
گزشتہ دنوں اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی میں ’’سی پیک: خدشات اور تحفظات‘‘ کے عنوان سے ایک لیکچر کا اہتمام کیا گیا، جس کے مقرر پروفیسر ہارون رشید تھے آپ کافی عرصہ چین میں رہے ہیں، ماہر چینیات ہیں اور لاہور میں سی پیک ریسرچ سینٹر کے انتظامی سربراہ بھی ہیں۔
انہوں نے سی پیک پر تحفظات اور اس پر پائے جانے والے خدشات سے قبل چین کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے درج ذیل نکات بیان کیے:
ہمیں سی پیک اور اس کے اثرات کو سمجھنے سے پہلے خودچین اور چینی قوم کے مزاج کو سمجھنا ہوگا۔
چینی زبان میں چین کو ’’چونگ‘‘ کہتے ہیں، جس کے معنی ’’دنیا کا مرکز‘‘ ہیں۔ یہ نشانات کی زبان ہے اور کافی مشکل ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان عوامی سطح پر رابطے استوار نہ ہونے کی وجہ زبان بھی رہی ہے۔
چین ۱۹۱۹ ء سے پہلے شہنشاہیت کے زیر تسلط تھا۔ شہنشاہ وقت Forbidden City (چینی شاہی محل) میں رہتے تھے اور عوام سے دوری اختیار کی ہوئی تھی۔
یہاں پر کنفیوشس، بدھسٹ کی تعلیمات عام ہیں اور لوگ انہی کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔
چین کی تاریخ میں مسلمانوں کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ساحلی علاقوں سے مسلمانوں کی چین میں آمد ہوئی۔ کسی زمانے میں چین کے ۳۵ صوبوں کے گورنر مسلمان تھے۔
چینی کمپنیوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی قرار دینے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ چینی قوم کی تاریخ ہے کہ وہ کبھی کسی دوسری قوم پر مسلط نہیں ہوئے، مگر اپنا دفاع ضرور کیا ہے اور جن علاقوں پر ان کا تاریخی دعویٰ ہے اس سے وہ کبھی دستبردار نہیں ہوئے۔
آج چینی ہر چیز کھانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، جن میں ایسی جاندار اشیا بھی شامل ہیں جنہیں ہم کھانے کاتصور بھی نہیں کرسکتے مگر اس کی ایک بنیا دی وجہ ہے اور وہ یہ کہ ایک زمانے میں چین میں قحط اور غربت تھی جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو جو میسر آجاتا وہ کھالیتے تھے اور پھر رفتہ رفتہ یہ ان کی عادت بن گئی۔
۱۹۱۹ ء میں سن یات سن نے جمہوری چین کی بنیاد رکھی لیکن کچھ عرصے بعد جاپان نے حملہ کردیا اور لاکھوں چینیوں کا قتل عام ہوا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ماوزے تنگ نے تاریخی لانگ مارچ کیا اور ۱۹۴۹ء میں انقلاب کے بعد جدید چین، Peoples Republic of China کی بنیاد رکھی۔ کمیونسٹ پارٹی نے بڑی تعداد میں شاعروں کو قتل کیا کہ وہ وقت بربادکرتے ہیں اور ان کی جگہ محنت کشوں اور کسانوں کو یونیورسٹیوں میں داخلے دیے گئے۔ یونیورسٹیوں میں داخلے کا معیار صرف ایک تھا اور وہ یہ کہ داخلے دیتے وقت ان کے ہاتھ پر مشقت کے نشان ثبو ت کے طور پر دیکھے جاتے تھے۔
۱۹۷۰ ء میں چین نے ’’open policy‘‘ اختیا ر کی اور نجی ملکیت کی اجازت دی گئی اور دوسرے ممالک سے سرمایہ کاروں کو اجازت دی گئی کہ وہ چین میں سرمایہ کاری کریں۔ ۲۰۰۰ ء تک چین ایک بڑا معاشی و ترقی یافتہ ملک بن کر ابھرا۔
چین اور امریکا کے درمیان سرد جنگ جاری رہتی ہے اور کرنسی کے معاملے پر ان دونوں ممالک کے درمیان تنازع برقرا رہتا ہے۔ٹرمپ جب امریکا کے صدر بنے تو انہوں نے چین پر پابندیوں کے حوالے سے بات کی مگر ان کی پہلی ملاقات چین کے ایک تجارتی مالک جیک ما سے ہوئی جو علی بابا ویب سائٹ کا بانی ہے۔ اور ٹرمپ نے ان سے امریکا میں ایک لاکھ نوکریاں فراہم کرنے کا معاہدہ کیا۔
چین میں کرپشن کی سزا موت ہے۔(چین کے موجودہ صدر مضبوط امیدوار نہ ہونے کے باجود صدر اس لیے بن گئے کہ ان کا مخالف امیدوار اپنی اہلیہ پر کرپشن کے کیس کی وجہ سے پیچھے رہ گیا)۔چین میں کرپشن سے بچنے لے لیے فوج میں شراب اور اچھے کھانوں پر پابندی عائد ہے۔
چینی قیادت نہایت تعلیم یافتہ ہوتی ہے کیوں کہ قیادت گلی محلے سے نہیں بلکہ یونیورسٹیوں سے آتی ہے۔ پروفیسر اور اساتذہ کو صوبائی اور ملکی سیاست میں جگہ دی جاتی ہے۔
جب تک چینی کوئی بھی تجارتی معاہدہ کرتے ہوئے آپ کو اعلیٰ قسم کا کھانا آفر نہیں کرتا تو وہ تجارتی معاہدہ قابل اعتبار نہیں ہوتا۔ تمام قابل اعتبار معاہدے کھانے کی میز پر ہوتے ہیں۔ بزنس کے معاملے میں پارٹنر شپ کو فوقیت دیتے ہیں اور ترجیحاً اپنے قریبی رشتہ داروں کو حصہ دار بناتے ہیں۔
پاکستانیوں کا اعلیٰ تعلیم کے لیے چین جانے کا رجحان بڑھا ہے۔ چین میں اس وقت ۱۸۰۰۰؍ہزار پاکستانی زیر تعلیم ہیں۔
چینی قوم دوسرے مذاہب اور کلچر کی تعظیم کرتی ہے اور وہ تجارت کو اپنی اولین ترجیح سمجھتے ہیں لہٰذا روزے، نماز پر پابندی کے الزامات پروپیگنڈا کا حصہ ہیں۔ وہاں بڑی تعداد میں مسلمان داڑھی اور ٹوپی میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔چین میں ۳۵۰۰۰ ہزار مساجد ہیں جو حکومت کے زیر انتظام ہیں اوربیجنگ شہر کے وسط میں ایک تاریخی مسجد موجود ہے۔
سی پیک کی بات کریں توبلوچستان اور کراچی کے حالات کا بہتر ہونا سی پیک کے ’’شارٹ ٹرم‘‘ فوائد میں سے ایک ہے۔
سی پیک پاکستان میں بجلی کی قلت، انفراسٹرکچر اور گوادر پورٹ کو آپریشنل کرے گا۔ اقتصادی زونز کا قیام سی پیک کے مقاصد میں شامل ہے۔
یہ بات درست نہیں کہ سی پیک منصوبے میں ہمارا تجارتی طبقہ سرمایہ کاری اورحصہ داری سے محروم ہوگا۔ پاکستانیوں کے لیے بھر پور مواقع موجود ہیں۔چین کی تاریخ کے مطابق یہ وہ قوم ہے جو قبضہ نہیں کرے گی اور نہ مسلط ہونے کی کوشش کرے گی مگر یہ ہماری حکومت کا کام ہے کہ وہ قومی مفادات کی خاطر کیا حکمت عملی بناتے ہیں جس سے ہم اس منصوبے سے بھر پور فوائد حاصل کرسکیں۔
(رپورٹ: عبدالرحمن کامران)
this is great to share such important information. prof Haroon has shared basic information and to see future is easy. this report should be published in newspapers. prof Haroon should also write time to time in newspapers. Particularly information about mosques and topi pleased me. Prof Mahr Muhammad Saeed Akhtar