
کورونا وائرس کے حوالے سے پائی جانے والی صورتِ حال میں امریکا اور چین کے درمیان زور آزمائی کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسے میں یہ حقیقت کسی طور نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ عالمی ادارۂ صحت بیچ میں پھنس گیا ہے۔ چین نے اقوام متحدہ میں اپنی پوزیشن غیر معمولی حد تک مستحکم کرلی ہے۔ اِس کے نتائج بھارت سمیت بہت سے ممالک کو برداشت کرنا ہوں گے۔
امریکا اور چین کے درمیان کورونا وائرس کے حوالے سے جو جنگ چھڑی ہوئی ہے، اُس کے قلب میں عالمی ادارۂ صحت ہے۔ اس عالمگیر وبا کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری اصلاً عالمی ادارۂ صحت کی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ عالمی ادارۂ صحت کی قیادت اور بالخصوص اس کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسیس اور اُن کے رفقا پر کورونا وائرس کی روک تھام کے حوالے سے خاطر خواہ اقدامات کرنے کے بجائے چین کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کا الزام ہے۔
اس الزام کی بنیاد یہ حقیقت ہے کہ جب ووہان (چین) میں کورونا وائرس کی وبا پھیلی تب چینی قیادت کی طرف سے کیے جانے والے اس دعوے کی عالمی ادارۂ صحت نے تائید کی کہ یہ مرض انسان کو انسان سے نہیں لگتا۔ ساتھ ہی ساتھ مختلف اقوام کی طرف سے چین کے سفر اور چین سے آنے والوں کو قبول کرنے سے انکار سے متعلق پالیسی کی بھی مخالفت کی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ عالمی ادارۂ صحت نے کورونا وائرس کو عالمگیر وبا قرار دینے اور اس حوالے سے ہنگامی حالت نافذ کرنے میں بھی تاخیر سے کام لیا۔
اس الزام میں حقیقت کس حد تک ہے، اس سے قطعِ نظر یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ چین نے عالمی اداروں میں اپنی پوزیشن غیر معمولی حد تک مستحکم کرلی ہے۔ اب ایک ایسی دنیا ابھر رہی ہے جس میں تمام معاملات چین کے ہاتھ میں ہیں۔ بہت کچھ ہے جو چین کرسکتا ہے اور کر رہا ہے۔ امریکا اور یورپ تمام معاملات میں حتمی نوعیت کے عالمگیر فیصلے نہیں کرسکتے۔ چین کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
کسی بھی عالمگیر نوعیت کے بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی تیار کی جانی چاہیے اور اقدامات بھی مشترکہ یا اجتماعی نوعیت کے ہونے چاہییں۔ اس نکتے سے اتفاق سبھی کرتے ہیں مگر عملی سطح پر ایسا کچھ آسانی سے نہیں ہو پاتا۔ ماحول کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے بھی یہی معاملہ رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سمیت پوری دنیا نے اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے کبھی انکار نہیں کیا کہ ماحول کو پہنچنے والا نقصان پوری انسانیت کے لیے انتہائی خطرناک ہے، مگر جب اقدامات کی بات آتی ہے تو سب اپنے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ یوں خاطر خواہ اقدامات ممکن نہیں ہو پاتے۔ اس معاملے میں لاگت کا معاملہ بھی مسائل کھڑے کرتا رہا ہے۔ بڑی طاقتوں کے درمیان رسّہ کشی کی کیفیت لاگت کے معاملے کو پریشان کن شکل دیتی رہی ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان کشیدگی پائی جاتی رہی ہے۔ کورونا وائرس نے معاملات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ امریکا دن رات یہ راگ الاپ رہا ہے کہ چین نے کورونا وائرس کی شکل میں دنیا کو ایک بڑے عفریت کے حوالے کردیا ہے، جبکہ چین یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے کہ یہ وائرس اُس کی حدود سے باہر نہیں آیا۔
عالمی ادارۂ صحت اور چین کے تعلقات کی نوعیت میں تبدیلی ۲۰۰۳ء میں سارس بحران کے بعد آئی۔ سارس کی وبا پھیلنے پر عالمی ادارۂ صحت نے چین کے حوالے سے ہیلتھ ایڈوائزری جاری کی۔ تب چین نے عالمی ادارۂ صحت کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کیا۔ چین کی کمیونسٹ قیادت نے کسی بھی بحرانی کیفیت کے حوالے سے عالمی ادارۂ صحت کے ساتھ مل کر کام کرنا اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کو اعتماد میں لینا شروع کیا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چین نے عالمی ادارۂ صحت کو غیر معمولی معاونت فراہم کی ہے۔ چند ایک کی رائے ہے کہ ۲۰۱۷ء میں عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گریسیس کے انتخاب میں چین کی حمایت نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ چین نے عالمی اداروں میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے پر غیر معمولی توجہ دینے کا جو عمل تین عشرے قبل شروع کیا تھا، وہ اب نتائج پیدا کر ر ہا ہے۔ چین ۱۹۷۰ء کے عشرے میں یو این سسٹم میں داخل ہوا۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں اُس نے اپنے آپ کو عالمی حالات کے مطابق ڈھالنے کا عمل شروع کیا اور اِس کے بعد تین عشروں کے دوران وہ اپنے آپ کو غیر معمولی حد تک مستحکم کرنے کے لیے کوشاں رہا ہے۔ یہ عمل اب چین کو ایسی حیثیت کا حامل بناچکا ہے جو امریکا، یورپ اور اُن کے ہم نواؤں کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
سرد جنگ کے خاتمے پر امریکا واحد سپر پاور کے طور پر ابھرا تھا۔ یورپ اس کا ہم نوا تھا۔ کوئی اور ملک یا خطہ اُس کی بالا دستی کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ اب معاملات بہت تبدیل ہوچکے ہیں۔ کل تک سب کچھ امریکا کی مرضی سے ہو رہا تھا اور یک طرفہ طور پر ہو رہا تھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ بیشتر عالمی معاملات میں چین کو بھی اعتماد میں لینا پڑتا ہے۔ ’’یونی لیٹرل ازم‘‘ کی جگہ ’’ملٹی لیٹرل ازم‘‘ نے لے لی ہے یعنی دنیا یک قطبی نہیں رہی، بلکہ کثیر قطبی ہوتی جارہی ہے۔
چین کی طاقت میں غیر معمولی اضافے سے سبھی پریشان ہیں۔ مغرب اور بھارت دونوں کے لیے یہ بدلی ہوئی صورتِ حال تشویش کا باعث ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو امید ہے کہ چین احساسِ ذمہ داری کے حامل اسٹیک ہولڈر کا کردار ادا کرے گا، یعنی دنیا کو چلانے کے لیے امریکا اور یورپ کے طے کردہ اصولوں اور نظام سے ہم آہنگ رہتے ہوئے کام کرتا رہے گا۔ چین بھی چاہتا ہے کہ اپنی مرضی کے اصولوں کو دنیا کے سامنے پیش کرے اور دنیا کو اُن اصولوں کے مطابق چلانے کی کوشش کرے۔ چین کی اس خواہش سے اگر کسی کو حیرت ہوگی تو صرف اُنہیں جو واقعی بھولے بادشاہ ہیں! ۱۹۹۰ء کے عشرے میں بھارت نے یہ محسوس کیا کہ عالمی معاملات میں امریکا کی بالا دستی انتہائی خطرناک ہے۔ اُس نے چین کے ساتھ مل کر کثیر قطبی دنیا یقینی بنانے کی راہ پر سفر شروع کیا۔ بھارتی قیادت نے سوچا تھا کہ بہت سے اختلافات کے باوجود چین کے ساتھ مل کر کام کرنا ممکن ہوگا۔ اب معاملہ پھر بدل گیا ہے۔ مغرب اور بھارت کو یو این سسٹم میں بہت مختلف ریسپانس دینا پڑ رہا ہے۔ چین چاہتا ہے کہ امریکا کو ایک طرف ہٹاکر اقوام متحدہ کے نظام میں کلیدی حیثیت حاصل کرے۔ امریکا اپنی بالا دستی برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گزشتہ ماہ امریکا نے اقوام متحدہ کے ایک کم معروف ادارے ورلڈ انٹیلیکچیوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کی قیادت یقینی بنانے کے لیے چینی امیدوارکے خلاف کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔
بھارتی قیادت نے بہت جلد یہ اندازہ لگالیا کہ امریکا کی بالا دستی کے مقابلے میں چین کی بالا دستی کہیں زیادہ مسائل پیدا کرے گی۔ چین ہی تو ہے جو نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں بھارت کی رکنیت کے خلاف دیوار بن کر کھڑا ہے۔ پاکستان کو ہر فورم پر بھارت کے خلاف بھرپور حمایت سے چین ہی نواز رہا ہے۔ سلامتی کونسل میں کشمیر کا مسئلہ اگر کوئی اٹھاتا ہے تو وہ چین ہے۔ اقوام متحدہ میں اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے بھارت اب امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کی طرف مڑ رہا ہے۔
چین نے یو این سسٹم میں اپنی پوزیشن مضبوط تر کرنے کے لیے جو کچھ کیا ہے، اُس میں اگر بھارت کے لیے کوئی سبق ہے تو بس یہ کہ ملٹی لیٹرل ازم بجائے خود کوئی مقصد نہیں بلکہ اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے اپنایا جانے والا ایک اہم حربہ ہے۔ چین نے یو این سسٹم کو اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے عمدگی سے استعمال کیا۔ تین ساڑھے تین عشروں کے دوران چینی قیادت نے یو این سسٹم کے تمام اداروں کو اپنے حق میں اچھی طرح استعمال کرنے کے لیے اب اتنی طاقت حاصل کرلی ہے کہ وہ عالمی نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ اُصول وہی اپنائے جائیں جو وہ طے کرے۔
چین نے صحتِ عامہ کے حوالے سے غیر معمولی محنت کی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے ساتھ مل کر اس نے جو ہیلتھ پروگرام ترتیب دیے ہیں، وہ ملک میں ہیلتھ ٹیکنالوجی کے حوالے سے مضبوط بنیاد یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ’’گلوبل سلک روڈ فار ہیلتھ‘‘ سے متعلق اُس کی دیرینہ خواہش کو عملی شکل دینے کی بھرپور کوشش ہے۔
بھارت کے لیے اب لازم ہوگیا ہے کہ اقوام متحدہ میں اپنی پوزیشن مضبوط تر بنانے کے حوالے سے زیادہ سنجیدہ ہو۔ کورونا وائرس ایک اچھا موقع ہے کہ بھارت صحتِ عامہ کے شعبے میں اپنی مہارت کا دائرہ وسیع کرنے پر متوجہ ہو۔ اُسے سیاسی اعتبار سے مضبوط ہونے کے لیے ایسے اتحادی تلاش کرنا ہوں گے، جو اُسے اندرونی سیاست کے توازن کے ساتھ ساتھ بیرونی ساکھ کے حوالے سے بھی کچھ وزن عطا کریں۔ صحت سے متعلق سفارت کاری کا نیا اسکرپٹ لکھنے کا بہترین وقت یہی ہے۔
(ترجمہ محمد ابراہیم خان)
“COVID-19 has sharpened US-China conflict. WHO is caught in the crossfire”. (“indianexpress.com”. March 24, 2020 )
Leave a Reply