
کرسمس کے موقع پر مدھیہ پردیش کے شہر ستنا میں ۳۲ پادریوں اور دیگر عیسائیوں سے غیر معمولی زیادتی رونما ہوئی۔ انتہا پسند ہندو تنظیم بجرنگ دل کے کارکنوں نے کرسمس کیرول گانے پر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر پولیس نے انہی کے خلاف مقدمہ بناکر انہیں لاک اپ کردیا۔ بجرنگ دل کے کارکنوں نے ان کی گاڑیاں بھی جلادیں اور معاملہ یہیں تک نہیں رکا۔ انہیں حراست میں بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پولیس نے تمام عیسائیوں پر جبری مذہب تبدیل کرانے کا مقدمہ درج کرایا۔ حملہ آوروں کو کچھ بھی نہیں کہا گیا۔ کسی نے انہیں ہاتھ تک نہیں لگایا۔ اسی دوران ہندو جاگرن منچ نے علی گڑھ کے کرسچین اسکولوں کو خبردار کیا کہ اگر اس کے طلبہ نے کرسمس منانے کی کوشش کی تو نتائج کے خود ذمہ دار ہوں گے! اتر پردیش کے کئی دوسرے شہروں سے بھی ایسی ہی دھمکیوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
میرا گھرانہ بھی کرسمس کی خوشیوں میں عیسائیوں کے ساتھ شریک ہوتا رہا ہے۔ ہم لوگ کرسمس کی خوشی میں اس کے پیغام کی بنیاد پر شریک ہوتے ہیں۔ مگر اب ماحول کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ کسی کو میری کرسمس کہنا بھی انتہائی خطرناک ہے۔ بھارت بھر میں مذہبی بنیاد پر عدم برداشت اس قدر بڑھ رہا ہے کہ کرسمس کیرول گانا اور کرسمس کا کیک کاٹنا بھی انتہائی خطرناک ہوگیا ہے۔ ایسے ماحول میں مذہبی رواداری کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ میں نے دسمبر میں احتجاج اور یکجہتی دونوں کے اظہار کے لیے ’’کرسمس ماس‘‘ میں شرکت کی۔
بھارت اب اپنی مسلم اور عیسائی دونوں اقلیتوں کے لیے غیر محفوظ تر ہوتا جارہا ہے۔ ۲۰۱۷ء میں دی ورلڈ واچ لسٹ نے بھارت کو اقلیتوں کے لیے پندرہویں خطرناک ترین ملک کی حیثیت سے شناخت کیا۔ چار سال قبل بھارت اکتیسویں نمبر پر تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں سے کیسا سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ مسلمانوں پر ایک طرف تو انتہا پسند ہندو حملے کر رہے ہیں اور دوسری طرف پولیس ان کی ٹارگٹ کلنگ کر رہی ہے۔ عیسائیوں پر بھی گرجوں اور اجتماعی دعا کی تقریبات میں حملے کیے جارہے ہیں۔ پادریوں اور راہباؤں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ دی یونائٹیڈ کرسچین فورم نے ۲۰۱۷ء میں عیسائیوں پر ۲۱۶ حملے رپورٹ کیے ہیں۔ پولیس نے ان میں سے صرف ایک چوتھائی واقعات کی رپورٹ درج کی۔ گرفتار کیے جانے والے حملہ آوروں کی تعداد برائے نام ہے۔ ان میں سے نصف سے زائد حملے چھتیس گڑھ، تامل ناڈو، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش میں ہوئے۔ کرسچین کمیونٹی کے معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ ملازمت کے مواقع چھیننے کے ساتھ ساتھ انہیں پانی اور بجلی تک رسائی سے بھی روکا جارہا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار کے دیگر انتہا پسند ہندو گروپ ایک زمانے سے پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ بھارت کے طول و عرض میں نچلی ذات کے، معاشی طور پر کچلے ہوئے ہندوؤں اور آدی واسیوں کو دولت کے بل پر عیسائی بنایا جارہا ہے۔ اس پروپیگنڈے نے ایک امن پسند کمیونٹی کے خلاف شدید نفرت ابھارنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اور اس کا نتیجہ گرجوں، دعائیہ تقریبات اور مزارات وغیرہ پر حملوں کی شکل میں برآمد ہوا ہے۔
گلوبل ہندو ہیریٹیج فاؤنڈیشن نے امریکی ریاست ٹیکساس میں ۲۰۱۵ء میں ایک پمفلٹ شائع کیا۔ اس کے مندرجات ملاحظہ فرمائیے: ’’بھارت میں صرف عیسائی ہی نہیں، بہت سے ہندو بھی عیسائیت کے بارے میں جانے اور سوچے بغیر کرسمس مناتے ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ عیسائیت کیا ہے، یہ بت پرستی کے بارے میں کیا کہتی ہے، اس نے کتنی تہذیبوں کو بربادی سے دوچار کیا ہے، کتنے ہندوؤں کا مذہب تبدیل کرکے انہیں اپنے ہی مذہب کے مخالف کھڑا کردیا ہے اور یہ کہ ہندوؤں کو عیسائی بنانے کے لیے کہاں کہاں سے فنڈ آرہے ہیں۔ عیسائیوں میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ یسوع مسیح نے انہیں دھوکا دینے، مذہب تبدیل کرانے، کسی بھی قوم پر چڑھ دوڑنے اور اسے فتح کرنے کے بعد تباہی سے دوچار کرنے کا اختیار دے رکھا ہے۔ بھارت کی جنوبی ریاستوں میں ہندوؤں کو عیسائی بنانے کا عمل بہت تیز ہے۔ وہاں ہندوؤں کو عیسائی بنانے کے بعد ہندو ازم کے خلاف کھڑا کردیا جاتا ہے۔ دیوی دیوتاؤں کے بتوں کو توڑنے اور ان کی تصاویر پھاڑنے کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ آندھرا پردیش کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ دیہات میں رہنے والے کم و بیش ۳۰ فیصد ہندو عیسائیت قبول کرچکے ہیں۔‘‘
اِسے کہتے ہیں چور مچائے شور۔ اس پروپیگنڈے کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ بھارت میں کئی عشروں کے دوران عیسائیوں کی تعداد ملک کی مجموعی آبادی کے ڈھائی فیصد سے زائد نہیں ہوسکی ہے۔ اگر بہت بڑے پیمانے پر تبدیلیٔ مذہب کا معاملہ ہوتا اور ہندو نمایاں تعداد میں عیسائیت قبول کر رہے ہوتے تو اعداد و شمار کی شکل میں اس کا اثر ضرور ظاہر ہوتا۔ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بھارتی سرزمین پر عیسائی یورپ میں عیسائیت کے پھیلنے سے ایک ہزار سال پہلے آئے تھے اور یہاں برطانوی راج کی صدیوں کے دوران بھی رہے۔ اتنی طویل مدت کے دوران جب عیسائیوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ نہ ہوسکا تو اب ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟
سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون کہتے ہیں کہ انتہا پسند ہندو عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف پروپیگنڈا اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ بھارت کو خالصاً ہندو ریاست قرار دلانے کے لیے سرگرم ہیں۔ اس نکتے پر بھی زور دیا جارہا ہے کہ ماضی میں مذہب تبدیل کرنے کے تمام واقعات زبردستی، لالچ یا خوف کا نتیجہ تھے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مستقبل میں مذہب کی تبدیلی کے واقعات کم سے کم ہوں۔
راجیو دھون کہتے ہیں کہ مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے مچایا جانے والا شور بلاجواز اور ہندتوا کے فروغ کی علامت ہے۔ بھارت بھر میں انتہا پسند اس امر کے لیے کوشاں ہیں کہ بھارت کو خالص ہندو ریاست قرار دیا جائے اور دیگر تمام مذاہب کے لیے شدید عدم برداشت کی فضا پروان چڑھائی جائے۔ انتہا پسند ہندو چاہتے ہیں کہ ہندو دیگر مذاہب کی طرف نہ جائیں یعنی مذہب تبدیل نہ کریں اور اس سے ایک قدم آگے جاکر دیگر مذاہب کو برداشت کرنے کا رویہ بھی ترک کریں۔ یہ سب کچھ ہوگا تب ہی ہندتوا کے ایجنڈے کی تکمیل ہوگی۔ راجیو دھون مزید کہتے ہیں کہ بابری مسجد کی شہادت، آسٹریلوی پادری گراہم اسٹینز اور ان کے بچوں کا بہیمانہ قتل اور اسی نوعیت کے دیگر واقعات خوف کی ایسی فضا پیدا کرنے کی کوشش ہیں، جس میں بھارتی سرزمین پر دیگر مذاہب کے پنپنے کی گنجائش کم سے کم رہ جائے اور عام ہندو کسی بھی مذہب کو قبول کرتے وقت شدید خوف میں مبتلا ہوں۔ ساتھ ساتھ اقلیتوں کو ڈرانے، دھمکانے کے لیے قانونی طریقوں کا بھی سہارا لیا جارہا ہے۔ ایسے قوانین تیار کیے جارہے ہیں، جن کی مدد سے مذہب کی تبدیلی کوئی آسان عمل نہ رہے گی۔
مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے ہمارے ہاں بحث اتنی تلخ ہوچکی ہے کہ یہ بنیادی حقیقت بھی نظر انداز کردی گئی ہے کہ آئین نے ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل ہی کا نہیں بلکہ اس کی تبلیغ کا حق بھی دیا ہے۔ راجیو دھون کہتے ہیں کہ تاریخی اعتبار سے بھارت مذہب تبدیل کرنے والوں کا ملک ہے۔ بھارت کے اصل باشندوں نے جین ازم کو قبول کیا۔ پھر بدھ ازم کی باری آئی۔ اس کے بعد اسلام اور عیسائیت نے سیٹ سنبھالی۔ اس پورے عمل نے بھارت کو منفرد حیثیت عطا کی ہے۔ آج بھارت کا مسلم یا عیسائی محض مسلم یا عیسائی ہے، سابق ہندو نہیں۔ اگر کوئی شخص اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہتا ہے تو اسے ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اسے پولیس سے رابطہ کرنے یا کسی مجسٹریٹ کی نگرانی میں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس معاملے میں قانون بھی کچھ نہیں کرسکتا۔
بھارت کا آئین ہر شخص کو کسی بھی مذہب سے وابستہ ہونے کا حق دیتا ہے۔ آئین ساز اسمبلی میں ایم رتنا سوامی نے آرٹیکل ۲۵ میں لفظ ’’پروپیگیٹ‘‘ شامل کرنے کی بھی تجویز پیش کی تھی، جس کا مطلب یہ تھا کہ کسی بھی شخص کو اظہار رائے کی آزادی کے تحت اپنے مذہب کی بھرپور تبلیغ کا حق بھی حاصل ہوگا۔
انتہا پسند گروپوں کی سرپرست تنظیم سنگھ پریوار نے شور مچا رکھا ہے کہ ہندوؤں کو دولت اور خوف کی بنیاد پر دوسرے مذاہب کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مذہب تبدیل کرنے کا بنیادی آئینی حق چھین لیا جائے۔ کئی ریاستوں میں مذہب کی تبدیلی کے خلاف قوانین لائے گئے ہیں۔ کوشش کی جارہی ہے کہ لوگوں کو مذہب تبدیل کرنے یعنی ہندوؤں کو دیگر مذاہب کی طرف جانے سے روکا جائے۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے ڈرانے، دھمکانے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا۔ مذہب کی تبدیلی کے خلاف بنائے جانے والے قوانین آئین سے براہِ راست متصادم ہیں۔ ایسے قوانین ان ریاستوں میں اپنائے گئے ہیں جہاں کانگریس کی حکومت نہیں۔ کانگریس کی حکومت والی ریاستوں میں گائے کے ذبیحے پر پابندی اور اسی نوعیت کے دیگر قوانین لائے گئے ہیں جبکہ مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو ایسے قوانین کے سخت مخالف تھے۔ اڑیسہ نے ۱۹۶۷ء میں سوتنتر پارٹی کی حکومت کے تحت مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون منظور کیا۔ اگلے ہی سال مدھیہ پردیش میں ایک ایسی مخلوط حکومت نے مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون منظور کیا جس میں جن سنگھ بھی شامل تھی۔ جن سنگھ ہی بعد میں بھارتیہ جنتا پارٹی میں تبدیل ہوئی۔ بی جے پی کے تحت گجرات میں ۲۰۰۳ء اور چھتیس گڑھ میں ۲۰۰۶ء میں مذہب تبدیل کرنے کے خلاف قانون لایا گیا۔ تامل ناڈو میں جیہ للتا کی حکومت نے ۲۰۰۲ء میں مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون منظور کیا تاہم دو ہی سال بعد اس میں ترمیم کردی۔ کانگریس کے تحت مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون منظور کرنے والی واحد اسمبلی ہماچل پردیش کی ہے، جس نے یہ ’’کارنامہ‘‘ ۲۰۰۶ء میں انجام دیا۔ ۲۰۰۶ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت میں راجستھان اسمبلی نے مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون منظور کیا مگر گورنر نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ ۱۹۷۸ء میں اروناچل پردیش میں پیپلز پارٹی آف اروناچل پردیش کی حکومت نے مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون منظور کیا تاہم یہ کبھی نافذ نہیں کیا جاسکا۔ ۲۰۱۷ء میں جھاڑ کھنڈ میں بی جے پی کی حکومت کی تحت اسمبلی نے مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون منظور کیا ہے۔
مذہب کی تبدیلی کے خلاف قوانین بہت سی ریاستوں میں نافذ ہیں تاہم ان ریاستوں میں اس حوالے سے زیادہ activism دکھائی دیتا ہے جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ اس قانون کے تحت کسی کو مجرم قرار دینے کا عمل تو خال خال دکھائی دیتا ہے تاہم ہر ماہ چند ایک مقدمات ضرور درج کیے جاتے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جو لوگ مذہب تبدیل کریں اور کرائیں انہیں ایک خاص قانونی عمل کے ذریعے سزا دی جائے تاکہ ایسا کرنے کا ارادہ رکھنے والے دوسرے پریشان ہوں اور باز رہیں۔ اس وقت اقلیتوں کے خلاف جو فضا پائی جارہی ہے، اس میں مذہب کی تبدیلی سے متعلق قوانین کو محض اس لیے بروئے کار لایا جارہا ہے کہ عیسائی برادری کو زیادہ سے زیادہ خوفزدہ کیا جائے، تبلیغی سرگرمیوں سے روکا جائے اور جہاں تک ممکن ہو، مذہب کی تبدیلی کی طرف مائل ہونے والوں کی راہ مسدود کی جائے۔ کوشش یہ کی جارہی ہے کہ شدید خوف کی فضا میں کوئی بھی مذہب تبدیل کرنے کے بارے میں نہ سوچے یعنی کوئی بھی ہندو عیسائیت یا اسلام کی طرف نہ جائے۔ ہاں، کوئی ہندو ازم کی طرف آتا ہے تو کوئی بات نہیں۔ مذہب کی تبدیلی سے متعلق قوانین کا بنیادی مقصد عیسائی برادری کے خلاف زیادہ سے زیادہ مقدمات قائم کرکے انہیں پریشان اور ہراساں کرنا ہے۔ گزشتہ اگست میں جھاڑ کھنڈ کی حکومت نے اخبارات میں مکمل صفحے کا ایک اشتہار شائع کیا، جس میں وزیراعلیٰ کا پیغام بھی شامل تھا۔ اس اشتہار میں مذہب کی تبدیلی سے متعلق گاندھی جی کا ایک بیان غلط سیاق و سباق میں پیش کیا گیا۔ ۲۰۱۷ء میں تین مواقع پر مدھیہ پردیش میں ریلوے پولیس نے کرسچین کیمپس میں جانے والے عیسائی بچوں کو محض اس خدشے کی بنیاد پر حراست میں لیا کہ انہیں مذہب تبدیل کرنے کے لیے لے جایا جارہا ہے۔ ۲۲؍اور ۲۳ مئی کو ناگپور کے بائبل سمر کیمپ میں شرکت کے لیے جانے والے ۷۳ عیسائی بچوں کو ان کے نگرانوں سمیت تحویل میں لیا گیا۔ ۳ جون کو ستنا ریلوے اسٹیشن پر ایک راہبہ اور چار لڑکیوں کو تحویل میں لیا گیا۔ ۲۱؍اکتوبر کو سات بچوں اور ان کے دو نگرانوں کو تحویل میں لیا گیا اور بچوں کو ان کے والدین سے بھی ملنے نہیں دیا گیا۔
سنگھ پریوار کہتا ہے کہ اسلام اور عیسائیت دونوں ہی بیرونی مذاہب ہیں اور ان کے ماننے والوں کے لیے لازم ہے کہ ہندو ازم اور بھارت دونوں کے لیے وفاداری ثابت کریں۔ سنگھ پریوار کے نزدیک ہندو ازم اور بھارت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ دوسری طرف گاندھی جی کا کہنا تھا کہ اسلام اور عیسائیت بھی اُتنے ہی بھارتی مذاہب ہیں، جتنے ہندو ازم، جین ازم، بدھ ازم اور سکھ ازم ہیں۔
ہم ہولی، دیوالی اور گرو پورب کی طرح کرسمس اور عید بھی مناتے آئے ہیں۔ تمام مذاہب کا احترام ایک قابل قدر جذبہ ہے۔ یہ میرا حق ہے اور مجھ سے یہ کسی طور برداشت نہ ہوگا کہ کوئی مجھ سے میرا حق چھینے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Creeping fear: Not just Muslims, India is also failing its Christian minority”.(“scroll.in”. Jan.22, 2018)
Leave a Reply