
تُرک صدر رجب طیب ایردوان نے ۹ جولائی کو انصاف و ترقی (اے کے) پارٹی کے رہنما وزیراعظم احمد داؤد اولو کو دعوت دی کہ وہ نئی حکومت تشکیل دیں۔ نومبر ۲۰۰۲ء کے بعد پہلی مرتبہ ۷ جون کو ہونے والے انتخابات میں اے کے پارٹی قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت برقرار نہیں رکھ سکی۔ انتخابات کے ۳۳ روز بعد نئی حکومت کے لیے کوششوں کے آغاز کی تُرک سیاسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یہ حالات ان افواہوں کو تقویت دے رہے ہیں کہ ایردوان کی واضح ترجیح نئے انتخابات ہیں، جن کے ذریعے وہ مخلوط حکومت بنانے کے بجائے زیادہ سازگار نتائج حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں۔
یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے کیونکہ ایردوان اور ان کی جماعت کے لیے طویل عرصے تک برسرِاقتدار رہنے کے بعد اب طاقت میں شراکت زیادہ خوشگوار نہیں ہوگی۔ چونکہ ترکی میں ابھی تک پارلیمانی طرز کی جمہوریت ہے، اس لیے اگست ۲۰۱۴ء میں ایوانِ صدر منتقل ہونے والے ایردوان کے لیے صدارتی نظام کے تحت اپنے محل سے معاملات چلانا اُسی وقت ممکن ہوگا جب داؤد اولو کی حکومت میں اے کے پارٹی کے ممبران کی اکثریت کی حامل پارلیمان ایسا کرنے کی اجازت دے۔
داؤد اولو نے ۹ جولائی کو اپنا استعفیٰ ایردوان کو پیش کیا، مگر اُنہیں اپنے وزرا کے ساتھ نگراں حیثیت میں کام کرنے کی ہدایت کی گئی۔ داؤد اولو مخلوط حکومت کے لیے اب قومی اسمبلی میں نمائندگی رکھنے والی تین دیگر جماعتوں کے رہنماؤں سے بات چیت کررہے ہیں۔ مگر دوسری طرف یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ ۵۵۰ نشستوں کی حامل پارلیمان میں اکثریت رکھنے والی حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا انتخابات کے بعد اب تک حکومت بنانے میں ناکام رہنا اے کے پارٹی کی مذاکراتی حیثیت مضبوط کرگیا ہے۔ ملّی حرکت پارٹی (ایم ایچ پی) کے رہنما دولت باغچہ لی (Devlet Bahceli) کی جانب سے کُرد نواز عوامی جمہوری پارٹی (ایچ ڈی پی) کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعاون سے صاف انکار اس ناکامی کی بنیادی وجہ ہے۔ یہ اختلافات اس وقت اور واضح ہوئے جب محض ۲۵۸ نشستوں کی حامل اے کے پارٹی کے عصمت یلماز یکم جولائی کو قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوگئے۔
لیکن ایچ ڈی پی کے ساتھ اتحاد کو مسترد کرنے والی اے کے پارٹی کے لیے ایم ایچ پی یا جمہوری خلق پارٹی (سی ایچ پی) کے ساتھ حکومت بنانا بھی مشکل ہوگا۔ انتخابات کے بعد سے دونوں جماعتوں کا اصرار ہے کہ ایردوان کے حکومت میں مداخلت کے اختیارات محدود کیے جائیں اور ۲۰۱۳ء میں روکی جانے والی بدعنوانی کی تحقیقات دوبارہ شروع کی جائیں۔ ایردوان کی سیاسی صلاحیت محدود کرنے پر داؤد اولو کو شاید اعتراض نہ ہو، مگر ایسے کسی اتفاقِ رائے تک پہنچنے میں ایردوان رکاوٹ ہیں جنہوں نے داؤد اولو کو اس مقام تک پہنچایا اور اب بھی اپنی جماعت اور اس کی حامیوں پر مضبوط گرفت رکھتے ہیں۔ داؤد اولو کو اس خطرے کا بھی احساس ہے جو ستمبر ختم ہونے سے قبل اے کے پارٹی کے اجلاس میں ان کے عہدے کو لاحق ہوسکتا ہے، جس میں ایردوان اپنی قوت کا بھرپور مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ لہٰذا اس ضرورت کا مکمل احساس کرتے ہوئے کہ ایردوان کی صدارت مذاکرات کا حصہ نہ بننے پائے، داؤد اولو ایک طرف اپنے ممکنہ اتحادیوں سے اور دوسری جانب ایردوان سے بات چیت کررہے ہوں گے۔
اگر ۲۳؍اگست تک کوئی حکومت نہ بنی تو آئین کے تحت ایردوان نئے انتخابات کا اعلان کرسکتے ہیں۔ پھر داؤد اولو کو استعفیٰ دینا ہوگا اور ایردوان نگراں وزیراعظم مقرر کریں گے جو ملک کو انتخابات کی طرف لے جائے گا۔ بہت ممکن ہے کہ ایردوان کی نگاہِ انتخاب دوبارہ داؤد اولو پر ہی پڑے، مگر حکومتی ارکان کی تعداد کا تعین قومی اسمبلی میں جماعتی نمائندگی کے ذریعے ہی ہوگا جس سے انصاف، داخلہ اور مواصلات کی وزارتیں مستثنیٰ ہیں جو آزاد ارکان کو دینی ہوں گی۔ پھر بھی ممکن ہے کہ ایچ ڈی پی کی طرح ایم ایچ پی بھی اس حکومت کا حصہ بننے سے انکار کردے کیونکہ یہ افواہیں گرم ہیں کہ وہ انتخابات تک اے کے پارٹی کی اقلیتی حکومت کی حمایت کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس طرح اے کے پارٹی ان نقصانات سے بچ سکے گی جو حکومت میں نہ رہتے ہوئے انتخابات کی طرف جانے سے ہوں گے اور حالات موجودہ غیریقینی صورتِ حال کی ہی ایک بدلی ہوئی شکل ہوں گے۔ انتخابی اکثریت کھو دینے کے باوجود ۷ جون کے بعد بھی ایردوان کی زیرِ نگرانی اے کے پارٹی حکومت ملک چلارہی ہے، سرکاری تقرریاں کررہی ہے، معروف صحافیوں پر مقدمے بنارہی ہے، شام کے بحران پر امریکا سے مذاکرات کررہی ہے، حتیٰ کہ جنوبی سرحد سے پرے عسکری مداخلت کی تیاریاں بھی کررہی ہے۔
جیسا کہ ۷ جون کے انتخابی نتائج نے ظاہر کیا، تُرک سیاست کسی بھی وقت غیر متوقع رخ پر پلٹ سکتی ہے۔ لہٰذا یہ بھی ممکن ہے کہ اے کے پارٹی اور سی ایچ پی کا اتحاد ہوجائے۔ اس سے کم امکان اے کے پارٹی اور ایم ایچ پی کے اتحاد کا بھی ہے۔ بہرحال اگر ایسا کوئی معاہدہ ہوبھی جاتا ہے تو اتحادی حکومت کے زیادہ عرصے چلنے کے امکانات کم ہیں، کیونکہ اے کے پارٹی اقتدار میں شراکت نہیں چاہتی اور اس کے اور ممکنہ اتحادیوں کے درمیان داخلی، معاشی اور خارجی معاملات پر سنجیدہ اختلافات ہیں۔ ایک اور ممکنہ منظرنامہ یہ ہے کہ آئینی مدت کے دوران حکومت نہ بنائی جاسکے اور ایردوان ۲۰۱۵ء ختم ہونے سے قبل دوبارہ انتخابات کروادیں۔
گو کہ دوبارہ انتخابات کے ممکنہ نتائج کی بابت کچھ کہنا ابھی بہت زیادہ قبل از وقت ہوگا، تاہم اتنا کہا جاسکتا ہے کہ عوام سے دوبارہ رجوع کرنا ایردوان اور ان کی جماعت کے لیے ایک بڑا جوا کھیلنے کے مترادف ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ۷ جون سے جاری بحران کے بعد انہیں امید ہوگی کہ ایم ایچ پی کی طرف جانے والے قوم پرست اور ایچ ڈی پی کا ساتھ دینے والے کُرد دوبارہ اے کے پارٹی کو ووٹ دیں گے، تاہم یہ بھی پوری طرح ممکن ہے کہ انتخابی قوت ایک بار ہاتھ سے نکل جانے کا نتیجہ مزید ابتری کی صورت میں سامنے آئے۔
(مترجم: حارث رقیب عظیمی)
“Davutoglu begins effort to form a coalition government”. (“csis.org”. July 10, 2015)
Leave a Reply