
بھارت کی عدالتِ عظمیٰ نے اجودھیا کی بابری مسجد سے متعلق مقدمے کا حتمی فیصلہ سنادیا ہے، جس کے تحت ۷۷ء۲؍ایکڑ زمین رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کے لیے ہندو ٹرسٹ کو دینے کی بات کہی گئی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کو اجودھیا ہی میں کسی نمایاں مقام پر پانچ ایکڑ زمین دینے کا بھی حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ مسجد تعمیر کرسکیں۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ ہندوؤں کے حق میں دیا ہے تاہم یہ بات بھی تسلیم کی ہے کہ بابری مسجد ڈھا کر مسلمانوں سے زیادتی کی گئی۔ یہ انہدام سراسر غیر قانونی نوعیت کا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر ملا جلا ردِعمل ظاہر کیا گیا ہے۔ نریندر مودی نے قوم سے خطاب میں فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے تمام مذاہب کے لوگوں سے کہا کہ وہ تحمل سے کام لیں اور سلامتی کا ماحول بنائے رکھیں۔ بہت سے مسلم رہنماؤں نے فیصلے کو جانب داری کا مظہر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں میں عدمِ تحفظ کا احساس مزید زور پکڑے گا اور وہ خود کو معاشرے کے مرکزی دھارے سے مزید الگ تھلگ محسوس کریں گے۔ آل انڈیا انجمن اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے کہا کہ مسلمانوں کو پانچ ایکڑ زمین کی ضرورت نہیں۔ زمین وہ خود بھی خرید سکتے ہیں۔ سوال تو بابری مسجد کی قانونی حیثیت اور شناخت کا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مسلمان خود کو بھارتی معاشرے میں مزید اجنبی محسوس کریں گے۔
بھارت کی سپریم کورٹ نے اجودھیا کی بابری مسجد کے مقام سے متعلق کیس میں ہندوؤں کا دعویٰ درست مانتے ہوئے اُن کے حق میں فیصلہ سنایا ہے۔ اس فیصلے سے انتہا پسند ہندوؤں کو بابری مسجد کی زمین پر رام جنم بھومی مندر تعمیر کرنے کے لیے مکمل گرین سگنل مل گیا ہے۔ اس فیصلے سے ملک میں مذہبی بنیاد پر تقسیم بڑھنے اور کشیدگی میں اضافے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ اس عدالتی فیصلے سے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے ملک کو نئی شکل دینے کے عزم کو نئی زندگی مل گئی ہے۔ مودی اور اُن کی ٹیم نے بھارت کو سیکیولر بنیاد سے ہٹاکر خالص ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو اپنے ایجنڈے کے مطابق ملک کو حقیقی ہندو ریاست میں بدلنے کی مزید تحریک ملے گی۔ ۶ دسمبر ۱۹۹۲ء کو بابری مسجد کے انہدام نے ایک طرف تو انتہا پسند ہندوؤں کو بھرپور فتح کا جشن منانے کا موقع فراہم کیا تھا اور دوسری طرف ملک بھر میں شدید نوعیت کی مذہبی کشیدگی پھیلادی تھی، جس کے نتیجے میں رونما ہونے والے فسادات نے مجموعی طور پر ڈھائی ہزار سے زائد افراد کی جان لے لی تھی۔
ہندوؤں نے انتخابی مہم کے دوران بابری مسجد کیس کو کئی بار کیش کرایا ہے۔ ملک بھر کے جذباتی ہندوؤں نے انتہا پسند ہندوؤں کے ایجنڈے سے متاثر ہوکر ملک کو حقیقی ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کے نعرے کی بنیاد پر بی جے پی کو کئی بار اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا ہے۔ انتہا پسند اور بنیاد پرست ہندوؤں نے کم و بیش ایک صدی کے دوران یہ راگ پوری طاقت سے الاپا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں اور انگریزوں کی حکومت صرف اور صرف جبر پر مشتمل تھی اور یہ کہ ان دونوں بیرونی قوتوں نے مقامی ہندوؤں کو زیرِ نگیں رکھ کر یہاں کی دولت لوٹی۔ یہ بیانیہ اب تک انتہائی کامیاب رہا ہے۔ ہندوتوا کی قوتیں اب ملک کی تاریخ نئے سِرے سے مرتب کرنا چاہتی ہیں، جس میں مسلمانوں اور انگریزوں کا ذکر ظالموں اور جابروں کے طور پر ہوگا۔ انتہا پسند ہندو متعدد مساجد کے بارے میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مندر ڈھاکر بنائی گئی تھیں۔ اس دعوے کا کوئی بھی ٹھوس ثبوت اب تک پیش نہیں کیا جاسکا ہے۔
ہندوؤں کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ بابری مسجد جس جگہ تعمیر کی گئی وہاں پہلے ایک مندر تھا، اور یہ کہ اجودھیا ہندوؤں کے دیوتا اور وشنو کے اوتار رام چند جی کی جائے پیدائش ہے۔ بابری مسجد کا کیس ۱۹۵۰ء کی دہائی سے چل رہا تھا۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ قرار دیا تھا کہ متنازع زمین نرموہی اکھاڑے، رام للّا ٹرسٹ اور اتر پردیش کے سنی وقف بورڈ میں برابر تقسیم کردی جائے۔
بابری مسجد کیس کے حتمی فیصلے سے بھارت کے مسلمان شدید خوف محسوس کر رہے ہیں۔ اُنہیں یہ ڈر ہے کہ وہ دوسرے درجے کے شہری ہوکر رہ جائیں گے۔ گائے کے تحفظ کے نام پر متعدد ریاستوں میں انتہا پسند ہندوؤں کے نگراں گروپ سرگرم عمل ہیں اور ہجوم کے ہاتھوں نہتے مسلمانوں پر تشدد ہی کے نہیں بلکہ ان کے قتل کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں مگر حکومت کی طرف سے اس قبیح فعل کی خاطر خواہ مذمت اب تک نہیں کی گئی۔ عدالتی فیصلے بھی اس حوالے سے نمایاں نہیں رہے۔ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعدد ارکان مذہبی بنیاد پر تشدد کے واقعات میں ملوث رہے ہیں مگر سزا کا سنایا جانا تو ایک طرف رہا، اُنہیں تو گرفتار تک نہیں کیا گیا۔
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے ملک بھر میں امن اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کی اپیل کی۔ دوسری طرف انتہا پسند ہندوؤں نے اپنی فتح کا جشن منایا۔ اجودھیا میں ماحول پُرامن رہا تاہم فضا میں کشیدگی محسوس کی جاسکتی تھی۔
انتہا پسند ہندوؤں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مسلم عہدِ حکومت میں تعمیر کی جانے والی ہر عمارت کو ظلم اور جبر کی یادگار قرار دینے پر تُلے ہوئے ہیں۔ تاج محل اگرچہ دنیا بھر میں بھارت کی ایک بڑی اور واضح شناخت ہے مگر انتہا پسند ہندو اِسے بھی مسلم عہدِ حکومت کی نشانیوں میں گنتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب انگریزوں کے عہدِ حکومت کی تمام نشانیاں مٹائی جاچکی ہیں تو مسلم عہدِ حکومت کی نشانیوں کو مٹانے میں کیا ہرج ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلم دور کی عمارتیں ظلم و جبر کی نشانی کے طور پر زندہ ہیں۔ اس حوالے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی رہنما رام مادھو غیر معمولی بڑبولے پن کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تین سو سالہ جابرانہ مسلم عہدِ حکومت کا ہر نشان مٹادیا جانا چاہیے۔
بابری مسجد کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے وقت اجودھیا کے مسلمانوں نے گھروں میں، خاموش رہنے کو ترجیح دی۔ یہ شہر غیر معمولی کشیدگی کا مرکز رہا ہے۔ شہر کے مسلمان چاہتے ہیں کہ اب کشیدگی ختم ہو اور زندگی واقعی معمول پر آجائے۔ اجودھیا کے اقبال انصاری نے بھی فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اب کشیدہ ماحول ختم ہوگا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اب ہمیں ایک دوسرے کو مذہب کی عینک سے دیکھنے کا سلسلہ ختم کرنا چاہیے۔ اقبال انصاری کے والد نے بھی بابری مسجد کی بحالی کے لیے عدالت میں پٹیشن دائر کی تھی۔
مودی کے دورِ حکومت میں بھارت کا جھکاؤ واضح طور پر ہندو ازم کی طرف رہا ہے۔ مودی سرکار ملک کو عالمی برادری میں نمایاں مقام دلانے کے لیے بھی فعال رہی ہے۔ نئی دہلی میں حکام اس بات سے شدید پریشان رہے ہیں کہ بیرونی میڈیا نے بھارت میں مذہبی بنیاد پر کشیدگی سے متعلق خبریں نمایاں طور پر شائع کی ہیں۔ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اُسے دو حصوں میں بانٹ کر مرکز کے زیرانتظام علاقے میں تبدیل کرنے کے فیصلے سے پیدا ہونے والی صورتِ حال سے متعلق خبروں نے بھی بھارت کو مزید الجھن سے دوچار کیا ہے۔ بیرونی میڈیا نے کشمیر کی صورتِ حال کو نمایاں طور پر پیش کرکے مودی سرکار کے لیے شرم کا سامان کیا ہے۔
بابری مسجد کیس کے حتمی فیصلے نے بھارت کے مسلمانوں کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ ایک طرف وہ مسلمان ہیں، جو کہتے ہیں کہ اس فیصلے کو دل و جان سے قبول کرکے مذہبی ہم آہنگی اور امن کے لیے کام کرنا چاہیے۔ دوسری طرف وہ مسلمان ہیں، جو کہتے ہیں کہ بابری مسجد کی بحالی بھارت میں مسلمانوں کی بحالی سمجھی جائے گی۔ اور یہ کہ اگر اس فیصلے پر خاموشی اختیار کرلی گئی تو انتہا پسند ہندو مزید مساجد کو شہید کرکے مندر بنانے کی تحریک چلاتے رہیں گے۔
ایسا نہیں ہے کہ بھارت میں سب کچھ اچھا ہی چل رہا ہے۔ معیشتی خرابیاں بھی موجود ہیں۔ بابری مسجد کیس کا فیصلہ آتے ہی مودی سرکار کی اہم شخصیات نے صحافیوں کو بلایا اور یقین دلایا کہ مزید مساجد نہیں ڈھائی جائیں گی۔ بات کچھ یوں ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی ملک کو ۵ ہزار ارب ڈالر کے ٹرن اوور والی معیشت میں تبدیل کرنے کے عزم کا اظہار کرچکے ہیں، مگر معیشت کی رفتار بڑھ ہی نہیں رہی۔ شرحِ نمو بھی نمایاں حد تک کم رہی ہے۔ اس وقت بھارت میں بے روزگاری ۴۵ سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔
کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے ساؤتھ ایشیا پروگرام کے میلان ویشنو کہتے ہیں ’’بابری مسجد کیس کے حتمی فیصلے سے بھارت میں مذہبی بنیاد پر کشیدگی پھیلنے کا خدشہ ہے۔ ویسے بھی بھارت میں مذہبی کشیدگی پھیلانا چنداں دشوار نہیں۔ طویل المیعاد بنیاد پر یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ اقلیتیں دوسرے درجے کی شہری بن کر رہ جائیں گی‘‘۔
بھارتیہ جنتا پارٹی میں بہت سے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں، مسیحیوں اور دیگر اقلیتوں کو ایک لحاظ سے خصوصی حیثیت دی گئی ہے اور وہ یہ کہ مندر تو حکومت کے کنٹرول میں ہیں جبکہ مساجد اور گرجا گھروں کا نظم و نسق خود مسلمانوں اور مسیحیوں کے ہاتھ میں ہے۔
اجودھیا کے ۷۵ سالہ حاجی محبوب احمد کو تین دہائیوں قبل بابری مسجد کے گرائے جانے کے وقت اجودھیا چھوڑ کر جانا پڑا تھا۔ وہ کہتے ہیں ’’مسلمان سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول کرلیں گے مگر ڈر اس بات کا ہے کہ انتہا پسندوں کے حوصلے مزید بلند ہوں گے اور وہ دیگر بہت سی مساجد کو گرانے کے لیے بھی میدان میں آجائیں گے۔ مسلمانوں کے خلاف تشدد محض بڑھ نہیں جائے گا بلکہ باضابطہ، قانونی نوعیت کی شکل اختیار کرلے گا‘‘۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Court backs Hindus on Ayodhya, handing Modi victory in his bid to remake India”.(“New York Times”. Nov. 8, 2019)
Leave a Reply