
جب سے فوج نے ۲۰۱۳ء میں عوامی مظاہروں کے ذریعے محمد مرسی سے اقتدار لیا ہے، مصری صدر عبدالفتح السیسی کا کہنا ہے کہ وہ انارکی پھیلانے والی قوتوں کو دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ہفتے کے اختتام پر جبکہ ایک بڑی سرمایہ کاری کانفرس ہونے جارہی ہے، انہوں نے ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کی سینئر صحافی لیلے ویمتھ کو اپنے وسیع و عریض سفید صدارتی محل میں مدعو کیا۔ ملاقات کا مقصد امریکا اور مصر کے دشوار تعلقات، داعش کو شکست دینے کا راستہ اور اپنے ملک کے بارے میں ان کی امیدیں اور خدشات جیسے موضوعات پر گفتگو کرنا تھا۔ گفتگو کے منتخب حصے درج ذیل ہیں:۔
السیسی: آپ کو یاد ہے کہ آخری دفعہ جب ہم اگست ۲۰۱۳ء کو ملے تھے تو میں نے آپ سے کیا کہا تھا؟
لیلے: ہاں! آپ نے کہا تھا کہ آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ امریکا نے مصر کی جانب سے اپنا رُخ موڑ لیا ہے۔ آج آپ کا موقف کیا ہے؟
السیسی: میں سمجھتا ہوں ہمارے درمیان صحیح رابطہ کاری کا فقدان ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنی آواز اتنے واضح انداز میں نہیں پہنچا پارہے جتنا واضح اسے ہونا چاہیے۔ البتہ اس خطے کو درپیش خطرات واضح ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ امریکا گہری نظر رکھے ہوئے ہے کہ دہشت گردی کس طرح اس خطے کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔
لیلے: آپ کے خیال میں امریکا کیا کرے؟
السیسی: مصر کا ساتھ دے۔ مصریوں کی عمومی خواہش کا ساتھ دے۔
لیلے:آپ کا مطلب ہے کہ امریکا کو آپ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے؟
السیسی:مصریوں کی عمومی خواہش کو ہی ظاہر کرتا ہے۔
لیلے: ۲۰۱۳ء میں صدر اوباما نے ایف۔۱۶ اور دیگر ہتھیاروں کی ترسیل روک دی تھی۔ اس وقت تک جب تک مصر جمہوریت کی طرف جانے والی ایک پائیدار، جامع اور غیر متشدد راہ نہیں اپناتا۔ اس پر آپ کا ردِ عمل؟
السیسی: میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں۔ یہاں مصر میں کون تشدد کی راہ اپنا رہا ہے؟ وہ لوگ جو تیس جون سے پہلے جمہوریت کی راہ میں تعمیری حصہ ڈالنا نہیں چاہتے تھے۔ (جب السیسی کی سربراہی میں فوج نے محمد مرسی کا تختہ الٹ دیا تھا)۔
لیلے: آپ کا مطلب ہے اِخوان المسلمون؟
السیسی: (اثبات میں سر ہلاتے ہوئے) انہوں نے ریاست کے ساتھ تصادم کی راہ اختیار کی۔ کیا آپ نے دیکھا کہ ریاستِ مصر نے سینا میں کسی کے خلاف اقدامات کیے ہوں، سوائے اُن لوگوں کے جو ہتھیار نہیں رکھتے، دھمکیاں دیتے ہیں، اور فوج اور پولیس اور یہاں تک کہ معصوم شہریوں تک کو قتل کرتے ہیں؟ ہمیں سینا اور لیبیا کے ساتھ اپنی مغربی سرحد پر تشدد کا سامنا ہے۔ بلکہ اس ملک کے اندر کچھ حصوں میں بھی۔ لیبیا میں ان ہتھیاروں اور جنگجووں کے بہاؤ کو روکنے کے لیے کوئی سکیورٹی نہیں ہے، جو مصر میں آتے ہیں اور ہماری قومی سلامتی کے لیے خطرہ بنتے ہیں۔ بجلی گھروں پر دھماکے کون کر رہا ہے؟ بسوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر بارود کون رکھ رہا ہے؟ سڑکوں پر عام شہریوں کو کون قتل کر رہا ہے؟
لیلے: تو یہ سب کون کر رہا ہے؟
السیسی: انتہا پسند۔
لیلے: آپ کا مطلب ہے اِخوان المسلمون جیسے انتہا پسند؟
السیسی: اخوان المسلمون انتہا پسندانہ نظریے کی مادر تنظیم ہے۔ وہ تمام دہشت گرد تنظیموں کے (سرپرست) ہیں۔ یہ انتہا پسندی کو ساری دنیا میں پھیلاتے ہیں۔
لیلے: کیا وہ داعش کے بھی گاڈ فادر ہیں؟
السیسی: سارے انتہا پسند ایک ہی مرکز سے نکلتے ہیں۔ یہ انتہا پسندانہ ذہنیت مذہبی بیانیے کے ذریعے پروان چڑھتی ہے، جسے تبدیل کیے جانے کی ضرورت ہے۔
لیلے: آپ نے اس موضوع پر یکم جنوری کو تقریر کی تھی۔
السیسی: وہ سب سچ تھا۔ مذہبی بیانیہ ایک مسئلہ ہے۔ اس کے مخصوص نظریات ہیں۔ ان نظریات کو جب لوگ اپناتے ہیں تو پھر وہ مذہب کے بارے میں الجھے ہوئے خیالات کو فروغ دیتے ہیں۔ لوگ ان غلط نظریات کو اپنانے کی وجہ سے ہی تشدد کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
لیلے: کیا مذہبی بیانیہ تبدیل ہونے سے لوگوں کو انتہا پسند بننے سے روکنے میں مدد ملے گی؟
السیسی: یہ مسئلے کے حل کا ایک حصہ ہے۔ مگر اس کے اور حصے بھی ہیں۔ جیسے غربت، کم علمی، جہالت کا خاتمہ، ثقافتی شعور کو فروغ دینا اور معیاری تعلیم کو یقینی بنانا۔
لیلے: کیا آپ روس سے ہتھیار خرید رہے ہیں؟
السیسی: مصری مسلح افواج میں اس وقت موجودہ فوجی ساز و سامان کا تقریباً ۵۰ فیصد حصہ روسی ہی ہے۔ ہمیں ضرورت ہے کہ امریکا اس بات کو اچھی طرح سمجھے کہ خطے میں ایک اسٹریٹجک خلا ہے۔ ایسے ممالک ہیں جو ٹوٹ پھوٹ اور سکیورٹی انہدام کا شکار ہیں۔ میں کس طرح اپنے ملک کی حفاظت کر سکتا ہوں؟
لیلے: تو آپ کیسے حفاظت کر سکتے ہیں؟
السیسی: اس کے لیے ضرورت ہے کہ ہر کوئی مصر کی اور زیادہ مدد کرے۔ ہمیں خطے میں بہت بڑے بڑے خطرات لاحق ہیں۔ کل ہی کی بات ہے لیبیا میں دہشت گردوں نے تیل کے کنوئوں میں کام کرنے والے آٹھ کارکنوں کو اغوا کیا اور انہیں ذبح کر دیا۔ اب امریکا کو کیا کرنا چاہیے؟ آپ بس دیکھ رہے ہیں۔
لیلے: تو آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ خطے میں امریکی قیادت کا خلا ہے؟
السیسی: میں نے یہ نہیں کہا۔
لیلے: مگر کیا آپ اس طرح سوچتے ہیں؟
السیسی: مصر کی ۹؍کروڑ آبادی ہے۔ اگر یہ ملک ناکام ہوتا ہے تو پورا خطہ انارکی کے بھنور میں پھنس جائے گا۔ یہ اس خطے میں موجود تمام ممالک کے لیے ایک سنگین خطرہ ہوگا، اسرائیل کے لیے بھی۔ اور یہ یورپ تک پھیل جائے گا۔
لیلے: ایران کی جانب سے خطرے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ کیا آپ اتفاق کرتے ہیں کہ ان کے پاس نیوکلیائی ہتھیار نہیں ہونا چاہیے؟
السیسی: ہمیں احساس ہے کہ صدر اوباما اس مسئلے کو حل کرنے کی خاطر سرگرمِ عمل ہیں۔ ہمیں انہیں وقت دینا چاہیے۔ لیکن اس دوران ہمیں اسرائیل کے خدشات کو بھی سمجھنا ہوگا۔
لیلے: فی الوقت مصر کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کیسے ہیں؟
السیسی: ہم اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کی اس دن سے پاسداری کر رہے ہیں، جس دن اس پر دستخط ہوئے تھے۔ ایک مثال جو دونوں اطراف کے درمیان بھروسے اور اعتماد کی سطح کو ظاہر کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ معاہدے کے تحت سینا کے وسطی اور مشرقی حصے میں مصری فوجوں کو داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ مشترکہ سرحد پر واقع علاقہ ہے۔ مگر اسرائیلیوں نے کہا ہے کہ ان علاقوں میں مصری فوجی اگر آجائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ امن معاہدے کے بعد اسرائیل کے ساتھ معاندانہ رویے اور بے اعتباری میں کمی آئی ہے۔ اگر اسرائیل اور فلسطین دو ریاستی حل پر پہنچ جائیں تو یہ دیگر عرب ریاستوں اور اسرائیل کے لیے بھی بہتر ہے۔
لیلے: آپ وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے ساتھ بہت زیادہ رابطے میں رہتے ہیں؟
السیسی: بہت زیادہ۔ میں ان کو صرف یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ (فلسطینیوں کے ساتھ) امن کا قیام ان کے اور اسرائیل کے لیے ایک تاریخی سودا ہوگا اور یہ کہ اس امن تک پہنچنے کے لیے ہم مدد کرنے کو تیار ہیں۔
لیلے: مصر میں بڑی تعداد میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ انہیں بھی جنہوں نے کبھی آپ کی حمایت کی۔ آپ یہاں ایک کھلا ماحول کیسے قائم کر سکتے ہیں؟
السیسی: ہم مکمل طور پر اجتماع کی آزادی کے حق کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن ان ممالک میں جو ہمارے جیسے حالات سے گزر رہے ہوں، سکیورٹی اور اظہارِ رائے کی آزادی کے درمیان ایک اہم توازن قائم رکھنا ہوتا ہے۔ مگر ہم وہ سب کر رہے ہیں جس سے یہ بات یقینی بنا سکیں کہ معصوم لوگ نہ پکڑے جائیں۔ صرف ایک ہفتہ پہلے ۱۲۰؍لوگ رہا کیے گئے ہیں۔ ہمارے ہاں احتجاج کا ایک قانون ہے۔ یہ قانون احتجاج کرنے سے نہیں روکتا۔ بلکہ انہیں قانون کے دائرے میں لاتا ہے۔
لیلے: یہ قانون کہتا ہے کہ مظاہرین پہلے وزارتِ داخلہ سے اجازت طلب کریں۔ یہ تو قطعاً اظہارِ رائے کی آزادی نہ ہوئی۔
السیسی: کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں، جس میں اجازت کی درخواست رد کی گئی ہو۔
لیلے: مگر مصر کے کچھ سرکردہ سیکولر سماجی کارکن بھی اب جیل میں ہیں، جو پہلے کبھی آپ کے حامی تھے۔ جیسا کہ احمد ماہر جو ۶؍اپریل یوتھ موومنٹ کے بانی تھے۔
السیسی: ہم سیکولر سماجی کارکنوں کے خلاف نہیں ہیں۔ نہ ہم احتجاج کرنے کے خلاف ہیں اور نہ ہی ہم نوجوان لوگوں کے باآوازِ بلند احتجاج کرنے کے مخالف ہیں۔ مگر لوگوں کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ قانون کے اس ضابطے کی خلاف ورزی نہ کریں۔
لیلے: امریکا میں لوگوں کو اس بات کی بہت زیادہ آزادی ہے کہ وہ جو چاہے کہیں۔
السیسی: یہاں ایک فرق آجاتا ہے، خاص طور پر جب چار سال کے مشکل حالات اور ماحول پر غالب ایک حد سے زیادہ انقلابی صورتِ حال کے بعد آپ قومی اداروں کو دوبارہ سے کھڑا کرنا چاہتے ہوں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ۹ کروڑ لوگوں کو روزانہ بنیادی ضرورتیں مہیا کرنے کے لیے اس ملک کو کتنے پیسوں کی ضرورت ہے؟ سبسڈیز کی صورت میں ۱۳؍کروڑ ڈالر۔ ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہم پیسہ کہاں سے لائیں؟ اِس ملک میں کون سرمایہ لگانے آئے گا، اگر یہ مستحکم نہ ہوا۔ ہمارے ہاں ۱۳؍فیصد کی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی شرحِ بیروزگاری ہے۔
لیلے: آپ کا خیال ہے کہ امریکا مصر کی ضرورتوں کو بالکل بھی نہیں سمجھتا؟
السیسی: ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے، آپ اس کی حقیقی تصویر کو نہیں جان سکتے۔ ہم ایک پسماندہ ملک ہیں۔ آپ مصر کو امریکا کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ آپ کے ملک میں جمہوریت نے دو سو سال سے زائد عرصے میں ترقی پائی ہے۔ ہمیں ابھی آگے بڑھنے کا موقع دیں۔ اگر ہم چیزوں کے بارے میں جلد بازی کریں گے تو ہمارے جیسے ممالک منہدم ہو جائیں گے۔
لیلے: اب آپ لفظ منہدم دو دفعہ استعمال کر چکے ہیں۔ کیا یہ کوئی ایسی بات ہے جو آپ کو پریشان کرتی ہے؟
السیسی: ہاں بالکل۔
لیلے: کوئی دوسرا اس کا حوالہ نہیں دیتا۔
السیسی: آپ جانتی ہیں کیوں؟ کیوں کہ انہیں السیسی پر بہت زیادہ بھروسا ہے۔ لیکن میں بھی صرف ایک انسان ہوں۔ میں سب کچھ نہیں کر سکتا۔ جب صومالیہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا تھا، کیا امریکا وہاں سے چلا نہیں گیا تھا؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ مصر ایک ناکام ریاست بنے اور پھر آپ ہاتھ جھاڑ کر چلتے بنیں۔
لیلے: کہا جاتا ہے کہ پولیس اس ملک میں ایک مسئلہ ہے اور میں نے سنا ہے کہ آپ بھی ان سے خوش نہیں ہیں۔
السیسی: یہ بات ٹھیک ہے۔ اب مصری پولیس انسانی حقوق کا ایک شعبہ قائم کر چکی ہے اور اسے یہ کام سونپا گیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی پاسداری یقینی بنائے۔
لیلے: مطلوبہ قانونی کارروائی کے بغیر جیل میں ہزاروں لوگ ہیں۔ کوئی مقدمے بھی نہیں چلے۔
السیسی: پولیس کے لوگوں کو قانون کے سامنے جوابدہ بنایا جاتا ہے۔ یہاں مطلوبہ قانونی کارروائی اور عدالت میں طلب کیے بغیر کسی کو حراست میں نہیں لیا جاتا۔
لیلے: کیا آپ اِخوان المسلمون کے دوبارہ سیاست میں حصہ لینے کی کوئی امید دیکھتے ہیں؟
السیسی: انہوں نے (مصریوں کی) زندگیوں کو ایک زندہ جہنم بنا دیا تھا۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ مصر جیسا ملک طالبان جیسا بن جائے گا جہاں اہرامِ مصر کو تباہ کیا جائے۔ (اخوان) انہیں گرانے کی خاطر فرعونی مقبروں کے اندر تک چلے گئے ہوتے۔
لیلے: مگر آپ سابق صدر محمد مرسی سے بہت زیادہ رابطے میں رہتے تھے۔
السیسی: میں نے انہیں مشورے دیے۔ مگر وہ ایک خاص ذہنیت تھی۔ کیا آپ کو یہ جاننے کے لیے ایک سال کافی نہیں تھا کہ یہ لوگ تخریب کارانہ نظریہ اپنا چکے ہیں۔
لیلے: مغرب والے سمجھتے ہیں کہ سیاسی اسلام کو سیاسی عمل کا حصہ بننے کا موقع نہیں ملا۔ اس لیے (اسلام پسند) تشدد کی طرف راغب ہوئے اور بالآخر اسی نے دہشت گردی کی راہ ہموار کی۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ ان کے نظریے کا تقاضا ہے کہ وہ طاقت حاصل کریں لیکن اسے کبھی چھوڑیں نا۔
لیلے: آپ کس کی بات کر رہے ہیں؟ حماس کی؟ یا اخوان المسلمون کی؟
السیسی: یہ سیاسی اسلام کی ایک عمومی وضاحت ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سب سے اوپر عہدوں پر ہونا اپنی ذہنیت کو لاگو کرنے کا ایک ذریعہ ہے، ایک وسیع تر اسلامی ریاست قائم کرنے کا ذریعہ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہی کے پاس حتمی سچائی ہے، سو ہر کسی کو انہیں سننا اور ان کی اطاعت کرنی چاہیے۔ اور اگر کوئی اختلاف کرے تو اسے پھر مر جانا چاہیے۔
لیلے: داعش نے لوگوں کے سر قلم کیے تو آپ کو اس پر حیرت ہوئی؟
السیسی: مجھے حیرانی نہیں ہوئی۔ کیونکہ میں ان لو گوں کو بہت قریب سے جانتا ہوں، جتنا اپنے ہاتھ کی پشت کو جانتا ہوں۔
لیلے: مرسی نے آپ کو وزیرِ دفاع بنایا۔
السیسی: قسمت۔
لیلے: انہوں نے آپ کو کیوں چُنا؟
السیسی: وہ جانتے تھے کہ میں ایک سچا مسلمان ہوں۔ تو انہوں نے سوچا کہ میں بھی اسی ذہنیت کا ہوں گا۔ مگر میں ایک حقیقی مسلمان بننے کی کوشش کر رہا ہوں، جو دوسروں کا احترام کرتا ہو اور لوگوں کے اس حق کا احترام کرتا ہو کہ وہ خود اپنے مذہبی رجحانات منتخب کر سکیں۔ بلکہ سب سے پہلے اگر چاہیں تو خدا پر ہی یقین نہ رکھیں۔
لیلے: کیا داعش کو شکست دی جا سکتی ہے؟
السیسی: بالکل! ان کی سوچ چیزوں کی فطری روش کے خلاف ہے۔
لیلے:کچھ عسکری ماہرین یہ کہتے ہیں کہ داعش کو شکست دینے کے لیے کچھ فوجیں یا خصوصی افواج زمین پر اتارنی پڑیں گی۔ صرف فضائی مہم کافی نہیں ہوگی۔ کیا خصوصی فوجی دستہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے؟
السیسی:عراقی فوجی زمین پر موجود ہیں۔ مگر ہاں، یہ بات تو طے ہے کہ امریکا کو اپنا مشن سرانجام دینے کے لیے زمینی فوج اتارنے کی ضرورت پڑے گی۔ یہ مشن کس طرح کامیاب ہوسکتا ہے، اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے۔
لیلے: کیا آپ صرف فضائی کارروائی کے ذریعے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں؟
السیسی:زمین پر فوجیں اتارنی پڑیں گی۔
لیلے: اس ہفتے آپ امید کر تے ہیں کہ زیادہ سرمایہ کاری کو اپنے ملک کی طرف راغب کر سکیں گے؟
السیسی: ہم اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مصر بیرونی سرمایہ کاری کے لیے باعثِ کشش ہو۔ اس مقصد کے لیے ہم داخلی استحکام حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم ایک قانونی پیکیج پر کام کر رہے ہیں تاکہ سرمایہ کاری کے لیے دوستانہ ماحول پیدا کر سکیں۔ مصر ایک منفی سے مستحکم کریڈٹ ریٹنگ کی طرف جا چکا ہے۔
لیلے: کیا آپ چاہیں گے کہ امریکا مزید کچھ کرے۔
السیسی: ہاں! امریکا ایک طاقتور ملک ہے۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ طاقت اپنے ساتھ ذمہ داری لے کر آتی ہے۔
لیلے: مگر وائٹ ہائوس انسانی حقوق کی صورتِ حال کے حوالے سے مثبت اشارے کا انتظار کر رہا ہے۔
السیسی: اسی مقصد کے تحت الجزیرہ کے صحافی کو یہاں سے رہا کیا گیا تھا۔ باقی دو صحافی (الجزیرہ کے) بھی رہا کیے گئے۔ انہیں ابھی بھی مقدمے کی کارروائی کا سامنا ہے مگر وہ زیرِ حراست نہیں ہیں۔ حکومت سے یہ تقاضا کرنا کہ وہ عدالتی معاملات میں دخل اندازی کرے، قابلِ قبول نہیں ہے۔ چاہے آپ اس عدالتی نظام سے کتنے ہی غیر مطمئن ہوں۔
لیلے: آپ کو کیا چیز پریشان کرتی ہے؟
السیسی: یہ کہ میرا ملک ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہو جائے۔ بس یہی ایک چیز ہے۔ سچ کہوں، میں ایک لمحے کے لیے بھی اپنی زندگی کے بارے میں نہیں سوچتا۔
لیلے:آپ کافی مقبول ہیں۔
السیسی:کیونکہ لوگ جانتے ہیں کہ میں ان سے واقعی محبت کرتا ہوں اور میں ایک مخلص شخص ہوں۔
(مترجم: طاہرہ فردوس)
“Egyptian President Abdel Fatah al-Sissi, who talks to Netanyahu ‘a lot,’ says his country is in danger of collapse”. (“Washington Post”. March 12, 2015)
Leave a Reply