
نامعلوم بندوق بردار نے آج بغداد کے شمالی مشرقی علاقے میں بس میں سوار اکیس لوگوں کو ہلاک کردیا جس میں بارہ ہائی اسکول کے طلبہ تھے جو امتحان دینے کے لیے بکوبہ جارہے تھے۔ مرنے والوں میں اُنیس شیعہ اور دو کرد تھے۔
مغربی میڈیا اس ہلاکت کے لیے سنی گروپوں کو ذمہ دار ٹھہرانے میں اتنی ہی چابک دستی کا مظاہرہ کرتا ہے جتنا اس کے برخلاف ہونے والی ہلاکتوں کے لیے شیعوں کو موردِ الزام ٹھہرانے میں‘ اسے ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ عراق میں مسلکی تشدد کی وارداتوں کے نام پر اصل حقیقت کو بڑے پُر فریب انداز میں چھپایا جارہا ہے۔ دراصل غیرملکی فوجی مستقر پر حملے کے علاوہ اکثر ہونے والی وارداتوں کے پیچھے اس عالمی صیہونی مافیا کا ہاتھ ہے جو بڑے پیمانے پر انسانی اعضاء کی خرید و فروخت (Organ Trading) کے گھنائونے کاروبار میں ملوث ہے۔ امریکا نے عراق پر جب سے ’’آزادی‘‘ مسلط کی ہے تب سے اس کاروبار سے جڑے لوگ انسانی لاشوں کا سوداکرکے اربوں ڈالر منافع کماچکے ہیں۔
عرب ذرائع ابلاغ نے خفیہ ترین یورپین فوجی رپورٹ کے حوالے سے یہ سنسنی خیز خلاصہ شائع کیا ہے جس کے مطابق:’’امریکی ڈاکٹروں کی ایک خفیہ ٹیم فوج کے ذریعے عراقی مسلح دستوں پر کیے جانے والے حملوں کا مستعدی سے تعاقب کرتی ہے اور شدید طور پر زخمی اور ہلاک ہونے والوں کو طبی سہولیات پہنچانے کے نام پر فوری آپریشن (Quick Operation) کر کے ان کے جسموں کے قیمتی اجزا کو نکال کر محفوظ کر لیتی ہے‘ جنہیں بعد میں فروخت کرنے کے لیے امریکا اور دیگر ممالک کو بھیجا جاتا ہے۔ رپورٹ میں دس لاشوں کے مسخ کیے جانے اور جسم کے کئی اجزاء کے غائب ہونے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ کچھ لاشیں بغیر سر کے پائی گئی ہیں۔ امریکی فوج اب تک اس کی معقول وجہ بتانے سے قاصر ہے۔ اسکی یہ تاویل کہ شاید گولی لگنے سے جسم کا وہ حصہ بری طرح متاثر ہوگیا ہو‘ نہ صرف سچائی کو چھپانے کی ناکام کوشش ہے بلکہ طبی نقطہ نظر سے بھی ناقابل قبول ہے ۔ نیز فلوجہ میں جو مسخ شدہ او رجلی ہوئی لاشیں برآمد کی گئی تھیں ان کے ساتھ بھی یہی گھائونا فعل دہرایا گیا تھا۔ یہاں تک کہ ابوغریب اور دیگر جیلوں میں ہلاک کیے گئے حریت پسندوں کا آپریشن کرکے ان کی آنکھیں‘ گردے‘ پھیپھڑے اور دل نکال لیے گئے تھے‘ اس کے بعد لاشوں کو یا تو جلا دیا گیا یا انہیں کہیں محفوظ جگہ پر ٹھکانے لگادیا گیا۔‘‘
یورپین فوجیوں نے جب اس حوالے سے اپنے اعلیٰ حکام کو مطلع کیا تو معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے انہیں خاموش رہنے کی ہدایت دی گئی۔ انسانی اعضاء کی امریکا‘ یورپ اور اسرائیل میں کافی کھپت ہے۔ امریکا میں روزانہ ۱۷ افراد جسمانی اعضاء کے ناکام ہوجانے سے مرجاتے ہیں اور وہاں اعضاء کی طلب میں ۲۳۶فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ جہاں یورپ میں چالیس ہزار لوگ گردے کی دستیابی (Kidney Transplantation) کے منتظر ہیں وہیں اسرائیل میں گردے کے امراض میں مبتلا لوگوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
زندگی کی حریص ان اقوام کو موت سے بے حد ڈر اور گھبراہٹ ہوتی ہے‘ اس لیے عطیہ میں ملنے والے گردے (Donated Kindney) کے لیے چار سے سات سال تک کا طویل انتظار انہیں تڑپ تڑپ کر مرنے کے مانند لگتا ہے۔ اس کا فوری حل اس طور پر دریافت کیا گیا ہے کہ لوگوں کو ہلاک کرکے‘ ان کے جسمانی اعضاء نکال کر ان کی گلوبل مارکیٹنگ کی جائے۔امریکی طبی ماہرین نے اس کے لیے عراق میں اپنے سیکڑوں گائیڈ مقرر کر رکھے ہیں جو انہیں دھماکوں یا ہلاکتوں کی بروقت اطلاع فراہم کرتے ہیں‘ تاکہ زخمیوں کے جسموں سے آنکھیں‘ دل پھیپھڑے اور گردے نکالے جاسکیں۔ یہ ٹیمیں انہیں ایک صحیح سالم گردے کے لیے چالیس ڈالر اور ایک آنکھ کے لیے پچیس ڈالر مہیا کراتی ہیں۔ یہ تصویر کا صرف ایک رُخ ہے ‘ تصویر کا دوسرا رُخ بھی اس سے کم تشویشناک نہیں ہے۔
پچھلے پندرہ سالوں کی معاشی پابندیوں اور جنگوں نے عراق کے اقتصادی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کردیا ہے۔ وہاں بیروزگاری کی شرح ساٹھ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اس سنگین صورتحال نے عراقی شہریوں کو عالمی جسمانی اعضا مافیا (International Human Organ Traffiking Mafia) کا آسان شکار بنا دیا ہے۔ غربت و افلاس‘ بیماری اور بے گھر عوام اپنے جسمانی اعضاء فروخت کررہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جنہوں نے ان کے ملک کی یہ درگت کی ہے‘ انہی کے ہاتھوں وہ اپنی عظمت کی درگت کروانے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔ عراقی پولیس میں شامل ہوکر ۱۵۰ ڈالر ماہانہ تنخواہ پر اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے بجائے اپنے جسم کے کسی حصے کو فروخت کرکے پانچ سے دس ہزار ڈالر حاص کرلینا انہیں کم خطرناک سودا لگتا ہے۔ حالانکہ یہ ان کے دین اور شریعت کے منافی عمل ہے۔ اسلام نے جسم کے کسی بھی عضو کی خریدو فروخت اور منتقلی کو سخت گناہ اور ممنوع قرار دیا ہے۔ اسی لیے عراق کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ سبھی شہری از خود ایسا نہیں کرتے بلکہ زیادہ تر مافیا کے ذریعے یرغمال بنالیے جاتے ہیں اور زبردستی ان کے اعضاء کو نکال کر امیر تاجروں کے ہاتھوں فروخت کردیا جاتا ہے۔
ملک میں یہ کاروبار اتنا منظم ہوچکا ہے کہ دستیاب ہوجانے کے کچھ ہی منٹوں بعد آپ کو اپنا مطلوبہ عضو فراہم کردیا جائے گا۔ بغداد کا کراما اسپتال وہ مقام ہے جہاں آپ آسانی سے گردہ خرید سکتے ہیں۔ ایک شخص جس کا نام بشر ہے اور جو اسپتال کے سامنے بظاہر چائے اور کولڈ ڈرنک کی دکان لگاتا ہے لیکن اس کا اصل کاروبا ریہی ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتا ہے: ’’میں آپ کے لیے ایک صحت مند گردے کا بندوبست کردوں گا جس کی قیمت دو سے تین ہزار ڈالر کے درمیان ہوگی۔ بس آپ مجھے اپنے خون کا نمونہ فراہم کردیں اور اس سے پہلے کہ آپ یہ پیپسی ختم کریں‘ آپ کا کام ختم ہوچکا ہوگا۔‘‘ گردہ فروخت کرنے والا الصدر شہر کا ۳۲ سالہ بیروزگار نوجوان علی حسین اس کی جو وجہ بتاتا ہے وہ سینہ چھلنی کردینے کے لیے کافی ہے۔ ’’میں چار بچوں کا باپ ہوں او رمیری بیوی کافی بیمار ہے‘ میرے پاس کاروبار نہیں اور مجھے پیسوں کی سخت ضرورت ہے اس لیے میں نے اپنے گردے بیچنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘حالانکہ الخیال اسپتال کے Transplant Department کے ڈاکٹر کریمہ عباس اس خرید و فروخت کے سخت مخالف ہیں لیکن علی حسین جیسے لوگوں کی مظلومانہ دلیلوں پر وہ بھی یہ کہہ کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ ’’یہ ہمارے ملک کے لیے یقینا انتہائی سنگین گھڑی ہے‘‘۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ کھیل آج صرف عرا ق میں ہی کھیلا جارہا ہے بلکہ اسرائیل میں یہ گھنائونا کھیل بہت پہلے سے جاری ہے ۱۳ دسمبر ۲۰۰۴ء کو ایران کے سحرا چینل نے ’’زہرا کی نیلی آنکھیں‘‘ کے نام سے ایک ہفتے کا ایک پروگرام نشر کیا تھا جس میں دکھایا گیا تھا کہ کس طرح اس فلسطینی بچی کی آنکھیں اسرائیلی سرجنوں نے نکال لی تھیں۔ چین پر بھی یہ الزام کئی بار عائد کیا جاچکا ہے کہ وہاں قیدیوں کا آپریشن کرکے ان کے اعضاء نکال لیے جاتے ہیں۔
WHO سے وابستہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی پروفیسر نینسی ایچرہگس نے اس گھنائونے کاروبار پر نظر رکھنے کے لیے Organ Watch تنظیم بنائی ہے۔ ان کے مطابق ۱۹۸۰ء میں یہ غیرقانونی Organ Transplant Trade شروع ہوا۔ امریکی اور جاپانی طبی دلال بڑے اسپتالوں کے لیے یہ کام کرتے ہیں۔ وہ آنکھ‘گردہ‘ دل اور پھیپھڑا نکال کر لاش کو سڑک کے کنارے یا اسپتال کے مردہ گھر میں پھینک دیتے ہیں۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ دنیا میں اس کاروبار میں ملوث اور اس سے فائدہ اٹھانے والے زیادہ تر یہودی ہیں۔ برازیل‘ فلپائن‘ مشرقی یورپ‘ جنوبی افریقہ‘ روس‘ رومانیہ ‘ امریکا ‘اسرائیل اور اب عراق تک پھیل جانے والے اس گروہ کا سرغنہ ایان پیری ہے۔ اس گروہ کی قوت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ کسی بھی ملک کی حکومت اس سے وابستہ افراد کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی۔ مثال کے طور پر جنوبی افریقہ کے ایک شہر سے اس گروہ سے وابستہ ایک شخص روڈیرک کمبرلی کو رنگے ہاتھوں انسانی اعضاء کی سودے بازی کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا تو اس کے خلاف ۲۴ مقدمے درج ہوئے‘ لیکن وہ معمولی سا جرمانہ دے کر اسرائیل روانہ ہوگیا۔ اسی طرح جب اپنا گردہ فروخت کرنے والے ۳۰ سالہ برازیلی شہریوں کو گرفتار کیا گیا تو ان کے تار بھی اسی یہودی مافیا گروہ کے گیڈالیہ توبر اور ایلزررامون سے جڑے پائے گئے۔ سابق اسرائیلی پولیس افسر توبرہ نے بتایا کہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے۔ اس کے ملک کے قانون کے مطابق یہ ایک جائز عمل ہے۔ پروفیسری نینسی کہتی ہیں کہ ’’انسانی اعضاء کے اس عالمی کاروبار کا ماسٹر مائنڈ دراصل تل ابیب اسپتال کا سابق ڈائریکٹر اور اس وقت اسرائیل کے سب سے بڑے اسپتال بلنسن میڈیکل سینٹر کا سربراہ ذکی شپیرہ ہے۔ ملک اور بیرونی ملک میں اب تک وہ ایسے سینکڑوں آپریشن کرچکا ہے۔‘‘ اس کے قریبی وکیل کے مطابق ’’وہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے باقاعدہ اسرائیلی حکومت کی آشیرباد حاصل ہے۔‘‘ محکمۂ صحت کا ترجمان سمن گلک بڑی معصومانہ دلیل دیتا ہے کہ ’’ہر کوئی جانتا ہے کہ شپیرہ کیا کر رہا ہے‘ لیکن شواہد کی عدم موجودگی کے وجہ سے ہم اسے ثابت کرنے سے قاصر ہیں۔‘‘ خواہ دنیا کے تمام ممالک میں اس انسانیت سوز کاروبار کو ناجائز اور غیرقانونی قرار دیا گیا ہو لیکن اسرائیل میں یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ قومی خدمت کا کام سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے پیری جیسے مافیا باقاعدہ اسرائیلی اخبارات میں اشتہارات چھپوا کر انسانی اجزاء کی کھلے عام تجارت کررہے ہیں اور ملک کی انشورنس کمپنیاں میڈیکل انشورنس کے نام ۷۰ سے ۸۰ ہزار ڈالر کی کثیر رقم فراہم کرکے اس رجحان کو فروغ دے رہی ہیں۔
اسرائیل میں انسانی اعضاء کے کثیر مطالبے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ شاید ہی کوئی یہودی مرنے کے بعد اپنے جسم کے کسی عضو کو ہبہ کرتا ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانی جسم مقدس ہے اور تدفین تک اس سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کرنا چاہیے۔ یہودیوں کے جسم کا صحیح سالم رہنا اس لیے ضروری ہے کہ اُن کے خیال میں مسیح موعود کی آمد کے موقع پر یہ دوبارہ وجود میں آجائے گا۔ یہ ہے یہودی اخلاقیات کا وہ تنگ دائرہ جس کے اندر تمام یہودی تو مقدس (Sacred) ہیں ‘ لیکن اس کے باہر کی باقی دنیا غلام (Gholem) ہے جس کے جسم ‘ مال و دولت اور عزت و آبرو کو جیسے چاہے روندا جاسکتا ہے۔ Kidney Transplant کروانے کے خواہش مند اِرِک پیچ کی یہ دلیل صیہونیت کے اس گھنائونے تصور کی عکاسی کرتی ہے کہ ’’ہر شخص اپنے جسم کا مالک ہے ۔ اگر کوئی اپنا عضو فروخت کرنا چاہتا ہے تو اسے یقینا ایسا کرنا چاہیے۔‘‘
اس خطرناک رجحان پر روک لگانے کے لیے چار ممالک کے آٹھ ڈاکٹروں کے برطانوی میڈیکل جرنل لان سٹ نے ایک مضمون شائع کروایا ہے جس کا عنوان ہے: ’’گردہ فروخت کرنے کا معاملہ‘‘ مضمون نگاروں کے مطابق: ’’اگر امیروں کو اس خطرناک شغل کی کھلی چھوٹ دے دی گئی تو پھر اِس رجحان کو روکنا بے انتہا مشکل ہوجائے گا۔ کیونکہ دنیا کی غریب اقوام کے لوگ اپنے اقرباء کی زندگی بچانے‘ غربت اور قرض کے دلدل سے باہر نکلنے یا بنیادی انسانی ضرورتوں کی فراہمی کے لیے اپنے گردے کا سودا کرنے لگیں گے۔ یہ اس لیے بھی آسان ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ انسان ایک گردے کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے۔‘‘
جمہوریت‘ آزادی اور انسانی حقوق کی حفاظت کے نعرے کی آڑ میں صیہونی مقتدرہ جس نئے عالمی نظام اور کمرشل ازم کو دنیا میں متعارف کرارہی ہے وہ دراصل الٰہی اقدار کو مسمار کرکے ایک ایسا نظام برپا کرنا ہے جہاں انسانی عظمت ووقار کی کوئی حیثیت باقی نہ رہے گی‘ جہاں انسانی تجارتی اشیاء کے مانند شے بن جائے گا اس کے جسمانی اعضاء موٹر سائیکل کے کل پرزوں کی طرح شاپنگ سینٹروں میں بکتے نظر آئیں گے۔ تو کیا ہم بھی اپنی بولی لگوانے کے لیے مارکیٹ میں جانے کے لیے تیار ہیں؟
(بشکریہ: ’’ایشین ایج‘‘۔ ۴ جون ۲۰۰۶)
Leave a Reply