اوغلو نے زور دیا کہ تمام ترک بولنے والے لوگ ایک درخت کی ’’شاخیں‘‘ ہیں۔ انہوں نے ترک کونسل کو ’’خاندانی کونسل‘‘ کہا۔ ان کا کہنا تھا ان ممالک کی جڑیں مشترک ہیں، اس لیے ان کو مستقبل کے حوالے سے مشترکہ نقطہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ استنبول میں ۲۰۴۰ء کے جس وژن پر اتفاق رائے پایا گیا اس میں یورپی یونین کی طرز پر ایک مضبوط و مشترکہ خارجہ پالیسی اپنانے کے ساتھ ساتھ، سیکورٹی تعاون، آزادانہ تجارت پر عمل درآمد، نقل و حمل کے لیے سرحدیں کھولنا اور رکن ممالک کے درمیان مضبوط تعاون کی راہیں تلاش کرنا شامل ہے۔
امریکی تھنک ٹینک سینٹر فار نیول انالیسس میں وسطیٰ ایشیائی امو ر کی ماہر عمیدہ ہاشموف کے مطابق یہ فورم کئی اقتصادی منصوبوں کا محور ثابت ہوگی اور یورپی یونین کی طرح یہ جلد ہی ا قتصادی اور سیاسی اثر و رسوخ حاصل کرکے ایک طاقتور بین الاقوامی فورم کی شکل میں ابھرے گی۔ عالمی جریدے کونسل آن فارن ریلیشنز کے مطابق آذربائیجان کے تیل اور گیس کو یورپ پہنچانے کے لیے دو راستے ہیں، ایک شمال مغربی روس اور دوسرا جنوب مغربی قفقاز یا کاکیشیائی ریاستوں سے ہوکر ترکی سے گزرتا ہے۔ یورپ اپنی گیس کی ضروریات کو یہاں سے پورا کرنے کے لیے مستقبل میں یہاں سے مزید پائپ لائنوں کی تعمیر کا خواہشمند ہے۔ترک صدر رجب طیب ایردوان نے خاص طور پر اس میٹنگ میں ٹرانس کیسپیئن ایسٹ ویسٹ، مڈل کوریڈور کے بارے میں بات کی، جو جارجیا، آذربائیجان اور بحیرہ کیسپیئن سے ہوتا ہوا مستقبل میں ترکمانستان، ازبکستان، کرغزستان کے راستے پر چین کو جوڑے گا۔ یہ راہداری موجودہ ایشیا، یورپ ٹرانس سائبیرین ریل روڈ کا بہتر اور تیز ترین متبادل پیش کرے گی۔ ازبکستان کے صدر شوکت مرزییویف نے کہا کہ ان کے ملک کے لیے نقل و حمل اور ٹرانزٹ صلاحیت کو بڑھانا حکمت عملی کے لحاظ سے اہم ہے۔ ’’وسطی ایشیا کے راستے اہم عالمی منڈیوں بشمول چین، بھارت اور پاکستان اور دیگر ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ آذربائیجان اور ترکی سے یورپی ممالک تک رسائی کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔ ان سمتوں میں ٹرانسپورٹ کوریڈورز کی ترقی اور لاجسٹک انفراسٹرکچر بنانے کے لیے بڑے پروجیکٹوں کی مشترکہ تکمیل میں ہمارے مشترکہ مفادات ہیں۔‘‘ ایک اندازہ کے مطابق دنیا میں اس وقت ۱۸۰؍ملین افراد کی زبان ترک ہے۔ نیز ۲۰۰ ملین افراد کے لیے یہ متبادل زبان ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نصف ترک زبان بولنے والے روس اور سابق سوویت یونین پر مشتمل علاقوں میں آباد ہیں۔ سابق سوویت یونین کے ۱۵؍صوبوں میں تقریباً ۴۰ قومیتیں ترک زبانیں بولتی تھیں۔
روس میں تاتارستان، بشکرستان، نیزتوفالار، خاکس، شور، چلم ترک، سائبیرین تاتار، الٹیائینز، ٹیلنگٹس، ٹیلیوٹس، توبالر، چالکان، کمانڈی، ارمس اور ایران کی سرحد پر چواش قومیں ترک زبان بولتی ہیں۔ روسی اکیڈمی آف سائنسز کے لسانیات کے انسٹی ٹیوٹ میں کام کرنے والی انا ڈیبو کا کہنا ہے کہ ترک زبان بولنے والے ترکی سے لے کر چین تک اور یہاں تک کہ بحر آرکٹک سے لے کر ایران تک زمین کے ایک بڑے حصے میں آباد ہیں۔حتیٰ کہ جموں و کشمیر کا دور افتادہ اور پسماندہ لداخ خطہ، جہاں اس وقت چینی اور بھارتی فوج برسرپیکار ہے، ایک صدی قبل تک دنیا سے اس قدر جڑا تھا، کہ ترکی یہاں کی دوسری زبان تھی۔ تاجروں، سیاحوں، جاسوسوں اور سپاہیوں کے لیے ترکستان یعنی سنکیانگ کے شہروں یارقند، خوتان اور کاشغر کے سفر کے لیے لداخ ایک اہم زمینی رابط تھا۔ سرحدوں میں تبدیلی اور لوگوں کے درمیان رابطے کے کمزور ہونے کے ساتھ، ترک زبانوں نے مختلف لہجے اور بولیاں جمع کیں اور آہستہ آہستہ وہ اصل زبان سے الگ ہوگئے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ یہ تنظیم اس زبان کا ایک معیار تیار کرکے اس کو سبھی ممالک میں نافذ بھی کروائے۔ ماہرین کے مطابق گو کہ مختلف قومیتوں کے لوگ ترک زبانوں کے مختلف ورژن بولتے ہیں، اور عربی کے برعکس ان کے رسم الخط بھی جدا ہیں، لیکن وہ ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں۔ زبان کا بندھن ان کے درمیان فاصلوں کو ختم کرتا ہے اور ان کے درمیان اعتماد پیدا کرنے کے لیے ان کی بات چیت کو آسان بناتا ہے۔ ترک ریاستوں کی تنظیم کے سیکرٹری جنرل بغداد امرئیف کا کہنا ہے کہ دنیا جلد ہی جنیوا اور نیویارک کو بھول جائے گی۔ کیونکہ ترک کونسل ممالک کے شہر یعنی استنبول، الماتی، آستانہ، تاشقند اور باکو اب تیزی کے ساتھ امن کی تلاش کے لیے تنازعات کے شکار ممالک کے لیے پسندیدہ سفارتی مقامات کے طور پر ابھررہے ہیں۔ ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ، ترک کونسل ممالک جغرافیائی سیاسی پوزیشننگ اور اس سے بھی بڑھ کر دوستانہ فطرت اور رویہ کی وجہ سے بین الاقوامی ثالثی کے مراکز بن چکے ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ یہ قازقستان کا دارالحکومت الماتی تھا جس نے ۲۰۱۳ء میں چھ عالمی طاقتوں اور ایران کو جوہری پروگرام پر کسی معاہدہ کو شکل دینے کے لیے اکٹھا کیا تھا۔ ایک تجربہ کار سفارتکار امرئیف، جنہوں نے ۲۰۱۴ء سے قازقستان کے دو وزرائے اعظم کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دی ہیں، کا کہنا ہے کہ قازقستان نے ہی شام کے بحران میں ملوث اہم کرداروں کو ایک میز پر بیٹھنے پر ایسے وقت مجبور کیا، جب دیگر تمام اقدامات ناکام ہو چکے تھے۔ ترک کونسل کے ارکین کی میزبانی میں کئی امن معاہدوں اور اجلاسوں میں، اہم ترین استنبول عمل تھا جس نے افغانستان پر ہارٹ آف ایشیا ڈائیلاگ، الماتی ایران ڈیل، افغانستان پر تاشقند ڈائیلاگ اور بشکیک (کرغزستان) پروٹوکول کو جنم دیا۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’۹۲ نیوز‘‘ کراچی۔ ۱۶؍نومبر ۲۰۲۱ء)
Leave a Reply