
مونچھوں کی طرح داڑھی کو بھی عام طور پر مردانگی کی ایک تابندہ علامت کے طور پر لیا جاتا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اپنی داڑھی کو منفرد سیاسی شناخت کے طور پر بروئے کار لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کورونا وائرس کی نئی لہر نے بھارت کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ کورونا کی نئی لہر کے دوران بھارت کا جو حال ہوا ہے اُسے دیکھ کر ایک دنیا حیران ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یومیہ ساڑھے تین چار لاکھ نئے کیسز دیکھ کر دنیا بھر میں لوگ خوفزدہ ہوگئے ہیں۔ بھارت آبادی کے اعتبار سے چین کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے۔ اتنے بڑے ملک میں بہتر طرزِ حکمرانی اور اچھی حکومتی کارکردگی یقینی بنانا بہت مشکل ہے۔ کورونا کی وبا کے ہاتھوں بھارت کو جس صورتِ حال سے دوچار ہونا پڑا ہے اُسے دیکھ کر زیادہ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ بھارت نے کچھ مدت قبل کورونا کی وبا پر قابو پانے کے حوالے سے قابلِ رشک، بلکہ مثالی نوعیت کی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔
بھارت میں صحتِ عامہ کا نظام اگر کمزور دکھائی دیا ہے اور بعض مقامات پر کورونا کی وبا کو کنٹرول کرنے میں مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ کورونا کی وبا سے نمٹنے کے معاملے میں بعض ترقی یافتہ ممالک نے بھی خاصی کمزوری دکھائی ہے۔ دنیا بھر میں بھارتی وزیر اعظم کے حلیے میں تبدیلی کو حیرت کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔ انہوں نے خاصی لمبی داڑھی رکھی ہے۔ گزشتہ برس جب سے کورونا کی وبا نے بھارت میں جڑ پکڑنا شروع کیا تھا تب سے اب تک نریندر مودی اپنی داڑھی کو پروان چڑھانے میں مصروف رہے ہیں۔ اب اُن کی داڑھی بہت حد تک درجۂ کمال کو پہنچ چکی ہے۔ نریندر مودی کی داڑھی نے بھارت میں ایک نئی گھریلو صنعت کو جنم دیا ہے، یہ گھریلو صنعت ہے نریندر مودی کی داڑھی کے بارے میں سوچنا، اندازے لگانا کہ وہ اس کے ذریعے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں!
نریندر مودی کی داڑھی پر اُن کے سیاسی مخالفین نے اچھی خاصی تنقید کی ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی کہتی ہیں، ’’مودی جی کی داڑھی اور بھارتی معیشت میں بالکل اُلٹا تعلق پایا جاتا ہے یعنی یہ کہ داڑھی بڑھتی جارہی ہے اور معیشت گھٹتی جارہی ہے۔ معیشت کے تمام ہی شعبے کمزوری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ صنعتی شعبے کا حال سب سے بُرا ہے مگر نریندر مودی کی داڑھی ہے کہ مسلسل بڑھتی رہی ہے‘‘۔
دنیا بھر میں داڑھی اور بالخصوص لمبی داڑھی کو مردانہ وجاہت، طاقت اور اولوالعزمی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ نریندر مودی نے خود کو بھارت کے اسٹرانگ مین، سپرمین اور نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ سیاست میں آنے کے بعد سے اب تک وہ اپنے حامیوں کو یہی باور کرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ اب جبکہ وہ آچکے ہیں، کچھ بھی ایسا ویسا باقی نہیں رہے گا، تمام مسائل حل ہوجائیں گے اور ملک کو افلاس اور تنزل سے نجات مل جائے گی۔
مودی کی داڑھی دیکھ کر لوگ قیاس کے گھوڑے دوڑاتے رہتے ہیں۔ سیاسی مخالفین نے نریندر مودی کی داڑھی کے حوالے سے پُرلطف جملے گھڑنے اور پھیلانے میں تساہل کا مظاہرہ کیا ہے نہ تاخیر کا۔ کوئی کہتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران چونکہ ملک بھر میں حجاموں کی دکانیں بند تھیں اس لیے نریندر مودی کو کسی حجام کی خدمت میسر نہ ہوسکی۔ کسی نے یہ کہتے ہوئے مودی جی کا تمسخر اڑایا ہے کہ بھارتی وزیراعظم کو چونکہ ہر وقت قوم کا غم ستاتا رہتا ہے اور وہ بہبودِ عامہ کے کاموں میں بہت مصروف رہتے ہیں اِس لیے انہیں حجامت بنوانے کا وقت ہی نہیں مل پایا ہے۔
کوئی کچھ بھی کہے، نریندر مودی نے داڑھی بڑھاکر اپنی سیاسی شناخت کو ایک نئی سمت، نیا چہرہ دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ بھارتی آئین سیکولر ہے۔ مودی جی یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ سیکولر ازم پر یقین نہیں رکھتے اور یہ کہ ہندو ازم کی ایک علامت کے طور پر انہوں نے داڑھی رکھ کر خود کو کٹّر ہندو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت میں سادھو، سنیاسی لمبی داڑھی رکھتے ہیں۔ لمبی داڑھی گہری مذہبیت کی ایک تابندہ علامت سمجھی جاتی ہے۔ مودی نے داڑھی کے ذریعے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ غیر معمولی حد تک مذہبی ہیں اور ہندو ازم کی جڑیں مضبوط کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یوں انہوں نے عام ہندو کا دل جیتنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اپنے ووٹ بینک کو مضبوط تر کرنے کی طرف ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔
معاملہ صرف یہاں تک آکر رک نہیں جاتا۔ مودی جی نے یہ تاثر پروان چڑھانے کی بھی بھرپور کوشش کی ہے کہ وہ ایک بڑے مُدَبّر ہیں اور قوم کا درد اُن کے دل میں بہت زیادہ ہے۔ وہ خود کو مفکر حکمران کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو قوم کے تمام مسائل کا علم اور درد رکھتا ہے۔ خود کو سادھو کے سے انداز میں پیش کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ عام ہندو کو یقین دلایا جائے کہ اب اُن کے لیے ایک نجات دہندہ یا مُصلح بھیجا جاچکا ہے لہٰذا گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ بیرونِ ملک مودی جی کے ایجنڈے کو حیرت کے ساتھ دیکھا جاتا رہا ہے مگر اب شاید زیادہ ابہام باقی نہ رہے۔
نریندر مودی اور برتری پسندی
۲۰۱۴ء میں مرکز میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے اب تک نریندر مودی نے قدم قدم پر یہ بھرپور تاثر دیا ہے کہ وہ برتری پسند انسان ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اُن کے دورِ حکومت میں بھارت کی اقلیتوں کے لیے صرف مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ان کی شکایت سُننے والا کوئی نہیں۔ اُن کے دیرینہ مسائل حل کرنے کی طرف متوجہ ہونے والا کوئی نہیں۔ مودی اور اُن کی ٹیم انتہا پسندی پر یقین رکھتی ہے جس میں معاشرے کے اقلیتی طبقات کے پنپنے کی زیادہ گنجائش نہیں۔ سنگھ پریوار کے لوگ یعنی انتہا پسند ہندو چاہتے ہیں کہ ملک کی سیکولر شناخت ختم ہو اور اِسے ہندو ریاست کا درجہ دے دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارتی معاشرے میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے واحد راستہ یہ چھوڑا جائے کہ جو کچھ بھی ہندو اکثریت کرے اُسے بلا چُوں چرا قبول کیا جائے۔ بھارت ہزاروں سال سے مختلف نسلوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کا ملک رہا ہے اور یہ سب مل کر رہتے آئے ہیں، مگر مودی اور اُن کے رفقائے کار اس حقیقت کے خلاف جاکر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بھارت صرف ہندوؤں کا ہے۔ ہزاروں سال سے ساتھ رہنے والوں نے جمہوریت اور اظہارِ رائے کی آزادی کو بھی کُھلے دل سے قبول کیا۔ ۱۹۴۷ء میں انگریزوں سے آزادی ملنے پر بھی بھارت میں جمہوریت ہی پروان چڑھی اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کا کلچر بھی مقبول رہا مگر اب مودی اور اُن کی ٹیم نے مل کر ملک کو انتہا پسندی اور تنگ نظری کی طرف دھکیل دیا ہے۔
ہندو ازم میں شِرک نمایاں حقیقت ہے۔ بیشتر ہندو ۳۵ کروڑ دیوی دیوتاؤں کا وجود تسلیم کرتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت میں پنپنے والے دیگر مذاہب بہت حد تک وحدانیت کی بات کرتے ہیں۔ انتہا پسند ہندوؤں نے ہندو ازم کو ایک ایسے مذہب کے روپ میں پیش کیا ہے، جس میں دوسروں کو قبول کرنے کی گنجائش برائے نام ہے۔ اس روش پر گامزن ہونے سے بھارتی معاشرہ انتشار کا شکار ہو رہا ہے۔ مودی ہندو ازم کی جن اقدار کو مانتے ہیں وہ اُس سیکولر ازم اور رواداری کے منافی ہیں جن کی ضمانت بھارت کے آئین میں دی گئی ہے۔
ہندو انتہا پسندوں نے اقتدار میں آنے کے بعد اقلیتوں سے متعلق جو پالیسیاں تشکیل دی ہیں اُن سے بھارت کو اچھا خاصا نقصان پہنچ چکا ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران مودی کی انتہا پسند ہندو حکومت نے جو کچھ کیا ہے اُس نے بھی اچھی خاصی خرابیاں پیدا کی ہیں۔ گزشتہ برس کورونا کی وبا کی پہلی لہر کے دوران بھارت بھر میں مسلمانوں کو اس وبا کے پھیلاؤ کے حوالے سے مطعون کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ مودی نے کمبھ کے میلے کے انعقاد کی اجازت دی اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے جلسوں پر بھی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ اس کے نتیجے میں بہت بڑے پیمانے پر یہ وبا پھیلی اور اب حالت یہ ہے کہ یومیہ ساڑھے تین سے چار لاکھ بھارتی باشندے کورونا وائرس کے گڑھے میں گر رہے ہیں۔ اتر پردیش کے علاقے ہردوار میں کمبھ میلے کے سلسلے میں یکم سے ۱۷؍اپریل تک کم و بیش ۴۸ لاکھ افراد جمع ہوئے۔
بہر کیف، مودی کی طرف سے دیا جانے والا یہ تاثر کسی سے ہضم نہیں ہو پارہا کہ وہ حقیقی معنوں میں ایک ہندو شخصیت اور نجات دہندہ ہیں۔ مودی جی داڑھی منڈوائیں نہ منڈوائیں، اس تاثر کو ضرور منڈوائیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“COVID and Mr. Modi’s Beard”. (“theglobalist.com”. April 27, 2021)
Leave a Reply