
ترجمہ کہنے کو تو محض پانچ حرفی لفظ ہے، لیکن عملی طور پر یہ فن جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ پھر بھی ماضی قریب تک ترجمہ کو دوئم درجہ کا کام مانا جاتا تھا، یہاں تک کہ اسے تخلیقی و ادبی کام قرار دینے میں بھی دانشوروں کو پس و پیش تھا، لیکن پچھلے کچھ عرصے میں ترجمہ کے تئیں تعصب کی یہ فضا کافی تبدیل ہوئی ہے اور لوگوں میں یہ ادراک پیدا ہوا ہے کہ ترجمہ وہ کھڑکی ہے جس کے ذریعے سے دوسری زبانوں اور تہذیبوں سے متعارف ہونے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ ترجمہ نے ایک قوم کے علمی ذخیرے سے دوسری قوم کو روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی کے وسیلے سے ایک انسانی گروہ کے تجربات سے دوسری جماعتوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔
انسانی تہذیب و ثقافت اور علوم وفنون کے فروغ میں جہاں دیگر اسباب و عوامل کارفرما رہے ہیں، وہاں تراجم بالخصوص ادبی ترجموں کا اہم حصہ ہے۔ تراجم کے اس فن نے انسانی تہذیبوں اور قوموں کے درمیان پائی جانے والی متعدد رکاوٹوں کو دور کرکے حائل خلیج کو پاٹا ہے، اور اس کے ذریعے سے ہر عہد اور زمانے میں نوبہ نو افکار و نظریات کو ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک پہنچنے میں مدد ملی ہے۔ ترجمہ کے وسیلے ہی سے ایک زبان دوسری زبان کے رجحانات و تخیلات اور افکار و مزاج، نیز اس کی صرفی و نحوی ساخت سے آگاہ ہوکر زبان کے رنگ و روپ کو اپناتی ہے اور اپنی تنگ دامنی کو وسعت میں تبدیل کرلیتی ہے۔ لہٰذا یہ دعویٰ کرنا صحیح ہوگا کہ دوسری زبانوں کی تخلیقات کا ترجمہ بارہا قلمکاروں کو نئے ادبی میلانوں، تہذیبوں اور فنی معیاروں سے متعارف کراکر جدید احساسات و تجربات اپنانے پر آمادہ کرتا رہا ہے۔
کسی دوسری زبان کے مقابلے میں اردو کی مثال زیادہ واضح اور ہمارے سامنے کی ہے کہ اس کو ایک ترقی یافتہ زبان بنانے، قومی سطح پر مقبولیت بخشنے اور ملکی زبانوں میں امتیازی درجہ دلانے میں جہاں دوسرے عوامل کا عمل دخل رہا، وہاں انگریزی، عربی اور فارسی وغیرہ زبانوں سے مختلف علوم وفنون کے تراجم نے اس میں مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ ایسے ہی تراجم نے نوخیز اردو زبان کے لیے ترقیوں کے نئے دروازے کھول دیے اور ان کے وسیلے سے تازہ افکار و نظریات بالخصوص آزادی، ترقی پسندی، روشن خیالی اور تحقیقی و سائنسی طرزِ فکر کے جو خوش گوار جھونکے آئے، ان سے اردو زبان میں توانائی اور تازگی کی لہر دوڑ گئی۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اردو کو ایک باقاعدہ زبان کے مقام پر فائز کرنے میں تراجم کا سب سے بڑا کردار ہے۔ فورٹ ولیم کالج کے بعد دہلی کالج اور جامعہ عثمانیہ کے دارالترجمہ نے اس ضمن میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے، اس کی بدولت ہی یہ زبان بولی سے زبان تک کا سفر باآسانی طے کرسکی۔
تراجم کی ثقافتی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ایک دوسری مثال قدیم دانشوروں کی تصنیفی کاوشوں سے ملتی ہے۔ اگر سقراط، افلاطون اور مقراطیس کی ہزاروں سال پرانی تصانیف کا عربی زبان میں ترجمہ نہ ہوتا تو یہ قیمتی سرمایہ کبھی کا روم اور یونان کے پرانے کھنڈروں میں دب دباکر غارت ہوگیا ہوتا اور یورپ و ایشیا کے ایوانوں میں آج ان کی گونج سنائی نہ دیتی۔ اسی کے مثل بوعلی سینا، ابونصر فارابی، ابنِ رشد، الادریس کے کارنامے بغداد، غرناطہ اور یروشلم کے کتب خانوں میں ضائع ہوجاتے، اگر یورپی زبانوں نے انہیں اپنے قالب میں ڈھال کر چراغ سے چراغ جلانے کا سلسلہ جاری نہ رکھا ہوتا۔
جہاں تک ترجمہ کے فن یا ترجمہ نگاری کا تعلق ہے تو اس کے سبھی معترف ہیں کہ یہ ایک مشکل فن ہے، کیونکہ مترجم ایک زبان سے دوسری زبان کا معیاری ترجمہ اسی وقت کرسکتا ہے جب وہ دونوں پر عبور رکھتا ہو۔ ایسے ہی مترجم سے سلیس و معیاری ترجمے کی امید کی جاسکتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ دو مترجم مل کر ترجمہ کا کام کریں۔ ایک وہ ہو جس کی مادری زبان میں ترجمہ کیا جارہا ہو، اور وہ اصل زبان سے بھی جس کا ترجمہ ہورہا ہو، واقف ہو۔ دوسرا شخص اس کے برعکس ہو، یعنی جس زبان میں ترجمہ ہورہا ہو، اْسے بخوبی جانتا ہو اور جس زبان کا ترجمہ ہورہا ہو، وہ بھی اس کی مادری زبان ہو۔
ایک اور اہم بات یا خوبی جو مترجم میں ہونی چاہیے، وہ زبان پر گرفت کے ساتھ اس موضوع پر عبور ہے جس کا وہ ترجمہ کررہا ہو، یا کم از کم اس موضوع سے اس کا تعارف ہونا چاہیے جس کا ترجمہ ہورہا ہو۔ مثال کے طور پر مترجم قانونی دستاویز کو اردو کا قالب پہنا رہا ہے تو قانون کی اصطلاحات اس کی سمجھ میں آنی چاہئیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ماہر قانون ہو، لیکن اگر ایسا ہو تو یقینا اس کا ترجمہ فنی طور پر زیادہ معیاری ہوجائے گا۔ اس کے برعکس سائنسی، سماجی اور مذہبی مواد کا ترجمہ کرنا ہے تو متعلقہ لغات و اصطلاحات پر دسترس کے ساتھ مذکورہ علوم سے واجبی طور پر واقف ہونا ضروری ہے۔
اس میں سب سے مشکل کام ادبی ترجمہ ہے جس کے لیے صرف متبادل الفاظ کی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ شعرو ادب کی تخلیقی روایات اور تاریخی پس منظر سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ تخلیقی ادب کیونکہ ایک وجدانی عمل ہے لہٰذا اس کا ترجمہ اگر غیر وجدانی ہو تو وہ خشک وبے اثر ہوکر رہ جائے، اس لیے تخلیقی ادب کے تراجم میں وجدانی کیفیت کا شامل ہونا ضروری ہے۔ ادب بالخصوص شاعری، دوسرے موضوعات سے زیادہ انسانی جذبات کی مرہونِ منت ہوتی ہے اور جذبات کا ترجمہ میکانکی عمل سے تکمیل نہیں پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ تخلیقی ادب کے تراجم کے کام کو ماہرین نے ایک مشکل امر سے تعبیر کیا ہے۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ترجمہ خواہ بہت زیادہ لفظی یا من و عن نہ ہو، پھر بھی اصل کی روح اس میں اس طرح سماجاتی ہے کہ ترجمہ خود تخلیق کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔ ڈاکٹر جانسن کا تو دعویٰ ہے کہ شاعری کا ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا، حالانکہ شاعری کے معیاری تراجم ہوئے ہیں اور ان کو سراہا بھی گیا ہے۔ اکبر الہٰ آبادی نے بھی منظوم تراجم کی مشکلات کا اعتراف کیا ہے:
اگر ترجمہ ہو تو مطلب ہو خبط
معانی میں پیدا نہ ہو، ربط و ضبط
مواقع ہیں یہ، جن سے ڈرتا ہوں میں
مگر خیر کچھ فکر کرتا ہوں میں
اسی طرح ڈاکٹرظ۔ انصاری شعر و شاعری کے ترجمہ کو اس شاخ سے تعبیر کرتے ہیں، جسے چھوتے ہی اہلِ علم کی انگلیاں جل جاتی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنی شدت کے ساتھ اردو میں منظوم تراجم کی مخالفت ہوئی، اتنی ہی دلچسپی کے ساتھ مترجمین نے اس دعوتِ مبارزت کو قبول کیا۔ یہاں تک کہ مذہبی کتب کے منظوم تراجم بھی خوب ہوئے۔ بھگوت گیتا اور رامائن کے علاوہ قرآن کریم کے معیاری منظوم ترجمے کرنے والوں میں سیماب اکبر آبادی، کیف بھوپالی اور شان الحق حقی کے نام آتے ہیں۔
انگریزی سے اردو کے ادبی ترجموں کا آغاز مولانا محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی نے کیا، جس کا سلسلہ انیسویں صدی کے آخر تک جاری رہا، اور بیسویں صدی میں، خاص طور پر اس کے ربع اوّل میں تراجم کو بے حد فروغ ملا۔ ترجموں کو مقبول بنانے میں اس عہد کے ادبی رسائل نے بھی اہم کردار ادا کیا، جن میں ’’مخزن‘‘، ’’دکن ریویو‘‘، ’’افادہ‘‘، ’’تمدن‘‘، ’’تجلی‘‘، ’’ادیب‘‘، ’’زمانہ‘‘، ’’ہمایوں‘‘ اور ’’ادبی دنیا‘‘ متعدد انگریزی نظموں کے ترجمے شائع کرنے میں پیش پیش رہے۔ مذکورہ ترجمہ کرنے والوں میں علامہ اقبال کے علاوہ ضامن کشوری، عزیز لکھنوی، ظفر علی خان، غلام بھیک نیرنگ، حسرت موہانی، علی حیدر زیدی، غلام محمد طور، صادق علی کشمیری، شاکر میرٹھی، تلوک چند محروم، طالب بنارسی، محمد شفیع اور کرشن چندر نے خاصی تعداد میں ترجمے کیے۔ ترجموں کی اس کثرت کی بنا پر حاجی احمد فخری نے اپنے تحقیقی مقالے ’’دورِ تراجم‘‘ (مطبوعہ رسالہ) ’’اردو‘‘ صفحہ ۵۹۳ میں لکھا ہے: ’’اس دور میں سب سے ممتاز و نمایاں کام ترجمہ ہی نظر آتا ہے، اور اگر اسے ترجمہ کا دور کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔‘‘
بعد میں بھی جو رسالے جاری ہوئے ان میں ترجموں کا سلسلہ جاری رہا۔ تراجم کی اس رفتار کو دیکھ کر بقول حامد کاشمیری ’’بیسویں صدی کو تراجم کی صدی قرار دیا جائے تو درست ہوگا‘‘۔ علاوہ ازیں دارالمصنفین اعظم گڑھ، ہندوستانی اکیڈمی الہٰ آباد اور اردو اکیڈمی جامعہ ملیہ نے بھی مغربی علوم اور ادب کے گراں قدر ترجمے شائع کیے، اور آزادی کے بعد نیشنل بک ٹرسٹ، ساہتیہ اکیڈمی اور ترقی اردو بورڈ، موجود ترقی اردو کونسل نے ادبی و علمی کتابوں کے تراجم شائع کیے ہیں۔ اسی طرح ترجمہ کے شعبے میں دینی مدارس کی خدمات بھی ناقابلِ فراموش ہیں، جن میں ندوۃالعلما لکھنؤ، دارالعلوم دیوبند، جامعہ سلفیہ بنارس، جامعہ الفلاح اور جامعہ الاصلاح سرفہرست ہیں۔ مذکورہ مدارس میں عربی اور فارسی سے مذہبی اور ادبی کتابوں کے ترجمے کیے گئے جن کے مطالعہ سے ادبی اور مذہبی ترجموں کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ترجموں کی یہ روایت برگ و بار نہ لائی ہوتی تو آج اردو زبان دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں سے کیسے آشنا ہوتی اور اپنی تہذیب سے کیسے اس کا تقابل کرپاتی۔ آج اردو زبان مختلف تہذیبوں کی خوش رنگیوں سے اسی لیے مالامال ہے کہ اس میں ترجمہ کی روایت پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔
(بشکریہ: ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۱۰؍ اکتوبر ۲۰۱۲ء)
Leave a Reply