
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نام نہاد ’’صدی کی ڈیل‘‘ پر ردعمل کوئی حیران کن نہیں۔اسرائیلیوں نے اس کو ایک عظیم اقدام قرار دے کر قبول کر لیا ہے لیکن اس کی تفصیل منظرعام آنے تک توثیق نہیں کی ہے۔فلسطینیوں کا مؤقف پیشگوئی کے عین مطابق تھا۔انھوں نے اس کی تفصیل جاننے سے پہلے ہی اس کو مسترد کردیا۔انھوں نے یہ شبہ ظاہر کیا ہے کہ یہ امن منصوبہ بنیامین نیتن یاہو کو جیل جانے سے روکنے کا حربہ ہوسکتا ہے۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن مذاکرات کے عمل کا آغاز ہوئے کئی برس گزر چکے ہیں۔اس طویل عرصے کے دوران میں برسوں برسراقتدار رہنے والے عرب نظاموں کا دھڑن تختہ ہوچکا ہے، لیبیا میں معمر قذافی اور عراق میں صدام حسین کی حکومت جاتی رہی، سوڈان اپنا آدھا حصہ گنوا بیٹھا،عمرالبشیر معزول ہوگئے اور شام تباہ حال ہوچکا ہے۔
مشرق اوسط کے خطے کی دنیا کے توانائی کے بنیادی مآخذ کی حیثیت سے تزویراتی قدر کم ہوچکی ہے۔ اس کی وجہ امریکا کی تیل کی پیداوار میں اضافہ اور قابل تجدید توانائی ہے۔خطے کے بعض لیڈر آج بھی پرانے محافظوں کی باقیات کے طور پر موجود ہیں لیکن وہ خطے میں رونما ہونے والی تاریخی تبدیلیوں کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
اسرائیلی صرف فلسطینی کیس کو بند ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔اگر انھیں مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو بعض فلسطینی دھڑے، مثال کے طور پر ایران اور شام کے مسابقانہ مفادات پر سودے بازی یا مصالحت میں ناکام رہیں گے۔
اگرچہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان سابق امن معاہدوں پر بجا طور تنقید کی گئی تھی،مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ان معاہدوں سے جزوی طور ہی سہی فلسطینی مفادات کا تحفظ بھی ہوا تھا۔ ۱۹۹۳ء اور ۱۹۹۵ء میں اوسلو میں طے شدہ معاہدوں سے فلسطینیوں کو بین الاقوامی شناخت حاصل کرنے میں مدد ملی تھی۔ برسرزمین ان کا ایک انتظامی ادارہ وجود میں آیا تھا جبکہ اس سے پہلے تو ان کی تیونس میں ایک جلاوطن تنظیم ہی کام کررہی تھی۔ اوسلو معاہدے کے نتیجے میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کی اپنی آبائی سرزمین پر واپسی کی راہ ہموار ہوئی تھی۔
اس وقت اسرائیل کا سب سے اچھا اتحادی ایران ہے۔ ماضی میں ایران نے اپنے زیراثر فلسطینی دھڑوں کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ قیام امن کے لیے تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہوجائیں۔ ایرانی امن مذاکرات میں اعتماد کی فضا کو نقصان پہنچانے کے لیے ان تھک کام کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے کاروں کے نیچے بم نصب کیے،اپنی گماشتہ ملیشیاؤں کے ذریعے طوائف الملوکی کو پھیلایا۔مرحوم فلسطینی صدر یاسرعرفات کی قانونی حیثیت کے بارے میں سوال اٹھائے تھے۔
جب جب امن مذاکرات ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں تو اس کے متاثرہ فریق ہمیشہ فلسطینی ہی رہے ہیں، ایرانی یا اسرائیلی نہیں۔کسی معاہدے کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا کر اسرائیل ہر روز فلسطینی اراضی پر قابض ہوتا رہا ہے اور فلسطینی علاقے سکڑتے چلے گئے ہیں۔
مذاکرات سے انکار کے پیچھے یہ دلیل کارفرما ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل نواز ہیں، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے تمام پیش رو صدور اسرائیل ہی کی طرفداری کرتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود فلسطینی اتھارٹی ان سے معاملہ کرتی رہی ہے۔ ٹرمپ کے اسرائیل سے متعلق فیصلوں میں برسرزمین حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے اور یہ سب فیصلے امریکا میں ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کیے گئے ہیں لیکن یہ بدستور غیر قانونی ہی ہیں۔
بین الاقوامی قانون کے تحت امریکی سفارت خانے کو یروشلم (مقبوضہ بیت المقدس) میں منتقل کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ پورا یروشلم ہی اسرائیل کا ملکیتی ہوگیا ہے۔ امریکی صدر کے اس اعلان کے باوجود کہ گولان کی چوٹیاں اسرائیل کا حصہ ہیں،انھیں اقوام متحدہ کے نقشوں میں شام کے مقبوضہ علاقے ہی سمجھاجاتا ہے (جن پر اسرائیل نے غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے)۔ ڈونلڈ ٹرمپ فلسطین کے لیے سب سے سنگین خطرہ نہیں ہیں۔ فلسطینی مفادات کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی معجزے کے انتظار میں بیٹھ رہنے کے کردار سے درپیش ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس ہی شاید واحد شخصیت ہیں جو مذاکرات کی بحالی کے لیے نئی جنگ لڑسکتے ہیں۔وہ فلسطین کے تاریخی لیڈروں میں سب سے ضعیف العمر اور عقلیت پسند ہیں۔ اگر وہ نہیں ہوتے تو سولہ سال قبل یاسر عرفات کی وفات کے بعد فلسطینی اتھارٹی میں افراتفری پھیل چکی ہوتی۔
کیا صدر ٹرمپ کی مذاکرات کی دعوت کو قبول کرنے کا یہ مطلب ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو جو کچھ پیش کیا جائے گا، وہ اس کو مِن وعَن قبول کرلے گی؟ اس کا جواب یقینی طور پر نہیں ہے۔اس کا مطلب مذاکرات کی میز پر بیٹھنا اور تعمیری مکالمے کا آغاز کرنا ہے۔فلسطینی اگر کوئی حل نہیں چاہتے تو کوئی بھی ان پر وہ حل مسلط نہیں کررہا ہے۔اسرائیلی بھی موجودہ جوں کی توں صورت حال کو تبدیل کرنے میں متردّد ہوں گے کیونکہ اس سے بظاہر انھیں زیادہ اراضی اورفلسطینیوں پر اختیارحاصل ہے۔وہ ٹرمپ کو اپنا حامی خیال کرتے ہیں۔ایک ایسا دوست، جو شاید دوبارہ منتخب ہوجائے اور بہت زیادہ طاقت واختیار حاصل کر لے، جس کو اسرائیلی اپنے مفاد میں خوب استعمال کرسکتے ہیں یا اس کے ذریعے اور کچھ نہیں تو اپنے لیے خطرات ہی کو کم کرسکتے ہیں۔
اس لیے اب اس بات کی زیادہ اہمیت ہے کہ فلسطینی موقع سے فائدہ اٹھائیں اورمذاکرات کا آغاز کریں۔ وہ اپنے مفاد میں موقع تلاش کریں، قبل اس کے کہ تاریخ کوئی فیصلہ ثبت کردے اور یہ ضروری نہیں کہ یہ فیصلہ ان کے حق ہی میں ہو۔
عبدالرحمان الراشد العربیہ کے ادارتی بورڈ کے چیئرمین ہیں۔
(بحوالہ: ’’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘۔ ۳۱ جنوری ۲۰۲۰ء)
Leave a Reply