شام کی فوج میں دراڑیں

Syrian military

شام کی فوج میں بھی اختلافات بڑھتے جارہے ہیں۔ فورسز چھوڑ کر عوام سے جا ملنے والے سپاہیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ بشارالاسد انتظامیہ نے اب تک اقتدار کے لیے فوج، پولیس اور خفیہ اداروں پر انحصار کیا ہے۔ یہ تینوں اب تک وفادار رہے ہیں مگر اب ان میں بھی منحرفین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور منحرف ہونے والے بہتر انداز سے منظم بھی ہو رہے ہیں۔

مارچ میں حکومت کے خلاف تحریک شروع ہوئی تھی۔ تب سے اب تک فوج سے لوگ منحرف ہوتے رہے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد سنیوں کی ہے۔ بہت سے منحرف فوجی ملک چھوڑ گئے، کچھ نے عوام میں پناہ لی ہے۔ جولائی میں کرنل ریاض الاسد نے ترکی میں پناہ لی اور فری سیرین آرمی بنانے کا اعلان کیا۔ فری آفیسرز موومنٹ کے نام سے بھی منحرف فوجیوں کا ایک گروپ ابھرا ہے۔

فوج سے الگ ہونے والے یہ دونوں گروپ چھوٹے اور غیر منظم تھے۔ ستمبر کے اواخر میں دونوں گروپ ایک ہوگئے اور مل کر حکومت کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اب ان کی سرگرمیاں خاصی منظم اور منطقی دکھائی دیتی ہیں۔ فری سیرین آرمی کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں اس کی ۲۲ بٹالینز ہیں جبکہ فیلڈ لیڈر ترکی میں قائم ہیڈ کوارٹرز سے ہدایات حاصل کرتے ہیں۔ ان میں حمص میں موجود خالد بن ولید بٹالین بھی شامل ہے جس کے سرکاری افواج سے خاصے خوں آشام معرکے ہوئے ہیں۔ چند ہفتوں کے دوران شمال مغرب میں ادلیب اور عراقی سرحد سے متصل علاقے البوکمال میں شدید معرکہ آرائی ہوئی ہے۔

فوج سے منحرف ہونے والوں کا کردار تبدیل ہو رہا ہے۔ پہلے وہ فرار ہوئے۔ اب انہوں نے واپس آکر مظاہرین کو منظم کرنا اور سیکورٹی دینا شروع کردیا ہے۔ منحرف سپاہی اب عوام کو اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت بھی دے رہے ہیں۔ تربیت کے نتیجے میں اب عوامی تحریک سے وابستہ افراد فورسز سے لڑائی کے دوران منظم دکھائی دیتے ہیں۔ منحرف فوجی اب منظم گروہوں کی شکل میں چیک پوائنٹس، حکومت نواز مسلح گروہوں اور فوجی قافلوں پر حملے بھی کر رہے ہیں۔ کئی معرکوں کے حوالے سے مبالغہ آرائی سے بھی کام لیا گیا ہے۔ ایک ہی مقام پر درجنوں ٹینک تباہ کرنے کے دعوے بھی کیے جاتے رہے ہیں۔ اس میں البتہ کوئی شک نہیں کہ فوجی قافلوں پر حملوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

منحرف ہونا آسان نہیں۔ فوجیوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ انہیں کب، کہاں تعینات کیا جائے گا اور انہیں کیا کرنا ہوگا۔ بیرکس میں صرف سرکاری ٹی وی کی نشریات دیکھنے کی اجازت ہے۔ بیرکس میں بیشتر فوجیوں کو اندازہ نہیں ہو پاتا کہ ملک بھر میں کیا ہو رہا ہے۔ موبائل فون کے استعمال کو خاصا محدود کردیا گیا ہے۔ فوجیوں کی چھٹیاں اکثر منسوخ کردی جاتی ہیں۔ فوجیوں کو ملے جلے گروپس میں رکھا جاتا ہے۔ دوست اور ہم خیال فوجیوں کو ساتھ نہیں رہنے دیا جاتا۔ گروپ اس طرح تشکیل دیے جاتے ہیں کہ فوجی ایک دوسرے کو نہ جانتے ہوں تاکہ وہ منحرفین سے جا ملنے کا کوئی منصوبہ آسانی سے تیار نہ کرسکیں۔

منحرف ہو جانا ایسا آسان بھی نہیں۔ جو سپاہی فوج چھوڑ کر بھاگ نکلتے ہیں ان کے لیے ملک بھر میں کہیں بھی چھپنا آسان نہیں ہوتا۔ وہ اہل خانہ کے ساتھ مستقل نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی انہیں ملک بھی چھوڑنا پڑتا ہے۔ دیہی علاقوں میں چھپنا قدرے آسان ہوتا ہے۔ کرنل ریاض الاسد نے منحرف فوجیوں کی تعداد ۱۵ ہزار بتائی ہے۔ اب تک کسی کو پورے تیقن سے نہیں معلوم کہ کتنے فوجی منحرف ہوئے ہیں۔

منحرفین کی بڑھتی ہوئی تعداد حکومت کے لیے خاصی پریشان کن ہے۔ حمص سے متصل شہر رستان منحرفین کا گڑھ بن چکا ہے۔ منحرف فوجیوں نے ستمبر میں اس شہر پر حملہ کرکے فورسز کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔ مگر بعد میں فوج نے اس شہر پر زیادہ قوت سے حملہ کیا اور منحرف ہوکر ترکی چلے جانے والے حسین ہرموش کو گرفتار کرکے ٹی وی پر پیش کیا جس نے فوج میں دوبارہ شمولیت کا اعلان کیا۔

(بشکریہ: ہفت روزہ ’’دی اکنامسٹ‘‘ لندن۔ ۲۹؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*