
چین کی بھاری سرمایہ کاری سے پاکستان کو ڈرایا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ چین کے زیر اثر پاکستان اپنی رہی سہی سفارتی، معاشی اور اسٹریٹجک حیثیت سے بھی محروم ہو جائے گا۔ کیا واقعی ایسا ہوگا؟ کیا واقعی چین پاکستان راہداری منصوبے سے پاکستان کو وہ سب کچھ نہیں مل سکے گا جس کی توقع بجا طور پر کی جارہی ہے؟ زیر نظر مضمون میں ایسے ہی کئی دوسرے سوالوں کے جواب بھی تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف نے سی پیک سے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔)
معروف بزنس ویب سائٹ ’’بلوم برگ‘‘ کے کالم نگار مہر شرما نے، جن کا تعلق بھارت سے ہے، حال ہی میں ایک کالم میں یہ ’’پیش گوئی‘‘ کی ہے کہ پاکستان میں غیر معمولی سرمایہ کاری کے ذریعے چین وہی غلطی کر رہا ہے، جو امریکا نے کی تھی یعنی پاکستان مستحکم ہونے کے بجائے مزید غیر مستحکم ہوجائے گا۔ یہاں ہمیں یہ بات کسی طور نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ مہر شرما کا آبائی ملک بھارت ہر اس معاملے کی یکسر مخالفت پر تلا ہوا ہے جس کا تعلق سی پیک اور پاکستان سے ہو اور حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت نے سی پیک کی راہ میں روڑے اٹکانے اور معاملات کو بگاڑنے کی کوشش سے بھی دریغ نہیں کیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی پاکستان سی پیک سے مزید مستحکم ہونے کے بجائے غیر مستحکم ہوجائے گا؟ اور یہ کہ اس حوالے سے اس قدر شور کیوں مچایا جارہا ہے؟
٭ کیا سی پیک چین کے لیے کوئی جذباتی منصوبہ ہے؟
پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری حیرت انگیز نہیں۔ کئی طاقتیں پاکستان میں سرمایہ کاری کرتی رہی ہیں۔ چین نے ایک ایسا شاندار اور پرکشش منصوبہ تیار کیا ہے، جس کی تکمیل سے ایک طرف تو اُس کی معیشت کو غیر معمولی تقویت پہنچے گی اور دوسری طرف خطے میں اس کی پوزیشن بھی بہت حد تک مستحکم ہوگی۔ پاکستانی معیشت بھی اس منصوبے کی وساطت سے خاصے فوائد حاصل کرے گی۔
مہر شرما نے چین کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری کو اندھی امید پرستی کا نام دیا ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ امریکا کی طرح چین بھی پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے ذریعے ایک خطرناک غلطی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ چین سی پیک کے ذریعے جنوب مشرقی ایشیا، وسط ایشیا اور یورپ کے خطے سے اپنا زمینی رابطہ بہتر بنانا چاہتا ہے۔ مہرشرما کا استدلال ہے کہ امریکیوں نے عشروں تک پاکستان میں سرمایہ لگایا مگر کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ اب اگر چین نے بھی احتیاط کا مظاہرہ نہ کیا تو اُسے بھی بھاری سرمایہ کاری کے عوض دردِ سر کے سوا کچھ نہ ملے گا۔
۲۰۱۵ء میں چین نے پاکستان میں سی پیک کے ذریعے ۴۶؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا مگر رواں سال اُس نے سرمایہ کاری کی سطح ۶۲؍ارب ڈالر تک لے جانے کا اعلان کیا ہے۔ مہر شرما لکھتے ہیں کہ محض دو برس میں سرمایہ کاری میں ۳۵ فیصد اضافہ خطرناک غلطی ہے۔ بہت سے غیر جانبدار ماہرین اور تجزیہ کار وضاحت کرچکے ہیں کہ سی پیک سے صرف چین نہیں بلکہ پاکستان بھی غیر معمولی حد تک مستفید ہوگا اور خطے میں استحکام کا گراف بلند کرنے میں مدد ملے گی مگر مہر شرما کا زور اس نکتے پر ہے کہ اسلام آباد کی سیاسی، معاشی اور عسکری صورتِ حال سی پیک سے کسی بڑے فائدے کی راہ ہموار نہیں ہونے دے گی۔
٭ بھارتی ماہرین بھی اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتے کہ سی پیک سے پاکستان کو غیر معمولی فوائد حاصل ہوں گے۔
یہ حقیقت تو مہر شرما نے بھی تسلیم کی ہے کہ سی پیک سے پاکستان کو متعدد ایسے فوائد حاصل ہوں گے، جن کا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور کئی دوسرے عالمی اداروں کے اندازوں کا حوالہ دیتے ہوئے مہر شرما نے لکھا ہے کہ سی پیک کے نتیجے میں پاکستان میں زر مبادلہ کے حوالے سے معاملات درست ہوں گے اور ترقیاتی بجٹ پر مرتب ہونے والے غیر معمولی دباؤ کا گراف نیچے لانے میں بھی مدد ملے گی۔
مہر شرما نے اس بات کو تسلیم کرنے سے بھی گریز نہیں کیا کہ سی پیک کے ذریعے پاکستان کے کئی شعبوں میں غیر معمولی استحکام کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ یہ منصوبہ شروع ہونے کے بعد سے پاکستان میں سیمنٹ انڈسٹری غیر معمولی استحکام سے ہمکنار ہوئی ہے۔ سیمنٹ اور دیگر شعبوں کے مستحکم ہونے سے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کو بھی تقویت ملی ہے اور ۲۰۱۶ء میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو بہترین کارکردگی کا اعزاز بھی دیا گیا۔
اس حقیقت سے بھی مہر شرما سمیت کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ سی پیک کے شروع ہونے کے بعد سے پاکستان میں ریئل اسٹیٹ کا شعبہ غیر معمولی فروغ سے ہمکنار ہوا ہے۔ املاک کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ دوسرے شعبوں کو بھی پنپنے کا موقع ملا ہے۔ اور سوال صرف پاکستان کا نہیں، خطے کے تمام ممالک کا ہے۔ بھارت کے سوا تمام ہی علاقائی ممالک سی پیک سے کچھ نہ کچھ فوائد حاصل کرنے کی راہ تک رہے ہیں۔
مہر شرما اور دیگر بھارتی تجزیہ کاروں نے چین اور دیگر ممالک کے غیر جانبدار تجزیہ کاروں اور ماہرین کی یہ رائے یکسر نظر انداز کردی ہے کہ سی پیک سے پاکستان کی معیشت ہی مضبوط نہیں ہوگی بلکہ سیاسی طور پر وہ اس قدر مستحکم ہوگا کہ خطے میں اس کی اسٹریٹجک پوزیشن قابلِ رشک حد تک مستحکم ہوجائے گی۔
آئندہ عشرے کے دوران سی پیک سے جُڑے ہوئے منصوبوں پر کی جانے والی سرمایہ کاری کے ممکنہ نتائج سے متعلق اپنے تخمینے میں پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے پاکستان وسط ایشیا، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے دوران پُل ہی کا کردار ادا نہیں کرے گا بلکہ کم آمدنی والے ملک کی درجہ بندی سے نکل کر زیادہ آمدنی والا ملک بن جائے گا۔
۵۰ سے زائد ممالک نے سی پیک سے زیادہ سے زیادہ استفادے کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ اس منصوبے کی بخوبی تکمیل سے تجارت، صنعت، مالیات اور توانائی کے شعبوں میں غیر معمولی مواقع پیدا ہوں گے اور مجموعی طور پر کئی خطوں کو پروان چڑھنے کا موقع ملے گا۔ پاکستان کو اس وقت صنعت اور توانائی کے حوالے سے غیر معمولی اشتراکِ عمل کی ضرورت ہے۔ متعدد ممالک اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ مل کر چلنے کو تیار ہیں۔
سی پیک کے حوالے سے چین کی غیر معمولی سرمایہ کاری نے پاکستان میں توانائی کے شعبے کو نمایاں طور پر پروان چڑھانے کے حوالے سے روشن امکانات پیش کیے ہیں۔ پاکستان ایک زمانے سے توانائی کے بحران کا شکار ہے۔ سی پیک سے جُڑے ہوئے منصوبوں کی بدولت پاکستان میں توانائی کے منصوبوں کی راہ بھی ہموار ہوئی ہے۔
مہر شرما اور ان جیسی سوچ رکھنے والے دوسرے بہت سے تجزیہ کاروں نے یہ نکتہ بھی نظر انداز کردیا ہے کہ سی پیک کے حوالے سے ۶۲؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے پاکستان میں ملازمت کے کم و بیش ۲۰ لاکھ مواقع پیدا ہوں گے۔ سڑکوں، پلوں اور انفرا اسٹرکچر کے دیگر سامان کی تیاری کے لیے افرادی قوت کہیں اور سے نہیں، پاکستان ہی سے لی جائے گی۔ پاکستانیوں کو روزگار کے بہتر مواقع ملیں گے تو ان کا معیار زندگی بلند ہوگا اور افلاس کی سطح نیچے رکھنے میں مدد ملے گی۔
سی پیک کا ایک بنیادی مشن یہ بھی ہے کہ پاکستان میں بجلی کی فراہمی بلا تعطل جاری رہے۔ پاکستانی قائدین نے امریکا کی مدد سے اور اس کے بغیر بھی طلب کے مطابق بجلی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے مگر اب تک خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ کم لاگت پر بجلی تیار کرنے کے حوالے سے اب تک کامیابی نہ ملنے کے باعث صنعتی عمل بری طرح متاثر رہا ہے۔ صنعتی پیداوار کی لاگت بڑھنے سے پاکستان عالمی منڈی میں مسابقت کی پوزیشن میں بھی نہیں رہا۔ یہ نکتہ کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ سی پیک کے ۶۲؍ارب ڈالر میں سے ۳۵ ارب ڈالر صرف بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں اور بجلی کی ترسیل کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ پاکستان میں توانائی کا مسئلہ حل ہوگا تو بہت سے معاملات خود بخود درست ہو جائیں گے۔ ایک طرف معیشت مستحکم ہوگی اور دوسری طرف سماجی سطح پر پائی جانے والی بے چینی کا بھی خاتمہ ہوگا۔
معیشت مستحکم ہونے سے سیاسی استحکام بھی یقینی ہو جاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھیے تو سی پیک سے پاکستان میں عدم استحکام پیدا ہونے سے متعلق مہر شرما اور دیگر بہت سے تجزیہ کاروں کے خدشات سراسر بے بنیاد ہیں۔
٭ کیا پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کی راہ میں بلوچستان کوئی رکاوٹ ہے؟
سی پیک کے حوالے سے یہ پروپیگنڈا بھی کیا جارہا ہے کہ یہ منصوبہ چونکہ بلوچستان سے شروع ہو رہا ہے اس لیے مشکلات بڑھیں گی کیونکہ بلوچستان میں مرکز گریز اور ملک مخالف سوچ پائی جاتی ہے۔ اور یہ کہ بلوچستان میں آزادی کے نعرے لگانے والے بھی موجود ہیں۔ سی پیک کا اعلان جب کیا گیا تھا تب بنیادی روٹ پورے بلوچستان سے گزرتا تھا اور منصوبے کا بڑا حصہ بلوچستان ہی پر مشتمل تھا۔ بعد میں بلوچستان کے باشندوں نے شور مچایا کہ روٹ تبدیل کرکے بیشتر منصوبوں کو پنجاب منتقل کردیا گیا ہے۔ مہر شرما کا کہنا ہے کہ روٹ کی تبدیلی سے بلوچستان میں سی پیک مخالف جذبات بھی پیدا ہوں گے اور اس حوالے سے پرتشدد واقعات بھی رونما ہوسکتے ہیں۔ مگر خیر، ایسا بھی نہیں ہے کہ اس حوالے سے بالکل مایوسی اختیار کرلی جائے۔ پاکستان کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ سی پیک کے روٹ میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں کی گئی جس سے مستفید ہونے والوں کے حوالے سے کوئی بدگمانی پروان چڑھائی جائے۔ دو ماہ قبل نواز شریف نے واضح کردیا تھا کہ سی پیک سے ملک کا کوئی ایک حصہ غیر ضروری طور پر زائد فوائد نہیں بٹورے گا بلکہ سبھی مستفید ہوں گے۔ انہوں نے کہا تھا کہ بلوچستان کو واضح طور پر مستفید ہونے کا موقع ملے گا۔
ڈھائی تین سال قبل بلوچستان کا معاملہ مختلف تھا۔ وہاں شورش زیادہ تھی اور فورسز پر حملے بھی ہو رہے تھے۔ مگر اب صورتِ حال بدل چکی ہے۔ بلوچستان میں وفاق پرست قوتیں مستحکم ہوچکی ہیں۔ ایسے میں یہ بدگمانی رکھنا فضول ہے کہ بلوچستان کے حالات سی پیک کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ کھڑی کرسکیں گے۔
٭ کیا پاکستان سی پیک کے ذریعے اپنی عسکری قوت میں اضافے کا خواہش مند ہے؟
سی پیک کے حوالے سے طرح طرح کے خدشات کا اظہار کرنے والے تجزیہ کاروں نے یہ نکتہ بھی کھل کر بیان کیا ہے کہ پاکستان میں فوج چونکہ سیاست اور معیشت پر غیر معمولی حد تک متصرف ہے، اس لیے غالب امکان اس بات کا ہے کہ سی پیک سے حاصل ہونے والے فوائد عوام تک نہیں پہنچ سکیں گے اور فوج مزید مضبوط ہوجائے گی۔ مہر شرما نے بھی لکھا ہے کہ پاکستان کو امریکا اور دیگر ممالک سے ملنے والی امداد کے نتیجے میں فوج مزید مضبوط ہوئی ہے۔ سی پیک کے حوالے سے بھی یہی خدشہ پایا جاتا ہے۔
٭ پاکستان کے زیادہ مضبوط ہو جانے سے کشمیر کا مسئلہ بھی عمدگی سے حل کیا جاسکتا ہے۔
مہر شرما نے سی پیک کے حوالے سے پاکستانی فوج کے مضبوط ہو جانے کا خدشہ تو ظاہر کیا مگر یہ نہیں بتایا کہ پاکستانی فوج اپنی طاقت کہاں سے حاصل کرتی ہے۔ فوج کے لیے کشمیر کا مسئلہ زندگی اور موت کے برابر ہے۔ اگر پاکستان سی پیک کے نتیجے میں مضبوط ہوتا ہے تو کشمیر کے معاملے میں بھی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے نمٹ جائے۔ اگر ایسا ہوا تو فوج کے لیے مزید طاقت کی راہ کہاں سے ہموار ہوگی۔
پاکستان کی سیاست میں کشمیر کا مسئلہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ سی پیک کے حوالے سے پاکستان کے بارے میں طرح طرح کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے وقت مہر شرما اور دیگر تجزیہ کاروں نے کشمیر کے مسئلے کو یوں نظر انداز کیا ہے جیسے اس کا وجود ہی نہ ہو۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستانی فوج کے لیے کشمیر کا مسئلہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے لیے بھارت سے کشیدہ تعلقات کے تناظر میں عسکری قوت برقرار رکھنا لازم ہے۔ دونوں ممالک کشمیر کے مسئلے پر جنگ بھی لڑچکے ہیں۔
سی پیک کے ذریعے خطے میں معاشی امکانات اتنے بڑے پیمانے پر پیدا ہوں گے کہ امن کی راہ خود بخود ہموار ہوگی اور کشمیر کا مسئلہ بھی عمدگی سے حل کرنے میں غیر معمولی حد تک مدد ملے گی۔ اگر پاکستان اور بھارت اپنے تمام تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ بھارت نے سی پیک کے حوالے سے مل کر کام کرنے کی پاکستانی پیش کش کا اب تک خاطر خواہ جواب نہیں دیا ہے۔
اسٹریٹجک وژن انسٹی ٹیوٹ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ محمد عادل سیویا کہتے ہیں کہ سی پیک کے حوالے سے اگر بھارت بھی پاکستان کے ساتھ مل کرکام کرنے پر راضی ہو تو کشمیریوں کے لیے بھی بہتر زندگی کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس سے خطے میں ہم آہنگی فروغ پائے گی اور دیرینہ تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے میں خاصی مدد ملے گی۔ بہتر معاشی امکانات پیدا ہوں گے تو کشمیری بھی ہتھیار رکھ کر معمول کی، پرسکون اور پرامن زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیں گے۔ یوں کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا، پاکستان اور بھارت میں ہم آہنگی بڑھے گی اور خطہ زیادہ مستحکم ہوکر ابھرے گا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“CPEC Hurts Pakistan: Debunking the Myth”. (“valuewalk.com”. May 8, 2017)