
موقع کی مناسبت سے موزوں تقریر: ’’جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں، میں نے جب سے یہ منصب سنبھالا ہے معاشرے کو انتہا پسندی، تشدد اور دہشت گردی سے پاک کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے تاکہ اسلام کو اُس کے درست ترین تناظر میں پیش کیا جاسکے‘‘۔
’’اللہ کے فضل و کرم سے ہمارا فیصلہ بالکل درست ثابت ہوا ہے۔ ہمارے ارادے نیک تھے اِس لیے اللہ نے ہماری بھرپور تائید و مدد کی ہے۔ میں یہ بات بہ صد انبساط کہہ رہا ہوں کہ پاکستانیوں کی اکثریت نے ہمارے فیصلے کو درست قرار دیا اور اِس پر عمل کی گھڑی میں ہمارے ساتھ رہے۔ میں اپنی قوم کے اِس درست فیصلے پر فخر کرسکتا ہوں۔ دکھ دینے والی بات صرف یہ ہے کہ ہمارے ملک کی بعض مذہبی جماعتوں اور گروپوں نے اس فیصلے کو درست نہ مانا اور اِس کی حمایت سے بھی مجتنب رہے۔ اور اِس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اُن کا موقف اُصولوں پر مبنی نہیں۔ قومی تاریخ کے اِس اہم موڑ پر اُنہوں نے انفرادی اور گروہی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دی‘‘۔
’’فرقہ وارانہ بنیاد پر دہشت گردی ایک زمانے سے ہمارا تعاقب کر رہی ہے۔ اب ہماری قوم اِس سے بیزار ہوچکی ہے۔ اب یہ بوجھ اُٹھائے نہیں اُٹھتا۔ امن سے محبت کرنے والے ہمارے ہم وطن اب کلاشنکوف کلچر سے نجات پانا چاہتے ہیں۔ فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی کے باعث ہمیں لشکر جھنگوی اور سپاہِ محمد پر پابندی عائد کرنی پڑی۔ مگر اِس سے بھی کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔ اب وہ دن آگیا ہے کہ ہم صورت حال کی نزاکت کو سمجھیں اور وہ فیصلے کریں جو اِس قوم کے لیے ناگزیر ہیں‘‘۔
’’کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان مُلّاؤں کے ذریعے چلائی جانے والی ریاست میں تبدیل ہوجائے؟ کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کو چلانے کے لیے مذہبی تعلیم کافی ہے یا یہ کہ ایک ترقی یافتہ اور متحرک اسلامی ریاست کی حیثیت سے اُبھرنے کے لیے پاکستان کو جدید ترین تعلیمی معیارات سے ہم آہنگ کیا جائے؟ عوام کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ پاکستان کو ترقی پسند فلاحی اسلامی ریاست بنایا جائے یعنی یہ کہ محض مذہبی تعلیم ملک کو چلانے کے لیے کافی نہیں۔ لازم ہے کہ جدید ترین تعلیم کا بھی اہتمام کیا جائے‘‘۔
’’پاکستان اب بہت سے معاملات میں غیر معمولی بلکہ شرمناک حد تک نرم اور لچکدار ہوچکا ہے۔ قانون کی حکمرانی پر سوال اٹھایا جارہا ہے۔ یہ صورت حال مزید برداشت نہیں کی جاسکتی۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے لیے درست ترین راستہ کون سا ہوسکتا ہے؟ سب سے پہلے فرقہ وارانہ بنیاد پر پائی جانے والی منافرت ختم کرکے مکمل ہم آہنگی پیدا کرنا ہوگی۔ یہ بات ہر وقت پیش نظر رہے کہ کسی بھی طرح کی ذہنیت کو محض طاقت یا دباؤ کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
’’جنوری ۲۰۰۲ء کے بعد جو کچھ کیا گیا تھا، وہ اب دہرایا جارہا ہے۔ کیا اب اِن کوششوں کا کوئی مختلف نتیجہ برآمد ہوگا؟ سب سے پہلے ہمیں یہ ذہن نشین کرنا ہوگا کہ جہاد کا اعلان کوئی فرد یا چند افراد کا گروہ نہیں کرسکتا۔ جہاد کا اعلان کرنے کا قانونی اور اخلاقی استحقاق صرف اور صرف منتخب حکومت کا ہے۔ انتہا پسند اقلیت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دنیا بھر میں جہاد کی ذمہ داری پاکستان پر یا صرف پاکستان پر عائد نہیں ہوتی‘‘۔
’’ہم نے مدارس کے لیے نئی پالیسی تیار کی ہے۔ اِس پالیسی پر عمل ناگزیر ہے تاکہ مدارس کے اچھے پہلو اجاگر ہوں اور بُرے پہلو ختم کر دیے جائیں‘‘۔
’’مدارس کے حوالے سے جو پالیسی اور حکمتِ عملی تیار کی گئی ہے، اُس کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ مدارس کے طلبا کو جدید ترین طریقِ تعلیم کے ذریعے مرکزی دھارے میں لایا جائے‘‘۔
’’ہمیں مساجد اور مدارس پر نظر رکھنی ہوگی تاکہ اُن کے ذریعے سیاسی اور مذہبی بنیاد پر تعصب نہ پھیلایا جاسکے۔ ہم اِس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ مساجد کو آزادی میسر ہو اور وہ اِس آزادی کے ساتھ بہتر انداز سے کام کرنے کے قابل ہوں۔ ہم مساجد کی آزادی ہر قیمت پر برقرار رکھیں گے۔ مگر تنہا آزادی کافی نہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس بھی ہونا چاہیے۔ اِسی صورت ہم آہنگی پروان چڑھ سکتی ہے۔ اگر ائمہ اپنی ذمہ داری کو سمجھنے یا اُس سے عہدہ برآ ہونے میں ناکام رہیں تو ہمیں لازمی طور پر اُن کے خلاف کارروائی کرنی پڑے گی، چند ایک اقدامات کرنے ہوں گے، پابندی لگانی پڑے گی‘‘۔
’’سب سے زیادہ ضروری ہے قانون کی حکمرانی۔ ملک کی حدود میں کوئی بھی فرد یا تنظیم قانون سے بالا نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں اندرونی طور پر قانون کی حکمرانی کا تصور مکمل طور پر نافذ کرنا ہے اور اِس طرح کہ ایسا دکھائی بھی دے‘‘۔
’’ہمیں کشمیر کے معاملے میں اپنے اُصولی موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹنا ہے۔ لازم ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا جائے۔ اس معاملے میں کشمیریوں کی امنگوں کا بھی احترام کیا جانا چاہیے۔ مگر یہ بھی لازم ہے کہ کسی بھی تنظیم کو کشمیر کاز کے نام پر دہشت گردی کی اجازت نہ دی جائے‘‘۔
’’جو پاکستانی گروپ یا فرد پاکستان کی حدود میں یا باہر دہشت گردی کی حمایت اور مدد کرتا پایا جائے گا، اُس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ اس معاملے میں تمام بین الاقوامی اطوار کا بھرپور خیال رکھا جائے گا‘‘۔
’’مسلح افواج کے کمانڈر کی حیثیت سے میں یہ اعلان کرنے میں بھی فخر محسوس کرتا ہوں کہ مسلح افواج کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ وطن عزیز کے دفاع کی خاطر ہم اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے سے دریغ نہیں کریں گے۔ اب کوئی بھی سرحد عبور کرنے کی کوشش نہ کرے۔ کسی کے بہکاوے میں مت آیے اور نہ ہی کسی خوش کُن تصور کے دھارے میں بہیے‘‘۔
’’اب میں آتا ہوں دہشت گرد تنظیموں کی طرف۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو ہر قیمت پر ختم ہونا ہی چاہیے۔ آپ پر معاملات واضح کرنے کے لیے میں ذہنوں میں الجھن پیدا کرنے والے تمام معاملات کا ذکر کرچکا ہوں۔ قوانین اور قواعد وضع کرنا یا فرامین جاری کرنا آسان ہے، ان پر عمل کرانا انتہائی دشوار ہے۔ میں نے جتنے بھی اقدامات کا ذکر کیا ہے، وہ تمام کے تمام معاشرے کو متوازن رکھنے اور ہر طرح کی عِلّت سے چھٹکارا پانے کے لیے ناگزیر ہیں۔ اگر ہمیں قوانین اور قواعد پر عمل کرانا ہے تو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کی بہتر کارکردگی ناگزیر ہے۔ سب کو اس حوالے سے اپنے فرائض عمدگی سے ادا کرنے ہوں گے‘‘۔
یہ کوئی پہلے سے تیار کردہ تقریر نہیں ہے۔ ان میں سے ہر لفظ ایک آرمی چیف نے ادا کیا تھا۔ جنوری ۲۰۰۲ء میں یہ تقریر اُس وقت کے آرمی چیف اور ملک کے چیف ایگزیکٹیو جنرل پرویز مشرف نے کی تھی۔ اِس تقریر سے کولڈ اسٹوریج کا آغاز ہوا۔ ایک طرف تو کشمیری گروپوں سے پاکستان کے تعلقات میں سرد مہری پیدا ہوئی اور دوسری طرف پاکستان نے طالبان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ مساجد، مدارس اور اُن سے وابستہ فلاحی اداروں کے نیٹ ورک کو کمزور بنانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔
چند ایک اقدامات سے مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے، تاہم مجموعی طور پر معاملات خرابی ہی کی نذر رہے۔ اِس کی مختلف وجوہ تھیں۔ صرف تین سال کے اندر اندر پرنالے پھر وہیں بہنے لگے۔ اب یہ بتانے کی تو شاید ضرورت نہیں رہی کہ ایسا کیوں ہوا، کیسے ہوا؟
جو کچھ جنوری ۲۰۰۲ء میں ہوا تھا اب اُسی کو دہرانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ مگر کیا واقعی یہ تمام خرابیاں دور ہوسکیں گی؟ کیا ریاستی عملداری بحال کی جاسکے گی؟ کیا ریاستی مشینری معاشرے کی حقیقی فلاح کی سمت کوئی مضبوط اور بھرپور قدم اٹھا سکے گی؟ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ آثار حوصلہ افزا نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل راحیل شریف سنجیدہ ہیں۔ مگر محض سنجیدہ ہو رہنے سے کیا ہوتا ہے؟ ۱۳؍سال پہلے کے مقابلے میں حالات بہت مختلف ہیں۔ فاٹا میں آگ لگی ہوئی ہے۔ فورسز کے دو لاکھ اہلکار وہاں لڑائی میں مصروف ہیں۔ پاک افغان سرحد کی خلاف ورزی دو طرفہ معمول بن چکی ہے۔ شہروں میں شدت و عسکریت پسند زیادہ فعال ہوچکے ہیں۔ جو کچھ ہوچکا ہے، اُس کا اعادے سے بچنا ہوگا۔ ایک اہم بات، بھارت کا معاملہ اب تک وہیں کا وہیں ہے۔ پاکستان کی بیشتر خرابیوں کی جڑ میں بھارت تھا اور ہے۔
“Crossroads, again”.
(Daily “Dawn” Karachi. January 18, 2015)
Leave a Reply