
جیسا کہ ’اے ایف پی‘ نے ہمیں بتایا ہے کہ انسٹی ٹیوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سیکورٹی(آئی ایس آئی ایس) نے حال ہی میں پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں ایک رپوٹ شائع کی ہے جو ’’پاکستانی نیوکلیئر پروگرام کنٹرول سے باہر ہے‘‘ کی اسٹوری پر تیل چھڑکنے کی کوشش سے تعبیر کی جاسکتی ہے۔
ہم جب خبرپر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ساری تفصیلات نہیں ہے۔ سٹیلائٹ تصاویر سے پتا چلتا ہے کہ ڈیرہ غازی خان کے نزدیک’ کیمیکل پلانٹ کمپلیکس‘ کو توسیع دی جارہی ہے‘جس میں ایٹمی ہتھیاروں کی بنائوٹ میں استعمال ہونے والا مواد‘ یورینیم ہکسافلورائڈ اوریورینیم دھات تیار کیا جاتا ہے۔
میں اِسے بڑاواویلا کہوںگا۔ پاکستانیوں کو اپنے نیوکلیئر ہتھیاروں سے پیار ہے اور یہ کوئی حیران کن بات نہیں‘ کیوں کہ وہ این پی ٹی (نان پرولیفیریشن ٹریٹی ) سے باہر ایک خود مختار ملک ہے ‘اس لیے وہ کچھ مزید (ہتھیار )تیار کرنے کا ارادہ کرسکتے ہیں۔
اس رپورٹ کو مسترد کرنے کی واحد قابل فہم دلیل ’’الجھائو پیدا کرنے والا واویلا‘‘ ہے‘ ایک ایسی دلیل جو آئی ایس آئی ایس خود خوشی اخلاقی کے ساتھ فراہم کررہی ہے۔
پاکستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کے ساتھ پاکستان میں شروع ہونے والی افراتفری کی مثال دیتے ہوئے’ آئی ایس آئی ایس ‘بتاتی ہے کہ’’اس کے ایٹمی اثاثوں کی سیکورٹی ایک سوال ہے‘‘ مزید بتاتی ہے کہ ’’پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی پیداوری صلاحیت میں وسعت پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی سیکورٹی کو بہتر بنانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو غیر ضروری طور پر پیچیدہ بنا رہی ہے‘‘
یہ میری سمجھ میں نہیںآیا۔ قابلیت یا گنجائش میںوسعت نے کس طرح چیزوں کو اچانک سے پیچیدہ کردیا؟
واشنگٹن جس کو بظاہر یقین ہوچلا ہے کہ اس کے پاس القاعدہ ‘ افغان اور پاکستانی طالبان کے بارے میں کچھ زیادہ بتانے کو نہیں ‘ اس نے ایک مسئلہ کے ساتھ خود ساختہ مسائل جوڑنے کے ڈرامائی منصوبوں کا ایک سیلاب کھڑا کیا‘جن کے مطابق اگر حالات خراب ہوجاتے ہیں تو اس صورت میں پاکستان کے نیوکلیئر ہتھیار پاکستان سے اینٹھنے کی کوشش کی جائے اور اس نظریہ کو بیچنے کا مقصد پاکستان کے جوہری پروگرام سے متعلق نامعقول خوف کوہوا دینا معلوم ہوتا ہے۔ سرطان کے مانند یہ مرض پھیل کر بڑے سے بڑا ہوتا جائے گا اگر ہم نے اس کا علاج نہ کیا۔
آپ کو پتہ ہے اس سے مجھے کس چیز کی بو آتی ہے؟
یہ مجھے ایٹمی عدم پھیلائو کے ریڈیکل امریکی نظریہ کو ٹیبل پررکھنے کی چند افراد کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔پس جب یہ سال کا آخر ہے اور غیر مستحکم ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ایک اور ملک سے معاملہ کرنے کا موقع ہے اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ایک وہ جو افغانستان کی دوسری طرف ہے اوروہ جس کے بارے میں اسرائیل بہت فکرمند ہے۔رائے عامہ کو اس خیال کو قبول کرنے کے لیے تیار کیا جاچکا ہے کہ دنیا کو ایک آئوٹ آف کنٹرول اسلامی ایٹمی پروگرام سے محفوظ کرنے کے لیے فضائی حملوں‘ اسپیشل آپریشن اور امریکی فورسز کو شامل کرنا ضروری ہے۔
پاکستان میں بحران اور خطرناک اسلامی جوہری اثاثوں پر امریکا کا ہاتھ مَسّلنا ’نیتن یاہو‘ کے لیے اس سال سب سے اچھی چیز ہوگی۔ ہم دیکھ لیں گے، بہرحال میں نہیں سمجھتا کہ ہمارے لیے پاکستان کے ایٹمی ہتھیار کوئی مسئلہ ہے۔ ہمیں خوف کے ناقاقبت اندیش اور مایوس کرنے والے کاروبار سے خطرہ ہے‘ جس سے ہر اُس شخص کے لیے خطرے کی گھنٹی بجنی چاہیے جس کو عراق جنگ یاد ہے۔
آسان الفاظ میں ہم ڈیوڈ البرائٹ مسئلہ سے دوچار ہیں۔آئی ایس آئی ایس کو ڈیوڈ البرائٹ چلا رہے ہیں۔
گزشتہ برس اسکاٹ ریٹّر نے حقیت کی تلاش میں’ایک ایسا جوہری ماہر جو کبھی ماہر نہیں رہا‘کے عنوان سے البرائٹ کو شرمناک حد تک کھول کررکھ دیاتھا۔
اس نے البرائٹ کو ’نیوکلیئر ویپن گائے‘بننے کا خواہاں اتائی(شوقیہ فنکار) قرار دیا‘جس نے اپنے آپ‘ اپنے اعزازی ڈاکٹریٹ اوراپنے ادارے کی تشہیر و ترقی کے لیے بودے حیلے تراشے ہیں۔
زیادہ اہم طور پر ریٹّر نے البرائٹ کی بنیادی اسناد کو اس کی طرف سے وقت کے مطالبے پر بے خبر اورمیلانی واویلے کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنے سے تعبیر کیاہے۔
ریٹرّ نے ایٹمی عدم پھیلائو کی بحث سے متعلق البرائٹ کے کردار کے بارے میں اپنے احساسات کا خلاصہ یوں بیان کیا ہے: ’’اپنی تخلیق ’آئی ایس آئی ایس ‘ کے بھیس میں کام کرنے والا البرائٹ بہت ہی حساس امور کے بارے میں مبالغوں اور قیاس آرائیوںکو ایسے انداز میں پیش کرنے کا ایک ریکارڈ رکھتا ہے جو بحث کو بدترین منظرنامے کی طرف لے جاتا ہے۔اگر چہ البرائٹ اپنی پوزیشن کو معتدل بنانے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کی پھیلائی ہوئی سنسنی رائے عامہ پر منفی اثرات مرتب کرنے کے لیے موجود رہتی ہے۔اس کو رُک جانا چاہیے۔ وقت آگیا ہے کہ مین اسٹریم میڈیا ڈیوڈ البرائٹ کو اس حیثیت میں ڈیل کرنا شروع کردیں جوحیثیت اس کی ہے یعنی ایک تیسرے درجے کا رپورٹر اور تجزیہ نگار اور نہ کہ اس حیثیت میں جو اس کی نہیں ہے یعنی اقوام متحدہ کا سابق ویپن انسپکٹر ‘ڈاکٹر‘ایٹمی سائنس دان یا جوہری ماہر۔
وقت آگیا ہے کہ اتفاقی طور پر انسپکٹر رہنے والا ڈیوڈ البرائٹ اسٹیج سے اُتر جائے۔ جوہری ہتھیاروں کا ممکنہ پھیلائو اور اس سے متعلق مسائل اتنے سادا نہیں کہ اَتائی اور شوقیہ فنکار ان کوحل کرنے لگیں۔
نوٹ: پیٹرلی ایک بزنس مین ہیں۔ انہوں نے ایشین افیئرز کا مشاہدہ‘ تجزیہ اور اس پر لکھنے پر تقریباً۳۰ سال صرف کیے ہیں۔
(بشکریہ: ’’کائونٹر پنچ‘‘ امریکی نیوز لیٹر۔ ۲۰مئی ۲۰۰۹ء۔ ترجمہ: ابو سعد)
Leave a Reply