
امریکا کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے حساس معلومات کی نگرانی کے جامع منصوبے کے بارے میں صدر اوباما نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس ضمن میں نجی معلومات (پرائیویسی) اور سیکورٹی میں توازن کی ضرورت ہے۔ لیکن اب تک اس پروگرام کا دفاع کرنے والے ذمہ داران عوام کو یہ باور کرانے میں ناکام رہے ہیں کہ یہ توازن حاصل کرلیا گیا ہے یا یہ کہ بنیادی نجی حقوق اور شہری آزادیوں کی حفاظت کی گئی ہے۔
اب جب کہ یہ پروگرام منظر عام پر آگئے ہیں، امریکیوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ یہ توازن کیسے ہوگا۔ ہم کیسے ایک ایسا پروگرام تیار کرسکتے ہیں کہ جو ایک طرف تو خفیہ ایجنسیوں کو یہ اجازت دے کہ وہ اس قدر اہم مواد (معلومات) استعمال کرتے ہوئے دہشت گردوں کے حملوں کے خطروں سے بچاسکیں اور دوسری جانب ’’بڑے بھائی‘‘ کی سی ریاست کا امکان بھی نہ ہو۔ بہ الفاظ دیگر، ہم اس پر کیسے بھروسا کرسکتے ہیں؟
ہم جانتے ہیں کیوں کہ ہم ایسا پہلے بھی کرچکے ہیں۔
۲۰۰۶ء میں اسی اخبار نے دہشت گردوں کی مالی گردش کی معلومات حاصل کرنے والے پروگرام (TFTP) کی موجودگی کا انکشاف کیا تھا جو امریکی محکمہ خزانہ نے تیار کیا تھا اور اسی کی زیرنگرانی کام کررہا تھا۔ یہ پروگرام پہلے بھی اور اب بھی محکمہ خزانہ کی زیر نگرانی کام کررہا تھا اور جن معلومات تک رسائی حاصل کر رہا تھا، اسے سوسائٹی فار ورلڈ وائڈ انٹرنیشنل فنانشل ٹیلی کمیونی کیشن کی جانب سے ایسا کرنے کی محدود اجازت دی گئی تھی۔ اس پروگرام کے ابتدائی برسوں میں اس کی سر براہی ’’سوئفٹ‘‘ کرتا تھا جبکہ دیگر محکمہ خزانہ میں اس پروگرام کی نگرانی میں مدد کرتے تھے۔
سوئفٹ برسلز میںموجود عالمی پیمانے پر معاشی معلومات کی ترسیل کا ایک نظام ہے جو صنعت کاروں کی اپنی ملکیت ہے، جس کے تحت ملکی سرحدوں سے قطع نظر، دنیا بھر کے ممالک میں موجود بینکوں کو درکار مالی معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ ’’سوئفٹ‘‘ کی معلومات یہ بتاتی ہیں کہ کتنی رقم، کون اور کس کو فراہم کررہا ہے۔ اس میں کسی کی شناخت کے لیے خاص انفرادی معلومات بھی شامل ہوتی ہیں۔ نائن الیون کے فوری بعد دہشت گردوں کی رقم کی ترسیل کے بارے میں معلومات تک رسائی کے لیے محکمہ خزانہ نے سرکار کو ’’سوئفٹ‘‘ کی معلومات تک رسائی کی اجازت دے دی تھی۔
سوئفٹ نظام میں نجی بینکوں کے اکائونٹس کی معلومات نہیں ہوتیں۔ لیکن ایک ملک کا دہشت گرد اگر کچھ رقم دوسرے ملک میں کسی دہشت گرد کو بھیج رہا ہے تو یہ معلومات ’’سوئفٹ‘‘ کی اجازت یافتہ معلومات میں ضرور موجود ہوتی ہیں۔ رقم بھیجنے اور رقم وصول کرنے والوں کے نام، نیز ان کے اکائونٹ کی معلومات اس پیغام میں موجود ہوسکتی ہیں۔
ابتدا میں پرائیویسی اور شہری آزادی کا تحفظ اس پروگرام کا مرکزی حصہ تھا۔ این ایس اے کے برخلاف، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے امریکا اور اس سے باہر عوام کی معلومات تک رسائی غلط ہوگی۔
ان معلومات کی اہمیت اور پوشیدگی کے پیش نظر، ’’سوئفٹ‘‘ نے یہ تقاضا کیا ہے کہ ان معلومات تک سرکار کی رسائی محدود اور ایک خاص دائرے تک رہے تاکہ بڑے پیمانے پر معلومات تک رسائی کے خطرے سے بچا سکے اور صرف انھی معلومات تک سرکار کو کھوج اور تجزیے کی اجازت ہو کہ جس سے دہشت گردوں تک پہنچنے میں مدد مل سکے۔ کسی اور مقصد کے لیے ان معلومات کی تلاش پر پابندی ہو۔
محکمہ خزانہ اور سوئفٹ نے یہ باور کرایا ہے کہ ان معلومات تک رسائی کو محدود کیا جارہا ہے اور ان معلومات کا تجزیہ کرنے والوں سے بھی سختی کے ساتھ اس پر عمل کرایا جائے گا۔ ’’سوئفٹ‘‘ کے آڈیٹرز نے ان معلومات کے محدود استعمال کی توثیق کی ہے، اور سوئفٹ کے اپنے نمائندوں (جو ’اسکروٹینئرز‘ کہلاتے ہیں) کے پاس یہ اختیار ہے کہ اگر وہ یہ سمجھیں کہ معلومات تک رسائی اور استعمال خلافِ ضابطہ ہورہی ہے تو وہ فوری طور پر ان معلومات تک رسائی کو روک سکتے ہیں۔ یہ آزاد ارکان سرکاری اداروں میں رہتے ہیں اور مذکورہ نظام پر فوری کارروائی کرسکتے ہیں۔ ہر بار جب ایک سرکاری تجزیہ کار معلومات کا تجزیہ کرتا ہے تو یہ نمائندہ اسی وقت اس تجزیے پر نظر ثانی کرسکتا ہے۔ ہر تجزیے کے ساتھ اس کے لیے ایک موثر جواز پیش کرنا ضروری ہے کہ یہ تجزیہ صرف اور صرف دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ہی کیا جارہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ درکار معلومات کی فراہمی کم کی جاتی ہیں۔ یہ واضح رہے کہ جو معلومات استعمال کی جاتی ہیں، ان کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کہا جاتاہے کہ یہ انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے حاصل کی جارہی ہیں۔
جب یورپی معلومات کی پرائیویسی کے حامیوں اور سیاست دانوں نے اس پروگرام پر اعتراض کیا تو دہشت گردی کے مخالف فرانس کے معروف جج Jean-Louis Burguière کویہ ذمہ داری سوپنی گئی کہ وہ یورپی پارلیمنٹ کے لیے اس پر تفصیل سے نظر ثانی کریں۔ چنانچہ پہلے انہوں نے ۲۰۰۸ء میں اور پھر ۲۰۱۰ء میں یہ واضح کیا کہ اس پروگرام کے تحت محکمہ خزانہ نے شہری آزادی کا تحفظ کیا ہے۔ پروگرام خاصا مؤثر تھا۔ جو خفیہ مالی معلومات اس پروگرام کے تحت حاصل کی گئی تھیں، ان سے امریکا، جرمنی، اسپین اور برطانیہ میں دہشت گردی کی روک تھام میں بڑی مدد ملی تھی۔ سوئفٹ سے حاصل ہونے والی معلومات سے ہزاروں گتھیاں سلجھیں، یہاں تک کہ جنوبی ایشیا میں القاعدہ کے مرکزی کردار کو گرفتارکرنے میں اوراسی طرح نیویارک سٹی اور پاکستان میں دہشت گردوں کے مالی نیٹ ورک کا سراغ لگانے میں اس پروگرام سے مدد لی گئی۔
ان معلومات کا استعمال قانونی، محدود، واضح، برہدف اور آڈٹ شدہ تھا۔ اس پروگرام میں یہ اعلیٰ معیار قائم کیا گیا تھا کہ سرکار کو فراہم کی جانے والی خفیہ معلومات کی کیسے حفاظت کی جائے۔ محکمہ خزانہ قانونی طور پر بڑی مقدار میں سوئفٹ کے مالی پیغامات والی معلومات حاصل کرتا تھا، اور جلد یا بدیر اسے ملک یا بیرون ملک لوگوں کے سامنے پیش کردیا جاتا۔
بہرکیف، ایک ایسے ماڈل کی ضرورت باقی تھی کہ جس میں سرکار جو معلومات استعمال کرتی ہے، اسے کیسے محدود کیا جائے کہ صرف اتنی ہی معلومات تک رسائی ہو جو دہشت گردی کے تدارک کے لیے ضروری ہے اورپرائیویسی اور شہری حقوق کی حفاظت بھی ہوسکے۔
ٹی ایف ٹی ایس کی بحث ایک لحاظ سے موجودہ این ایس اے پر بحث کی پیش رو تھی۔
امریکی شہریوں کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ ان کی پرائیویسی مجروح نہیں ہوگی، سرکار کو یہ دکھانا ہوگا کہ این ایس اے کی جو معلومات بھی حاصل کی جارہی ہیں ان میں غلطی کا امکان کم سے کم ہے اور ان کا احترام کیا جاتا ہے۔متاثر ہونے والی پرائیویٹ کمپنیوں کو یہ بتانا چاہیے کہ ان کی جو معلومات حاصل کی جارہی ہیں، وہ کیسے استعمال کی جارہی ہیں یا بہ الفاظ دیگر، کیسے ترتیب دی گئیں اور کیوں کر عوام کے فائدے کے لیے ہے۔ یہ ممکن ہے، سرکار پہلے سے ایسا کچھ کررہی ہو لیکن عوام کو یہ بتانا ضروری ہے۔
المختصر، اوباما انتظامیہ کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ یہ پروگرام نہ صرف اہم اور قانونی ہے بلکہ سرکار جو معلومات استعمال کرتی ہے وہ محدود اور مصدقہ ہوتی ہیں۔
(“Data Mining, without Big Brother”…”New York Times”. July 2, 2013)
Leave a Reply