ہندومت اور یہودیت دو بڑے مذاہب ہیں۔ ہندومت نے بدھ مت‘ سکھ مت اور جین مت کو جنم دیا۔
ان دونوں مذاہب کے بڑے مراکز بالترتیب بھارت اور اسرائیل ہیں۔ دونوں میں کچھ چیزیں مشترک ہیں۔ دونوں کی جمہوریت اپنی اپنی طرز کی ہے‘ دونوں ملک تقسیم کے عمل سے گزر کر وجود میں آئے ہیں‘ دونوں ایٹمی طاقت ہیں (اسرائیل نے اعلان نہیں کیا)‘ دونوں کے پاس تکنیکی ماہرین اور کارکنوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ سرد جنگ کے دوران دونوں کو ایک نہ ایک بڑی طاقت کی سرپرستی حاصل رہی اور اب دونوں واحد سپر پاور کی آنکھ کا تارا ہیں۔
بھارت اور اسرائیل کے ثقافتی تعلقات دونوں ملکوں کے قیام کے بعد ہی سے استوار ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ موہن داس کرم چند گاندھی جنوبی افریقا میں اپنے ۲۰ سالہ قیام کے دوران یہودی کمیونٹی کے بہت قریب رہے اور جوہانسبرگ کی اپنی لاء فرم میں یہودیوں کو ملازم رکھا۔
اسرائیل مئی ۱۹۴۸ء کو وجود میں لایا گیا‘ بھارت نے اسے ۱۷ ستمبر ۱۹۵۰ء کو تسلیم کیا۔ بھارت نے فلسطین کے لیے اقوامِ متحدہ کے پارٹیشن پلان ۱۹۴۷ء کی ابتدا میں مخالفت کی تھی‘ بھارت کا اعتراض تھا کہ اسرائیل کو مذہب کی بنیاد پر وجود میں لایا جارہا ہے۔ تاہم فلسطین کے لیے بھارت کا حمایت کی بنیاد مذہب نہیں بلکہ قومی آزادی کے اصولوں پر تھی۔ گاندھی جی اور نہرو دونوں صیہونی تحریک کے سخت خلاف تھے۔ وہ یہودیوں کی صدیوں طویل جلاوطنی سے ہمدردی رکھتے تھے۔ تاہم عرب دنیا کے قلب میں یہودی ریاست کی تخلیق کے حامی نہیں تھے۔
اسرائیل کو تسلیم کر لینے کے فوراً بعد اسرائیلی اسکالر ڈاکٹر اِمانویل اولسوینگر (Immanuel Olsvanger) اور بھارتی وزیراعظم نہرو کے مابین یادگار خط و کتابت ہوئی تھی‘ ایک خط میں اسرائیلی اسکالر نے لکھا ’’۔۔۔ہم دونوں قوموں کی روحوں کے مابین بڑی قربت ہے۔ اس قربت کی تشریح نہیں کی جاسکتی‘ بس اسے محسوس کیا جانا چاہیے‘ جب میں رامائن کے اشلوک سنتا ہوں تو مجھے تلمود کے بعض حصے یاد آنے لگتے ہیں‘‘۔
جواہر لال نہرو ایوارڈ برائے بین الاقوامی مفاہمت ۱۹۶۸ء کے لیے معروف اسرائیلی وائلن نواز یہودی مینوہن کو چُنا گیا۔ اپریل ۱۹۵۸ء میں بھارتی رقاصہ شانتا رائو نے اسرائیل کا دورہ کیا‘ جواب میں اسرائیلی رقاصوں کے طائفے ’امبیک‘ (Imbak) نے بھارت جا کر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ شانتا رائو نے اسرائیل کے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان کے سامنے منتخب افراد کی ایک محفل میں فن کا مظاہرہ کیا۔
ممبئی میں قائم اسرائیلی قونصلیٹ نے دونوں ملکوں کے تعلقات استوار کرنے میں خاصا اہم لیکن بظاہر پس پردہ کردار ادا کیا۔ وہ یوں کہ متنوع اقسام کی ثقافتی سرگرمیوں کی آڑ میں دونوں ملکوں کی نمایاں شخصیات کے مابین تعلقات پیدا اور مستحکم کیے گئے‘ اس قسم کے سفارتی تعلقات بنانے میں ثقافتی سرگرمیاں (بظاہر غیرسیاسی) بہت اہم ہوتی ہیں۔ ممبئی کے اسرائیلی قونصلیٹ نے لیکچرز‘ سمپوزیم‘ نمائشیں‘ موسیقی کے میلے اور ادبی میلے منعقد کیے۔ اس نے بھارتی حلقوں میں اسرائیل کے حامیوں کو تلاش کرنے کے لیے فرینڈ شپ سوسائٹیز تشکیل دیں‘ جن کے نام بڑے معصوم اور بے ضرر ہوتے ہیں۔
۱۹۷۱ء میں نئی دہلی میں سوسائٹی آف پارلیمنٹری اسٹڈیز سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی قونصل جنرل یائر آرون نے دونوں ملکوںکی قربت کے اظہار کے لیے کہا ’’آپ کے پاس دنیا کی بلند ترین چوٹیوں والا ہمالیہ ہے تو ہمارے پاس بحیرۂ مردار ہے جو دنیا کا پست ترین مقام رکھتا ہے۔ بھارت اور اسرائیل دونوں برطانیہ کے احسان مند ہیں۔ آپ نے (برطانیہ سے) انتظام کے طریقے اور سول سروس منظم کرنا سیکھا‘ ہم نے انگلش قانون کی باضابطگی اور پروسیجرزسے فیض اٹھایا‘‘۔
اسرائیل سے جو سفارتکار بھارت بھیجے جاتے ہیں‘ وہ عموماً بڑے نرم خو‘ شائستہ اور ہندو ثقافت اور تاریخ سے آشنا ہوتے تھے۔ وینٹ کٹن سندا (Ventkatansanda) جیسے بھارتی اسکالرز نے اپریل ۱۹۶۹ء میں اسرائیل کا دورہ کیا‘ اس نے اس دورے میں مشرقِ وسطیٰ میں اولین آشرم بھی بنایا۔
اسرائیل کے نائب وزیراعظم شمعون پیریز ممبئی میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۹۲ء میں بھارت کے دورے میں وہ یوں گویا ہوئے ’’اسرائیل کے بانی بن گوریان تین عالمی شخصیات کے بڑے معتقد اور معترف تھے‘ حضرت موسیٰؑ‘ سقراط اور گاندھی۔ ان تینوں کی تصویریں وہ اپنی میز پر رکھتے تھے۔ پیریز کے بقول بھارت کے لیے آزادی کسی سیاستداں‘ کسی جرنیل یا آمر نے نہیں بلکہ ایک ’’پیغمبر‘‘ نے حاصل کی۔ بھارتی شخصیات نہرو‘ ٹیگور اور نرائن اپنی تحریروں اور خیالات کی بنا پر اسرائیل میں بڑی معروف تھیں۔
یہودی ادیب ڈاکٹر اے آرن سن (A.Aronson) کے بقول رابندر ناتھ ٹیگور کی شاعری کئی اعتبار سے بائبل کی قدیم زبان کے مماثل ہے۔ جب ٹیگور ۱۹۷۰ء کے عشرے میں یورپ گئے تو انہیں یورپیوں نے خصوصاً جرمن یہودیوں نے گرم جوشی سے خوش آمدید کہا۔ نہرو کی سوانح حیات کا خفیہ طور پر عبرانی میں ترجمہ کر کے شائع کیا گیا حالانکہ برطانیہ نے اس اشاعت کی مخالفت کی تھی۔ تل ابیب میں نہرو اور ٹیگور کے نام پر سڑکیں موجود ہیں۔
بھارت اور اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ بھارت میں آباد یہودیوں کو کبھی ظلم و ناانصافی کا نشانہ نہیں بنایا گیا اور وہ بڑے مزے سے وہاں رہ رہے ہیں۔ حضرت معین الدین چشتیؒ جیسی مسلم شخصیات سے یہودی بھی عقیدت رکھتے ہیں اور انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے بھارت کا سفر کرتے ہیں۔
بھارت میں آباد زیادہ تر یہودی ممبئی میں رہتے ہیں جو ملک کا اقتصادی مرکز ہے۔ اسرائیلی باشندے بھارت کو “Huda” بھی کہتے ہیں۔ بھارت میں یہودی کئی صدیوں سے آباد ہیں‘ ان کی پہلی کھیپ ۹۷۳ قبل مسیح میں کیرالہ کے مالابار ساحل پر پہنچی۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ ۵۸۶ قبل مسیح میں Babylon کے ہاتھوں Judea کی فتح کے بعد یہودی باشندے کرینگانور (Cranganore) آگئے جو کوچین سے ۲۵ میل شمال میں واقع تھا۔ بعد میں پرتگیزی ہندوستان میں وارد ہوئے اور ۱۵۰۲ء میں انہوں نے یہودیوں کو ستایا جس پر خوشحال یہودی وہاں سے کوچین چلے گئے جہاں کے راجہ نے انہیں پناہ دی۔
بھارت میں یہودی کمیونٹی کی تین اقسام ہیں: زرد جلد والے کوچین کے یہودی‘ سانولی رنگت والے بنی اسرائیل جو زیادہ تر ممبئی میں ہیں‘ تیسرے عربی بولنے والے یہودی جو زیادہ تر بغداد سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے ممبئی‘ پونا اور کلکتہ میں قومعے (مائنا گوگ) تعمیر کیے ہیں۔ بنی اسرائیل کے یہودی زیادہ تر مراٹھی بولنے والے ماہر کارکن اور پیشہ ور افراد ہیں۔ یورپ اور فارس و بخارا سے بھی کچھ یہودی دوسری جنگِ عظیم کے دوران بھارت آئے۔ یہ سب اسرائیل اور صیہونی تحریک کے کٹر حامی ہیں۔
۱۹۶۰ء کے عشرے کے اواخر میں یہودیوں نے بھارت سے اسرائیل کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ شمعون پیریز کے بقول ۵۰ ہزار بھارت نژاد یہودی اسرائیل میں آباد ہو چکے ہیں۔ شمال مشرقی بھارت میں آباد میزوس (Mizos) جو مذہباً عیسائی ہیں لیکن یہودی رسومات پر عمل پیرا ہیں‘ اُن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ اسرائیل کے ایک گمشدہ قبیلے کی اولاد میں سے ہیں۔ پیریز نے ان میزو سے کہا کہ وہ واپس آکر غزہ میں آباد ہو جائیں۔ بھارت سے بوہرہ اور بہائی کمیونٹی کے لوگ بڑی باقاعدگی سے اسرائیل جاتے رہتے ہیں۔ بہائیوں کا روحانی مرکز اسرائیل کے شہر حیفہ میں ہے۔ اسرائیلی سیاحوں کو شمالی علاقوں بالخصوص مقبوضہ کشمیر سے بہت دلچسپی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ شمارہ۔ ۱۲ دسمبر ۲۰۰۵۔۔۔ ترجمہ: منصور احمد)
Leave a Reply